آئی ایم ایف پر مبارکبادوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان کی ہیرے کی کان نکل آئی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں تیل نکل آیا ہے جس سے تمام ملکی مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہے: سینئر صحافی کاشف عباسی
نجی ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں سینئر صحافی وتجزیہ کار کاشف عباسی نے آئی ایم ایف ڈیل ہونے پر مبارکبادیں دینے پر موجودہ اتحادی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دہائیوں سے سنتے آ رہے ہیں کہ پاکستان کشکول توڑ دے گا اور ہم ان قرضوں کے ساتھ زیادہ عرصہ نہیں چل سکتے لیکن ہر بار بات آئی ایم ایف معاہدے پر آکر رک جاتی ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے کابینہ اجلاس میں آج اپنی ٹیم کو قرضے حاصل کرنے پر پھر مبارکباد دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے آئی ایم ایف معاہدے کے بعد پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں تیزی کی مبارکباد دی۔ سٹاک مارکیٹ گرے تو پالیسیوں کی وجہ سے جب تیزی آئی تو سب کو مبارکباد دی جاتی ہے۔ گزشتہ ہفتے تک ملک کے ڈیفالٹ ہونے کی باتیں ہو رہی تھیں لیکن آج وزیراعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق ہماری پالیسیوں سے معاشی بحالی کے آثار نمایاں ہونے شروع ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کی عجیب وغریب فلاسفی بن چکی ہے کہ 20 سال بعد بھی یہ سوال نہیں پوچھا جا رہا کہ ہم آخر یہاں تک پہنچے کیسے؟ آخر پچھلے 30 سالوں میں 18 آئی ایم ایف پروگرامز لینے کے بعد بھی ہمیں ایک اور پروگرام کیوں چاہیے؟ کیوں بلوم برگ کہہ رہا ہے کہ آئندہ بھی ہمیں آئی ایم ایف کا پروگرام چاہیے ہو گا؟
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد ایسے لگ رہا ہے کہ ہماری ہیرے کی کان نکل آئی ہے، ہمارے ملک میں تیل نکل آیا ہے جس سے تمام ملکی مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہمارے مسائل میں اضافہ ہوا ہے، کسی کریانے کی دکان پر بھی جائیں تو لکھا ہوتا ہے کہ ادھار مانگ کر شرمندہ نہ کریں، یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ نقد بڑے شوق سے ادھار اگلے چوک سے !
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہبازشریف دو دفعہ خود کہہ چکے ہیں کہ پیسے مانگنے پر شرمندگی ہوتی ہے جبکہ اس سے پہلے وزیراعظم بھی یہی کہتے رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ ہمیں تمام سیاستدانوں سے یہ پوچھنا چاہیے کہ قرض در قرض کے بعد بھی مزید قرض کی بھیک کیوں مانگ رہے ہیں؟ 1997ء میں قرض اتارو ملک سنوارو سکیم شروع ہوئی، آج قرض ملنے پر مبارکباد دی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب ایک نئی فلاسفی بتائی جا رہی ہے کہ کہ قومیں قرضے لیتی ہیں لیکن اس سے ترقی بھی ہوتی ہے لیکن پچھلے 20 سے 30 سالوں میں اب تک ایسا کیوں نہیں ہو سکا؟ ہم پر قرضوں کا اتنا بوجھ ہے اس کے باوجود نئے قرض پر خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمیں فیصلے کرنے ہوں گے کہ ملک کو آگے لے کر کیسے چلنا ہے تاکہ قوم کو پتہ چلے کہ کیا غلط ہو رہا ہے؟ اور ٹھیک کب تک کرنا ہے۔