یہ مروڑ اس لیے اٹھ رہے ہیں کہ یہ پیسہ ان لٹیروں کی جیبوں کی بجائے سیدھا غریب عوام کی جیب میں جا رہا ہے، پہلے یہ کرپشن ووٹ خریدنے کیلئے کرتے تھے، پھر یہ مجبور غرب عوام سے ووٹ خریدتے تھے
پیپلز پارٹی کے ٹاؤٹ "دلال"
بے نظیر انکم سپورٹ کی ماہانہ امداد 1500 تھی جو کہ تین ماہ بعد 4500 ملتا تھا ۔ لٹیرے زرداری دور میں رجسٹریشن شروع ہوئی تو صرف ایم این اے کو کوٹہ دیا گیا کہ آپ اس پروگرام میں اپنی پارٹی کے اتنے اتنے بندے رجسٹرد کروا لیں ۔
ایم این اے نے اپنے ہر محلے کے ٹاؤٹ کو کوٹہ بانٹ دیا۔ پھر ہر محلے کا چوہدری ٹائپ بندہ جو ان سیاستدانوں کا ٹاؤٹ تھا اس نے اپنی بیٹھک میں سارے محلے کے شناختی کارڈ جمع کیے۔ اللہ جانے اس نے کتنے رجسٹرڈ کروائے اور کتنی دیر خود پیسے کھاتا رہا۔
چونکہ ٹاؤٹ نے نام رجسٹرڈ کروائے تھے اس لیے ان کا احسان ہوگیا اور پانچ سال اور پھر پانچ سال بعد بھی غریب اس ٹاؤٹ کا احسان مند ہوگیا۔ مختلف مواقع پہ ٹاؤٹ اور اس کے چمچے طعنہ زنی کرتے رہے۔
پھر خان آگیا۔
سب سے پہلے پروگرام کا نام بدل کر احساس رکھا اور لوگوں کو احساس دلایا کہ یہ رقم آپکی ہے کسی بلاول کی ماں یا کسی مردار بھٹو کی اولاد کی نہیں ۔
پھر خان نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں موجود سیاست دانوں کے چمچوں کی حرامزدگیاں پکڑی۔ آٹھ لاکھ خاندان جوکہ فیک تھے یا اچھے بھلے کھاتے پیتے تھے، ان حرام خوروں میں ایک لاکھ 40 ہزار سرکاری ملازمین بھی وظیفہ وصول کرنے والوں میں سے نکلے۔ انہیں نکال باہر کیا اور رقم بھی زیادہ کرکے تین ماہ کی بجائے ہر ماہ پہنچانے کو یقینی بنایا۔
خان نے ٹاؤٹ سسٹم ختم کرتے ہوئے سارا سسٹم ڈیجیٹل کردیا اور سب کو بغیر کسی سفارش کے 12000 رقم فوری طور پہ دینے کا اعلان کیا۔
اس کے علاوہ ہر گاؤں میں زکوۃ کمیٹیوں کی مدد سے نو ہزار روپے الگ سے جاری کیا جارہا ہے۔
چونکہ رقم زیادہ تھی اور کرونا کے پیش نظر نئے خاندان بہت زیادہ ایڈ کیے گئے اس لیے رقم کو بائیومیٹرک تصدیق کے بعد دینے کا پروگرام بنا۔
اور اب ہر جگہ بہترین انتظامات بغیر کسی سیاسی مداخلت کے پولیس اور اسپیشل برانچ کی موجودگی میں بیوروکریسی کام کررہی ہے۔
کسی سینٹر پہ بھی آپ کو کوئی فلیکس تک نظر نہیں آئے گی۔
پرانے پای سیاستدان اور انکے چیلوں کو کیسے ہضم ہوکہ آج سینٹرز میں کرسیاں لگا کے بائیومیٹرک بعد رقم ملتی ہے اور ان جیسے چمچوں کو پولیس اورانتظامیہ گیٹ بھی کراس نہیں کرنے دیتی۔
الحمداللہ
انتظامات بتا رہے ہیں خان آیا تو غریب کی عزت بحال ہوئی۔ اور سارے دو نمبرز چیخنا شروع ہوئے چاہے وہ صحافی ہوں یا وہی ڈیرہ دار سیاستدان۔ عمران خان اپنے ووٹرز نہیں وہ اس ملک کی عوام کو ایک قوم بنا رہا ہے۔
امید کرتا ہوں میرے کچھ بھائیوں کو اب بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس پروگرام میں فرق معلوم ہوگیا ہوگا
پیپلز پارٹی کے ٹاؤٹ "دلال"
بے نظیر انکم سپورٹ کی ماہانہ امداد 1500 تھی جو کہ تین ماہ بعد 4500 ملتا تھا ۔ لٹیرے زرداری دور میں رجسٹریشن شروع ہوئی تو صرف ایم این اے کو کوٹہ دیا گیا کہ آپ اس پروگرام میں اپنی پارٹی کے اتنے اتنے بندے رجسٹرد کروا لیں ۔
ایم این اے نے اپنے ہر محلے کے ٹاؤٹ کو کوٹہ بانٹ دیا۔ پھر ہر محلے کا چوہدری ٹائپ بندہ جو ان سیاستدانوں کا ٹاؤٹ تھا اس نے اپنی بیٹھک میں سارے محلے کے شناختی کارڈ جمع کیے۔ اللہ جانے اس نے کتنے رجسٹرڈ کروائے اور کتنی دیر خود پیسے کھاتا رہا۔
چونکہ ٹاؤٹ نے نام رجسٹرڈ کروائے تھے اس لیے ان کا احسان ہوگیا اور پانچ سال اور پھر پانچ سال بعد بھی غریب اس ٹاؤٹ کا احسان مند ہوگیا۔ مختلف مواقع پہ ٹاؤٹ اور اس کے چمچے طعنہ زنی کرتے رہے۔
پھر خان آگیا۔
سب سے پہلے پروگرام کا نام بدل کر احساس رکھا اور لوگوں کو احساس دلایا کہ یہ رقم آپکی ہے کسی بلاول کی ماں یا کسی مردار بھٹو کی اولاد کی نہیں ۔
پھر خان نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں موجود سیاست دانوں کے چمچوں کی حرامزدگیاں پکڑی۔ آٹھ لاکھ خاندان جوکہ فیک تھے یا اچھے بھلے کھاتے پیتے تھے، ان حرام خوروں میں ایک لاکھ 40 ہزار سرکاری ملازمین بھی وظیفہ وصول کرنے والوں میں سے نکلے۔ انہیں نکال باہر کیا اور رقم بھی زیادہ کرکے تین ماہ کی بجائے ہر ماہ پہنچانے کو یقینی بنایا۔
خان نے ٹاؤٹ سسٹم ختم کرتے ہوئے سارا سسٹم ڈیجیٹل کردیا اور سب کو بغیر کسی سفارش کے 12000 رقم فوری طور پہ دینے کا اعلان کیا۔
اس کے علاوہ ہر گاؤں میں زکوۃ کمیٹیوں کی مدد سے نو ہزار روپے الگ سے جاری کیا جارہا ہے۔
چونکہ رقم زیادہ تھی اور کرونا کے پیش نظر نئے خاندان بہت زیادہ ایڈ کیے گئے اس لیے رقم کو بائیومیٹرک تصدیق کے بعد دینے کا پروگرام بنا۔
اور اب ہر جگہ بہترین انتظامات بغیر کسی سیاسی مداخلت کے پولیس اور اسپیشل برانچ کی موجودگی میں بیوروکریسی کام کررہی ہے۔
کسی سینٹر پہ بھی آپ کو کوئی فلیکس تک نظر نہیں آئے گی۔
پرانے پای سیاستدان اور انکے چیلوں کو کیسے ہضم ہوکہ آج سینٹرز میں کرسیاں لگا کے بائیومیٹرک بعد رقم ملتی ہے اور ان جیسے چمچوں کو پولیس اورانتظامیہ گیٹ بھی کراس نہیں کرنے دیتی۔
الحمداللہ
انتظامات بتا رہے ہیں خان آیا تو غریب کی عزت بحال ہوئی۔ اور سارے دو نمبرز چیخنا شروع ہوئے چاہے وہ صحافی ہوں یا وہی ڈیرہ دار سیاستدان۔ عمران خان اپنے ووٹرز نہیں وہ اس ملک کی عوام کو ایک قوم بنا رہا ہے۔
امید کرتا ہوں میرے کچھ بھائیوں کو اب بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس پروگرام میں فرق معلوم ہوگیا ہوگا