Saiban
Politcal Worker (100+ posts)
تاریخ کا ایک ایک ورق الٹ پلٹ کر دیکھ لوں ،مجھے نہیں لگتا اللہ نے کبھی کسی ملک ،کسی قوم پر ایسی مصیبت نازل کی ہو گی جیسی پاکستان پر ضیا الحق کی شکل میں کی۔بد دیانت،گھمنڈی،خائن،بزدل،جھوٹے اسطرح کے حکمران دنیا میں آتے جاتے رہتے ہیں کبھی قوم کو تباہ کرتے ہیں کبھی قوم انکو تباہ کر دیتی ہے لیکن ایک حاکم جس نے معاشرے کی بنیادوں پر ایسا گہرا اثر ڈالا ہو کہ دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی ہم ان سے جان نہ چھڑوا پا رہے ہوں شاید ہی کوئی اور ہو۔
اداروں میں اقربا پروری،کرپشن،منہ پر داڑھی ،سر پر ٹوپی ہونے کے باوجود جھوٹ کی حمایت ،طاقتور کے آگے جھکنا اور ایسا جھکنا کہ نسلوں تک جھکے ہی جانا ،اسلام کو ذاتی مفادات کیلیے استعمال کرنا ،پاکستانی معاشرے میں یہ برایئاں اس قدر وسیع پیمانے پر اسی کی دہائی سے پہلے موجود نہیں۔
ممتاز مفتی کی کسی کتاب میں پڑھا تھا انھوں نے غالبا قدرت اللہ شہاب سے دریافت کیا "قدرت تم نے اسلام کی سب سے بڑی خدمت کیا کی؟" جس پر قدرت نے جواب دیا "میں نے اسلام کو کبھی ذاتی فائدے کیلیے استعمال نہیں کیا"۔مذہب کو ذاتی مفاد میں استعمال کر کہ ہم دراصل اسکی شکل بگاڑ رہے ہوتے ہیں۔اسی لیے میں سوچتی ہوں اگر اسی کی دہائی میں بنے یہ مذہبی منافقین نہ ہوتے تو شاید پاکستان پر آج لنڈے کے لبڑلز کا عذاب بھی نازل نہ ہوتا۔کیونکہ ان مذہبی منافقین کی کوتاہیوں کی وجہ سے ایسے لوگوں کو بہت سے ایشوز بنانے کے مواقع ملتے گئے۔
ٖضیا کے دور میں ایک مولوی صاحب تھے ،نام نہیں لکھ رہی تاکہ کسی طبقے کے جذبات مجروح نہ ہو ۔لیکن ہمارے بڑوں کی انکے ساتھ ہمسائیگی تھی۔ مولوی صاحب کا آرمی میں گہرا اثرو رسوخ تھا۔فوج کے کئی خاندان انکے معتقد تھے۔بڑے سے بڑا مسئلہ درپیش ہو جائے مولوی صاحب محلے کی کسی عورت کی بات نہ سنتے تھے نہ ہی عورتوں کو دم درود کرتے تھے ۔
لیکن جب کسی جرنیل یا کور کمانڈر کے گھر کی خواتین کو کوئی تکلیف ہوتی تو مولوی صاحب انکے سر پر ہاتھ رکھ کر دم کرتے۔میں آج تک سمجھنے سے قاصر ہوں یہ کونسا اسلام ہے جو طاقتور کیلیے الگ قوانین رکھتا ہے۔اسلام تو ایسا عالمگیر مذہب ہے جسکے قوانین تا قیامت کسی معاشرے ،کسی زمانے کیلیے نہیں بدلیں گے تو پھر ان منافقین کی اسلام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ پر فتوی تو بنتا ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سب پر فتوے دینے والے تو یہ خود ہیں انکو کون پوچھے۔
فتوے کی بات چھڑ گئی ہے تو یاد آیا کل مریم نواز کو این اے 120 میں جمعیت علمائے پاکستان کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔بے نظیر بے چاری بھی قبر میں پڑی سوچتی ہوں گی آخر میرا ایسا بھی کیا قصور تھا کہ میری حکمرانی حرام اور مریم کی حلال ہے۔جب سے یہ خبر سنی ہے دل میں ایک ہی خواہش ابھر رہی ہے کاش میں رپوٹر ہوتی اور حمایت کے اعلان کے وقت ان با ریش بزرگ سے پوچھتی کہ حضور مریم نواز اور بے نظیر کی نسوانیت میں کوئی فرق ہے کیا؟
یہ مذہبی جماعتیں نہیں یہ منافقین کی جماعتیں ہیں صاحبو!مذہب کے اصول پکے ہوتے ہیں ایسے نہیں ہو سکتا کہ بھٹو کی بیٹی کیلیے اور ہوں اور نواز شریف کی بیٹی کیلیے اور،یہ بھی ممکن نہیں کہ معاشرہ ماڈرن ہوتا جائے تو اصول بھی بدلتے جائیں۔یا تو یہ تب غلط تھے یا آج غلط ہیں۔اور اگر تب غلط تھے تو کم از کم شریعت کے بجائے مفاد پر فتوے دینے پر ایک معافی ہی مانگ لیں۔
اداروں میں اقربا پروری،کرپشن،منہ پر داڑھی ،سر پر ٹوپی ہونے کے باوجود جھوٹ کی حمایت ،طاقتور کے آگے جھکنا اور ایسا جھکنا کہ نسلوں تک جھکے ہی جانا ،اسلام کو ذاتی مفادات کیلیے استعمال کرنا ،پاکستانی معاشرے میں یہ برایئاں اس قدر وسیع پیمانے پر اسی کی دہائی سے پہلے موجود نہیں۔
ممتاز مفتی کی کسی کتاب میں پڑھا تھا انھوں نے غالبا قدرت اللہ شہاب سے دریافت کیا "قدرت تم نے اسلام کی سب سے بڑی خدمت کیا کی؟" جس پر قدرت نے جواب دیا "میں نے اسلام کو کبھی ذاتی فائدے کیلیے استعمال نہیں کیا"۔مذہب کو ذاتی مفاد میں استعمال کر کہ ہم دراصل اسکی شکل بگاڑ رہے ہوتے ہیں۔اسی لیے میں سوچتی ہوں اگر اسی کی دہائی میں بنے یہ مذہبی منافقین نہ ہوتے تو شاید پاکستان پر آج لنڈے کے لبڑلز کا عذاب بھی نازل نہ ہوتا۔کیونکہ ان مذہبی منافقین کی کوتاہیوں کی وجہ سے ایسے لوگوں کو بہت سے ایشوز بنانے کے مواقع ملتے گئے۔
ٖضیا کے دور میں ایک مولوی صاحب تھے ،نام نہیں لکھ رہی تاکہ کسی طبقے کے جذبات مجروح نہ ہو ۔لیکن ہمارے بڑوں کی انکے ساتھ ہمسائیگی تھی۔ مولوی صاحب کا آرمی میں گہرا اثرو رسوخ تھا۔فوج کے کئی خاندان انکے معتقد تھے۔بڑے سے بڑا مسئلہ درپیش ہو جائے مولوی صاحب محلے کی کسی عورت کی بات نہ سنتے تھے نہ ہی عورتوں کو دم درود کرتے تھے ۔
لیکن جب کسی جرنیل یا کور کمانڈر کے گھر کی خواتین کو کوئی تکلیف ہوتی تو مولوی صاحب انکے سر پر ہاتھ رکھ کر دم کرتے۔میں آج تک سمجھنے سے قاصر ہوں یہ کونسا اسلام ہے جو طاقتور کیلیے الگ قوانین رکھتا ہے۔اسلام تو ایسا عالمگیر مذہب ہے جسکے قوانین تا قیامت کسی معاشرے ،کسی زمانے کیلیے نہیں بدلیں گے تو پھر ان منافقین کی اسلام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ پر فتوی تو بنتا ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سب پر فتوے دینے والے تو یہ خود ہیں انکو کون پوچھے۔
فتوے کی بات چھڑ گئی ہے تو یاد آیا کل مریم نواز کو این اے 120 میں جمعیت علمائے پاکستان کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔بے نظیر بے چاری بھی قبر میں پڑی سوچتی ہوں گی آخر میرا ایسا بھی کیا قصور تھا کہ میری حکمرانی حرام اور مریم کی حلال ہے۔جب سے یہ خبر سنی ہے دل میں ایک ہی خواہش ابھر رہی ہے کاش میں رپوٹر ہوتی اور حمایت کے اعلان کے وقت ان با ریش بزرگ سے پوچھتی کہ حضور مریم نواز اور بے نظیر کی نسوانیت میں کوئی فرق ہے کیا؟
یہ مذہبی جماعتیں نہیں یہ منافقین کی جماعتیں ہیں صاحبو!مذہب کے اصول پکے ہوتے ہیں ایسے نہیں ہو سکتا کہ بھٹو کی بیٹی کیلیے اور ہوں اور نواز شریف کی بیٹی کیلیے اور،یہ بھی ممکن نہیں کہ معاشرہ ماڈرن ہوتا جائے تو اصول بھی بدلتے جائیں۔یا تو یہ تب غلط تھے یا آج غلط ہیں۔اور اگر تب غلط تھے تو کم از کم شریعت کے بجائے مفاد پر فتوے دینے پر ایک معافی ہی مانگ لیں۔
Last edited by a moderator: