مرزا غالب کے لطائف
مکان کے جس کمرے میں مرزا دِن بھر بیٹھتے اُٹھتے تھے وہ مکان کے دروازے کی چھت پر تھا اور اس کے ایک جانب ایک کوٹھری تنگ و تاریک تھی جس کا در اس قدر چھوٹا تھا کہ کوٹھری میں بہت جھک کر جاناپڑتا تھا اور مرزا اکثر گرمی اور لو کے موسم میں دس بجے سے تین چار بجے تک وہاں بیٹھتے تھے ۔ ایک دن جب کہ رمضان کا مہینہ اور گرمی کا موسم تھا مولانا آزردہ ٹھیک دوپہر کے وقت مرزاسے ملنے کو چلے آئے ۔ اس وقت مرزا صاحب اسی کوٹھری میں کسی دوست کے ساتھ چوسریا شطرنج کھیل رہے تھے ۔ مولانا بھی وہیں پہنچے اور مرزا کو رمضان کے مہینے میں چوسر کھیلتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگے کہ ہم نے حدیث میں پڑھا تھا کہ رمضان کے مہینے میں شیطان مقید رہتا ہے مگر آج اس حدیث کی صحت میں تردّد پیدا ہوگیا ۔ مرزا نے کہا قبلہ حدیث بالکل صحیح ہے مگر آپ کو معلوم رہے کہ وہ جگہ جہاں شیطان مقید رہتا ہے وہ یہی کوٹھری تو ہے ۔
ایک روز دوپہر کا کھانا آیا اور دستر خوان بچھا ۔ برتن تو بہت سے تھے مگر کھانا نہایت قلیل تھا ۔ مرزا نے مسکرا کر کہا۔اگر برتنوں کی کثرت پر خیال کیجیے گا تو میرا دستر خوان یزید کا دسترخوان معلوم ہوتا ہے اور جو کھانے کی مقدار کو دیکھیے تو بایزید کا ۔ فواکہ میں آم ان کو بہت مرغوب تھا۔ آموں کی فصل میں ان کے دوست دور دور سے ان کے لیے عمدہ عمدہ آم بھیجتے تھے اور وہ خود اپنے بعض دوستوں سے تقاضا کرکے آم منگواتے تھے ۔ ایک روز مرحوم بہادر شاہ ظفر آموں کے موسم میں چند مصاحبوں کے ساتھ جن میں مرزا بھی تھے باغِ حیات بخش یا مہتاب باغ میں ٹہل رہے تھے ۔ آم کے پیڑ رنگ برنگ کے آموں سے لدرہے تھے ۔ یہاں کا آم بادشاہ یا سلاطین یا بیگمات کے سوا کسی کو میّسر نہیں آسکتا تھا ۔ مرزاباربارآموں کی طرف غور سے دیکھتے تھے ۔ بادشاہ نے پوچھا مرزا اس قدر غور سے کیا دیکھتے ہو؟ مرزا نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا ۔ پیرو مرشد یہ جو کسی بزرگ نے کہا ؎ برسرِ ہردانہ بنوشتہ عیاں کایں فلاں ابن فلاں ابن فلاں اس کو دیکھتا ہوں کہ کسی دانے پر میرا اور میرے باپ دادا کانام بھی لکھا ہے یا نہیں ۔ بادشاہ مسکرائے اور اسی روز ایک بہنگی عمدہ عمدہ آموں کی مرزا کو بھجوائی ۔ حکیم رضی الدین جو مرزا کے نہایت دوست تھے ان کو آم نہیں بھاتے تھے ۔ ایک دِن وہ مرزا کے مکان پر برآمدے میں بیٹھے تھے اور مرزا بھی وہیں موجود تھے ۔ ایک گدھے والا اپنے گدھے لیےہوئے گلی سے گزرا ۔ آم کے چھلکے پڑے تھے ۔ گدھے نے سونگھ کرچھوڑ دیا۔ حکیم صاحب نے کہا۔ دیکھئے آم ایسی چیز ہے جسے گدھا بھی نہیں کھاتا ۔ مرزا نے کہا ۔ بے شک گدھا نہیں کھاتا ۔
مرزا کے خاص خاص شاگرد اور دوست جن سے نہایت بے تکلّفی تھی اکثر شام کو ان کے پاس جاکر بیٹھتے تھے اور مرزا سرور کے عالم میں اس وقت بہت پرلطف باتیں کیا کرتے تھے ۔ ایک روز میر مہدی مجروح بیٹھے تھے اور مرزا پلنگ پر پڑے ہوئے کراہ رہے تھے ۔ میر مہدی پاؤں دابنے لگے ۔ مرزا نے کہا : بھئی تو سیّد زادہ ہے ، مجھے کیوں گنہگار کرتا ہے ۔انھوں نے نہ مانا اور کہا آپ کو ایسا ہی خیال ہے تو پیردابنے کی اُجرت دے دیجیے گا۔ مرزا نے کہا ہاں اس میں مضائقہ نہیں ۔ جب پیرداب چکےتو اُجرت طلب کی ۔ مرزا نے کہا بھیّا کیسی اُجرت ؟ تم نے میرے پاؤں دابے ،میں نے تمھارے پیسے دابے ۔ حساب برابر ہوا۔
مرزا کی تقریر میں ان کی تحریر اور ان کی نظم و نثر سے کچھ کم لطف نہ تھا اور اسی وجہ سے لوگ ان سے ملنے اور ان کی باتیں سننے کے مشتاق رہتے تھے ۔ وہ زیادہ بولنے والے نہ تھے مگر جو کچھ ان کی زبان سے نکلتا تھا لطف سے خالی نہ ہوتا تھا ۔ ظرافت مزاج میں اس قدر تھی کہ اگر ان کو بجائے حیوانِ ناطق کے حیوانِ ظریف کہا جائے تو بجاہے ۔ حسنِ بیان، حاضر جوابی اور بات سے بات پیدا کرنا ان کی خصوصیات میں سے تھا ۔ ایک دفعہ جب رمضان گزر چکا تو قلعہ میں گئے ۔ بادشاہ نے پوچھا مرزا تم نے کتنے روزے رکھے ؟ عرض کیا پیرو مرشد ایک نہیں رکھا۔