(یہ چند سال پرانی تحریر ہے لیکن ہے بہت دلچپ اس لیے یہاں آپ سب کے ساتھ شئیر کر رہا ہو )
واشنگٹن—آج کل میاں نواز شریف کا دور دورہ ہے۔ٹی وی،اخبار،ریڈیو ، آن لائن،آپ اُن سے گریز نہیں کر سکتے۔ہر جگہ وہ براجمان ہیں۔اور کیوں نہ ہوں۔نئے الیکشن کی آمد آمد ہے اور انہیں وزیراعظم کی کرسی قریب نظر آرہی ہے۔ پہلے بھی دو بار وہ اس عہدے پر رہ چکے ہیں۔
لیکن، میاں صاحب چاہے وزیراعظم ہوں ،چاہےجیل میں ہوں،سعودي عرب میں جلا وطن ہوں یا غیر ملکی دورے پر ، اُن کا وکھرا سٹائل ہے۔خاص طور پر اُن کاکھانے کا شوق ہر جگہ ایک سا رہتا ہے اور اِس معاملے میں وہ خالص دیسی، بلکہ لاہوری ہیں اور لاہوری کو کچھ ملے نہ ملے ،کھانے کو اچھا ملنا چاہئیے۔
اس حوالے سے مجھےمیاں صاحب کا ایک واقعہ یاد آیا۔جب وہ پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تو اپنے مختصر دورِ ٕمدت کے بالکل آخری دنوں میں جرمنی تشریف لائے،کیونکہ انکی وطن واپسی پر صدر اسحاق خان نے انکا تختہ الٹ دیا تھا۔
میں اتفاق سے اُن دنوں جرمنی کے شہر
DUSSOLDORF,لیکن، میاں صاحب چاہے وزیراعظم ہوں ،چاہےجیل میں ہوں،سعودي عرب میں جلا وطن ہوں یا غیر ملکی دورے پر ، اُن کا وکھرا سٹائل ہے۔خاص طور پر اُن کاکھانے کا شوق ہر جگہ ایک سا رہتا ہے اور اِس معاملے میں وہ خالص دیسی، بلکہ لاہوری ہیں اور لاہوری کو کچھ ملے نہ ملے ،کھانے کو اچھا ملنا چاہئیے۔
اس حوالے سے مجھےمیاں صاحب کا ایک واقعہ یاد آیا۔جب وہ پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تو اپنے مختصر دورِ ٕمدت کے بالکل آخری دنوں میں جرمنی تشریف لائے،کیونکہ انکی وطن واپسی پر صدر اسحاق خان نے انکا تختہ الٹ دیا تھا۔
میں اتفاق سے اُن دنوں جرمنی کے شہر
میں ،
PIA کی جانب سے منیجر پوسٹ تھا۔آپ ٕمیں سے بہت سے لوگ سوچ رہے ہونگے کہ خبریں پڑھتے پڑھتے میں
PIA کہاں پہنچ گیا تو جناب عرض یہ ہے کہ میں اگست 1980ء سے لے کر 2004ء تک پی آئی اے میں ملازم رہا اور 1990ء میں میری پہلی پوسٹنگ جر منی اور دوسری2000ء میں واشنگٹن ہوئی ۔لیکن، ٹی وی اور ریڈیو پر خبریں پڑھنا میرا ایک اضافی شوق اور مشغلہ تھا۔
تو ذکر ہو رہا تھا،ڈوسلڈورف ،جرمنی کا،جہاں نواز شریف لانے والے تھے۔یہ جرمنی کے
West phalia تو ذکر ہو رہا تھا،ڈوسلڈورف ،جرمنی کا،جہاں نواز شریف لانے والے تھے۔یہ جرمنی کے
صوبے کا دارلحکومت اور ایک خوبصورت شہر تھا،جو رائن دریا کے کنارے آباد ایک تجارتی مرکز تھا۔یہاں کی ایک مشہور سڑک
Konings Allee تھی یعنی بادشاہوں کی سڑک جس پر دنیا کے مشہور سٹورز تھے جہاں معروف برانڈز کی اشیا بڑے مہنگے داموں ملتی تھیں۔ دنیا کے امیر ترین لوگ یہاں شاپنگ کے لئے آتے اور اس سڑک پر چہل قدمی کرتے جس کے کنارے جا بجا رنگ برنگ چھتریوں کے نیچے لوگ ،کافی ،آئس کریم اور دوسرے مشروبات سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ہم جیسے لوگ وہاں کی دوکانوں کی ونڈو شاپنگ بڑی آزادی سے اور مفت کرتے تھے اور سوچتے تھے کہ کون لوگ ہونگے جو یہ بیش قیمت اشیا خریدتے ہونگے،ہمیں کیا معلوم تھا کہ ہمارا اپنا وزیراعظم ہی یہاں آجائے گا، ٹہلے گا بھی اور خریداری بھی کرے گا۔
ایک دن صبح ہی صبح دفتر میں ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔دوسری طرف
Bonnایک دن صبح ہی صبح دفتر میں ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔دوسری طرف
سے جو اُس وقت جرمنی کا دارلحکومت تھا،پاکستان کے سفیر جناب مجاہد حسین تھے۔وہ ایک انتہائئ نفیس،صاحبِ علم اور وضع دار شخصیت تھے۔ان کی بیگم بھی ایک باوقار خاتون تھیں۔ان کا گھر بون
Bonn کی ایک خوبصورت جگہ پر تھا ،جہاں ہر وقت مہمانوں کا جمگھٹا رہتا تھا۔کئ مرتبہ انہوں نے ہمیں مہمان بنایا اور میزبانی کا بھی شرف بخشا،خاص طور پر ہمارے بچوں سے مل کروہ بہت خوش ہوتے تھے،جو اُس وقت بہت چھوٹے تھے۔
خیر، ایسے بے وقت ان کا فون ذرا تشویش کا باعث تھا۔میں نے جلدی سے سوال کیا، جناب خیریت۔ کہنے لگے، خیریت نہیں ہے، وزیراعظم آرہے ہیں۔ تیاری کر لیجئے۔
میں نے خوشی اور تعجب سے پوچھا کے کب آرہے ہیں اور میں کیا تیاری کروں؟وہ تو آپ کے پاس آرہے ہیں۔ کہنے لگے نہیں ،وہ آپ کے شہر بھی شاید آجائیں،کیونکہ وہ شاپنگ کے شوقین ہیں۔ لیکن، یہ دورہ نجی نوعیت کا ہو گا اور صرف ان کی فیملی ساتھ ہو گی۔ تو آپ ذرا دیکھ لیجئے گا۔وقت اور تاریخ آپکو بعد میں بتادی جائیگی،مگر اسے صرف اپنے تک رکھیئے گا ،کچھ کنفرم نہیں ہے۔
مجاہد صاحب نہ صرف ایک منجھے ہوئے سفارتکار بلکہ ایک اعلیٰ منتظم بھی تھے اور وہ بہت چھوٹی چھوٹی جزیات پر بھی نظر رکھتے تھے،خاص طور پر ایسے اہم دورے کی وہ خود نگرانی کر رہے تھے۔اور یہ ان کی اعلیٰ سفارتکاری کا کرشمہ تھا کہ سال کے اندر اندر ہی دو وزیراعظم جرمنی کے دورے پر آئے۔پہلے نواز شریف اور پھر بے نظیر بھٹو۔اور دونوں دورے انتہائی کامیاب رہے،یہ دوسری بات کہ دونوں کو اپنے وعدے وفا کرنے کا وقت نہ مل سکا۔
تو جب انہوں نے اس دورے کی اطلاع دی تو ،میں نے کہا کہ مجھے کیا انتظامات کرنے ہوں گے۔کہنے لگے وہ ممکنہ طور پر شام کو اُدھر آئیں گے۔شاید کچھ شاپنگ کریں اور اُس کے بعد آپ انہیں کہیں کھانے پر لیجاسکتے ہیں۔لیکن، خیال رکھئیے کھانا حلال ہونا چاہئیے۔تو آپ مجھے کچھ جگہوں کے نام بھیج دیجئیے،اور ہاں آپکے علاقے میں جتنے
McDonalds خیر، ایسے بے وقت ان کا فون ذرا تشویش کا باعث تھا۔میں نے جلدی سے سوال کیا، جناب خیریت۔ کہنے لگے، خیریت نہیں ہے، وزیراعظم آرہے ہیں۔ تیاری کر لیجئے۔
میں نے خوشی اور تعجب سے پوچھا کے کب آرہے ہیں اور میں کیا تیاری کروں؟وہ تو آپ کے پاس آرہے ہیں۔ کہنے لگے نہیں ،وہ آپ کے شہر بھی شاید آجائیں،کیونکہ وہ شاپنگ کے شوقین ہیں۔ لیکن، یہ دورہ نجی نوعیت کا ہو گا اور صرف ان کی فیملی ساتھ ہو گی۔ تو آپ ذرا دیکھ لیجئے گا۔وقت اور تاریخ آپکو بعد میں بتادی جائیگی،مگر اسے صرف اپنے تک رکھیئے گا ،کچھ کنفرم نہیں ہے۔
مجاہد صاحب نہ صرف ایک منجھے ہوئے سفارتکار بلکہ ایک اعلیٰ منتظم بھی تھے اور وہ بہت چھوٹی چھوٹی جزیات پر بھی نظر رکھتے تھے،خاص طور پر ایسے اہم دورے کی وہ خود نگرانی کر رہے تھے۔اور یہ ان کی اعلیٰ سفارتکاری کا کرشمہ تھا کہ سال کے اندر اندر ہی دو وزیراعظم جرمنی کے دورے پر آئے۔پہلے نواز شریف اور پھر بے نظیر بھٹو۔اور دونوں دورے انتہائی کامیاب رہے،یہ دوسری بات کہ دونوں کو اپنے وعدے وفا کرنے کا وقت نہ مل سکا۔
تو جب انہوں نے اس دورے کی اطلاع دی تو ،میں نے کہا کہ مجھے کیا انتظامات کرنے ہوں گے۔کہنے لگے وہ ممکنہ طور پر شام کو اُدھر آئیں گے۔شاید کچھ شاپنگ کریں اور اُس کے بعد آپ انہیں کہیں کھانے پر لیجاسکتے ہیں۔لیکن، خیال رکھئیے کھانا حلال ہونا چاہئیے۔تو آپ مجھے کچھ جگہوں کے نام بھیج دیجئیے،اور ہاں آپکے علاقے میں جتنے
ہیں ان کے بارے میں پتہ کر لیں کہ وہ کس وقت بند ہوتے ہیں رات کو۔میں نے کہا کیا وہ میکڈانلڈ جائیں گے۔کہنے لگے کہ وہ بھی اور ان کے بچے بھی بہت شوقین ہیں ،اور اکثر وہ رات کا کھانا کھا کر، برگر کھانے جاتے ہیں ۔
تو آپ یہ سب معلومات حاصل کر لیں،پھر آپ سے بات ہوگی۔
جب تک یہ دورہ ہو نہیں گیا،مجاہد صاحب ، کا ہر دوسرے دن فون آتا ، کچھ ہدایات دیتے اور میری جو معلومات ہوتیں میں ان کو بتاتا۔
جیسا کہ میں نے بتایا کہ وہ بہت چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی خیال رکھتے تھے، یہاں تک کہ موسم ،کپڑوں اور جوتوں کے بارے میں بھی خبررکھتے تھے۔ پھر ایک دن پوچھنے لگے کہ آپ لوگ پی آئی اے کی فلا ئٹس کے لئے کھانا کہاں سے لیتے ہیں ۔میں نے کہا کہ فرینکفرٹ میں ہمارا اپنا کچن ہے،اور پاکستانی باورچی ہے جو کھانا پکاتا ہے۔اس پر وہ بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے ،ہمیں آپ کا باورچی اور ایک دیگ چاہئیے ہو گی۔ ایک دیگ اور میاں صاحب کا ایک باورچی فلائٹ پر شاید آجائے۔لیکن، دو ہوں تو اچھا ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ پاکستانی کھاناخود تیار کر والیں۔تو پھر ہوا بھی یہی کہ بون میں ایک پہاڑی کےاوپر بہت خوبصورت قلعہ نما محل تھا،جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ہٹلرکے زیرِ استعمال رہا تھا۔ یہ وزیرِاعظم کی رہائش گاہ تھی اور وہیں سارا کھانا پکتا تھا اور جب وزیرِ اعظم، ان کے وزرا اور عملہ ، سرکاری ڈنر سے واپس آتے تو ایک بہت بڑی میز پر نان،کباب،بکرے کا قورمہ اور دوسرا کھانا سجا ہوتا،جسے سب بہت ذوق و شوق سے کھاتے۔کیونکہ،سرکاری کھانے میں تو مچھلی کے علاوہ انہیں کچھ نہیں ملتا تھا،اس لئے پیٹ بھر کر کھانا گھر آکر کھاتے تھے۔
خیر جناب،خدا خدا کرکے وہ دن آیاکہ ٕمیاں صاحب تشریف لائے۔
Bonnتو آپ یہ سب معلومات حاصل کر لیں،پھر آپ سے بات ہوگی۔
جب تک یہ دورہ ہو نہیں گیا،مجاہد صاحب ، کا ہر دوسرے دن فون آتا ، کچھ ہدایات دیتے اور میری جو معلومات ہوتیں میں ان کو بتاتا۔
جیسا کہ میں نے بتایا کہ وہ بہت چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی خیال رکھتے تھے، یہاں تک کہ موسم ،کپڑوں اور جوتوں کے بارے میں بھی خبررکھتے تھے۔ پھر ایک دن پوچھنے لگے کہ آپ لوگ پی آئی اے کی فلا ئٹس کے لئے کھانا کہاں سے لیتے ہیں ۔میں نے کہا کہ فرینکفرٹ میں ہمارا اپنا کچن ہے،اور پاکستانی باورچی ہے جو کھانا پکاتا ہے۔اس پر وہ بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے ،ہمیں آپ کا باورچی اور ایک دیگ چاہئیے ہو گی۔ ایک دیگ اور میاں صاحب کا ایک باورچی فلائٹ پر شاید آجائے۔لیکن، دو ہوں تو اچھا ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ پاکستانی کھاناخود تیار کر والیں۔تو پھر ہوا بھی یہی کہ بون میں ایک پہاڑی کےاوپر بہت خوبصورت قلعہ نما محل تھا،جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ہٹلرکے زیرِ استعمال رہا تھا۔ یہ وزیرِاعظم کی رہائش گاہ تھی اور وہیں سارا کھانا پکتا تھا اور جب وزیرِ اعظم، ان کے وزرا اور عملہ ، سرکاری ڈنر سے واپس آتے تو ایک بہت بڑی میز پر نان،کباب،بکرے کا قورمہ اور دوسرا کھانا سجا ہوتا،جسے سب بہت ذوق و شوق سے کھاتے۔کیونکہ،سرکاری کھانے میں تو مچھلی کے علاوہ انہیں کچھ نہیں ملتا تھا،اس لئے پیٹ بھر کر کھانا گھر آکر کھاتے تھے۔
خیر جناب،خدا خدا کرکے وہ دن آیاکہ ٕمیاں صاحب تشریف لائے۔
کے ایک ہوٹل میں ان کا پہلے روز پاکستانیوں سے خطاب تھا،ایک خلقت انہیں سننے کے لئے وہاں پہنچ گئی۔اتنے لوگوں کو دیکھ کر وہ بھی جوش میں آگئے اور بڑا پُر عزم خطاب کیا،اور اسی دوران انہوں نے پہلی مرتبہ کہا کہ میری خواہش ہے کہ ہمارے ملک میں بھی ایسی بڑی شاہراہیں ہوں جیسی جرمنی کی
Autobahns ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ لیکن ان پر ہم وہ ری کنڈیشندکھٹارا گاڑیاں نہیں چلائیں گے،جو جاپان سے منگوائی گئ تھیں اور لوگوں کا نقصان ہوا، بلکہ جرمنی سے نئی گاڑیاں خریدیں گےتاکہ آپکو محسوس ہو کہ آپ جرمنی میں ہیں۔
شایداسی لئے وہ اس دورے میں
Stuttgartشایداسی لئے وہ اس دورے میں
شہربھی گئے،جہاں مرسیڈیز گاڑیاں بنتی تھیں،اُس دن ہفتہ تھا چھٹی کادن ،لیکن ان کے لئے خصوصی طور پر یہ کارخانہ کھولا گیا اور سنا ہے کہ کوئی سودا بھی طے پا گیا تھا۔لیکن، پاکستان پہنچتے ہی وہ اقتدار سے محروم ہو گئے اور یہ منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ وگرنہ ممکن تھا کہ کچھ دنوں کے لئے ہی سہی ، پاکستان کی سڑکوں پر مرسیڈیز ٹیکسیاں دیکھنے کو مل جاتیں۔ٕمگر اپنے دوسرے دور میں انہوں نے موٹر وے کا اپنا خواب پورا کر لیا اور کچھ اور سڑکیں بھی بنائیں۔اچھی سڑکوں اور گاڑیوں کامیاں صاحب کو کتنا شوق ہے اس کا اندازہ اُس وقت ہوا جب ایک رات کہیں سے لوٹتے ہوئے ،جرمنی کی چھ رویہ شاہراہوں کا مزہ لوٹنے کے لئے انکے وفد میں شامل بڑی مرسیڈیز گاڑیوں نے تیز رفتاری کا ایسا مظاہرہ کیا کہ کچھ گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں۔ مگر شکر ہے، کوئئ بڑا نقصان نہیں ہوا ۔
بون میں اپنی سرکاری مصروفیات کے بعد اب ان کا رُخ تھا ڈوسلڈورف کا جہاں پی آئی اے کا دفتر بھی اور ہمارا گھر بھی۔
اس دوران ،سفیر صاحب مسلسل رابطہ کرتے رہے اور پھر بتایا کہ مہمان شام کو آئیں گے۔وزیرِاعظم، انکی اہلیہ ،دونوں بیٹے ،چھوٹی بیٹی اور انکے ذاتی عملے کے کچھ لوگ ساتھ ہونگے۔ہدایت یہ تھی کہ میری بیوی بیگم نواز شریف کی میزبان ہوں ، اور کسی اور کو بالکل خبر نہ ہو۔ورنہ پاکستانیوں کو اطلاع مل گئی تومیاں صاحب کا وہاں ٹھہرنا مشکل ہو جائےگا۔مجاہد صاحب خود بھی اتنی احتیاط کرتے تھے کہ جب بھی فون کرتے،اپنے ڈائرکٹ نمبر سے کرتے اور اپنے سیکریٹری یا کسی عملے کو شامل نہ کرتے۔اور میرے لئے بھی حکم یہ تھا ان سے براہِ راست بات کروں۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ باہر کے ان دفتروں میں عملہ برائے نام ہوتا ہے،سارا کام آپ کو خود ہی کرنا ہوتا ہے۔پاکستان کی طرح لاؤ لشکر نہیں ہوتا ،خدمت کے لئے۔پی آئی اے کا ہیڈ آفس فرینکفرٹ میں تھاجس کا فاصلہ تقریباًٍٍ پونے تین سو کلومیٹر تھا۔اس لئے وہاں سے بھی کوئی مدد نہیں مل سکتی تھی۔غیر ممالک میں اپنے پاکستانی بھائی بڑے مدد گار ہوتے ہیں لیکن ان کو اطلاع کرنے پربھی پابندی تھی۔ لٍہٰذا، اکیلے ہی ساری ذمہ داری کا بوجھ برداشت کرنا پڑا۔جس میں ہوٹل میں کھانے کے سارے انتطامات کرنا،سارے شاپنگ مال کی معلومات حاصل کرنا،کہاں کون سی اشیا موجود ہیں اور پھر احتیاطٍاًٍٍٍ کچھ تفریح گاہوں اور پارکوں کو بھی دوبارہ جا کر دیکھ لیا کہ نہ جانےمہمانِ گرامی یا اُنکے اہلِ خانہ کیا فرمائش کر بیٹھیں۔اپنی بیوی کو بھی خاص خاص دوکانیں دکھا دیں کہ وہ بیگم کلثوم نواز کو شاپنگ کروا سکیں۔
پھر ایک روز فون آیا کہ مہمان شام تین یا چار بجے تک پہنچیں گے۔مگر ہوا یہ کہ وقت سے پہلے ہی فون آگیا کہ وہ بس پہنچنے ہی والے ہیں۔اور پھر کیا تھا جلدی سے مونا کو فون کیا کہ جلدی آؤ ۔ میرا دفتر وہاں سے نزدیک ہی تھا۔ میں تو بھاگم بھاگ وہاں پہنچ گیا۔لیکن، مونا کو ٹرین سے آنا تھا اُن کو دیر ہو گئی۔ بلکہ، ایک مال کے چکنے فرش پر ان کا پیر بھی پھسل گیا اور گھٹنے میں چوٹ آگئی۔مگر وہ ہمت کر کے وہاں آگئیں۔
مہمانوں کا قافلہ جیسے ہی
konings alleeبون میں اپنی سرکاری مصروفیات کے بعد اب ان کا رُخ تھا ڈوسلڈورف کا جہاں پی آئی اے کا دفتر بھی اور ہمارا گھر بھی۔
اس دوران ،سفیر صاحب مسلسل رابطہ کرتے رہے اور پھر بتایا کہ مہمان شام کو آئیں گے۔وزیرِاعظم، انکی اہلیہ ،دونوں بیٹے ،چھوٹی بیٹی اور انکے ذاتی عملے کے کچھ لوگ ساتھ ہونگے۔ہدایت یہ تھی کہ میری بیوی بیگم نواز شریف کی میزبان ہوں ، اور کسی اور کو بالکل خبر نہ ہو۔ورنہ پاکستانیوں کو اطلاع مل گئی تومیاں صاحب کا وہاں ٹھہرنا مشکل ہو جائےگا۔مجاہد صاحب خود بھی اتنی احتیاط کرتے تھے کہ جب بھی فون کرتے،اپنے ڈائرکٹ نمبر سے کرتے اور اپنے سیکریٹری یا کسی عملے کو شامل نہ کرتے۔اور میرے لئے بھی حکم یہ تھا ان سے براہِ راست بات کروں۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ باہر کے ان دفتروں میں عملہ برائے نام ہوتا ہے،سارا کام آپ کو خود ہی کرنا ہوتا ہے۔پاکستان کی طرح لاؤ لشکر نہیں ہوتا ،خدمت کے لئے۔پی آئی اے کا ہیڈ آفس فرینکفرٹ میں تھاجس کا فاصلہ تقریباًٍٍ پونے تین سو کلومیٹر تھا۔اس لئے وہاں سے بھی کوئی مدد نہیں مل سکتی تھی۔غیر ممالک میں اپنے پاکستانی بھائی بڑے مدد گار ہوتے ہیں لیکن ان کو اطلاع کرنے پربھی پابندی تھی۔ لٍہٰذا، اکیلے ہی ساری ذمہ داری کا بوجھ برداشت کرنا پڑا۔جس میں ہوٹل میں کھانے کے سارے انتطامات کرنا،سارے شاپنگ مال کی معلومات حاصل کرنا،کہاں کون سی اشیا موجود ہیں اور پھر احتیاطٍاًٍٍٍ کچھ تفریح گاہوں اور پارکوں کو بھی دوبارہ جا کر دیکھ لیا کہ نہ جانےمہمانِ گرامی یا اُنکے اہلِ خانہ کیا فرمائش کر بیٹھیں۔اپنی بیوی کو بھی خاص خاص دوکانیں دکھا دیں کہ وہ بیگم کلثوم نواز کو شاپنگ کروا سکیں۔
پھر ایک روز فون آیا کہ مہمان شام تین یا چار بجے تک پہنچیں گے۔مگر ہوا یہ کہ وقت سے پہلے ہی فون آگیا کہ وہ بس پہنچنے ہی والے ہیں۔اور پھر کیا تھا جلدی سے مونا کو فون کیا کہ جلدی آؤ ۔ میرا دفتر وہاں سے نزدیک ہی تھا۔ میں تو بھاگم بھاگ وہاں پہنچ گیا۔لیکن، مونا کو ٹرین سے آنا تھا اُن کو دیر ہو گئی۔ بلکہ، ایک مال کے چکنے فرش پر ان کا پیر بھی پھسل گیا اور گھٹنے میں چوٹ آگئی۔مگر وہ ہمت کر کے وہاں آگئیں۔
مہمانوں کا قافلہ جیسے ہی
پر آیا ،سیکیورٹی پولیس نے اس سڑک کو دونوں طرف سے بند کر دیا،جو عموماً جرمنی میں نہیں کیا جاتا مگر شاید یہ خصوصی اقدامات تھے ان کے لیے ۔
میاں صاحب گاڑی سے باہر نکلے تو مجھے دیکھتے ہی بولے،آپ یہاں کہاں۔مجاہد صاحب بھی ساتھ تھے۔انہوں نے کہا کہ یہ پی آئی اے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ بہت خوش ہوئے۔کہنے لگےتو وہاں خبریں کون پڑھ رہا ہے۔اسی طرح باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کچھ دیر وہاں چہل قدمی کی۔انہیں وہ جگہ بہت پسند آئی۔شلوار قمیص ،اوپر واسکٹ پہنے وہ بڑے اطمینان سے وہاں گھومتے رہے اور وہاں موجود جرمن لوگ ،بڑی دلچسپی سے یہ منظر دیکھتے رہے۔
اس دوران مونا ان کی بیگم صاحبہ کو لیکر لیڈیز جیولری شاپ کی طرف بڑھیں تو میاں صاحب نے پیچھے سے زور سے کہا کہ زیادہ فضول خرچی نہیں کرنی۔ میں دیکھ رہا ہوں۔سب ہنستے ہوئے خوشگوار موڈ میں آگے بڑھے۔ چیزیں دیکھتے رہے۔کچھ تحفے تحائف خریدے۔ان کی بیگم کو ایک ڈنر سیٹ پسند آیا،جس کی کچھ چیزیں انکے پاس اپنے نانا کے وقت سے گھر میں موجود تھیں۔باقی ان کو یہاں مل گئیں ۔وہ بہت خوش ہوئیں کہ سیٹ مکمل ہو گیا۔اُدھر بچےٍّ بھی کھانے پینے میں مصروف رہے۔لیکن، ایک چیز ہم نے نوٹ کی کہ ہر چیز پر ان دونوں میاں بیوی نے بھاؤ تاؤ کیا،بلکہ غیر ملکی مہمانوں کو دی جانے والی ،خصوصی رعایت بھی ہر جگہ طلب کی۔شاپنگ سے فارغ ہو کر اب دوسرا مرحلہ تھا کھانے کا۔
ہم نے ،مہمانوں کے ذوق کو دیکھتے ہوئے ایک ایسے ریستوران کا انتخاب کیا تھا جو رائن دریا کے کنارے ایک بڑے ٹاور پر سب سے اوپر کی منزل پر تھا ،جو آہستہ آہستہ گھومتا رہتا تھا۔اس گول ریستوران کے چاروں طرف ترچھے شیشے اس طرح لگائے گئے تھے کہ ہر طرف کے خوبصورت مناظر اپنی کرسی پر بیٹھے دیکھتے رہئیے اور، کھانے سے بھی لطف اندوز ہوتے رہیں۔لیکن مسئلہ کھانے کا تھا،کیونکہ اِن جگہوں پر آپ کو دیسی یا حلال کھانا نہیں ملتا،اور جہاں دیسی کھانا ملے وہ جگہ ایسی نہیں ہوتی کہ آپ سکون سے اور باعزت طریقے سےکسی مہمان کو وہاں کھانا کھلاسکیں۔تو یہاں تو صرف مچھلی ملتی ہے جو کھائی جا سکتی ہے۔
چونکہ یہ فرانسیسی ریستوران تھا اس لئے،خاص قسم کی مچھلی ہم نے بنوائی تھی جو بڑی بڑی پلیٹوں میں ،سلاد اور دوسری چیزوں کے ساتھ پیش کی گئی۔ ہر پلیٹ کو سِلور کے ایک برتن سے ڈھانپا گیا تھا۔جب ہر ایک مہمان کے سامنے یہ پلیٹیں سجا دی گئیں تو پھر سفید وردیوں میں ملبوس بیروں نے ایک دو تین کہہ کر بڑے ٕمخصوص انداز میں یہ ڈھکن اٹھائے تو سب نے تالیاں بجائیں،لیکن میں نے دیکھا کہ کئی مہمانوں،خاص طور پر میاں صاحب کے بچوں کے چہروں پر بڑی ناگواری کے آثار دکھائی دیے اور آواز آئی کہ ’اے فیر اوئی آ گئی اے‘۔دراصل ،جتنے سرکاری کھانے وہاں ہو رہے تھے ان میں مچھلی یا سبزی ہی پیش کی جاتی تھی اور وہ لوگ اسے کھا کھا کر تنگ آگئے تھے۔
دوسرا جو مسئلہ تھا وہ جرمنی میں پانی کا تھا۔وہاں پر عام طور پر جو پانی ملتا ہے ،اس میں گیس ہوتی ہے،لگتا ہے سوڈا پی رہے ہیں۔سادا پانی دستیاب نہیں ہوتا،کچھ عرصہ آپ پیتے رہیں تو پھر عادت ہو جاتی ہے۔
اب آپ جانتے ہیں ،سب لوگ اتنی دیر شاپنگ کر کے خوب چل کر آئے تھے،اس لئے پیاس بھی لگ رہی تھی،بچوں نے تو جوس اور دوسرے مشروبات آرڈر کر دئے اب ہمارے وزیراعظم صاحب کو پانی کی طلب تھی اور وہ بھی سادہ دیسی پانی۔سامنے بوتلوں میں جرمنی کا تیز گیس والا پانی تھا۔میاں صاحب نے ایک گھونٹ اس کا لیا اور چھوڑ دیا۔میں قریب ہی بیٹھا تھا ،کہنے لگے خالد صاحب دوسرا پانی نہیں ہے۔میں نے کہا کہ بغیر گیس کا تو یہاں مشکل ہے۔ تو انہوں نے پیچھے بار کی طرف دیکھا،جہاں ایک ویٹر نلکے سےبرتن دھو رہا تھا۔بڑی سادگی سے بولے،اُس ٹوٹی توں لیا دو (اُس نلکے سے لادیں)۔
میں خاموشی سے اٹھا ،ایک جگ اس ویٹر کو دیا کہ اس میں پانی بھر دو۔اس نے حیرانی سے مجھے دیکھا پھر اس کو بھر دیا۔میں نے لا کر ان کے آگے رکھ دیا جسے انہوں نے بڑے مزے سے ڈَگڈََگا کر پیا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔
اور میں سوچتا رہاکہ وزیراعظم ہے۔لیکن، ہے دیسی۔
میاں صاحب گاڑی سے باہر نکلے تو مجھے دیکھتے ہی بولے،آپ یہاں کہاں۔مجاہد صاحب بھی ساتھ تھے۔انہوں نے کہا کہ یہ پی آئی اے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ بہت خوش ہوئے۔کہنے لگےتو وہاں خبریں کون پڑھ رہا ہے۔اسی طرح باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کچھ دیر وہاں چہل قدمی کی۔انہیں وہ جگہ بہت پسند آئی۔شلوار قمیص ،اوپر واسکٹ پہنے وہ بڑے اطمینان سے وہاں گھومتے رہے اور وہاں موجود جرمن لوگ ،بڑی دلچسپی سے یہ منظر دیکھتے رہے۔
اس دوران مونا ان کی بیگم صاحبہ کو لیکر لیڈیز جیولری شاپ کی طرف بڑھیں تو میاں صاحب نے پیچھے سے زور سے کہا کہ زیادہ فضول خرچی نہیں کرنی۔ میں دیکھ رہا ہوں۔سب ہنستے ہوئے خوشگوار موڈ میں آگے بڑھے۔ چیزیں دیکھتے رہے۔کچھ تحفے تحائف خریدے۔ان کی بیگم کو ایک ڈنر سیٹ پسند آیا،جس کی کچھ چیزیں انکے پاس اپنے نانا کے وقت سے گھر میں موجود تھیں۔باقی ان کو یہاں مل گئیں ۔وہ بہت خوش ہوئیں کہ سیٹ مکمل ہو گیا۔اُدھر بچےٍّ بھی کھانے پینے میں مصروف رہے۔لیکن، ایک چیز ہم نے نوٹ کی کہ ہر چیز پر ان دونوں میاں بیوی نے بھاؤ تاؤ کیا،بلکہ غیر ملکی مہمانوں کو دی جانے والی ،خصوصی رعایت بھی ہر جگہ طلب کی۔شاپنگ سے فارغ ہو کر اب دوسرا مرحلہ تھا کھانے کا۔
ہم نے ،مہمانوں کے ذوق کو دیکھتے ہوئے ایک ایسے ریستوران کا انتخاب کیا تھا جو رائن دریا کے کنارے ایک بڑے ٹاور پر سب سے اوپر کی منزل پر تھا ،جو آہستہ آہستہ گھومتا رہتا تھا۔اس گول ریستوران کے چاروں طرف ترچھے شیشے اس طرح لگائے گئے تھے کہ ہر طرف کے خوبصورت مناظر اپنی کرسی پر بیٹھے دیکھتے رہئیے اور، کھانے سے بھی لطف اندوز ہوتے رہیں۔لیکن مسئلہ کھانے کا تھا،کیونکہ اِن جگہوں پر آپ کو دیسی یا حلال کھانا نہیں ملتا،اور جہاں دیسی کھانا ملے وہ جگہ ایسی نہیں ہوتی کہ آپ سکون سے اور باعزت طریقے سےکسی مہمان کو وہاں کھانا کھلاسکیں۔تو یہاں تو صرف مچھلی ملتی ہے جو کھائی جا سکتی ہے۔
چونکہ یہ فرانسیسی ریستوران تھا اس لئے،خاص قسم کی مچھلی ہم نے بنوائی تھی جو بڑی بڑی پلیٹوں میں ،سلاد اور دوسری چیزوں کے ساتھ پیش کی گئی۔ ہر پلیٹ کو سِلور کے ایک برتن سے ڈھانپا گیا تھا۔جب ہر ایک مہمان کے سامنے یہ پلیٹیں سجا دی گئیں تو پھر سفید وردیوں میں ملبوس بیروں نے ایک دو تین کہہ کر بڑے ٕمخصوص انداز میں یہ ڈھکن اٹھائے تو سب نے تالیاں بجائیں،لیکن میں نے دیکھا کہ کئی مہمانوں،خاص طور پر میاں صاحب کے بچوں کے چہروں پر بڑی ناگواری کے آثار دکھائی دیے اور آواز آئی کہ ’اے فیر اوئی آ گئی اے‘۔دراصل ،جتنے سرکاری کھانے وہاں ہو رہے تھے ان میں مچھلی یا سبزی ہی پیش کی جاتی تھی اور وہ لوگ اسے کھا کھا کر تنگ آگئے تھے۔
دوسرا جو مسئلہ تھا وہ جرمنی میں پانی کا تھا۔وہاں پر عام طور پر جو پانی ملتا ہے ،اس میں گیس ہوتی ہے،لگتا ہے سوڈا پی رہے ہیں۔سادا پانی دستیاب نہیں ہوتا،کچھ عرصہ آپ پیتے رہیں تو پھر عادت ہو جاتی ہے۔
اب آپ جانتے ہیں ،سب لوگ اتنی دیر شاپنگ کر کے خوب چل کر آئے تھے،اس لئے پیاس بھی لگ رہی تھی،بچوں نے تو جوس اور دوسرے مشروبات آرڈر کر دئے اب ہمارے وزیراعظم صاحب کو پانی کی طلب تھی اور وہ بھی سادہ دیسی پانی۔سامنے بوتلوں میں جرمنی کا تیز گیس والا پانی تھا۔میاں صاحب نے ایک گھونٹ اس کا لیا اور چھوڑ دیا۔میں قریب ہی بیٹھا تھا ،کہنے لگے خالد صاحب دوسرا پانی نہیں ہے۔میں نے کہا کہ بغیر گیس کا تو یہاں مشکل ہے۔ تو انہوں نے پیچھے بار کی طرف دیکھا،جہاں ایک ویٹر نلکے سےبرتن دھو رہا تھا۔بڑی سادگی سے بولے،اُس ٹوٹی توں لیا دو (اُس نلکے سے لادیں)۔
میں خاموشی سے اٹھا ،ایک جگ اس ویٹر کو دیا کہ اس میں پانی بھر دو۔اس نے حیرانی سے مجھے دیکھا پھر اس کو بھر دیا۔میں نے لا کر ان کے آگے رکھ دیا جسے انہوں نے بڑے مزے سے ڈَگڈََگا کر پیا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔
اور میں سوچتا رہاکہ وزیراعظم ہے۔لیکن، ہے دیسی۔
Source