سری نگر میں کرفیو میں شب و روز گزارنے والے ایک خاندان سے گفتگو:
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گز شتہ کئی ہفتوں سے عوامی احتجاج جاری ہے۔ اس عوامی احتجاج کو دبانے کے لیے کشمیر پولیس اور نیم فوجی دستوں سی پی آر ایف نے کرفیو نافذ کر رکھا تھا لیکن اس عوامی احتجاج میں کمی واقع نہیں ہوئی اور سری نگر سمیت مختلف اضلاع میں لوگ جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی سڑکوں پر آ کر احتجاج کرتے رہے۔ پولیس سے تصادم کے نتیجے میں انیس افراد ہلاک ہو گئے۔
جولائی کی سات تاریخ کو سری نگر میں فوج طلب کر لی گئی اور کرفیو میں مزید سختی کردی گئی۔ سری نگر کی تیرہ لاکھ آبادی گزشتہ کئی دنوں سے گھروں میں مقید ہے۔ کرفیو میں اس سختی اور اخبار اور ذرائع ابلاغ پر پابندیوں کی وجہ سے بدھ کو کشمیر میں اخبارات بھی شائع نہیں ہو سکے۔
اسی صورت حال کا سامنا کرنے والے ایک خاندان سے اردو سروس نے فون پر بات کی جن میں کم سن بچی خدیجہ بھی شامل تھی۔
خدیجہ: ماما نے مارا ہے ۔ دودھ نہیں دیا۔
س: ماما نے کیوں مارا؟ دودھ کیوں نہیں دیا؟
خدیجہ: دودھ والا نہیں آیا۔
خدیجہ کے والد نے بتایا کہ ان کا مکان چوارہے پر واقع ہے اور انھیں کھڑکی کھولنے تک کی اجازت نہیں ہے۔
انھوں نے بتایا کہ تین دن بعد کرفیو میں کچھ نرمی کی گئی تھی لیکن فوج کے آنے کے بعد سے تو اب کھڑکی بھی کھولنے نہیں دیتے۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ باہر کیا ہو رہا ہے تو انھوں نے بتایا کہ وہ باہر دیکھ نہیں سکتے۔ انھوں نے کہا کہ جب بھی کھڑکی سے جھاکنے کی کوشش کرتے ہیں تو باہر سے فوج اور سی آر پی ایف کھڑکی بند رکھنے کا حکم دیتے ہیں۔
انھوں نے کہا انٹرنیٹ اور ٹی وی پر خبریں سننے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ کشمیر میں فون ٹیپ کئے جارہے ہیں اور لوگوں فون پر بات کرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں۔ لوگ فیس بک پر بھی کمنٹس کرنے سے ہچکچا رہے ہیں کیوں سننے میں آ رہاہے فیس بک پر کمنٹس کرنے والا کا پتا چلا کر انھیں بھی گرفتار کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ لوگوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔
کھانے پینے کی اشیاء کی دستیابی کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ جو کچھ گھر میں تھوڑا تھوڑا کر کے کھاتے ہیں۔ لیکن جن گھروں میں دودھ پتیے بچے ہیں انھیں بہت مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے دو بچے ہیں جو دودھ نہ ملنے سے رو رو کر اپنی جان ہلکان کر رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ان بھوڑی ماں بلڈ پریشر کی شکار ہیں اور انھیں دوائی نہیں مل رہی۔http://www.bbc.co.uk/urdu/multimedia/2010/07/100708_kashmir_family_incurfew.shtml listen the interview
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گز شتہ کئی ہفتوں سے عوامی احتجاج جاری ہے۔ اس عوامی احتجاج کو دبانے کے لیے کشمیر پولیس اور نیم فوجی دستوں سی پی آر ایف نے کرفیو نافذ کر رکھا تھا لیکن اس عوامی احتجاج میں کمی واقع نہیں ہوئی اور سری نگر سمیت مختلف اضلاع میں لوگ جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی سڑکوں پر آ کر احتجاج کرتے رہے۔ پولیس سے تصادم کے نتیجے میں انیس افراد ہلاک ہو گئے۔
جولائی کی سات تاریخ کو سری نگر میں فوج طلب کر لی گئی اور کرفیو میں مزید سختی کردی گئی۔ سری نگر کی تیرہ لاکھ آبادی گزشتہ کئی دنوں سے گھروں میں مقید ہے۔ کرفیو میں اس سختی اور اخبار اور ذرائع ابلاغ پر پابندیوں کی وجہ سے بدھ کو کشمیر میں اخبارات بھی شائع نہیں ہو سکے۔
اسی صورت حال کا سامنا کرنے والے ایک خاندان سے اردو سروس نے فون پر بات کی جن میں کم سن بچی خدیجہ بھی شامل تھی۔
خدیجہ: ماما نے مارا ہے ۔ دودھ نہیں دیا۔
س: ماما نے کیوں مارا؟ دودھ کیوں نہیں دیا؟
خدیجہ: دودھ والا نہیں آیا۔
خدیجہ کے والد نے بتایا کہ ان کا مکان چوارہے پر واقع ہے اور انھیں کھڑکی کھولنے تک کی اجازت نہیں ہے۔
انھوں نے بتایا کہ تین دن بعد کرفیو میں کچھ نرمی کی گئی تھی لیکن فوج کے آنے کے بعد سے تو اب کھڑکی بھی کھولنے نہیں دیتے۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ باہر کیا ہو رہا ہے تو انھوں نے بتایا کہ وہ باہر دیکھ نہیں سکتے۔ انھوں نے کہا کہ جب بھی کھڑکی سے جھاکنے کی کوشش کرتے ہیں تو باہر سے فوج اور سی آر پی ایف کھڑکی بند رکھنے کا حکم دیتے ہیں۔
انھوں نے کہا انٹرنیٹ اور ٹی وی پر خبریں سننے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ کشمیر میں فون ٹیپ کئے جارہے ہیں اور لوگوں فون پر بات کرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں۔ لوگ فیس بک پر بھی کمنٹس کرنے سے ہچکچا رہے ہیں کیوں سننے میں آ رہاہے فیس بک پر کمنٹس کرنے والا کا پتا چلا کر انھیں بھی گرفتار کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ لوگوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔
کھانے پینے کی اشیاء کی دستیابی کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ جو کچھ گھر میں تھوڑا تھوڑا کر کے کھاتے ہیں۔ لیکن جن گھروں میں دودھ پتیے بچے ہیں انھیں بہت مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے دو بچے ہیں جو دودھ نہ ملنے سے رو رو کر اپنی جان ہلکان کر رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ان بھوڑی ماں بلڈ پریشر کی شکار ہیں اور انھیں دوائی نہیں مل رہی۔http://www.bbc.co.uk/urdu/multimedia/2010/07/100708_kashmir_family_incurfew.shtml listen the interview