مرشد مروا نہ دینا

Status
Not open for further replies.

uturninqlab

Chief Minister (5k+ posts)
221082_details.png
https://jang.com.pk/print/221082-muhammad-bilal-ghauri-column-2016-11-25-murshid-marwa-na-daena
 
Last edited by a moderator:

dingdong

Banned
Zia ul ..aq iss qoum kaa sab saay bara Mujrim aur Munafiq thaa uski sab say barri .... zadgi Nooray Butt jaisay ghatia badd zaat corrupt chore fraudia aur Money Launderer jaisaay neech khandaan ko Pakistan parr musallat kia
 

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)
مرشد مروا نہ دینا" کا خالق پھر کس کا مرشد بنا؟"


مرشد مروا نہ دینا" کا جملہ عموما ایسے وقت بولا جاتا ہے، جب ناکامی کی صورت میں کڑا خمیازہ بھگتنا ہوتا ہے۔ مرد مومن مرد حق ضیاءالحق نے، بھٹو کو انتخابی دھاندلی پر، چلتا کردیا تھا۔
نواز شریف کی دھاندلی پر جرنیلوں نے مک مکا کر لیا تھا، یہ ہے لب لباب پاکستان میں جمہوریت بچاؤ کے نعرے کا۔
 

akmal1

Chief Minister (5k+ posts)


مرشد مروا نہ دینا" کا جملہ عموما ایسے وقت بولا جاتا ہے، جب ناکامی کی صورت میں کڑا خمیازہ بھگتنا ہوتا ہے۔ مرد مومن مرد حق ضیاءالحق نے، بھٹو کو انتخابی دھاندلی پر، چلتا کردیا تھا۔
نواز شریف کی دھاندلی پر جرنیلوں نے مک مکا کر لیا تھا، یہ ہے لب لباب پاکستان میں جمہوریت بچاؤ کے نعرے کا۔


امید کرتا ہوں کہ یہ مرد مؤمن مرد حق آپ نے طنز کے طور پر استعمال کیا ہے
 

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)
امید کرتا ہوں کہ یہ مرد مؤمن مرد حق آپ نے طنز کے طور پر استعمال کیا ہے



بھٹو نے انتخابات میں دھاندلی کرکے جمہوریت پر ڈاکہ ڈالا تھا، اس نے ستتر کے انتخابات جھرلو کئے تھے، پاکستان فاشزم کی طرف بڑھ رہا تھا، ایسے مین جنرل ضیاء بروقت اقدام کرکے قوم کو ایک ظالم حکمران سے نجات دلادی تھی۔
 

rtabasum2

Chief Minister (5k+ posts)


بھٹو نے انتخابات میں دھاندلی کرکے جمہوریت پر ڈاکہ ڈالا تھا، اس نے ستتر کے انتخابات جھرلو کئے تھے، پاکستان فاشزم کی طرف بڑھ رہا تھا، ایسے مین جنرل ضیاء بروقت اقدام کرکے قوم کو ایک ظالم حکمران سے نجات دلادی تھی۔

What about the 25 thousand Palestinians he killed in Jordan......Bhutto got him free of those charges n Thought that this man will always be under his thumb.......evil begets evil.....read history Black September n Brig Ziaul HAQ n how Bhutto promoted him to COAS absolving him of massacre
 

rtabasum2

Chief Minister (5k+ posts)


بھٹو نے انتخابات میں دھاندلی کرکے جمہوریت پر ڈاکہ ڈالا تھا، اس نے ستتر کے انتخابات جھرلو کئے تھے، پاکستان فاشزم کی طرف بڑھ رہا تھا، ایسے مین جنرل ضیاء بروقت اقدام کرکے قوم کو ایک ظالم حکمران سے نجات دلادی تھی۔


Whatever the new COAS will be the one who dyes his hair.....all the past COAS dyed their hair ..Raheel probably used two bottles daily
 

khan_sultan

Banned
[FONT=wf_segoe-ui_normal]
۱۹۹۲ء میں میری ملاقات ایک کالعدم فرقہ پرست تنظیم کے ایک عسکریت پسند سے ہوئی۔ بے تکلفی ہونے کے بعد وہ مجھے ایک مسجد کے ایک گوشے میں لے گیا جہاں اس نے مجھے جدید اسلحے اور ایمونیشن کا ایک بڑا ذخیرہ دکھایا۔ اسے دیکھ کر میری اسلحہ استعمال کرنے کے لیے بیچینی اور بڑھ گئی۔ اپنے ذاتی پس منظر اور امتیازی تربیت کی وجہ سے میں دوسرے تمام فرقوں کو بھی دیگر غیر مسلموں کی طرح واجب القتل سمجھتا تھا۔ اور اسی ہم فکری نے مجھے اس نئے دوست سے قریب کیا تھا۔ اس شخص نے مقامی سطح پر 'جہاد' کے ارادے میں شمولیت کے حوالے سے میری رائے لی، جس کے لیے میں پہلے سے ہی تیار تھا۔ کالعدم تنظیم کے اس رکن نے مجھے مقامی سطح پر شیعہ فرقہ کے لوگوں کے خلاف مسلح جہاد کی ایک اسکیم پیش کی۔ اس کے مطابق ہمیں پہلے مرحلے میں علاقہ کے بااثر اور ثروت مند شیعہ لوگوں کو مالی طور پر کمزور بنانا اور ان کے کاروبار اور املاک کو نقصان پہنچانا تھا۔ میں شیعہ فرقہ کی تکفیر پر مشتمل تقریری و تحریری مواد اس قدر پڑھ سُن چکا تھا کہ مجھے ڈکیتی جیسا سنگین اخلاقی جرم ایک کارِ خیر سے کم نہیں لگا۔

کالعدم تنظیم کے اس گروہ کے ساتھ ہم نے ڈکیتی اور لوٹ مار کی وارداتوں کا سلسلہ شروع کیا جس میں ہمیں تالا توڑنےاور نقب لگانے کے لیے پیشہ ور چوروں اور نقب زنوں کی ہمراہی حاصل تھی۔ اس وقت تک مجھے اپنا ہر مجرمانہ عمل، نفاذِ اسلام اور ناموسِ صحابہ کے مشن کے لیے ایک مقدس اقدام لگتا تھا ضیا ضیا الحق کی موت کے ساتھ اس کا گیارہ سالہ دور ختم ہوئے کئی دن ہو چکے تھے اور ابھی تک مساجد میں جمعہ کے خطبوں میں اس کے فضائل پر مشتمل دھواں دھار تقریروں کا سلسلہ جاری تھا۔ جہادی تنظیمیں اب بھی ہمارے شہر میں برابر سرگرم تھیں۔ لٹریچر اور جوشیلے ترانوں والی کیسٹوں کی تقسیم، جہادی مظاہرے، اسلحے کی نمائش اور تقریروں، خطبوں میں کمی آنے کی بجائے یہ سلسلہ کچھ تیز ہوتا نظر آ رہا تھا۔
[/FONT]

[FONT=wf_segoe-ui_normal][/FONT]
[FONT=wf_segoe-ui_normal]
میرا تعلق چنیوٹ کے ایک سخت گیر مذہبی گھرانے سے ہے جو اس وقت کی ایک نوزائیدہ فرقہ پرست کالعدم تنظیم کا شدید حامی خاندان تھا۔ اس پس منظر کی وجہ سے مجھے مخالف فرقوں کے خلاف متشدد جذبات رکھنے کے لیے بڑی حد تک گھر میں ہی موزوں فضا میسر آ گئی تھی۔ مذہبی مزاج کا یہی انتہا پسند پہلو آگے جا کر میری زندگی کے ایک بڑے حصے کوایک نہایت بے سمت سفر میں دھکیلنے والا تھا۔میں اس وقت کالج میں زیرِ تعلیم تھا اور بجا طور پر اس وقت کے نوجوانوں میں گردش کرنے والے تشدد پسند لٹریچر سے ازحد متاثر بھی تھا۔ گلی محلوں میں آ کر جہاد کی تبلیغ کرنے والے سبھی اجنبی چہروں سے مانوسیت ہو چکی تھی اور میں نے ان کے مقامی اجتماعات اور محافل میں جانا شروع کر دیا تھا۔ روایات صالحات کے مسلسل اعادے سے ہمیں یہ تو باور کروا دیا گیا تھا کہ اسلحہ مومن کا زیور ہے، ساتھ میں ان اجتماعات میں جدید اسلحے کی سرِ عام نمائشیں ہمیں یہ زیور پہننے کے لیے للچاتی اور لبھاتی بھی رہتیں۔ میرے یہ نئے دوست پر امن تبلیغی مہمات اور تبلیغی گروہوں کی شدید مخالفت اور مذمت کرتے ہوئے ہمیں پر جوش جہادی ترانوں کی دھن پر "عملی قدم" اٹھانے کی تلقین کیا کرتے تھے، اور ہم ان تعلیمات کو ان اجتماعات سے ازبر کر کے اپنے اقارب میں آ کر ان تعلیمات کا اعادہ کرتے۔ شہر کے عام لوگوں میں بھی اب اخلاقی قدریں بڑی حد تک بدل رہی تھیں۔ میرے جو دوست میری تبلیغ کے باوجود نماز کے لیے باقاعدگی سے مسجد میں نہیں پائے جاتے تھے، میں نے ان سے قطع تعلق کر لیا۔روز مرہ معاملات میں ملنے جلنے والےلوگوں سے تعلقات رکھنے یا نہ رکھنے کے لیے میں نے تقویٰ کے ایک ذاتی معیار کو پیمانہ بنا لیا۔ اب مجھے اپنی باتوں پر کان نہ دھرنے والے لوگ دوزخ کا ایندھن اور جانوروں سے بدتر مخلوق نظر آنے لگے تھے۔ میرا حلقۂ احباب ایک طرف سے سکڑ رہا تھا، جبکہ دوسری طرف میں آئے روز نئے "نورانی" چہروں سے متعارف ہو رہا تھا۔
[/FONT]

[FONT=wf_segoe-ui_normal][/FONT]
[FONT=wf_segoe-ui_normal]
چنیوٹ میں آئے روز مختلف گروہوں کے زیر اہتمام جہاد کانفرنسیں منعقد ہو رہی تھیں، اور میں بھی تمام تعلیمی مصروفیات سے ترجیحی طور پر وقت نکال کر ان اجتماعوں میں شریک ہوتا رہا۔ کشمیر اور افغانستان کے میدانوں سے آئے ہوئے مجاہدین اپنی تقریروں میں جوشیلے جملوں کے ساتھ اپنی کارروائیوں کا احوال سناتے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے ہر خطے میں مسلمان پِس رہا ہے اور سبھی غیر مسلم ممالک کی سوائے اس بات کے، کسی اور امر میں دلچسپی نہیں کہ مسلمانوں کوصفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے۔سبھی لوگوں پر مسلح اقدام واجب ہے اور پر امن تبلیغ یا سیاسی جدوجہد کرنے والے لوگ کشمیری اور افغان مسلمانوں کے مجرم ہیں وغیرہ۔ بیچین کر دینے والی ان تقریروں کو سن کر میرے اندر عدم تحفظ کا ایک احساس پیدا ہوا اوراسلحے کی نمائشوں کو دیکھ کر میرے دل میں ہتھیار چلانے کی لگن پیدا ہوئی۔
[/FONT]

[FONT=wf_segoe-ui_normal][/FONT]
[FONT=wf_segoe-ui_normal]
۱۹۸۹ء کے ابتدائی دنوں میں میں نے جہاد پر جانے کا فیصلہ کر لیا اورایک مقامی کالعدم فرقہ پرست تنظیم سے وابستہ افراد کے توسط سےمجاہد تنظیموں کے چنیوٹ سطح کی انتظامیہ تک رسائی حاصل کی۔
مقامی تشکیل کے باریش امیر المجاہدین نے میرے جذبۂ جہاد کی قدر کی اور میری شہادت کی آرزو کے پورے ہونے کی دعا کی۔ سن ۸۹ء کے موسم بہار میں ایک دن میں گھر سے ضروری سامان اور کپڑے لے کر چنیوٹ مرکز پہنچا اور امیر صاحب نے مجھ سمیت پچیس نوجوانوں کے لیے ایک رقعہ میرانشاہ معسکر کے امیر المجاہدین کے نام لکھ کر ہمیں دیا۔ایک طویل اور بے چین فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم میرانشاہ میں قائم حرکۃ المجاہدین کے معسکر (چھاؤنی) پہنچے اور پہنچتے ہی ہمارے تمام کوائف کی تصدیق کی گئی۔اس عمل کے مکمل ہونے کے بعد ہماری تشکیلِ نو کی گئی اور ہمیں دس سے بارہ جوانوں پر مشتمل گروہوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ تشکیلِ نو کے بعد ایک گاڑی ہمیں میرانشاہ سے شمال مغرب کی طرف لےگئی۔ افغانستان کی حدود میں پہنچنے کے بعد گاڑی تبدیل کی گئی جو کہ ہمیں خوست شہر کے نواحات میں واقع ایک جہادی معسکر تک لے گئی۔ اس معسکر میں ہمیں چالیس دن تک جہادی تربیت حاصل کرنا تھی۔ ہمارے استقبال کے بعد ہم سے مختلف قسم کے فارم اور حلف نامے بھروائے گئے جن میں ہم نے اس بات کا اعلان کیا کہ ہم اپنی مرضی سے جہاد پر آئے ہیں اور مارے جانے کی صورت میں جہادی تنظیم، والدین یا لواحقین کے کسی ردعمل کی ذمہ دار نہیں ہوگی۔
[/FONT]

[FONT=wf_segoe-ui_normal][/FONT]
[FONT=wf_segoe-ui_normal]
دوسرے ہی دن ہماری تربیت کا آغاز ہوا، جس میں نمازِ فجر کے بعد تلاوت ہوتی اور اس کے بعد وردی بوٹ بدلنے کے لیے دو منٹ دئیے جاتے جس کے فوراً بعد ہم پیشہ ور اساتذہ کے زیرِ نگرانی صبح سات تا نو بجے تک پی.ٹی اور ڈرل جیسی مشقیں کرتے۔ ناشتے کے بعدظہر کے وقت تک اسلحہ کی تربیت حاصل کرتے جس میں ہلکے اسلحے سے لے کر بھاری راکٹ لانچروں تک کی تربیت شامل تھی۔ عصر تک سپیشل کمانڈوز ٹریننگ (تخصص) کرنے والے جوان اپنی مشقوں میں مگن رہتے جبکہ ہم اپنا اسلحہ کی صفائی کرتے اور سستاتے، عشاء کی نماز کے بعد دیر تک جہادی بیان ہوتا اور جہاد کے فضائل اور کشمیر و افغانستان میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی داستانیں بیان کی جاتیں۔
[/FONT]

[FONT=wf_segoe-ui_normal][/FONT]
[FONT=wf_segoe-ui_normal]
چالیس دن بعد ہماری تربیت مکمل ہوئی اور مجھے صوبہ خوست ہی میں شمالی اتحاد کے خلاف ایک محاذ پر بھیج دیا گیا۔ یہاں ہر پندرہ روز بعد تعینات جنگجوؤں کا تبادلہ ہوتا تھا۔ پندرہ روز تک معمول کی جھڑپوں اور گوریلا کارروائیوں کے بعد میری جگہ ایک اور جنگجو کو تعینات کر کے مجھے معسکر واپس بلوا لیا گیا۔ یہاں ہم سے جہاد جاری رکھنے اور تخصص (اسپیشل کمانڈو تربیت) کرنے کے لیے ہماری آمادگی کا پوچھا گیا۔ تخصص کر چکنے والے جنگجوؤں کو بہت قابلِ ذکر مراعات حاصل تھیں اور دیگر وابستہ حلقوں میں انہیں بہت تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔میں نے جہاد جاری رکھنے اور تخصص کرنے کے لیے اپنی آمادگی ظاہر کی جس کے بعد مجھے میرانشاہ سےپشاور بھیج دیا گیا۔ پشاور کے مرکز میں رسمی کارروائیاں نمٹانے کے بعد جلال آباد (افغانستان) میں واقع ایک اور معسکر میں بھیج دیا گیا جہاں تین ماہ پر مشتمل تربیتی دور کا آغاز ہوا۔ یہ معسکر فلپینی جنگجوؤں کے زیرِکمان تھا جو عربی، پشتو اور انگریزی پر عبور رکھتے تھے۔ دیگر زیرِتربیت جنگجو چونکہ ان تینوں زبانوں سے نابلد تھے لہٰذا مجھے انگریزی سے موزوں واقفیت کی وجہ سے ان کمانڈروں کے نہایت قریب رہنے کا موقع ملا۔ میں زیرتربیت جنگجوؤں اور فلپینی کمانڈروں کے درمیان ترجمانی اور رابطے کا کام بھی سرانجام دیتا رہا۔تخصص کے دوران ہمیں بھاری توپ خانے، ہلکے ہتھیاروں اور دیگراعلی مہارتوں کی تربیت دی گئی۔ اس کورس سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ہمیں کشمیر، تاجیکستان یا اندرون افغانستان کے محاذوں کی مہمات پر بھیجا جانا چاہیے تھا۔ تین ماہ کی تربیت کے اختتام پر ہم سے ہماری پسند کے محاذوں کا پوچھا گیا۔
[/FONT]

[FONT=wf_segoe-ui_normal][/FONT]
[FONT=wf_segoe-ui_normal]
معسکر کی راتوں میں جہادی کانفرنسوں میں سنی تقریریں ہمارے کانوں میں گونجتی تھیں اور جہادی لٹریچر میں دکھائی گئی کٹی پھٹی لاشیں ہمارے خوابوں میں آ آ کر چیختی تھیں۔ہم ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھتے اور پکار پکار کر کشمیر کے لوگوں کو آوازیں دیتے اور انہیں بھارتی ریاست سے آزاد کرانے کے عہد کیا کرتے۔ پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس آنے والی خنک ہوائیں ہمیں جنت کے بہشتی جھونکوں کی طرح لگتیں اورجنتی خیموں کے کنارے بیٹھی حوروں کا انتظار ہمارے بس سے باہر ہونے لگتا۔ تخصص مکمل ہوتے ہی میں نے اور کچھ دوسرے ساتھیوں نے کشمیر جانے پر آمادگی ظاہرکی۔جلال آباد سے ہمیں مظفرآباد لایا گیا۔ یہاں سے اَٹھ مقام میں واقع قومی حساس ادارے کے ایک دفتر میں ہمارا استقبال کیا گیا۔اکتوبر ۱۹۸۹ء کو سخت سردی میں اَٹھمقام سے ہم حساس اداروں کی حفاظت میں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئے لیکن شدید برفباری کی وجہ سے آگے کے راستے بند تھے اور ہم فضا سازگار ہونے کے انتظار میں وہیں رک گئے۔
[/FONT]

[FONT=wf_segoe-ui_normal][/FONT]
[FONT=wf_segoe-ui_normal]
اسی دوران مظفرآباد سے مجھے پیغام ملا کہ میرے والد صاحب مجھے ڈھونڈتے ڈھونڈتے مظفرآباد پہنچ آئے ہیں۔ مجھ سے میری آمادگی جان کر خصوصی گاڑی پر مظفرآباد بھیجا گیا جہاں میں نے والد صاحب سے ملاقات کی۔ والد صاحب نے مجھے والدہ کی صحت اوردیگر معاملات اور گھر پر میری ضرورت کے حوالے سے بہت سی باتیں کیں اور اس دوران وہ نہایت جذباتی ہو گئے۔ میں نے گھر واپس جانے کا فیصلہ کیا اور والد صاحب کے ہمراہ چنیوٹ آ گیا۔ گھر واپسی پر میرے خاندان میں ایک خوشی کی لہر ضرور دوڑی لیکن اس وقت تک مجھ میں بہت سی تبدیلیاں آ چکی تھیں۔خوست کے سرحدی محاذوں پر جھڑپوں میں عملی شرکت اور مجاہدین کی ہمراہی میں تقویٰ اور روحانی ریاضتوں نے ایک خاص قسم کی پرہیزگارانہ نخوت پیدا کر دی تھی۔ آس پاس رہنے والے عام لوگ، جو میری طرح جہاد پر نہیں گئے تھے اور جہادی حلیے کی بجائے روایتی لباس اور وضع قطع کے ساتھ روزمرہ کے کام کاج کرتے تھے، ان لوگوں کے لیے میرے دل میں سوائے حقارت کے اور کوئی جذبہ نہیں بچا تھا۔ اب میرے نزدیک شہر کے سبھی "غیرمجاہد" باسیوں کی زندگی کا ایک ایک سانس ایک کفریہ فعل کے مترادف تھا۔ افغانستان میں جاری روس امریکہ جنگ میں پاکستان کی شمولیت کے حامی افراد میں میری جہاد سے واپسی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ آئے روز شہر میں نئے سے نئے ناواقف افراد کے ہاں سے مجھے کھانے کے دعوت نامے موصول ہونے لگے۔ ان مجلسوں میں بیٹھ کر اپنے جہاد کے قصے سنا کر مجھے جس قدر تکریم اور پذیرائی ملتی رہی، اسی قدر عام "دنیادار" لوگوں سے بیزاری اور میرے جنگجویانہ مزاج میں مزید ترشی آتی گئی۔
[/FONT]

[FONT=wf_segoe-ui_normal][/FONT]
[FONT=wf_segoe-ui_normal]
اس دوران میں نے دوبارہ جہاد پر جانے کا فیصلہ کیا اور نئے سرے سے اپنا سامان باندھ لیا۔میرا ایک ہم راز دوست مجھے بس اسٹاپ تک چھوڑنے میرے ساتھ آیا، لیکن اسی دوران میرے والد کو میرے دوبارہ جہاد پر جانے کا علم ہو چکا تھا۔ وہ نہایت جذباتی ہو کر بس سٹاپ پہنچے اور مجھے روکنے پر قائل کرنے لگے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں اپنے اس ارادے سے باز نہ آیا تو وہ گاڑی کے چلتے ہی اس کے آگے لیٹ کر اپنا خاتمہ کر لیں گے۔ اس وقت دنیا کا ہر وہ جذبہ جو مجھے لڑائی پر جانے سے روکتا تھا، میرے نزدیک نہایت مذموم اور میرے جنت کے حصول کی راہ میں رکاوٹ تھا۔ میں نے پوری بے حسی کے ساتھ اپنے مرحوم والد کو واویلا کرتا چھوڑا اور بڑے بس اڈے کی طرف نکل پڑا۔ میرے بس اڈے پہنچنے تک بنوں جانے والی آخری بس نکل چکی تھی۔ بس نکلنے کو میں نے اپنی روانگی کے لیے ایک برا شگون سمجھا اور مجھے اپنے والد کی نافرمانی پر ندامت محسوس ہوئی۔ لیکن دوسری طرف میری اپنی انا، اور جنت کا حصول میرے گھر لوٹنے سے مانع بھی ہو رہے تھے۔ ایک طویل پس و پیش کے بعد میں نے اپنے گھر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ گھر پہنچا تو میرے والد ابھی تک گھر نہیں پہنچے تھے اور والدہ بستر پر نڈھال پڑی تھیں۔ میں نے دوبارہ جہاد پر نہ جانے کا فیصلہ کیا لیکن ساتھ ہی میں جہادی مراکز میں میری ذہن کو جس طرح کے متشدد خیالات میں ڈھالا گیا تھا، مجھے مسلسل بے چین کیے رکھتا تھا۔
[/FONT]
اور میرے پاس اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے ہزار جواز تھے۔ تاوقتیکہ ڈکیتی کی ایک واردات کے دوران میں نے اپنے گروہ کے سب سے پارسا 'مجاہدوں' کی اخلاقی سطح کو بے نقاب ہوتے دیکھا، جب ایک شیعہ گھر پر رات گئے بلوہ کے دوران اس گھر سے ایک خاتون نے ہماری توقع سے کہیں ذیادہ مزاحمت کی۔ میرے ساتھیوں نے اس خاتون کو خاموش کروانے کے لیے نہایت حیا باختہ گالیاں دیتے ہوئے انتہائی بے دردی سے زدوکوب کیا۔ اس خاتون کے مانوس زبان میں احتجاجی واویلا اور چیخ و پکارکے آگے مجھے مظلوم عورتوں کی وہ سب فرضی چیخیں بہت مدھم ہوتی نظر آئیں جو مجھے خوابوں خیالوں میں کشمیر یا کابل کی بولیوں میں سنوائی جاتی رہی تھیں۔ اپنے ہی ملک اور اپنے ہی شہر کی ایک خاتون کی اس درجہ بے احترامی کو اپنے آنکھوں کے آگے دیکھ کر میرے ذہن میں اپنی زندگی کے گزشتہ ڈھائی سالوں پر کئی ایک سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے۔ان ڈھائی سالوں میں، جب میں اپنے ہم وطنوں سے مسلسل نفرت کر کے غیر ملکی جنگجوؤں کے ساتھ ایک ایسی جنگ میں شریک رہا تھا، جس جنگ کے پیچھے کارفرما عوامل اور طاقتوں کے ذاتی مفادات کے متعلق نسبتاً متوازن مطالعے کی میں نے کبھی زحمت نہیں کی تھی۔
[FONT=wf_segoe-ui_normal][/FONT]
[FONT=wf_segoe-ui_normal]
[/FONT]

[FONT=wf_segoe-ui_normal][/FONT]
[FONT=wf_segoe-ui_normal]
اس رات کا واقعہ میرے لیے سوچ میں تبدیلی کا ایک اہم محرک تھا ہی، لیکن ساتھ ہی میں نے اب تک معسکروں اور جہادی کانفرنسوں میں پڑھی سنی یکطرفہ آراء کو ایک طرف رکھ کر متبادل تجزیوں کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ متوازن مطالعے کی بدولت مجھے گزشتہ ڈھائی سالوں میں اپنی تعلیم، خانگی زندگی اور توانائیوں کی رائیگانی کا احساس اور بھی شدت سے ہوا۔ اس تبدیلی کے بعد میں نےاپنی سماجی زندگی میں ملنساری اور انسان دوستی کے جذبے بحال کرنے کے لیے خوب ریاضت کی تاکہ گزشتہ برسوں کی مردم بیزاری کی تلافی کر سکوں۔اپنے گھر کی معیشت میں بہتر حصہ ڈالنے کے لیے میں نےشہر میں تن سازی کا کلب قائم کیا اور ساتھ میں میرے باطن میں فکری جوڑ توڑ کا عمل بھی برابر جاری رہا۔

سن ۹۲ء ہی کے موسمِ گرما میں ایک دن پولیس نے میرے کلب پر ریڈ کیا اور مجھے گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ علاقہ میں کالعدم تنظیم کی ایک تازہ ڈکیتی کی واردات پر مشکوک افراد کی فہرست میں، سابقہ وابستگی کی بنیاد پر مجھے بھی شامل کر لیا گیا تھا۔ ملزمان پر چھبیس لاکھ روپے کی ڈکیتی کا الزام تھا۔ ایک طویل قانونی جدوجہد کے بعد مَیں اس مقدمہ سے بری ہو گیا اور اسی دن اپنی تن سازی کی دکان بڑھا کر شہر چھوڑ دیا۔ حوالات میں گزرنے والی رات اپنے ہاتھوں پر لگی آہنی ہتھکڑیوں کے ساتھ میں نے اپنی گزشتہ زندگی کا تفصیلی اور دیانتدارانہ محاسبہ کیا اور بہت سے ایسے نتیجوں پر پہنچا، جن کے اخذ کرنے کی اب تک مجھ میں ہمت نہیں آ رہی تھی۔ میں نے چنیوٹ کو خیرباد کہہ دیا۔فیصل آباد میں میری ڈاڑھی مونڈنے والا حجاّم وہ پہلا آدمی تھا جسے میں نے سب سے پہلے اپنے مجرمانہ ماضی کی داستان سنائی، اور جس نے مجھے ایک بدلی ہوئی وضع قطع کے ساتھ، ایک عام پاکستانی شہری کے روپ میں پہلی بار دیکھا تھا۔

آج میں لاہور میں اپنے خاندان کے ساتھ ایک نئی اور بالکل مختلف زندگی گزار رہا ہوں۔ اگرچہ دو دہائیاں پرانی وہ جنگ ہمارے گھروں تک پہنچ آئی ہے، لیکن مجھے خوشی ہے کہ میرے بچوں نے ایک مختلف صدی میں جنم لیا ہے۔ یہاں میری معاش درس و تدریس سے وابستہ ہے اور اپنے تدریسی فرائض سرانجام دیتے ہوئےمیری کوشش ہوتی ہے کہ نئی پود کے ذہنوں میں زہر بھرنے کی بجائے انہیں محبتیں بانٹنے والا، جمہوریت پسند اور پرامن پاکستانی بننے کی تلقین کی جائے۔

افغان جہاد اور جہادِ کشمیر میں میرے ساتھ کئی ایک لوگ ایسے تھے، جو محاذوں سے زندہ نہیں لوٹے... بہت سے ایسے بھی ہیں جو محاذ سے لوٹ آئے لیکن اب تک عام شہریوں کو ان کے "پارسا" نہ ہونے کی وجہ سے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، یا ان کے ہم وطنوں نے انہیں اپنے درمیان قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور کئی ایک ایسے بھی ہیں، جو اپنے سماج میں واپسی پر اس تصادم کے خوف سے اب تک پہاڑوں میں بیٹھے اپنے وطن کو یاد کر رہے ہیں۔ مجھے جلال آباد میں اپنے فلپینی کمانڈر کے وہ الفاظ اب بھی یاد ہیں جب میں نے اس پوچھا تھا کہ وہ وطن واپس کب جائے گا۔۔ اس کی آنکھوں میں ایک دلگیر درد تھا جب اس نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا تھا؛ "شاید کبھی نہیں..."

میں خوش قسمت ہوں کہ ایک نئی زندگی کے ساتھ اپنے بیوی بچوں کے درمیان زندہ ہوں، تاکہ آنے والی نسلوں کو اپنی نسل کی منفی مہم جوئیوں کی یادداشتیں سنا سکوں۔
[/FONT]
 
Last edited:

akmal1

Chief Minister (5k+ posts)


بھٹو نے انتخابات میں دھاندلی کرکے جمہوریت پر ڈاکہ ڈالا تھا، اس نے ستتر کے انتخابات جھرلو کئے تھے، پاکستان فاشزم کی طرف بڑھ رہا تھا، ایسے مین جنرل ضیاء بروقت اقدام کرکے قوم کو ایک ظالم حکمران سے نجات دلادی تھی۔

ضیاء خدا تھا جو اس نے خود فیصلہ کر لیا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی؟ اس نے خود کیسے فیصلہ کر لیا کہ ملک فاشزم کی طرف بڑھ رہا تھا؟ ضیاء کے کرتوت سن کے تو شیطان شرما جاۓ. اقتدار الہی اور نظام مصطفیٰ کے نام پر ووٹ لینے والے نے اسکا مطلب یہ نکالا کہ میں ہی حکمران بن جاؤں. کیا زبردست توڑ نکالا دھاندلی کا کہ خود نظام مصطفیٰ کے نام پہ حکمران بن گیا اور لوگ یہی پوچھتے رہ گئے کہ ووٹ نظام کو دینا تھا یا مصطفیٰ کو؟
 
Status
Not open for further replies.

Back
Top