مذہب کے نام پر فتنہ،الله کا واضح حکم

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)

وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (103
Sahih Intl.And hold firmly to the rope of Allah all together and do not become divided. And remember the favor of Allah upon you - when you were enemies and He brought your hearts together and you became, by His favor, brothers. And you were on the edge of a pit of the Fire, and He saved you from it. Thus does Allah make clear to you His verses that you may be guided.
Najafiاور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو اور اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیا ہے کہ تم آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت (فضل و کرم) سے بھائی بھائی ہوگئے۔ اور تم آگ کے بھرے ہوئے گڑھے (دوزخ) کے کنارے پر کھڑے تھے جو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا اس طرح اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں ظاہر کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔
Junagarhiاللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ
Jawadiاور اللہ کی ر سّی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم جہّنم کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں نکال لیا اور اللہ اسی طرح اپنی آیتیں بیان کرتا ہے کہ شاید تم ہدایت یافتہ بن جاؤ
Qadriاور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر(پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ،
Jalanاور سب مل کر خدا کی (ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح خدا تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ
Ahmed Aliاور سب مل کر الله کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو اور الله کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی اس طرح تم پر الله اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ
Kanzul Imanاور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا (فرقوں میں نہ بٹ جانا) اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم میں بیر تھا اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ کردیا تو اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی ہوگئے اور تم ایک غار دوزخ کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچادیا اللہ تم سے یوں ہی اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں تم ہدایت پاؤ،
Maududiسب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اُس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ اِن علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آ جائے
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (104
Sahih Intl.And let there be [arising] from you a nation inviting to [all that is] good, enjoining what is right and forbidding what is wrong, and those will be the successful.
Najafiاور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو نیکی کی دعوت دے اور اچھے کاموں کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی وہ لوگ ہیں (جو دین و دنیا کے امتحان میں) کامیاب و کامران ہوں گے۔
Junagarhiتم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے، اور یہی لوگ فلاح ونجات پانے والے ہیں
Jawadiاور تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے جو خیر کی دعوت دے, نیکیوں کا حکم دے برائیوں سے منع کرے اور یہی لوگ نجات یافتہ ہیں
Qadriاور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں،
Jalanاور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں
Ahmed Aliاور چاہیئے کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہو جو نیک کام کی طرف بلاتی رہے اوراچھے کاموں کا حکم کرتی رہے اور برے کاموں سے روکتی رہے اور وہی لوگ نجات پانے والے ہیں
Kanzul Imanاور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری سے منع کریں اور یہی لوگ مراد کو پہنچے
Maududiتم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے

اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔[SUP]82[/SUP]سب مل کر اللہ کی رسی [SUP]83[/SUP]کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے،اللہ نے تم کو اس سے بچالیا۔[SUP]84[/SUP] اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارےسامنے روشن کرتا ہے شاید کہ ان علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آجائے۔[SUP]85[/SUP]
تم میں کچھ لوگ ایسے ضرو رہی رہنے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔ کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایا ت پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔[SUP]86[/SUP] جنھوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس روز سخت سزا پائیں گے جبکہ کچھ لوگ سرخرُو ہوں گے اور کچھ لوگوں کا منہ کالا ہو گا، جن کا منہ کالا ہوگا﴿ان سے کہا جا ئے گا کہ ﴾ نعمتِ ایمان پانے کے بعد بھی تم نے کافرانہ رویّہ اختیار کیا؟ اچھا تو اب اس کفرانِ نعمت کے صلہ میں عذاب کا مزہ چکھو۔ رہے وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوں گے تو ان کو اللہ کے دامن ِ رحمت میں جگہ ملے گی اور ہمیشہ وہ اسی حا لت میں رہیں گے۔یہ اللہ کے ارشادات ہیں جو ہم تمہیں ٹھیک ٹھیک سنا رہے ہیں کیو نکہ اللہ دنیا والوں پر ظلم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔[SUP]87[/SUP] زمین و آسمان کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہے اور سارے معاملات اللہ ہی کے حضُور پیش ہوتے ہیں۔ ؏١١
___________________________________________________________________________________________
اللہ کی رسّی سے مراد اس کا دین ہے ، اور اس کو رسّی سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہلِ ایمان کا تعلق اللہ سے قائم کرتا ہے اور دُوسری طرف تمام ایمان لانے والوں کو باہم ملا کر ایک جماعت بناتا ہے۔ اس رسّی کو ”مضبوط پکڑنے“ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں اصل اہمیت”دین“ کی ہو، اسی سے ان کو دلچسپی ہو، اسی کی اقامت میں وہ کوشاں رہیں اور اسی کی خدمت کے لیے آپس میں تعاون کرتے رہیں۔ جہاں دین کی اساسی تعلیمات اور اس کی اقامت کے نصب العین سے مسلمان ہٹے اور ان کی توجّہات اور دلچسپیاں جزئیات و فروع کی طرف منعطف ہوئیں، پھر ان میں لازماً وہی تفرقہ و اختلاف رُونما ہو جائے گا جو اس سے پہلے انبیاء علیہم السّلام کی اُمتوں کو ان کے اصل مقصدِ حیات سے منحرف کر کے دنیا اور آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا کر چکا ہے۔

یہ اشارہ اُن اُمّتوں کی طرف ہے جنہوں نے خدا کے پیغمبروں سے دینِ حق کی صاف اور سیدھی تعلیمات پائیں مگر کچھ مُدّت گزر جانے کے بعد اساسِ دین کو چھوڑ دیا اور غیر متعلق ضِمنی و فروعی مسائل کی بنیاد پر الگ الگ فرقے بنانے شروع کر دیے، پھر فضول و لایعنی باتوں پر جھگڑنے میں ایسے مشغول ہوئے کہ نہ اُنہیں اُس کام کا ہوش رہا جو اللہ نے ان کے سپرد کیا تھا اور نہ عقیدہ و اخلاق کے اُن بنیادی اُصُولوں سے کوئی دلچسپی رہی جن پر در حقیقت انسان کی فلاح و سعادت کا مدار ہے۔



 

Ahud1

Chief Minister (5k+ posts)
سورہ ذخرخ یا اس سے پہلی والی سورہ میں ایک جگہ اللہ مسلمانو سے تقاضہ کرتا ہے کے اس بھلائی سے جو اس نے انسانوں سے کی یعنی اسلام ک بدلے میں وہ صرف یہ چا ہتا ہے کے اپس میں پھوٹ نہ ڈالو اگر وو آیات مل جے تو پلیز عدد کر دو ان آیات میں
 

xyz#1

Councller (250+ posts)


Sura 42 - Aya 8-19


وَلَوۡ شَآءَ ٱللَّهُ لَجَعَلَهُمۡ أُمَّةً۬ وَٲحِدَةً۬ وَلَـٰكِن يُدۡخِلُ مَن يَشَآءُ فِى رَحۡمَتِهِۦ*ۚ وَٱلظَّـٰلِمُونَ مَا لَهُم مِّن وَلِىٍّ۬ وَلَا نَصِيرٍ (٨) أَمِ ٱتَّخَذُواْ مِن دُونِهِۦۤ أَوۡلِيَآءَ*ۖ فَٱللَّهُ هُوَ ٱلۡوَلِىُّ وَهُوَ يُحۡىِ ٱلۡمَوۡتَىٰ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىۡءٍ۬ قَدِيرٌ۬ (٩) وَمَا ٱخۡتَلَفۡتُمۡ فِيهِ مِن شَىۡءٍ۬ فَحُكۡمُهُ ۥۤ إِلَى ٱللَّهِ*ۚ ذَٲلِكُمُ ٱللَّهُ رَبِّى عَلَيۡهِ تَوَڪَّلۡتُ وَإِلَيۡهِ أُنِيبُ (١٠) فَاطِرُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ*ۚ جَعَلَ لَكُم مِّنۡ أَنفُسِكُمۡ أَزۡوَٲجً۬ا وَمِنَ ٱلۡأَنۡعَـٰمِ أَزۡوَٲجً۬ا*ۖ يَذۡرَؤُكُمۡ فِيهِ*ۚ لَيۡسَ كَمِثۡلِهِۦ شَىۡءٌ۬*ۖ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلۡبَصِيرُ (١١) لَهُ ۥ مَقَالِيدُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ*ۖ يَبۡسُطُ ٱلرِّزۡقَ لِمَن يَشَآءُ وَيَقۡدِرُ*ۚ إِنَّهُ ۥ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيمٌ۬ (١٢) ۞ شَرَعَ لَكُم مِّنَ ٱلدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِۦ نُوحً۬ا وَٱلَّذِىٓ أَوۡحَيۡنَآ إِلَيۡكَ وَمَا وَصَّيۡنَا بِهِۦۤ إِبۡرَٲهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰٓ*ۖ أَنۡ أَقِيمُواْ ٱلدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُواْ فِيهِ*ۚ كَبُرَ عَلَى ٱلۡمُشۡرِكِينَ مَا تَدۡعُوهُمۡ إِلَيۡهِ*ۚ ٱللَّهُ يَجۡتَبِىٓ إِلَيۡهِ مَن يَشَآءُ وَيَہۡدِىٓ إِلَيۡهِ مَن يُنِيبُ (١٣) وَمَا تَفَرَّقُوٓاْ إِلَّا مِنۢ بَعۡدِ مَا جَآءَهُمُ ٱلۡعِلۡمُ بَغۡيَۢا بَيۡنَہُمۡ*ۚ وَلَوۡلَا كَلِمَةٌ۬ سَبَقَتۡ مِن رَّبِّكَ إِلَىٰٓ أَجَلٍ۬ مُّسَمًّ۬ى لَّقُضِىَ بَيۡنَہُمۡ*ۚ وَإِنَّ ٱلَّذِينَ أُورِثُواْ ٱلۡكِتَـٰبَ مِنۢ بَعۡدِهِمۡ لَفِى شَكٍّ۬ مِّنۡهُ مُرِيبٍ۬ (١٤) فَلِذَٲلِكَ فَٱدۡعُ*ۖ وَٱسۡتَقِمۡ ڪَمَآ أُمِرۡتَ*ۖ وَلَا تَتَّبِعۡ أَهۡوَآءَهُمۡ*ۖ وَقُلۡ ءَامَنتُ بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِن ڪِتَـٰبٍ۬*ۖ وَأُمِرۡتُ لِأَعۡدِلَ بَيۡنَكُمُ*ۖ ٱللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمۡ*ۖ لَنَآ أَعۡمَـٰلُنَا وَلَكُمۡ أَعۡمَـٰلُڪُمۡ*ۖ لَا حُجَّةَ بَيۡنَنَا وَبَيۡنَكُمُ*ۖ ٱللَّهُ يَجۡمَعُ بَيۡنَنَا*ۖ وَإِلَيۡهِ ٱلۡمَصِيرُ (١٥) وَٱلَّذِينَ يُحَآجُّونَ فِى ٱللَّهِ مِنۢ بَعۡدِ مَا ٱسۡتُجِيبَ لَهُ ۥ حُجَّتُهُمۡ دَاحِضَةٌ عِندَ رَبِّہِمۡ وَعَلَيۡہِمۡ غَضَبٌ۬ وَلَهُمۡ عَذَابٌ۬ شَدِيدٌ (١٦) ٱللَّهُ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ ٱلۡكِتَـٰبَ بِٱلۡحَقِّ وَٱلۡمِيزَانَ*ۗ وَمَا يُدۡرِيكَ لَعَلَّ ٱلسَّاعَةَ قَرِيبٌ۬ (١٧) يَسۡتَعۡجِلُ بِہَا ٱلَّذِينَ لَا يُؤۡمِنُونَ بِہَا*ۖ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مُشۡفِقُونَ مِنۡہَا وَيَعۡلَمُونَ أَنَّهَا ٱلۡحَقُّ*ۗ أَلَآ إِنَّ ٱلَّذِينَ يُمَارُونَ فِى ٱلسَّاعَةِ لَفِى ضَلَـٰلِۭ بَعِيدٍ (١٨)۔



ترجمعہ مکہ مولانا صلاح الدین یوسف
اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان سب کو ایک ہی امت کا بنا دیتا (١) لیکن جسے چاہتا اپنی رحمت میں داخل کر لیتا ہے اور ظالموں کا حامی اور مددگار کوئی نہیں ۔
کیا ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کارساز بنا لئے ہیں (حقیقتاً تو) اللہ تعالیٰ ہی کارساز ہے وہی مردوں کو زندہ کرے گا اور وہی ہرچیز کا قادر ہے (١)
اور جس جس چیز میں تمہارا اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے (١) یہی اللہ میرا رب ہے جس پر میں نے بھروسہ کر رکھا ہے اور جس کی طرف میں جھکتا ہوں ۔
وہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اس نے تمہارے لئے تمہاری جنس کے جوڑے بنا دیئے ہیں (١) اور چوپایوں کے جوڑے بنائے ہیں تمہیں وہ اس میں پھیلا رہا ہے اس جیسی کوئی چیز نہیں (٢) وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کی ہیں جس کی چاہے روزی کشادہ کردے اور تنگ کردے، یقیناً وہ ہرچیز کو جاننے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کر دیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ (١) ڈالنا جس چیز کی طرف آپ انہیں بلا رہے ہیں وہ تو (ان) مشرکین پر گراں گزرتی ہے (٢) اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بناتا (٣) ہے اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے وہ اس کی صحیح راہنمائی کرتا ہے (٤)۔
ان لوگوں نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد ہی اختلاف کیا اور وہ بھی باہمی ضد بحث سے اور اگر آپ کے رب کی بات ایک وقت تک کے لئے پہلے ہی سے قرار پا گئی ہوئی ہوتی تو یقیناً ان کا فیصلہ ہو چکا ہوتا (١) اور جن لوگوں کو ان کے بعد کتاب دی گئی وہ بھی اس کی طرف سے الجھن والے شک میں پڑے ہوئے ہیں ۔
پس آپ لوگوں کو اسی طرف بلاتے رہیں اور جو کچھ آپ سے کہا گیا ہے اس پر مضبوطی سے جم جائیں (١) اور ان کی خواہشوں پر نہ چلیں اور کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں نازل فرمائی ہیں میرا ان پر ایمان ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تم میں انصاف کرتا رہوں ہمارا اور تم سب کا پروردگار اللہ ہی ہے ہمارے اعمال ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں ہم تم میں کوئی کٹ حجتی نہیں اللہ تعالیٰ ہم (سب) کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔
اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی باتوں میں جھگڑا ڈالتے ہیں اس کے بعد کہ (مخلوق) انہیں مان چکی (١) ان کی خواہ مخواہ کی حجت اللہ کے نزدیک باطل ہے اور ان پر غضب ہے اور ان کے لئے سخت عذاب ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حق کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے اور ترازو بھی (اتاری ہے) (١) آپ کو کیا خبر شاید قیامت قریب ہی ہو ۔
اس کی جلدی انہیں پڑی ہے جو اسے نہیں مانتے (١) اور جو اس پر یقین رکھتے ہیں وہ تو اس سے ڈر رہے ہیں انہیں اس کے حق ہونے کا پورا علم ہے یاد رکھو جو لوگ قیامت کے معاملہ میں لڑ جھگڑ رہے ہیں وہ دور کی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں (٢)
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا ہی لطف کرنے والا ہے، جسے چاہتا ہے کشادہ روزی دیتا ہے اور وہ بڑی طاقت، بڑے غلبے والا ہے۔






تفسیر تفہیم القران مولانا مودودی


سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :11
یہ مضمون اس سلسلہ کلام میں تین مقاصد کے لیے آیا ہے :
اولاً ، اس سے مقصود نبی ﷺ کو تعلیم اور تسلی دینا ہے۔ اس میں حضور ﷺ کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ آپ کفار مکہ کی جہالت و ضلالت اور اوپر سے ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو دیکھ دیکھ کر اس قدر زیادہ نہ کڑھیں ، اللہ کی مرضی یہی ہے کہ انسانوں کو اختیار و انتخاب کی آزادی عطا کی جائے ، پھر جو ہدایت چاہے اسے ہدایت ملے اور جو گمراہ ہی ہونا پسند کرے اسے جانے دیا جائے جدھر وہ جانا چاہتا ہے۔ اگر یہ اللہ کی مصلحت نہ ہوتی تو انبیاء اور کتابیں بھیجنے کی حاجت ہی کیا تھی، اس کے لیے تو اللہ جل شانہ کا ایک تخلیقی اشارہ کافی تھا، سارے انسان اسی طرح مطیع فرمان ہوتے جس طرح دریا، پہاڑ ، درخت ، مٹی، پتھر اور سب حیوانات ہیں (اس مقصد کے لیے یہ مضمون دوسرے مقامات پر بھی قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول ، الانعام، حواشی۲۳ تا ۲۵، ۷۱)۔
ثانیاً، اس کے مخاطب وہ تمام لوگ ہیں جو اس ذہنی الجھن میں گرفتار تھے اور اب بھی ہیں کہ اگر اللہ فی الواقع انسانوں کی رہنمائی کرنا چاہتا تھا، اور اگر عقیدہ و عمل کے یہ اختلافات، جو لوگوں میں پھیلے ہوئے ہیں ، اسے پسند نہ تھے ، اور اگر اسے پسند یہی تھا کہ لوگ ایمان و اسلام کی راہ اختیار کریں ، تو اس کے لیے آخر وحی اور کتاب اور نبوت کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کام تو وہ بآسانی اس طرح کر سکتا تھا کہ سب کو مومن و مسلم پیدا کر دیتا۔ اسی الجھن کا ایک شاخسانہ یہ استدلال بھی تھا کہ جب اللہ نے ایسا نہیں کیا ہے تو ضرور وہ مختلف طریقے جن پر ہم چل رہے ہیں ، اس کو پسند ہیں ، اور ہم جو کچھ کر رہے ہیں اسی کی مرضی سے کر رہے ہیں ، لہٰذا اس پر اعتراض کا کسی کو حق نہیں ہے (اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے بھی یہ مضمون قرآن میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، الانعام، حواشی ۸۰۔۱۱۰۔۱۲٤۔۱۲۵۔ جلد دوم، یونس، حاشیہ ۱۰۱، ہود، حاشیہ۱۱٦، النحل، حواشی ۱۰۔۳۱۔۳۲)
ثالثاً ، اس کا مقصد اہل ایمان کو ان مشکلات کی حقیقت سمجھانا ہے جو تبلیغ دین اور اصلاح خلق کی راہ میں اکثر پیش آتی ہیں جو لوگ اللہ کی دی ہوئی آزادی انتخاب و ارادہ، اور اس کی بنا پر طبائع اور طریقوں کے اختلاف کی حقیقت کو نہیں سمجھتے ، وہ کبھی تو کار اصلاح کی سست رفتاری دیکھ کر مایوس ہونے لگتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ کرامتیں اور معجزات رو نما ہوں تاکہ انہیں دیکھتے ہی لوگوں کے دل بدل جائیں ، اور کبھی وہ ضرورت سے زیادہ جوش سے کام لے کر اصلاح کے بے جا طریقے اختیار کرنے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں (اس مقصد کے لیے بھی یہ مضمون بعض مقامات پر قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الرعد، حواشی ٤۷ تا ٤۹، النحل، حواشی ۸۹ تا ۹۷)۔
ان مقاصد کے لیے ایک بڑا اہم مضمون ان مختصر سے فقروں میں بیان فرمایا گیا ہے۔ دنیا میں اللہ کی حقیقی خلافت اور آخرت میں اسکی جنت کوئی معمولی رحمت نہیں ہے جو مٹی اور پتھر اور گدھوں اور گھوڑوں کے مرتبے کی مخلوق پر ایک رحمت عام کی طرح بانٹ دی جائے۔ یہ تو ایک خاص رحمت اور بہت اونچے درجے کی رحمت ہے جس کے لیے فرشتوں تک کو موزوں نہ سمجھا گیا۔ اسی لیے انسان کو ایک ذی اختیار مخلوق کی حیثیت سے پیدا کر کے اللہ نے اپنی زمین کے یہ وسیع ذرائع اس کے تصرف میں دیے اور یہ ہنگامہ خیز طاقتیں اس کو بخشیں تاکہ یہ اس امتحان سے گزر سکے جس میں کامیاب ہو کر ہی کوئی بندہ اس کی یہ رحمت خاص پانے کے قابل ہو سکتا ہے۔ یہ رحمت کی اپنی چیز ہے۔ اس پر کسی کا اجارہ نہیں ہے۔ نہ کوئی اسے اپنے ذاتی استحقاق کی بنا پر دعوے سے لے سکتا ہے ، نہ کسی میں یہ طاقت ہے کہ اسے بزور حاصل کر سکے۔ اسے وہی لے سکتا ہے جو اللہ کے حضور بندگی پیش کرے ، اس کو اپنا ولی بنائے اور اس کا دامن تھامے۔ تب اللہ اس کی مدد اور رہنمائی کرتا ہے ، اور اسے اس امتحان سے بخیریت گزرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے تاکہ وہ اس کی رحمت میں داخل ہو سکے۔ لیکن جو ظالم اللہ ہی سے منہ موڑ لے اور اس کے بجائے دوسروں کو اپنا ولی بنا بیٹھے ، اللہ کو کچھ ضرورت نہیں پڑی ہے کہ خواہ مخواہ زبردستی اس کا ولی بنے ، اور دوسرے جن کو وہ ولی بناتا ہے ، سرے سے کوئی علم، کوئی طاقت اور کسی قسم کے اختیارات ہی نہیں رکھتے کہ اس کی ولایت کا حق ادا کر کے اسے کامیاب کرا دیں ۔
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :17
اصل الفاظ ہیں لَیْسَ کَمِثْلِہ شَئءٌ " کوئی چیز اس کے مانند جیسی نہیں ہے " مفسرین اور اہل لغت میں سے بعض کہتے ہیں کہ اس میں لفظ مثل پر کاف (حرف تشبیہ ) کا اضافہ محاورے کے طور پر کیا گیا ہے جس سے مقصود محض بات میں زور پیدا کرنا ہوتا ہے ، اور عرب میں یہ طرز بیان رائج ہے۔ مثلاً شاعر کہتا ہے وقتلیٰ کمثل جُذوع النخل۔ اور ایک دوسرا شاعر کہتا ہے ما ان کمثلھم فی الناس من احد۔ بعض دوسرے حضرات کا قول یہ ہے کہ اس جیسا کوئی نہیں کہنے کے بجائے اس کے مثل جیسا کوئی نہیں کہنے میں مبالغہ ہے ، مراد یہ ہے کہ اگر بفرض محال اللہ کا کوئی مثل ہوتا تو اس جیسا بھی کوئی نہ ہوتا ، کجا کہ خود اللہ جیسا کوئی ہو ۔

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :18
یعنی بیک وقت ساری کائنات میں ہر ایک کی سن رہا ہے اور ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :19
یہ دلائل ہیں اس امر کے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کیوں ولی برحق ہے ، اور کیوں اسی پر توکل کرنا صحیح ہے اور کیوں اسی کی طرف رجوع کیا جانا چاہیے (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، النمل، حواشی ۷۳تا۸۳، الروم،حواشی ۲۵ تا ۳۱)
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :20
یہاں اسی بات کو پھر زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جو پہلی آیت میں ارشاد ہوئی تھی۔ اس میں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ محمد ﷺ کسی نئے مذہب کے بانی نہیں ہیں ، نہ انبیاء میں سے کوئی اپنے کسی الگ مذہب کا بانی گزرا ہے ، بلکہ اللہ کی طرف سے ایک ہی دین ہے جسے شروع سے تمام انبیاء پیش کرتے چلے آ رہے ہیں ، اور اسی کو محمد ﷺ بھی پیش کر رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کا نام لیا گیا ہے جو طوفان کے بعد موجودہ نسل انسانی کے اولین پیغمبر تھے ، اس کے بعد نبی ﷺ کا ذکر کیا گیا ہے جو آخری نبی ہیں ، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام لیا گیا ہے جنہیں اہل عرب اپنا پیشوا مانتے تھے ، اور آخر میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کا ذکر کیا گیا ہے جن کی طرف یہودی اور عیسائی اپنے مذہب کو منسوب کرتے ہیں ۔ اس سے مقصود یہ نہیں ہے کہ انہی پانچ انبیاء کو اس دین کی ہدایت کی گئی تھی۔ بلکہ اصل مقصد یہ بتانا ہے کہ دنیا میں جتنے انبیاء بھی آئے ہیں ، سب ایک ہی دین لے کر آئے ہیں ، اور نمونے کے طور پر ان پانچ جلیل القدر انبیاء کا نام لے دیا گیا ہے جن سے دنیا کو معروف ترین آسمانی شریعتیں ملی ہیں ۔
یہ آیت چونکہ دین اور اس کے مقصود پر بڑی اہم روشنی ڈالتی ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ اس پر پوری طرح غور کر کے اسے سمجھا جائے:
فرمایا کہ شَرَعَ لَکُمْ، " مقرر کیا تمہارے لیے " شرع کے لغوی معنی راستہ بنانے کے ہیں ، اور اصطلاحاً اس سے مراد طریقہ اور ضابطہ اور قاعدہ مقرر کرنا ہے۔ عربی زبان میں اسی اصلاحی معنی کے لحاظ سے تشریع کا لفظ قانون سازی (Lagislation) کا ، شرع اور شریعت کا لفظ قانون (Law) کا شارع کا لفظ واضح قانون (Law giver) کا ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ یہ تشریع خداوندی دراصل فطری اور منطقی نتیجہ ان اصولی حقائق کا جو قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوئے ہیں کہ اللہ ہی کائنات کی ہر چیز کا مالک ہے ، اور وہی انسان کا حقیقی ولی ہے ، اور انسانوں کے درمیان جس امر میں بھی اختلاف ہو اس کا فیصلہ کرنا اسی کا کام ہے۔ اب چونکہ اصولاً اللہ ہی مالک اور ولی اور حاکم ہے ، اس لیے لامحالہ وہی اس کا حق رکھتا ہے کہ انسان کے لیے قانون و ضابطہ بنائے اور اسی کی یہ ذمہ داری ہے کہ انسانوں کو یہ قانون و ضابطہ دے۔ چنانچہ اپنی اس ذمہ داری کو اس نے یوں ادا کر دیا ہے۔
پھر فرمایا مِنَ الدِّیْنِ ، " از قسم دین " ۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس کا ترجمہ " از آئین " کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو تشریع فرمائی ہے اس کی نوعیت آئین کی ہے لفظ " دین " کی جو تشریح ہم اس سے پہلے سورہ زُمُر ، حاشیہ نمبر 3 میں کر چکے ہیں وہ اگر نگاہ میں رہے تو یہ سمجھنے میں کوئی الجھن پیش نہیں آسکتی کہ دین کے معنی ہی کسی کی سیادت و حاکمیت تسلیم کر کے اس کے احکام کی اطاعت کرنے کے ہیں ۔ اور جب یہ لفظ طریقے کے معنی میں بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ طریقہ ہوتا ہے جسے آدمی واجب الاتباع اور جس کے مقرر کرنے والے کو مطاع مانے۔ اس بنا پر اللہ کے مقرر کیے ہوئے اس طریقے کو دین کی نوعیت رکھنے والی تشریع کہنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کی حیثیت محض سفارش (Recommendation) اور وعظ نصیحت کی نہیں ہے ، بلکہ یہ بندوں کے لیے ان کے مالک کا واجب الاطاعت قانون ہے جس کی پیروی نہ کرنے کے معنی بغاوت کے ہیں اور جو شخص اس کی پیروی نہیں کرتا وہ دراصل اللہ کی سیادت و حاکمیت اور اپنی بندگی کا انکار کرتا ہے۔
اس کے بعد ارشاد ہوا کہ دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع وہی ہے جس کی ہدایت نوح اور ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام کو دی گئی تھی اور اسی کی ہدایت اب محمد ﷺ کو دی گئی ہے۔ اس ارشاد سے کئی باتیں نکلتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس تشریع کو براہ راست ہر انسان کے پاس نہیں بھیجا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً جب اس نے مناسب سمجھا ہے ایک شخص کو اپنا رسول مقرر کر کے یہ تشریع اس کے حوالے کی ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ تشریع ابتدا سے یکساں رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی زمانے میں کسی اور قوم کے لیے کوئی دین مقرر کیا گیا ہو اور کسی دوسرے زمانے میں کسی اور قوم کے لیے اس سے مختلف اور متضاد دین بھیج دیا گیا ہو ۔ خدا کی طرف سے بہت سے دین نہیں آئے ہیں ، بلکہ جب بھی آیا ہے یہی ایک دین آیا ہے۔ تیسرے یہ کہ اللہ کی سیادت و حاکمیت ماننے کے ساتھ ان لوگوں کی رسالت کا ماننا جن کے ذریعہ سے یہ تشریع بھیجی گئی ہے ، اور اس وحی کو تسلیم کرنا جس میں یہ تشریع بیان کی گئی ہے ، اس دین کا لازمی جز ہے ، اور عقل و منطق کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کو لازمی جز ہونا چاہیے ، کیونکہ آدمی اس تشریع کی اطاعت کر ہی نہیں سکتا جب تک وہ اس کے خدا کی طرف سے مستند (Authentic) ہونے پر مطمئن نہ ہو ۔
اس کے بعد فرمایا کہ ان سب انبیاء کو دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع اس ہدایت اور تاکید کے ساتھ دی گئی تھی کہ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ۔ اس فقرے کا ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحب نے " قائم کنید دین را " کیا ہے ، اور شاہ رفیع الدین صاحب اور شاہ عبدالقادر صاحب نے " قائم رکھو دین کو " ۔ یہ دونوں ترجمے درست ہیں ۔ اقامت کے معنی قائم کرنے کے بھی ہیں اور قائم رکھنے کے بھی، اور انبیاء علیہم السلام ان دونوں ہی کاموں پر مامور تھے۔ ان کا پہلا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ دین قائم نہیں ہے وہاں اسے قائم کریں ۔ اور دوسرا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ قائم ہو جائے یا پہلے سے قائم ہو وہاں اسے قائم رکھیں ۔ ظاہر بات ہے کہ قائم رکھنے کی نوبت آتی ہی اس وقت ہے جب ایک چیز قائم ہو چکی ہو ۔ ورنہ پہلے اسے قائم کرنا ہوگا، پھر یہ کوشش مسلسل جاری رکھنی پڑے گی کہ وہ قائم رہے۔
اب ہمارے سامنے دو سوالات آتے ہیں ۔ ایک یہ کہ دین کو قائم کرنے سے مراد کیا ہے؟ دوسرے یہ کہ خود دین سے کیا مراد ہے جسے قائم کرنے اور پھر قائم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے؟ ان دونوں باتوں کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔
قائم کرنے کا لفظ جب کسی مادی یا جسمانی چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد بیٹھے کو اٹھانا ہوتا ہے ، مثلاً کسی انسان یا جانور کو اٹھانا۔ یا پڑی ہوئی چیز کو کھڑا کرنا ہوتا ہے ، جیسے بانس یا ستون کو قائم کرنا۔ یا کسی چیز کے بکھرے ہوئے اجزاء کو جمع کر کے بلند کرنا ہوتا ہے ، جیسے کسی خالی زمین میں عمارت قائم کرنا لیکن جو چیزیں مادی نہیں بلکہ معنوی ہوتی ہیں ان کے لیے جب قائم کرنے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد اس چیز کی محض تبلیغ کرنا نہیں بلکہ اس پر کما حقہ ، عمل در آمد کرنا ، اسے رواج دینا اور اسے عملاً نافذ کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنی حکومت قائم کی تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ اس نے اپنی حکومت کی طرف دعوت دی، بلکہ یہ ہوتے ہیں کہ اس نے ملک کے لوگوں کو اپنا مطیع کر لیا اور حکومت کے تمام شعبوں کی ایسی تنظیم کر دی کہ ملک کا سارا انتظام اس کے احکام کے مطابق چلنے لگا۔ اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ ملک میں عدالتیں قائم ہیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ انصاف کرنے کے لیے منصف مقرر ہیں اور وہ مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں اور فیصلے دے رہے ہیں ، نہ یہ کہ عدل و انصاف کی خوبیاں خوب خوب بیان کی جا رہی ہیں اور لوگ ان کے قائل ہو رہے ہیں ۔ اسی طرح جب قرآن مجید میں حکم دیا جاتا ہے کہ نماز قائم کرو تو اس سے مراد نماز کی دعوت و تبلیغ نہیں ہوتی بلکہ یہ ہوتی ہے کہ نماز کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ نہ صرف خود ادا کرو بلکہ ایسا انتظام کرو کہ وہ اہل ایمان میں باقاعدگی کے ساتھ رائج ہو جائے۔ مسجدیں ہوں ۔ جمعہ و جماعت کا اہتمام ہو ۔ وقت کی پابندی کے ساتھ اذانیں دی جائیں ۔ امام اور خطیب مقرر ہوں ۔ اور لوگوں کو وقت پر مسجدوں میں آنے اور نماز ادا کرنے کی عادت پڑ جائے۔ اس تشریح کے بعد یہ بات سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آسکتی کہ انبیاء علیہم السلام کو جب اس دین کے قائم کرنے اور قائم رکھنے کا حکم دیا گیا تو اس سے مراد صرف اتنی بات نہ تھی کہ وہ خود اس دین پر عمل کریں ، اور اتنی بات بھی نہ تھی کہ وہ دوسروں میں اس کی تبلیغ کریں تاکہ لوگ اس کا برحق ہونا تسلیم کرلیں تو اس سے آگے قدم بڑھا کر پورا کا پورا دین ان میں عملاً رائج اور نافذ کیا جائے تاکہ اس کے مطابق عمل در آمد ہونے لگے اور ہوتا رہے۔ اس میں شک نہیں کہ دعوت و تبلیغ اس کام کا لازمی ابتدائی مرحلہ ہے جس کے بغیر دوسرا مرحلہ پیش نہیں آ سکتا۔ لیکن ہر صاحب عقل آدمی خود دیکھ سکتا ہے کہ اس حکم میں دعوت و تبلیغ کو مقصود کی حیثیت نہیں دی گئی ہے ، بلکہ دین قائم کرنے اور قائم رکھنے کو مقصود قرار دیا گیا ہے۔ دعوت و تبلیغ اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ضرور ہے ، مگر بجائے خود مقصد نہیں ہے ، کجا کہ کوئی شخص اسے انبیاء کے مشن کا مقصد توحید قرار دے بیٹھے۔
اب دوسرے سوال کو لیجیے۔ بعض لوگوں نے دیکھا کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ تمام انبیاء علیہم السلام کے درمیان مشترک ہے ، اور شریعتیں ان سب کی مختلف رہی ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے : لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْھَا جاً ، اس لیے انہوں نے یہ رائے قائم کر لی کہ لا محالہ اس دین سے مراد شرعی احکام و ضوابط نہیں ہیں بلکہ صرف توحید و آخرت اور کتاب و نبوت کا ماننا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہے ، یا حد سے حد اس میں وہ موٹے موٹے اخلاقی اصول شامل ہیں جو سب شریعتوں میں مشترک رہے ہیں ۔ لیکن یہ ایک بڑی سطحی رائے ہے جو محض سرسری نگاہ سے دین کی وحدت اور شرائع کے اختلاف کو دیکھ کر قائم کر لی گئی ہے ، اور یہ ایسی خطرناک رائے ہے کہ اگر اس کی اصلاح نہ کر دی جائے تو آگے بڑھ کر بات دین و شریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں مبتلا ہو کر سینٹ پال نے دین بلا شریعت کا نظریہ پیش کیا اور سیّدنا مسیح علیہ السلام کی امت کو خراب کر دیا۔ اس لیے کہ جب شریعت دین سے الگ ایک چیز ہے ، اور حکم صرف دین کو قائم کرنے کا ہے نہ کہ شریعت کو، تو لا محالہ مسلمان بھی عیسائیوں کی طرح شریعت کو غیر اہم اور اس کی اقامت کو غیر مقصود بالذات سمجھ کر نظر انداز کر دیں گے اور صرف ایمانیات اور موٹے موٹے اخلاقی اصولوں کے لے کر بیٹھ جائیں گے۔ اس طرح کے قیاسات سے دین کا مفہوم متعین کرنے کے بجائے آخر کیوں نہ ہم خود اللہ کی کتاب سے پوچھ لیں کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم یہاں دیا گیا ہے ، آیا اس سے مراد صرف ایمانیات اور بڑے بڑے اخلاقی اصول ہی ہیں ، یا شرعی احکام بھی۔ قرآن مجید کا جب ہم تتبع کرتے ہیں تو اس میں جن چیزوں کو دین میں شمار کیا گیا ہے ان میں حسب ذیل چیزیں بھی ہمیں ملتی ہیں :
1)وَمَآ اُمِرُؤٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآءَ وَیُقِیْمُوا الصَّلوٰۃَ وَ یُؤْتُوا الزَّکوٰۃَ وَ ذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃ (البیّنہ، آیت 5)۔ " اور ان کو حکم نہیں دیا گیا مگر اس بات کا کہ یکسو ہو کر اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں اور زکوٰۃ دیں ، اور یہی راست رو ملت کا دین ہے۔ " اس سے معلوم ہوا کہ نماز اور زکوٰۃ اس دین میں شامل ہیں ، حالانکہ ان دونوں کے احکام مختلف شریعتوں میں مختلف رہے ہیں ۔ کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تمام پچھلی شریعتوں میں نماز کی یہی شکل و ہئیت ، یہی اس کے اجزاء، یہی اس کی رکعتیں ، یہی اس کا قبلہ، یہی اس کے اوقات، اور یہی اس کے دوسرے احکام رہے ہیں ۔ اسی طرح زکوٰۃ کے متعلق بھی کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ تمام شریعتوں میں یہی اس کا نصاب، یہی اس کی شرحیں ، اور یہی اس کی تحصیل اور تقسیم کے احکام رہے ہیں ۔ لیکن اختلاف شرائع کے باوجود اللہ تعالیٰ ان دونوں چیزوں کو دین میں شمار کر رہا ہے۔
2)حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَہُ وَالدَّمُ وَ لَحْمُ الخِنْزِیْرِ وَمَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہ ........ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ........ (المائدہ۔ 3) " تمہارے لیے حرام کیا گیا مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، اور وہ جو گلا گھٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو، سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پا کر ذبح کرلیا ، اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو، نیز یہ بھی تمہارے لیے حرام کیا گیا کہ تم پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو ۔ یہ سب کام فسق ہیں ۔ آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو ۔ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ................. " اس سے معلوم ہوا کہ یہ سب احکام شریعت بھی دین ہی ہیں ۔
3) قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ (التوبہ۔ 29)۔ " جنگ کرو ان لوگوں سے جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے " ۔ معلوم ہوا کہ اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ حلال و حرام کے ان احکام کو ماننا اور ان کی پابندی کرنا بھی دین ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے دیے ہیں ۔
4) اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ وَّ لَا تَأخُذْکُمْ بھِمَا رَأفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ (النّور 20) " زانیہ عورت اور مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملہ میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو " مَا کَانَ لِیَأخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ (یوسف۔ 76) یوسف(علیہ السلام) اپنے بھائی کو بادشاہ کے دین میں پکڑ لینے کا مجاز نہ تھا " ۔ اس سے معلوم ہوا کہ فوجداری قانون بھی دین ہے۔ اگر آدمی خدا کے فوجداری قانون پر چلے تو وہ خدا کے دین کا پیرو ہے اور اگر بادشاہ کے قانون پر چلے تو وہ بادشاہ کے دین کا پیرو ۔
یہ چار تو وہ نمونے ہیں جن میں شریعت کے احکام کو بالفاظ صریح دین سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن گناہوں پر اللہ تعالیٰ نے جہنم کی دھمکی دی ہے (مثلاً زنا، سود خواری ، قتل مومن ، یتیم کا مال کھانا ، باطل طریقوں سے لوگوں کے مال لینا ، وغیرہ)، اور جن جرائم کو خدا کے عذاب کا موجب قرار دیا ہے (مثلاً عمل قوم لوط ، اور لین دین میں قوم شعیب کا رویہ) ان کا سد باب لازماً دین ہی میں شمار ہونا چاہیے ، اس لیے کہ دین اگر جہنم اور عذاب الہٰی سے بچانے کے لیے نہیں آیا ہے تو اور کس چیز کے لیے آیا ہے؟ اسی طرح وہ احکام شریعت بھی دین ہی کا حصہ ہونے چاہییں جن کی خلاف ورزی کو خلود فی النار کا موجب قرار دیا گیا ہے ، مثلاً میراث کے احکام، جن کو بیان کرنے کے بعد آخر میں ارشاد ہوا ہے کہ وَمَنْ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَاراً خَالِداً فِیْھَا وَلَہ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ (النساء۔14) " جو اللہ اور اسے کے رسول کی نافرمانی اور اللہ کے حدود سے تجاوز کرے گا، اللہ اس کو دوزخ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے " ۔ اسی طرح جن چیزوں کی حرمت اللہ تعالیٰ نے پوری شدت اور قطعیت کے ساتھ بیان کی ہے ، مثلاً ماں بہن اور بیٹی کی حرمت، شراب کی حرمت ، چوری کی حرمت، جوئے کی حرمت ، جھوٹی شہادت کی حرمت، ان کی تحریم کو اگر اقامت دین میں شامل نہ کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ غیر ضروری احکام بھی دے دیے ہیں جن کا اجراء مقصود نہیں ہے۔ علیٰ ہٰذا القیاس جن کاموں کو اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے ، مثلاً روزہ اور حج ، ان کی اقامت کو بھی محض اس بہانے اقامت دین سے خارج نہیں کیا جا سکتا کہ رمضان کے 30 روزے تو پچھلی شریعتوں میں نہ تھے ، اور کعبے کا حج تو صرف اس شریعت میں تھا جو اولاد ابراہیم کی اسماعیلی شاخ کو ملی تھی۔
دراصل ساری غلط فہمی صرف اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ آیت : لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْھَا جاً (ہم نے تم میں سے ہر امت کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ مقرر کر دی) کا الٹا مطلب لے کر اسے یہ معنی پہنا دیے گئے ہیں کہ شریعت چونکہ ہر امت کے لیے الگ تھی، اور حکم صرف اس دین کے قائم کرنے کا دیا گیا ہے جو تمام انبیاء کے درمیان مشترک تھا، اس لیے اقامت دین کے حکم میں اقامت شریعت شامل نہیں ہے۔ حالانکہ در حقیقت اس آیت کا مطلب اس کے بالکل بر عکس ہے۔ سورہ مائدہ میں جس مقام پر یہ آیت آئی ہے اس کے پورے سیاق و سباق کو آیت 41 سے آیت 50 تک اگر کوئی شخص بغور پڑھے تو معلوم ہو گا کہ اس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جس نبی کی امت کو جو شریعت بھی اللہ تعالیٰ نے دی تھی وہ اس امت کے لیے دین تھی اور اس کے دور نبوت میں اسی کی اقامت مطلوب تھی۔ اور اب چونکہ سیدنا محمد ﷺ کا دور نبوت ہے۔ اس لیے امت محمدیہ کو جو شریعت دی گئی ہے وہ اس دور کے لیے دین ہے اور اس کا قائم کرنا ہی دین کا قائم کرنا ہے۔ رہا ان شریعتوں کا اختلاف ، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا کی بھیجی ہوئی شریعتیں باہم متضاد تھیں ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جزئیات میں حالات کے لحاظ سے کچھ فرق رہا ہے۔ مثال کے طور پر نماز اور روزے کو دیکھیے۔ نماز تمام شریعتوں میں فرض رہی ہے ، مگر قبلہ ساری شریعتوں کا ایک نہ تھا، اور اس کے اوقات اور رکعات اور اجزاء میں بھی فرق تھا۔ اسی طرح روزہ ہر شریعت میں فرض تھا مگر رمضان کے 30 روزے دوسری شریعتوں میں نہ تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ مطلقاً نماز اور روزہ تو اقامت دین میں شامل ہے ، مگر ایک خاص طریقت سے نماز پڑھنا اور خاص زمانے میں روزہ رکھنا اقامت دین سے خارج ہے۔ بلکہ اس سے صحیح طور پر جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر نبی کی امت کے لیے اس وقت کی شریعت میں نماز اور روزے کے لیے جو قاعدے مقرر کیے گئے تھے انہی کے مطابق اس زمانے میں نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا دین قائم کرنا تھا، اور اب اقامت دین یہ ہے کہ ان عبادتوں کے لیے شریعت محمدیہ میں جو طریقہ رکھا گیا ہے ان کے مطابق انہیں ادا کیا جائے۔ انہی دو مثالوں پر دوسرے تمام احکام شریعت کو بھی قیاس کر لیجیے۔
قرآن مجید کو جو شخص بھی آنکھیں کھول کر پڑھے گا اسے یہ بات صاف نظر آئے گی کہ یہ کتاب اپنے ماننے والوں کو کفر اور کفار کی رعیت فرض کر کے مغلوبانہ حیثیت میں مذہبی زندگی بسر کرنے کا پروگرام نہیں دے رہی ہے ، بلکہ یہ علانیہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے ، اپنے پیروؤں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ دین حق کو فکری، اخلاقی ، تہذیبی اور قانونی و سیاسی حیثیت سے غالب کرنے کے لیے جان لڑا دیں، اور ان کو انسانی زندگی کی اصلاح کا وہ پروگرام دیتی ہے جس کے بہت بڑے حصے پر صرف اسی صورت میں عمل کیا جا سکتا ہے جب حکومت کا اقتدار اہل ایمان کے ہاتھ میں ہو ۔ یہ کتاب اپنے نازل کیے جانے کا مقصد یہ بیان کرتی ہے کہ اِنَّآ اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰکَ اللہُ (النساء۔ 105)۔ " اے نبی، ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تم پر نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو اس روشنی میں جو اللہ نے تمہیں دکھائی ہے " ۔ اس کتاب میں زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کے جو احکام دیے گیے ہیں وہ صریحاً اپنے پیچھے ایک ایسی حکومت کا تصور رکھتے ہیں جو ایک مقرر قاعدے کے مطابق زکوٰۃ وصول کر کے مستحقین تک پہنچانے کا ذمہ لے (التوبہ۔ 60۔103) اس کتاب میں سود کو بند کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اور سود خواری جاری رکھنے والوں کے خلاف جو اعلان جنگ کیا گیا ہے (البقرہ 275۔ 279) وہ اسی صورت میں رو بعمل آسکتا ہے جب ملک کا سیاسی اور معاشی نظام پوری طرح اہل ایمان کے ہاتھ میں ہو ۔ اس کتاب میں قاتل سے قصاص لینے کا حکم (البقرہ۔ 178) چوری پر ہاتھ کاٹنے کا حکم (المائدہ۔ 38) زنا اور قذف پر حد جاری کرنے کا حکم (النور۔2۔4) اس مفروضے پر نہیں دیا گیا ہے کہ ان احکام کے ماننے والے لوگوں کو کفار کی پولیس اور عدالتوں کے ماتحت رہنا ہو گا۔ اس کتاب میں کفار سے قتال کا حکم (لبقرہ۔ 190۔216) یہ سمجھتے ہوئے نہیں دیا گیا کہ اس دین کے پیرو کفر کی حکومت میں فوج بھرتی کر کے اس حکم کی تعمیل کریں گے۔ اس کتاب میں اہل کتاب سے جزیہ لینے کا حکم (التوبہ 29) اس مفروضے پر نہیں دیا گیا ہے کہ مسلمان کافروں کی رعایا ہوتے ہوئے ان سے جزیہ وصول کریں گے اور ان کی حفاظت کا ذمہ لیں گے۔ اور یہ معاملہ صرف مدنی سورتوں ہی تک محدود نہیں ہے۔ مکی صورتوں میں بھی دیدہ بینا کو علانیہ یہ نظر آ سکتا ہے کہ ابتدا ہی سے جو نقشہ پیش نظر تھا وہ دین کے غلبہ و اقتدار کا تھا نہ کہ کفر کی حکومت کے تحت دین اور اہل دین کے ذمی بن کر رہنے کا۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، بنی اسرئیل، حواشی ۸۹۔۹۹۔۱۰۱، جلد سوم، القصص، ۱۰٤۔۱۰۵، الروم، ۱ تا ۳، جلد چہارم، الصافات، آیات ۱۷۱ تا ۱۷۹، حواشی ۹۳۔۹٤، صٓ، دیباچہ اور آیت ۱۱ مع حاشیہ ۱۲)
سب سے بڑھ کر جس چیز سے تعبیر کی یہ غلطی متصادم ہوتی ہے وہ خود رسول اللہ ﷺ کا وہ عظیم الشان کام ہے جو حضور ﷺ نے 23 سال کے زمانہ رسالت میں انجام دیا۔ آخر کون نہیں جانتا کہ آپ نے تبلیغ اور تلوار دونوں سے پورے عرب کو مسخر کیا اور اس میں ایک مکمل حکومت کا نظام ایک مفصل شریعت کے ساتھ قائم کر دیا جو اعتقادات اور عبادات سے لے کر شخصی کردار، اجتماعی اخلاق، تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت، سیاست و عدالت اور صلح و جنگ تک زندگی کے تمام گوشوں پر حاوی تھی۔ اگر حضور ﷺ کے اس پورے کام کو " اقامت دین " کے اس حکم کی تفسیر نہ مانا جائے جو اس آیت کے مطابق تمام انبیاء سمیت آپ کو دیا گیا تھا، تو پھر اس کے دو ہی معنی ہو سکتے ہیں ۔ یا تو معاذاللہ حضور ﷺ پر یہ الزام عائد کیا جائے کہ آپ مامور تو صرف ایمانیات اور اخلاق کے موٹے موٹے اصولوں کی محض تبلیغ و دعوت پر ہوئے تھے ، مگر آپ ﷺ نے اس سے تجاوز کر کے بطور خود ایک حکومت قائم کر دی اور ایک مفصل قانون بنا ڈالا جو شرائع انبیاء کی قدر مشترک سے مختلف بھی تھا اور زائد بھی۔ یا پھر اللہ تعالیٰ پر یہ الزام رکھا جائے کہ وہ سورہ شوریٰ میں مذکورہ بالا اعلان کر چکنے کے بعد خود اپنی بات سے منحرف ہو گیا اور اس نے اپنے آخری نبی سے نہ صرف وہ کام لیا جو اس سورۃ کی اعلان کردہ " اقامت دین " سے بہت کچھ زائد اور مختلف تھا ، بلکہ اس کام کی تکمیل پر اپنے پہلے اعلان کے خلاف یہ دوسرا اعلان بھی کر دیا کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا )، اعاذنا اللہ من ذالک۔ ان دو صورتوں کے سوا اگر کوئی تیسری صورت ایسی نکلتی ہو جس سے " اقامت دین " کی یہ تعبیر بھی قائم رہے اور اللہ یا اس کے رسول پر کوئی الزام بھی عائد نہ ہوتا ہو تو ہم ضرور اسے معلوم کرنا چاہیں گے۔
اقامت دین کا حکم دینے کے بعد، آخری بات جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ارشاد فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ : لَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ۔ " دین میں تفرقہ نہ برپا کرو " ، یا " اس کے اندر متفرق نہ ہو جاؤ " ۔ دین میں تفرقہ سے مراد یہ ہے کہ آدمی دین کے اندر اپنی طرف سے کوئی نرالی بات ایسی نکالے جس کی کوئی معقول گنجائش اس میں نہ ہو اور اصرار کرے کہ اس کی نکالی ہوئی بات کے ماننے ہی پر کفر و ایمان کا مدار ہے ، پھر جو ماننے والے ہوں انہیں لے کر نہ ماننے والوں سے جدا ہو جائے۔ یہ نرالی بات کئی طرح کی ہو سکتی ہے۔ وہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین میں جو چیز نہ تھی وہ اس میں لا کر شامل کر دی جائے۔ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین میں جو بات شامل تھی اسے نکال باہر کیا جائے۔ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین کی نصوص میں تحریف کی حد تک پہنچی ہوئی تاویلات کر کے نرالے عقائد اور انوکھے اعمال ایجاد کیے جائیں ۔ اور یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین کی باتوں میں رد و بدل کر کے اس کا حلیہ بگاڑا جائے ، مثلاً جو چیز اہم تھی اسے غیر اہم بنا دیا جائے اور جو چیز حد سے حد مباح کے درجے میں تھی اسے فرض و واجب بلکہ اس سے بھی بڑھا کر اسلام کا رکن رکین بنا ڈالا جائے۔ اسی طرح کی حرکتوں سے انبیاء علیہم السلام کی امتوں میں پہلے تفرقہ برپا ہوا، پھر رفتہ رفتہ ان فرقوں کے مذاہب بالکل الگ مستقل ادیان بن گئے جن کے ماننے والوں میں اب یہ تصور تک باقی نہیں رہا ہے کہ کبھی ان سب کی اصل ایک تھی۔ اس تفرقے کا اس جائز اور معقول اختلاف رائے سے کوئی تعلق نہیں ہے جو دین کے احکام کو سمجھنے اور نصوص پر غور کر کے ان سے مسائل مستنبط کرنے میں فطری طور پر اہل علم کے درمیان واقع ہوتا ہے اور جس کے لیے خود کتاب اللہ کے الفاظ میں لغت اور محاورے اور قواعد زبان کے لحاظ سے گنجائش ہوتی ہے۔ ( اس موضوع پر مزید تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول ، البقرہ، حاشیہ ۲۲۰، آل عمران، حواشی ۱٦۔۱۷، النساء ۲۱۱تا ۲۱٦، المائدہ ۱۰۱، الانعام ۱٤۱، جلد دوم، النحل، حواشی ۱۱۷ تا ۱۲۱، جلد سوم، الانبیاء، حواشی ۸۹ تا ۹۱، الحج، حواشی ۱۱٤ تا ۱۱۷، المومنون ٤۵ تا ٤۸، القصص، ۷۲ تا ۷٤، الروم، ۵۰۔۵۱)۔


سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :21
یہاں پھر وہی بات دہرائی گئی ہے جو اس سے پہلے آیت 8۔9 میں ارشاد ہو چکی ہے اور جس کی تشریح ہم حاشیہ نمبر 11 میں کر چکے ہیں ۔ اس جگہ یہ بات ارشاد فرمانے کا مدعا یہ ہے کہ تم ان لوگوں کے سامنے دین کی صاف شاہراہ پیش کر رہے ہو اور یہ نادان اس نعمت کی قدر کرنے کے بجائے الٹے اس پر بگڑ رہے ہیں ۔ مگر انہی کے درمیان انہی کی قوم میں وہ لوگ موجود ہیں جو اللہ کی طرف رجوع کر رہے ہیں اور اللہ بھی انہیں کھینچ کھچینچ کر اپنی طرف لا رہا ہے۔ اب یہ اپنی اپنی قسمت ہے کہ کوئی اس نعمت کو پائے اور کوئی اس پر خار کھائے۔ مگر اللہ کی بانٹ اندھی بانٹ نہیں ہے۔ وہ اسی کو اپنی طرف کھینچتا ہے جو اس کی طرف بڑھے۔ دور بھاگنے والوں کے پیچھے دوڑنا اللہ کا کام نہیں ہے۔


سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :22
یعنی تفرقے کا سبب یہ نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء نہیں بھیجے تھے اور کتابیں نازل نہیں کی تھیں اس وجہ سے لوگ راہ راست نہ جاننے کے باعث اپنے اپنے الگ مذاہب اور مدارس فکر اور نظام زندگی خود ایجاد کر بیٹھے ، بلکہ یہ تفرہ ان میں اللہ کی طرف سے علم آ جانے کے بعد رونما ہوا۔ اس لیے اللہ اس کے ذمہ دار نہیں ہے بلکہ وہ لوگ خود اس کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے دین کے صاف صاف اصول اور شریعت کے واضح احکام سے ہٹ کر نئے نئے مذاہب و مسالک بنائے۔


سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :23
یعنی اس تفرقہ پردازی کا محرک کوئی نیک جذبہ نہیں تھا، بلکہ یہ اپنی نرالی اپج دکھانے کی خواہش، اپنا الگ جھنڈا بلند کرنے کی فکر، آپس کی ضدم ضدا، ایک دوسرے کو زک دینے کی کوشش، اور مال و جاہ کی طلب کا نتیجہ تھی۔ ہوشیار اور حوصلہ مند لوگوں نے دیکھا کہ بندگان خدا اگر سیدھے سیدھے خدا کے دین پر چلتے رہیں تو بس ایک خدا ہو گا جس کے آگے لوگ جھکیں گے۔ ایک رسول ہو گا جس کو لوگ پیشوا اور رہنما مانیں گے ، ایک کتاب ہوگی جس کی طرف لوگ رجوع کریں گے ، اور ایک صاف عقیدہ اور بے لاگ ضابطہ ہوگا جس کی پیروی وہ کرتے رہیں گے۔ اس نظام میں ان کی اپنی ذات کے لیے کوئی مقام امتیاز نہیں ہو سکتا جس کی وجہ سے ان کی مشیخت چلے ، اور لوگ ان کے گرد جمع ہوں ، اور ان کے آگے اور سر بھی جھکائیں اور جیبیں بھی خالی کریں ۔ یہی وہ اصل سبب تھا جو نئے نئے عقائد اور فلسفے ، نئے نئے طرز عبادت اور مذہبی مراسم اور نئے نئے نظام حیات ایجاد کرنے کا محرک بنا اور اسی نے خلق خدا کے ایک بڑے حصے کو دین کی صاف شاہراہ سے ہٹا کر مختلف راہوں میں پراگندہ کر دیا۔ پھر یہ پراگندگی ان گروہوں کی باہمی بحث و جدال اور مذہبی و معاشی اور سیاسی کشمکش کی بدولت شدید تلخیوں میں تبدیل ہوتی چلی گئی ، یہاں تک کہ نوبت ان خونریزیوں تک پہنچی جن کے چھینٹوں سے تاریخ سرخ ہو رہی ہے۔


سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :24
یعنی دنیا ہی میں عذاب دے کر ان سب لوگوں کا خاتمہ کر دیا جاتا جو گمراہیاں نکالنے اور جان بوجھ کر ان کی پیروی کرنے کے مجرم تھے ، اور صرف راہ راست پر چلنے والے باقی رکھے جاتے ، جس سے یہ بات واضح ہو جاتی کہ خدا کے نزدیک حق پر کون ہیں اور باطل پر کون۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ دو ٹوک فیصلہ قیامت تک کے لیے ملتوی کر رکھا ہے ، کیونکہ دنیا میں یہ فیصلہ کر دینے کے بعد بنی نوع انسان کی آزمائش بے معنی ہو جاتی ہے۔

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :25
مطلب یہ ہے کہ ہر نبی اور اس کے قریبی تابعین کا دور گزر جانے کے بعد جب پچھلی نسلوں تک کتاب اللہ پہنچی تو انہوں نے اسے یقین و اعتماد کے ساتھ نہیں لیا بلکہ وہ اس کے متعلق سخت شکوک اور ذہنی الجھنوں میں مبتلا ہو گئیں ۔ اس حالت میں ان کے مبتلا ہو جانے کے بہت سے وجوہ تھے جنہیں ہم اس صورت حال کا مطالعہ کر کے بآسانی سمجھ سکتے ہیں جو تورات و انجیل کے معاملہ میں پیش آئی ہے۔ ان دونوں کتابوں کو اگلی نسلوں نے ان کی اصلی حالت پر ان کی اصل عبارت اور زبان میں محفوظ رکھ کر پچھلی نسلوں تک نہیں پہنچایا۔ ان میں خدا کے کلام کے ساتھ تفسیر و تاریخ اور سماعی روایات اور فقہاء کے نکالے ہوئے جزئیات کی صورت میں انسانی کلام گڈمڈ کر دیا۔ ان کے ترجموں کو اتنا رواج دیا کہ اصل غائب ہو گئی اور صرف ترجمے باقی رہ گئے۔ ان کی تاریخی سند بھی اس طرح ضائع کر دی کہ اب کوئی شخص بھی پورے یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ جو کتاب اس کے ہاتھ میں ہے وہ وہی ہے جو حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ کے ذریعہ سے دنیا والوں کو ملی تھی۔ پھر ان کے اکابر نے وقتاً فوقتاً مذہب، الہٰیات، فلسفہ، قانون ، طبعیات ، نفسیات اور اجتماعیات کی ایسی بحثیں چھیڑیں اور ایسے نظام فکر بنا ڈالے جن کی بھول بھلیوں میں پھنس کر لوگوں کے لیے یہ طے کرنا محال ہو گیا کہ ان پیچیدہ راستوں کے درمیان حق کی سیدھی شاہراہ کونسی ہے۔ اور چونکہ کتاب اللہ اپنی اصل حالت اور قابل اعتماد صورت میں موجود نہ تھی، اس لیے لوگ کسی ایسی سند کی طرف رجوع بھی نہ کر سکتے تھے جو حق کو باطل سے تمیز کرنے میں مدد کرتی۔


سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :26
یعنی انکو راضی کرنے کے لیے اس دین کے اندر کوئی رد و بدل اور کمی بیشی نہ کرو ۔ " کچھ لو اور کچھ دو " کے اصول پر ان گمراہ لوگوں سے کوئی مصالحت نہ کرو ۔ ان کے اوہام اور تعصبات اور جاہلانہ طور طریقوں کے لیے دین میں کوئی گنجائش محض اس لالچ میں آ کر نہ نکالو کہ کسی نہ کسی طرح یہ دائرہ اسلام میں آجائیں ۔ جس کو ماننا ہے ، خدا کے اصلی اور خالص دین کو، جیسا کہ اس نے بھیجا ہے ، سیدھی طرح مان لے ، ورنہ جس جہنم میں جا کر گرنا چاہے گر جائے۔ خدا کا دین لوگوں کی خاطر نہیں بدلا جا سکتا۔ لوگ اگر اپنی فلاح چاہتے ہیں تو خود اپنے آپ کو بدل کر اس کے مطابق بنائیں ۔

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :27
بالفاظ دیگر، میں ان تفرقہ پرداز لوگوں کی طرح نہیں ہوں جو خدا کی بھیجی ہوئی بعض کتابوں کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے۔ میں ہر اس کتاب کو مانتا ہوں جسے خدا نے بھیجا ہے۔

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :28
اس جامع فقرے کے کئی مطلب ہیں :
ایک مطلب یہ ہے کہ میں ان ساری گروہ بندیوں سے الگ رہ کر بے لاگ انصاف پسندی اختیار کرنے پر مامور ہوں ۔ میرا کام یہ نہیں ہے کہ کسی گروہ کے حق میں اور کسی کے خلاف تعصب برتوں ۔ میرا سب انسانوں سے یکساں تعلق ہے ، اور وہ ہے سراسر عدل و انصاف کا تعلق۔ جس کی جو بات حق ہے ، میں اس کا ساتھی ہوں ، خواہ وہ غیروں کا غیر ہی کیوں نہ ہو ۔ اور جس کی جو بات حق کے خلاف ہے میں اس کا مخالف ہوں ، خواہ وہ میرا قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو ۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ میں جس حق کو تمہارے سامنے پیش کرنے پر مامور ہوں اس میں کسی کے لیے بھی کوئی امتیاز نہیں ہے ، بلکہ وہ سب کے لیے یکساں ہے۔ اس میں اپنے اور غیر ، بڑے اور چھوٹے ، غریب اور امیر ، شریف اور کمین کے لیے الگ الگ حقوق نہیں ہیں ، بلکہ جو کچھ ہے وہ سب کے لیے حق ہے ، جو گناہ ہے وہ سب کے لیے گناہ ہے ، جو حرام ہے وہ سب کے لیے حرام ہے ، اور جو جرم ہے وہ سب کے لیے جرم ہے۔ اس بے لاگ ضابطے میں میری اپنی ذات کے لیے بھی کوئی استثناء نہیں ۔
تیسرا مطلب یہ ہے کہ میں دنیا میں عدل قائم کرنے پر مامور ہوں ۔ میرے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے درمیان انصاف کروں ، اور ان بے اعتدالیوں اور بے انصافیوں کا خاتمہ کر دوں جو تمہاری زندگیوں میں اور تمہارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں ۔
ان تین مطالب کے علاوہ اس فقرے کا ایک چوتھا مطلب بھی ہے جو مکہ معظمہ میں نہ کھلا تھا مگر ہجرت کے بعد کھل گیا ، اور وہ یہ ہے کہ میں خدا کا مقرر کیا ہوا قاضی اور جج ہوں ، تمہارے درمیان انصاف کرنا میری ذمہ داری ہے۔

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :29
یعنی ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے عمل کا خود ذمہ دار و جوابدہ ہے۔ تم اگر نیکی کرو گے تو اس کا پھل ہمیں نہیں پہنچ جائے گا، بلکہ تم ہی اس سے متمتّع ہو گے۔ اور ہم اگر برائی کریں گے تو اس کی پاداش میں تم نہیں پکڑے جاؤ گے ، بلکہ ہمیں خود ہی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ یہی بات سورہ بقرہ ، آیت 139، سورہ یونس، آیت 41 ، سورہ ہود، آیت 35، اور سورہ قصص ، آیت 55 میں اس سے پہلے ارشاد ہو چکی ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ، حاشیہ ۱۲۹، جلد دوم، یونس، حاشیہ ٤۹، ہود، حاشیہ ۳۹، القصص، حاشیہ ۷۷)

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :30
یعنی معقول دلائل سے بات سمجھانے کا جو حق تھا وہ ہم نے ادا کر دیا اب خواہ مخواہ تو تو میں میں کرنے سے کیا حاصل۔ تم اگر جھگڑا کرو بھی تو ہم تم سے جھگڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔


سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :31
یہ اشارہ ہے اس صورت حال کی طرف جو مکے میں اس وقت آئے دن پیش آ رہی تھی۔ جہاں کسی کے متعلق لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ وہ مسلمان ہو گیا ہے ، ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ، مدتوں اس کی جان ضیق میں کیے رکھتے ، نہ گھر میں اسے چین لینے دیا جاتا نہ محلے اور برادری میں ، جہاں بھی وہ جاتا ایک نہ ختم ہونے والی بحث چھڑ جاتی جس کا مدعا یہ ہوتا کہ کسی طرح وہ محمد ﷺ کا ساتھ چھوڑ کر اسی جاہلیت میں پلٹ آئے جس سے وہ نکلا ہے۔

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :32
میزان سے مراد اللہ کی شریعت ہے جو ترازو کی طرح تول کر صحیح اور غلط ، حق اور باطل ، ظلم اور عدل، راستی اور ناراستی کا فرق واضح کر دیتی ہے۔ اوپر نبی ﷺ کی زبان سے یہ کہلوایا گیا تھا کہ : اُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ (مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان انصاف کروں )۔ یہاں بتا دیا گیا کہ اس کتاب پاک کے ساتھ وہ میزان آ گئی ہے جس کے ذریعہ سے یہ انصاف قائم کیا جائے گا۔

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :33
یعنی جس کو سیدھا ہونا ہے بلا تاخیر سیدھا ہو جائے۔ فیصلے کی گھڑی کو دور سمجھ کر ٹالنا نہیں چاہیے۔ ایک سانس کے متعلق بھی آدمی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے بعد دوسرے سانس کی اسے مہلت ضرور ہی مل جائے گی۔ ہر سانس آخری سانس ہو سکتا ہے۔


سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :34
اصل میں لفظ لَطِیْفٌ استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم " مہربان " سے ادا نہیں ہوتا۔ اس لفظ میں دو مفہوم شامل ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ اپنے بندوں پر بڑی شفقت و عنایت رکھتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ بڑی باریک بینی کے ساتھ ان کی دقیق ترین ضروریات پر بھی نگاہ رکھتا ہے جن تک کسی کی نگاہ نہیں پہنچ سکتی، اور انہیں اس طرح پورا کرتا ہے کہ وہ خود بھی محسوس نہیں کرتے کہ ہماری کونسی ضرورت کب کس نے پوری کر دی۔ پھر یہاں بندوں سے مراد محض اہل ایمان نہیں ، بلکہ تمام بندے ہیں ، یعنی اللہ کا یہ لطف اس کے سب بندوں پر عام ہے۔

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :35
مطلب یہ ہے کہ اس لطیف عام کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ سب بندوں کو سب کچھ یکساں دے دیا جائے۔ اگرچہ وہ اپنے خزانوں سے دے سب ہی کو رہا ہے ، مگر اس عطا اور دین میں یکسانیت نہیں ہے۔ کسی کو کوئی چیز دی ہے تو کسی دوسرے کو کوئی اور چیز۔ کسی کو ایک چیز زیادہ دی ہے تو کسی اور کو کوئی دوسری چیز فراوانی کے ساتھ عطا فرما دی ہے۔

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :36
یعنی اس کی عطا و بخشش کا یہ نظام اس کے اپنے زور پر قائم ہے۔ کسی کا یہ بل بوتا نہیں ہے کہ اسے بدل سکے ، یا زبردستی اس سے کچھ لے سکے ، یا کسی کو دینے سے اس کو روک سکے ۔