student
Senator (1k+ posts)
تحریر۔انجم مجید
تنگ دستی گرچہ ہوغالب
تندرستی ہزار نعمت ہے
کرپشن پر لکھے جانے والے کالمز کی سیریز میں آج ہم محکمہ صحت کی کارستانیوں کا جایزہ لیں گے کہ کیسے اس قوم کو بیماریوں کی دلدل میں دھکیلا جارہا ہے اور یہ کام کویی ان پڑھ جاہل گنوار نہیں کررہابلکہ اس ملک کا پڑھا لکھا طبقہ یہ فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔ ملک کی تقریبا آدھی آبادی ہیپاٹایٹس اور ٹی بی جیسی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہے۔ان دو بیماریوں کا ذکر میں اس لیے کررہا ہوں کیونکہ یہ اچھوت کی بیماریاں ہیں جو بہت جلد ایک انسان سے دوسرے کو لگ جاتی ہیں ورنہ تو اس کے علاوہ گردوں کی بیماری؛شوگر؛ایڈزاور کیی دوسری بیماریاں بھی ہمارے ملک میں بہت عام ہیں۔یہ نہیں کہ یہ بیماریاں کسی دوسرے ملک میں نہیں مگر وہاں عوامی سہولیات اتنی ہیں کہ کم سے کم آمدن والا شخص بھی علاج کروا سکتا ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں تو علاج ویسے ہی بالکل مفت ہے۔حکومت پاکستان بھی اپنے عوام کیلے صحت کی سہولتیں باہم پہنچاتی ہے گو یہ سہولتیں ناکافی ہیں مگر جب ہم عوام کی طرف سے دیے گے ٹیکس کی شرح کو دیکھیں تو یہ معقول لگنے لگتی ہیں۔ہریونین کونسل میں ایک عدد بنیادی مرکزصحت قایم ہے اور ذرا بڑے قصبہ میں رورل ہیلتھ سنٹر قایم ہیں جن میں صحت کی چند بنیادی سہولتیں بہرحال عوام تک پہنچ رہی ہیں مگر یہ صورت حل سارے ملک میں نہیں ہے ابھی بھی ملک کے کہی علاقے ایسے ہیں جہاں ان مراکز کا ہونا تو درکنار ایک داکٹر بھی میسر نہیں۔خیر میرا مقصد کویی اعدادوشمار بیان کرنا نہیں میں تو جو ناکافی سہولتیں جہاں مل رہی ہیں وہاں ان مین کرپشن کا کیسا بازار گرم ہے اسے منظر عام پر لانا ہے ۔ارباب و اختیار کو تو پتہ ہی ہوتا ہے کہ کیسے ان معاملات میں کرپشن کی جاتی ہے کیونکہ وہ تو اس میں باقاعدہ کمیشن لیتے ہیں میرا کام تو عام آدمی تک اس کی معلومات پہنچانا ہے کہ کیسے یہ لوگ کرپشن کے تانے بانے بنتے ہیں تاکہ کویی صاحب درددل اس ناسور کو ختم کرنے کےلیے آگے آ جاے اور چراغ سے چراغ جلتے جایں اور پھر کرپشن کے اس ناسور کے خلاف کویی قومی تحریک پیدا ہونے کے امکانات بن جایں۔
سرکاری اور پراییویٹ ہسپتالوں میں کس طرح عوام کی درگت بنایی جاتی ہے اس کا تجربہ تو کافی لوگوں کو ہوگا مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ جہاں عوام کا خون نچوڑا جاتا ہے وہاں ایک بیماری کے علاج کے لیے آنے والے بچارے شخص کو دو بیماریاں ساتھ دے کر واپس بھیجا جاتا ہے۔ایک ہی سرنج سے کیی لوگوں کو انجیکشن لگایا جاتا ہے یا پھرخون ٹیسٹ کے لیے ایک ہی سرنج کا باربار استعمال بیماریوں کے پھیلاو کی وجہ بن رہا ہے مگر عام آدمی شعور اورمعلومات کی کمی کی وجہ سے اس کا شکار ہوجاتا ہے۔سواے چند اچھے پرایویٹ اور چند بڑے سرکاری ہسپتالوں میں توان باتوں کا خیال رکھا جاتا ہو مگر اکثرہسپتالوں اور پرایویٹ کلینکوں میں یہ کام بڑی بے شرمی کے ساتھ جاری ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں نوے فیصد ڈاکٹر ڈیوٹی ٹایم سے ایک دو گھنٹے لیٹ آنا اپنی عزت اور معتبری کا باعث سمجھتے ہیں خواہ مریض بیچارا درد سے مررہا ہو۔سرکاری ہسپتالوں میں حکومت جو ادویات مہیا کرتی ہے وہ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف اپنے تعلق والے لوگوں کو نوازنے میں سرف کرتے ہیں اور اگر اس کے بعد کویی ڈسپرین یا پیراسیٹا مول کی گولی بچ جاے تو وہ غریب عوام کے حصے آتی ہےورنہ اوپر سے نیچے تک جس کا بس چلتا ہے وہ غریب کو (گولی) دینے پر تلا ہوا ہے۔
پرایویٹ میڈیسن کمپنیوں کو کویی پوچھنے والا نہیں۔ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ انہیں دیوتاوں اور سرکاری اہلکاروں کی وجہ سے ہورہا ہے جو اپنا کمیشن لیکر ان کمپنیوں کو لوٹ مارکی کھلی چھٹی دے دیتے ہیں۔جو کمپنیاں ڈاکٹرز حضرات کو زیادہ کمیشن دیتی ہیں داکٹرز انہیں کمپنیوں کی دواییاں تجویز کرتے ہیں خواہ وہ مہنگی ہوں یا پھر ملاوٹی۔یہ کمپنیاں چونکہ ڈاکٹرز سے لیکر محکمہ صحت کے منسٹر تک سبھی کو نوازتی ہیں اس لیے ان کے خلاف کویی کاروایی نہیں ہوتی۔یہ کرپشن تو خیر بڑے پیمانے کی ہے ہم اس سے ذرا نیچے آکرچھوٹے پیمانے کی کرپشن کو ذرا ایک نظر دیکھتے ہیں گو اس بڑی کرپشن کا اثر بالاواسطہ نیچے تک آتا ہے مگر نیچے والی کرپشن تو سیدھی عام آدمی کو متاثر کرتی ہے۔بنیادی مراکز صحت اور رورل ہیلتھ سنٹر کے ڈاکٹرز جہاں ملنے والی سرکاری ادویات اپنے ذاتی کلینکوں پر لے جاتے ہیں وہاں ان مراکز کے ڈسپنسرز؛لیڈی ہیلتھ وزیٹر ختی کہ چوکیدار تک نے اپنے اپنے کلینک کھولے ہوے ہیں اور ان کے کلینکس کی ادویات انہیں سرکاری مراکز سے آتی ہیں۔ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ان ساری کرپشن کو روکنے کا مجاز ہے مگر وہ اپنے دفتر سے باہر نکل کر یہ سارے معاملات دیکھنے سے قاصر ہے کیونکہ اس کا ماہانہ وظیفہ بھی انہیں مراکز پر لگا ہوتا ہے۔یہ ساری خرابیاں ایک چھوٹے سے حل کی طلب گار ہیں۔
مسلمان ہونے کے ناطے ہم سب سے پہلے اپنے دین کا ان چیزوں کے بارے حل دیکھتے ہیں۔(جس نے ایک جان بچایی اس نے ساری انسانیت کو بچایا) القرآن۔اور حدیث کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم سے نہیں۔پہلے ہم ڈاکٹرز کا رویہ دیکھتے ہیں کہ خدا کے بعد جن کے ہاتھوں میں انسان کی جان ہے کیا وہ یہ ذمہ داری بخوبی نبھا رہے ہیں تو اس کا جواب نفی میں آے گا۔ہم اخبارات میں اکثر ڈاکٹرز حضرات کی لاپراہی سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں کی کہانیاں پڑتے ہیں۔یہ جنہں دیوتا کا درجہ حاصل ہے کیا وہ شیطانی راہ پر تو نہیں؟؟؟میری یہ راے نوے فیصد کے بارے میں ہے دس فیصد وہی ہیں جن کی بدولت آج چند غریبوں کو کچھ مل رہا ہے۔ڈاکٹراگربیماری کی صیح تشخیص کربھی لے تو بندہ جعلی ادویات کی وجہ سے اپنی جان گنوا بیٹھتا ہے ایسی ہزاروں مثالیں آپ اخبارات کی خبروں میں سے دے سکتے ہیں جبکہ اس کے متعلق ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وصلم کی یہ حدیث کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم سے نہیں؛کبھی اس پر غور کیا ؟؟؟کہ ہم امت محمدی بھی ہے یا اس سے خارج کردیے گے ہیں ہمارے علماء کو اگر فرقہ ورایت کے فتووں سے فرصت ہو تو ذرا اس حدیث کو بنیاد بنا کر بھی کچھ فتوے دیں تو ہمیں ہماری مسلمانی کا پتہ چل جاے۔اور دنیاوی حل وہی کہ ہم تھوڑی سی انسانیت اپنے اندر پیدا کرلیں۔؟؟؟آخر میں ایک گذارش کہ زندگی میں ایک دفعہ قرآن کو ترجمے کے ساتھ ضرور پڑھیں۔
Source: http://rtcnews.com/محکمہ-صحت/
تنگ دستی گرچہ ہوغالب
تندرستی ہزار نعمت ہے
کرپشن پر لکھے جانے والے کالمز کی سیریز میں آج ہم محکمہ صحت کی کارستانیوں کا جایزہ لیں گے کہ کیسے اس قوم کو بیماریوں کی دلدل میں دھکیلا جارہا ہے اور یہ کام کویی ان پڑھ جاہل گنوار نہیں کررہابلکہ اس ملک کا پڑھا لکھا طبقہ یہ فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔ ملک کی تقریبا آدھی آبادی ہیپاٹایٹس اور ٹی بی جیسی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہے۔ان دو بیماریوں کا ذکر میں اس لیے کررہا ہوں کیونکہ یہ اچھوت کی بیماریاں ہیں جو بہت جلد ایک انسان سے دوسرے کو لگ جاتی ہیں ورنہ تو اس کے علاوہ گردوں کی بیماری؛شوگر؛ایڈزاور کیی دوسری بیماریاں بھی ہمارے ملک میں بہت عام ہیں۔یہ نہیں کہ یہ بیماریاں کسی دوسرے ملک میں نہیں مگر وہاں عوامی سہولیات اتنی ہیں کہ کم سے کم آمدن والا شخص بھی علاج کروا سکتا ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں تو علاج ویسے ہی بالکل مفت ہے۔حکومت پاکستان بھی اپنے عوام کیلے صحت کی سہولتیں باہم پہنچاتی ہے گو یہ سہولتیں ناکافی ہیں مگر جب ہم عوام کی طرف سے دیے گے ٹیکس کی شرح کو دیکھیں تو یہ معقول لگنے لگتی ہیں۔ہریونین کونسل میں ایک عدد بنیادی مرکزصحت قایم ہے اور ذرا بڑے قصبہ میں رورل ہیلتھ سنٹر قایم ہیں جن میں صحت کی چند بنیادی سہولتیں بہرحال عوام تک پہنچ رہی ہیں مگر یہ صورت حل سارے ملک میں نہیں ہے ابھی بھی ملک کے کہی علاقے ایسے ہیں جہاں ان مراکز کا ہونا تو درکنار ایک داکٹر بھی میسر نہیں۔خیر میرا مقصد کویی اعدادوشمار بیان کرنا نہیں میں تو جو ناکافی سہولتیں جہاں مل رہی ہیں وہاں ان مین کرپشن کا کیسا بازار گرم ہے اسے منظر عام پر لانا ہے ۔ارباب و اختیار کو تو پتہ ہی ہوتا ہے کہ کیسے ان معاملات میں کرپشن کی جاتی ہے کیونکہ وہ تو اس میں باقاعدہ کمیشن لیتے ہیں میرا کام تو عام آدمی تک اس کی معلومات پہنچانا ہے کہ کیسے یہ لوگ کرپشن کے تانے بانے بنتے ہیں تاکہ کویی صاحب درددل اس ناسور کو ختم کرنے کےلیے آگے آ جاے اور چراغ سے چراغ جلتے جایں اور پھر کرپشن کے اس ناسور کے خلاف کویی قومی تحریک پیدا ہونے کے امکانات بن جایں۔
سرکاری اور پراییویٹ ہسپتالوں میں کس طرح عوام کی درگت بنایی جاتی ہے اس کا تجربہ تو کافی لوگوں کو ہوگا مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ جہاں عوام کا خون نچوڑا جاتا ہے وہاں ایک بیماری کے علاج کے لیے آنے والے بچارے شخص کو دو بیماریاں ساتھ دے کر واپس بھیجا جاتا ہے۔ایک ہی سرنج سے کیی لوگوں کو انجیکشن لگایا جاتا ہے یا پھرخون ٹیسٹ کے لیے ایک ہی سرنج کا باربار استعمال بیماریوں کے پھیلاو کی وجہ بن رہا ہے مگر عام آدمی شعور اورمعلومات کی کمی کی وجہ سے اس کا شکار ہوجاتا ہے۔سواے چند اچھے پرایویٹ اور چند بڑے سرکاری ہسپتالوں میں توان باتوں کا خیال رکھا جاتا ہو مگر اکثرہسپتالوں اور پرایویٹ کلینکوں میں یہ کام بڑی بے شرمی کے ساتھ جاری ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں نوے فیصد ڈاکٹر ڈیوٹی ٹایم سے ایک دو گھنٹے لیٹ آنا اپنی عزت اور معتبری کا باعث سمجھتے ہیں خواہ مریض بیچارا درد سے مررہا ہو۔سرکاری ہسپتالوں میں حکومت جو ادویات مہیا کرتی ہے وہ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف اپنے تعلق والے لوگوں کو نوازنے میں سرف کرتے ہیں اور اگر اس کے بعد کویی ڈسپرین یا پیراسیٹا مول کی گولی بچ جاے تو وہ غریب عوام کے حصے آتی ہےورنہ اوپر سے نیچے تک جس کا بس چلتا ہے وہ غریب کو (گولی) دینے پر تلا ہوا ہے۔
پرایویٹ میڈیسن کمپنیوں کو کویی پوچھنے والا نہیں۔ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ انہیں دیوتاوں اور سرکاری اہلکاروں کی وجہ سے ہورہا ہے جو اپنا کمیشن لیکر ان کمپنیوں کو لوٹ مارکی کھلی چھٹی دے دیتے ہیں۔جو کمپنیاں ڈاکٹرز حضرات کو زیادہ کمیشن دیتی ہیں داکٹرز انہیں کمپنیوں کی دواییاں تجویز کرتے ہیں خواہ وہ مہنگی ہوں یا پھر ملاوٹی۔یہ کمپنیاں چونکہ ڈاکٹرز سے لیکر محکمہ صحت کے منسٹر تک سبھی کو نوازتی ہیں اس لیے ان کے خلاف کویی کاروایی نہیں ہوتی۔یہ کرپشن تو خیر بڑے پیمانے کی ہے ہم اس سے ذرا نیچے آکرچھوٹے پیمانے کی کرپشن کو ذرا ایک نظر دیکھتے ہیں گو اس بڑی کرپشن کا اثر بالاواسطہ نیچے تک آتا ہے مگر نیچے والی کرپشن تو سیدھی عام آدمی کو متاثر کرتی ہے۔بنیادی مراکز صحت اور رورل ہیلتھ سنٹر کے ڈاکٹرز جہاں ملنے والی سرکاری ادویات اپنے ذاتی کلینکوں پر لے جاتے ہیں وہاں ان مراکز کے ڈسپنسرز؛لیڈی ہیلتھ وزیٹر ختی کہ چوکیدار تک نے اپنے اپنے کلینک کھولے ہوے ہیں اور ان کے کلینکس کی ادویات انہیں سرکاری مراکز سے آتی ہیں۔ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ان ساری کرپشن کو روکنے کا مجاز ہے مگر وہ اپنے دفتر سے باہر نکل کر یہ سارے معاملات دیکھنے سے قاصر ہے کیونکہ اس کا ماہانہ وظیفہ بھی انہیں مراکز پر لگا ہوتا ہے۔یہ ساری خرابیاں ایک چھوٹے سے حل کی طلب گار ہیں۔
مسلمان ہونے کے ناطے ہم سب سے پہلے اپنے دین کا ان چیزوں کے بارے حل دیکھتے ہیں۔(جس نے ایک جان بچایی اس نے ساری انسانیت کو بچایا) القرآن۔اور حدیث کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم سے نہیں۔پہلے ہم ڈاکٹرز کا رویہ دیکھتے ہیں کہ خدا کے بعد جن کے ہاتھوں میں انسان کی جان ہے کیا وہ یہ ذمہ داری بخوبی نبھا رہے ہیں تو اس کا جواب نفی میں آے گا۔ہم اخبارات میں اکثر ڈاکٹرز حضرات کی لاپراہی سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں کی کہانیاں پڑتے ہیں۔یہ جنہں دیوتا کا درجہ حاصل ہے کیا وہ شیطانی راہ پر تو نہیں؟؟؟میری یہ راے نوے فیصد کے بارے میں ہے دس فیصد وہی ہیں جن کی بدولت آج چند غریبوں کو کچھ مل رہا ہے۔ڈاکٹراگربیماری کی صیح تشخیص کربھی لے تو بندہ جعلی ادویات کی وجہ سے اپنی جان گنوا بیٹھتا ہے ایسی ہزاروں مثالیں آپ اخبارات کی خبروں میں سے دے سکتے ہیں جبکہ اس کے متعلق ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وصلم کی یہ حدیث کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم سے نہیں؛کبھی اس پر غور کیا ؟؟؟کہ ہم امت محمدی بھی ہے یا اس سے خارج کردیے گے ہیں ہمارے علماء کو اگر فرقہ ورایت کے فتووں سے فرصت ہو تو ذرا اس حدیث کو بنیاد بنا کر بھی کچھ فتوے دیں تو ہمیں ہماری مسلمانی کا پتہ چل جاے۔اور دنیاوی حل وہی کہ ہم تھوڑی سی انسانیت اپنے اندر پیدا کرلیں۔؟؟؟آخر میں ایک گذارش کہ زندگی میں ایک دفعہ قرآن کو ترجمے کے ساتھ ضرور پڑھیں۔
Source: http://rtcnews.com/محکمہ-صحت/