aadil jahangeer
Minister (2k+ posts)
مافیا
.
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب آفتاب اقبال جیو میں ہوتے تھے تب ایک دن اپنے پروگرام میں بتانے لگے کہ جو 92 کا ورلڈ کپ جیتے ہیں یہ ایک تکا لگ گیا ورنہ عمران کوئی اچھے کپتان اور کھلاڑی نہیں تھے وہی مسٹر آفتاب اقبال پچھلے دنوں عثمان بزدار کو سامنے بٹھا کر امریکی صدر ہیری ٹرومین سے ملا رہے تھے۔ اب آپ اسے ڈھٹائی کی معراج کہیں بے شرمی کہیں بے حیائی یہ آپ پہ منحصر ہے
.
یہ معاملہ صرف آفتاب اقبال تک محدود نہیں "اس شہر میں اِس جیسے دیوانے ہزاروں ہیں" سہیل وڑائچ پچھلے دنوں ڈی پی گوندل والے معاملے میں کچھ " نئے حقائق " قوم کے سامنے لیکر آئے ہیں۔ اب مجھے نہیں پتہ کہ یہ کالم جیو کی پالیسی میں تبدیلی کی خبر دے رہا یا موصوف نئی حکومت کے سامنے صرف اپنی سی وی فارورڈ کرنا چاہ رہے موصوف کے "حقائق" پر بات کرتے ہیں بلکہ ایک لمحے کے لیئئے فرض کرتے ہیں کہ جو محترم کالم نگار نے لکھا وہ حرف بحرف درست ہے ، خاور اور بشریٰ بیگم کی آپس کی بد گمانیوں بارے اس کے معلوامت درست، پولیس کا ان کی بیٹی کے ساتھ رویہ بھی انتہائی نا مناسب۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر میاں بیوی کے درمیان بد گماینیاں ہیں بھی تب بھی کیا یہ جائز طریقہ ہے کہ اپنی دوست کے ہسبینڈ اور وزیر اعلیٰ کے ذریعے پولیس والوں کو وزیر اعلیٰ ہاؤس بلایا جائے رات کے ڈیڑھ بجے انکوائری ختم ہونے سے پہلے ان کے خلاف کاروائی کی جائے؟ کیا یہ سہولت
میرے جیسے عام آدمی کو بھی دستیاب ہے جب مجھ جیسے بندے کے ساتھ پولیس کا رویہ درست نہ ہو؟
مزے کی بات ہے اب "سپاٹ فکسنگ" کا زمانہ ہے ضروری نہیں آپ صالح ظافر بن جایئں بوقتِ ضرورت "ایک ایک بال" ایک چھکا " " ایک بیٹ " پر بھی کمائی کر سکتے ہیں پکڑے جانے کے چانسز بھی کم ہوتے ہیں کمائی کرنے کا آبرومندانہ طریقہ آج کل مارکیٹ میں یہی رائج ہے
.
ایک جاوید چوہدری بھی ہیں موصوف جب چاہتے ہیں کسی بہلول دانا کے فرضی اقوال کالم میں ڈال کر کسی بھی حکمران کو قدرت کی پکڑ میں، اور بوقتِ ضرورت اللہ کی رحمت کا حقدار ٹھہراتے ہیں۔
برے وقتوں کا پروگرام .
.
معزز خاتین و حضرات! تاریخ میں خلیفہ ہارون الرشید کا درویش صوفی بہلول کے ساتھ ایک مکالمہ درج ہے . باشاہ نے بہلول دانا سے پوچھا تھا اللہ تعا لیٰ جب کسی بادشاہ سے خوش ہوتا ہے تو وہ اسے کیا تحفہ دیتا ہے درویش نے بتایا اللہ اسے بروقت فیصلوں کی قوت دیتا ہے بادشاہ نے پوچھا اور اگر اللہ ناراض ہو جائے تو؟ درویش نے جواب دیا اللہ اس سے فیصلے کی قوت چھین لیتا ہے۔ بادشاہ نے پوچھا اگر کوئی اللہ کی ناراضگی کا شکار ہو جائے تو اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ در در کی ٹھوکریں بادشاہ کی مقدر بن جاتی ہیں۔ وہ سونے کو ہاتھ لگاتا ہے تو وہ ریت بن جاتا ہے اس کے اپنے پرائے ہو جاتے ہیں اور اس کا اچھا کیا ہوا بھی برا ہوجاتا ہے. میں اس کہانی کو یہاں روک کر آج کے ایک فیصلے کی طرف آتا ہوں آج سپریم کورٹ نے میاں صاحب کی نظر ثانی کی درخواست کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیاپانچ رکنی بینچ فیصلہ دیا کہ نواز شریف کی نا اہلی سے متعلق شواہد غیر متنازعہ تھے نواز شریف نے بد نیتی سے جھوٹا بیانِ حلفی دیا نواز شریف نے نہ صرف عدالت کو بیوقوف بنیا بلکہ پارلیمنٹ اور عوام کو بھی بیوقوف بنانے کی کوشش کی ساڑھے چھ سال کی تنخواہ نواز شریف کا اثاثہ تھی ۔۔ یہ تفصیلی فیصلہ کیا کہہ رہا ہے؟ .. میں بہلول دانا کی طرف واپس آتا ہوں میرا خیال ہے میاں نواز شریف کو بھی یہ مکالمہ پڑھنا چاہیئے اور اللہ تعا لیٰ سے توبہ کرنی چاہیئے.. .
.
(بھلے وقتوں کے لیئے کالم) . ۔
.
" آپ کو یقین نہ آئے تو آپ تحقیق کرکے دیکھ لیں‘ وہ تمام لوگ جو ماضی میں ان کے راستے کی رکاوٹ بنے‘ وہ آج کہاں ہیں؟ آپ کو اللہ کی رضا سمجھتے دیر نہیں لگے گی‘ آپ ان مسائل‘ ان مشکلات اور ان رکاوٹوں کا تجزیہ بھی کر لیجئے جو میاں نواز شریف کے سامنے آئیں اور وہ عین وقت پر چپ چاپ ان کے راستے سے ہٹ گئیں‘ میاں نواز شریف ہمیشہ بند گلی میں داخل ہوئے‘ ان کا ہر بند گلی سے نکلنا ناممکن دکھائی دیا لیکن یہ جوں ہی گلی کے آخری سرے پر پہنچے دیوار میں دروازہ بن گیا اور یہ چلتے چلتے اس دروازے سے باہر نکل گئے‘ یہ دو بار اقتدار سے نکالے گئے‘ یہ دونوں بار زیادہ قوت کے ساتھ واپس آئے اور یہ خاندان سمیت ملک بدر کر دیئے گئے لیکن یہ زیادہ تگڑے ہو کر واپس آئے یہاں تک کہ ان کو فارغ کرنے والے ایک ایک کر کے خود فارغ ہوتے چلے گئے یہ کیا ثابت کرتا ہے؟ یہ ثابت کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت میاں نواز شریف کے ساتھ ہے۔"
ہارون الرشید صاحب کو سنیں پڑھیں جب بھی کہیں کسی جرنیل کا تذکرہ شروع ہوتا ہے موصوف کے چہرے پر ویسی اطمینان کی کیفیت نظر آنا شروع ہوتا ہے جیسے کسی پیرِ کامل کے ذکر پر کسی مریدِ خاص کا حال ہوتا ہے
ایسے میں دوسرے بندے کی بات کاٹ کر اپنے مخصوص انداز میں کہنا شروع ہوجاتے ہیں " کہ میں گزشتہ اتنے۔۔۔۔۔ سالوں سے ملٹری ایسٹیبلشمنٹ کو کور کر رہا ہوں جہاں تک "جرنل " صاحب کا تعلق ہے یا جتنا میں جرنل صاحب کو جانتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد متعلقہ جرنل صاحب کی تعریفوں کا ایک لامتناہی سلسہ شروع ہوتا ہے اور ایسی ایسی خوبیاں بتائی جاتی ہیں جو جرنل موصوف شاید خود بھی نہ جانتے ہوں
.
موصوف اپنی 21 دسمبر 2017 کے ایک تجزیئے میں حسب معمول سپہ سالار کی تعریف کا ایک پہلو ڈھونڈ نکال لائے آپ بھی پڑھیں
.
"6 ستمبر کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اعلان کیا کہ دہشت گردی کے خلاف ہم نے کافی کام کیا ہے۔اب دنیا کو "ڈو مور" کرنا ہوگا۔ اس کے بعد امریکیوں کا لہجہ بدلنا شروع ہو ا۔وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن پاکستان آئے تو انہوں نے "ڈو مور" کی اصطلاح استعمال کرنے سے گریز کیا،البتہ یہ کہا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کو اپنی کوششیں "دوگنا" کر دینی چاہیئں۔"
.
اب اس تجزیئے پر رویا جائے یا ہنسا جائے کہ امریکیوں نے سپہ سالار سے در کر ڈو مور کے بجائے اپنی کوششیں دگنا کرنے کو کہا
.
مزے کی بات ہے اس سے اگلے دن امریکہ نے پاکستان پر کھل کر الزام لگائے آپ ان دنوں کے اخبار دیکھ سکتے ہیں جس میں امریکیوں نے پاکستای ریاست کو دہشت گردوں کی سپورٹ کا الزام لگایا۔ لیکن کالم نگار موصوف اس "کامیابی" پر خوشیاں منا رہے کہ سپہ سالار سے ڈر کر امریکیوں نے ڈومور کا تقاضا کرنے کے بجائے کوششیں دوگنا کرنے کو کہا
.
سلیم صافی سے کون واقف نہیں ہے۔ بظاہر موصوف ایک غیر جانبدار صحافی ہیں ریفرنس کے لیئے کالم موجود ہیں جس میں کالم نگار "بلا تفریق" تمام پارٹیوں اور لیڈروں پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے (حالیہ واردات سے ہٹ کر) موصوف عمران سے خدا واسطے کا بیر رکھتے ہیں۔ آپ یقین کریں گے آج سے سات آٹھ سال پہلے اس انتہائی غیر جانبدار صحافی نے جو تمام لیڈرز پر بلا تفریق تنقید کرتے ہیں، نے عمران اور نواز شریف کا موازنہ کیا جس میں موصوف نے اپنے پڑھنے والوں کے علم میں گرااں قدر اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ دونوں لیڈرز نے سیاست میں آنے سے پہلے فلاحی کام کیئے مثلا میاں صاحب نے اتفاق ہاسپیٹل بنایا اور عمران نے شوکت خانم۔ ایسی " غیر جانبداری " پر بلا شبہ قربان ہونے کو دل کرتا ہے۔
.
موصوف نے کچھ عرصہ قبل "جماعت اسلامی کی سیاسی ناکامی" کے عنوان سے ایک کالم لکھا اس میں چند ایک پوایئنٹس ذرا پڑھیں اور موصوف کی غیر جانبدار اور عمران خان سے اس کی بے پناہ محبت کی داد دیں
.
گزشتہ پانچ سالوں میں سراج الحق نے نتھیاگلی کے وزیراعلیٰ ہائوس میں ایک دن بھی نہیں گزارا لیکن عمران خان صاحب نے اسے جتنا استعمال کیا، اتنا شاید گزشتہ بیس سالوں میں بھی استعمال نہیں ہوا۔
.
عوامل اور بھی بہت سارے ہیں لیکن ماضی قریب میں جماعت اسلامی کو سب سے زیادہ نقصان تحریک انصاف نے پہنچایا ہے۔ یہ جماعت اپنی ساخت میں اور مقصد کے لحا ظ سے جماعت اسلامی سے کوسوں دور ہے لیکن چونکہ اس کی نوک پلک امپائروں نے درست کی، اس لئے اس کی قیادت کو زیادہ تر جماعت اسلامی کے نعرے تھمادئیے گئے۔
.
(جماعت اسلامی کی صفوں میں کئی سال تک اس بات پر بحث ہوتی رہی کہ تصویر حلال ہے یا حرام ہے جبکہ موسیقی کے بارے میں اب بھی یہ بحث جاری ہے جبکہ تحریک انصاف میں ہر طرح کے حدودو قیود سے آزاد رہ کر بھی انسان انقلاب کا نعرہ لگاسکتا ہے)
..
ہر کوئی جانتا ہے کہ سپریم کورٹ میں پہلے سراج الحق گئے اور جب لاک ڈائون ناکام ہوا تو امپائروں نے خان صاحب کو سراج الحق کی اقتدا میں سپریم کورٹ بھجوادیا لیکن کریڈٹ سارا عمران خان لے گیا۔
..
دوسری طرف خیبرپختونخوا میں بھی اگر کریڈٹ ہوتو وہ پی ٹی آئی لے جارہی ہے جبکہ ڈس کریڈٹ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ شیئر کررہی ہے۔ مثلاً بلدیاتی اداروں کے قانون کا کریڈٹ ملکی سطح پر تحریک انصاف نے لیا حالانکہ یہ وزارت جماعت اسلامی کے پاس ہے۔ اسی طرح پشاور کی سڑکوںکا کسی حد تک حلیہ درست کرنے کا کریڈٹ بھی جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے بلدیات کے وزیر عنایت اللہ کو جاتا ہے لیکن اس کا کریڈٹ ملک بھر میں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے تحریک انصاف لے گئی۔
.
ابنِ خلدون کے عصبیت والے خورشید ندیم سے کون نہیں واقف، موصوف مدتوں "صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں" کی عملی تصویر بنے میاں صاحب کو سپورٹ کرتے رہے یہاں تک 2014 کا دھرنہ ہوا۔ اس کے بعد سے موصوف نے "تکلف برطرف کر کے سرِ بازار ناچنا شروع کر دیا"
.
یہ ایک حلف نامہ ٹائپ چیز ہے جو انھوں نے 10 اکتوبر 2016ء کے کالم اپنی غیر جانبداری کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے لکھا. آپ بھی پڑھیے. "میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ ملک و قوم کے معاملات کو کسی فردِ واحد کے ساتھ محبت یا نفرت کی نظر سے دیکھوں۔ پروردگار وہ دن نہ دکھائے کہ ہم کرپشن یا کسی اخلاقی برائی کے وکیل بن جائیں۔ ہم سب کو اپنے پروردگار کے حضور میں پیش ہونا ہے۔ وہاں باطن اور ظاہر کا فرق باقی نہیں رہنا۔ اس دن ہمارے اعضاگواہ بنیں گے۔ اس دن کی آمد اتنی ہی یقینی ہے جتنا یقینی آج کا دن ہے۔ اس احساس کے ساتھ مجھے اپنی بات کہنی چاہیے۔ کسی کی ملامت کا اندیشہ، کسی الزام کا خوف۔ مجھے ہر بات سے بلند تر ہو کروہ کچھ کہنا چاہیے جسے میں صحیح سمجھتا ہوں۔" (2016-10-10)
موصوف تسلسل کے ساتھ عمران کو کہتے رہے کہ آپ ہیجان کا شکار ہیں حکومت کو چلنے دیں میاں صاحب کو نکالنے کے دو طریقے ہیں عوام ووٹ کے ذریعے اتاریں یا عدالتوں سے نا اہل ہو (یہ بات میں ثبوت کے ساتھ کہہ رہا اس پر پورا کالم موجود ہے میرا) جیسے ہی عمران نے احٹجاج چھوڑ کر عدالتوں کا رخ کیا موصوف نے ایک بارپھر عمران کو ہی مورد الزام ٹھہرایا کہ اب عمران نے عدالتوں سے ساز باز کر لی۔ جب میاں عدالتوں میں ثبوت فراہم کرنے میں ناکام ہو گئے تو موصوف اپنی پٹاری سے عصبیت نامی سانپ نکال کر لے آئے کہ میاں صاحب کی چونکہ عصبیت ہے اس لیئے اس کے خلاف عدالتی فیصلہ ملک کے لیئے نقصان دہ ہے۔ موصوف جو کہ ملک و قوم کے معاملات کو کسی فردِ واحد کے ساتھ محبت یا نفرت کی نظر سے نہیں دیکھتے عمران کی جیت پر فرمانے لگے کہ عمران کی جیت پوسٹ ٹروتھ کا نتیجہ ہے گویا ابنِ خلدون کی عصبیت کے تمام مالکانہ حقوق بحق میاں صاحب محفوظ ہیں۔
.
موصوف جو کہ ملک و قوم کے معاملات کو کسی فردِ واحد کے ساتھ محبت یا نفرت کی نظر سے نہیں دیکھتے اس لیئے مریم کی جے آئی ٹی کے پیشی کے موقعے پر کالم لکھ مارتے ہیں کہ مریم اب لیڈر بن گئی ہے۔ موصوف کے تضادات پر کالم نہیں پوری ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ پروفیسر رفیق کا کھلے الفاظ میں مذاق اڑایا کہ جعلی صوفی ہیں (کالم موجود ہے) لیکن جیسے ہی عمران نے پاک پتن کا رخ کیا موصوف نے پروفیسر کو ابن عربی کے لیول کا صوفی بنایا اور اسے عمران کے بد قسمتی قرار دیا کہ عمران کو اللہ بطور ترجیح اول نہیں اقتدار کی خواہش ہے اس لیئے پاک پتن جا کر گمراہ ہوئے
.
ایک انتہائی "کریڈبل" صحافی جن کا نام طلعت حسین ہیں وہ کسی سے کیوں پیچھے رہیں۔ موصوف نے کیانی دور میں جرنل کی وہ وہ تعریفیں ڈھونڈ کر لکھ ماریں جن کے بارے شاید کیانی خود بھی بے خبر ہوں پورے پی پی کے دور میں سویلیئن حکومت کے لتے لیتے رہے میاں صاحب کے دور کے شروع میں موصوف میاں صاحب اور جیو سے نالاں رہے کہ میاں صاحب صحافیوں کے ذریعے ملک چلا رہے ہیں یہ کھلم کھلا نجی محفلوں میں فوج کو گالیاں دیتے ہیں اچانک دیکھتے ہی دیکھتے موصوف جیو اور میاں صاحب کو پیارے ہوگئے۔ جب میاں صاحب لندن سے واپس لاہور آ رہے تھے موصوف انقلاب لاتے لاتے رہ گئے۔ سوشل میڈیا پر موجود ایک کلپ میں موصوف فرماتے ہیں کہ بد ترین سنسر شپ ہے فلاں گلی یا دروازے میں تقریبا پچاس ہزار بندے میں نے خود دیکھے کوئی دکھانے نہیں دے رہا۔ موصوف سے ایک سوال تو بنتا ہے کہ ٹھیک ہے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بد ترین سنسر شپ عائد تھی اس سنسر شپ کے باوجود آپ لاہور کی گلیوں میں گھوم پھر کر جس طرح انقلاب لیکرآنا چاہ رہے تھے، آپ کی ویڈیو ہم تک پینچ گئی تو آپ کے بقول اگر ایک گیٹ پر پر، آپ نے پچاس ہزار کے قریب لوگ دیکھے تھے تو لاہور جس کی آبادی تقریبا کروڑ تو ہو گی، ایسے میں یقیننا لاکھوں لوگ نکلے ہونگے۔ سوشل میڈیا پر وہ لاکھوں لوگ کیوں نظر نہیں آئے؟ کیا اس دور میں ممکن ہے لاکھوں لوگ کہیں نکلیں اور وہ دیکھے نہ جا سکیں جس بد ترین سینسرشپ کو آپ تنقید کا نشانہ بنا رہے ، وہ ویڈیو تو ہم تو پہنچتی ہے لیکن لاکھوں لوگوں کی کوئی ویڈیو ہماری نظر سے نہیں گزری۔ اور کیا نون لیگ بحیثیتِ سیاسی پارٹی کوئی ایسا موقع ضائع کرنے کی حماقت کرتی جب ان کے حق میں لاکھوں لوگ نکلیں اور وہ شہابز شریف کی قیادت میں لاہور کی سڑکوں پر گواچی گاں کی طرح پھریں اور ایئر پورٹ کا رخ تک نہ کریں۔
یہی موصوف پچھلے دنوں بی بی سی کے ایک پروگرام میں عمران کی سادگی کے بیان کا مذاق اڑاتے ہوئے فرما رہے تھے کہ ارب روپے کے مکان میں بیٹھ کر کونسی سادگی۔۔۔۔ تعصب کے ہمالیہ پہ بیٹھ کر اس مایئنڈ لیس جینیئس سے کوئی پوچھے عمران نے کب کہا میں کوئی لینن ٹائپ انقلاب لیکر آ رہا ہوں جو اقتدار میں آتے ہیں سب کچھ تقسیم کر دونگا عمران نے ایک دعویٰ کیا تھا کہ وہ ٹیکس پیئر کا پیسہ عیاشیوں پر ضائع نہیں کرے گا۔
لیکن کیا کریں "غیر جانبداری " کے تقاضے بھی پورے کرنے ہوتے ہیں جمہوریت کو بھی سرپرستی کی ضرورت ہوتی ہے ایسے میں اس ٹائپ بیان ہی دیئے جا سکتے ہیں
.
تحریر کافی لمبی ہو گئی ابھی اور بھی بڑے بڑے نام ہیں جن کے بارے لکھا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم لوگ اپنی پسند کا سچ سننا چاہتے ہیں صابر شاکر ، عارف حمید بھٹی ارشد شریف جب عمران اور پی ٹی آئی کی تریفیں کرتے ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے طلعت اور سلیم صافی جب پی ٹی آئی اور عمران کے لیتے لیتے ہیں تو نون لیگی سپورٹر خوشی سے نہال ہو جاتے ہیں۔ہمیں سمجھنا ہو گا ہماری زوال اور برے حالات میں ان لوگوں کا بڑا ہاتھ ہے یہ اشرافیہ کا دست و بازو ہیں اور بد قسمتی سے ہم "راویان خبر زدہ" ان لوگوں کے یک طرفہ سچ کو یونیورسل ٹروتھ سمجھ کر ناچنا شروع کر دیتے ہیں۔۔
.
عماد بزدار
.
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب آفتاب اقبال جیو میں ہوتے تھے تب ایک دن اپنے پروگرام میں بتانے لگے کہ جو 92 کا ورلڈ کپ جیتے ہیں یہ ایک تکا لگ گیا ورنہ عمران کوئی اچھے کپتان اور کھلاڑی نہیں تھے وہی مسٹر آفتاب اقبال پچھلے دنوں عثمان بزدار کو سامنے بٹھا کر امریکی صدر ہیری ٹرومین سے ملا رہے تھے۔ اب آپ اسے ڈھٹائی کی معراج کہیں بے شرمی کہیں بے حیائی یہ آپ پہ منحصر ہے
.
یہ معاملہ صرف آفتاب اقبال تک محدود نہیں "اس شہر میں اِس جیسے دیوانے ہزاروں ہیں" سہیل وڑائچ پچھلے دنوں ڈی پی گوندل والے معاملے میں کچھ " نئے حقائق " قوم کے سامنے لیکر آئے ہیں۔ اب مجھے نہیں پتہ کہ یہ کالم جیو کی پالیسی میں تبدیلی کی خبر دے رہا یا موصوف نئی حکومت کے سامنے صرف اپنی سی وی فارورڈ کرنا چاہ رہے موصوف کے "حقائق" پر بات کرتے ہیں بلکہ ایک لمحے کے لیئئے فرض کرتے ہیں کہ جو محترم کالم نگار نے لکھا وہ حرف بحرف درست ہے ، خاور اور بشریٰ بیگم کی آپس کی بد گمانیوں بارے اس کے معلوامت درست، پولیس کا ان کی بیٹی کے ساتھ رویہ بھی انتہائی نا مناسب۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر میاں بیوی کے درمیان بد گماینیاں ہیں بھی تب بھی کیا یہ جائز طریقہ ہے کہ اپنی دوست کے ہسبینڈ اور وزیر اعلیٰ کے ذریعے پولیس والوں کو وزیر اعلیٰ ہاؤس بلایا جائے رات کے ڈیڑھ بجے انکوائری ختم ہونے سے پہلے ان کے خلاف کاروائی کی جائے؟ کیا یہ سہولت
میرے جیسے عام آدمی کو بھی دستیاب ہے جب مجھ جیسے بندے کے ساتھ پولیس کا رویہ درست نہ ہو؟
مزے کی بات ہے اب "سپاٹ فکسنگ" کا زمانہ ہے ضروری نہیں آپ صالح ظافر بن جایئں بوقتِ ضرورت "ایک ایک بال" ایک چھکا " " ایک بیٹ " پر بھی کمائی کر سکتے ہیں پکڑے جانے کے چانسز بھی کم ہوتے ہیں کمائی کرنے کا آبرومندانہ طریقہ آج کل مارکیٹ میں یہی رائج ہے
.
ایک جاوید چوہدری بھی ہیں موصوف جب چاہتے ہیں کسی بہلول دانا کے فرضی اقوال کالم میں ڈال کر کسی بھی حکمران کو قدرت کی پکڑ میں، اور بوقتِ ضرورت اللہ کی رحمت کا حقدار ٹھہراتے ہیں۔
برے وقتوں کا پروگرام .
.
معزز خاتین و حضرات! تاریخ میں خلیفہ ہارون الرشید کا درویش صوفی بہلول کے ساتھ ایک مکالمہ درج ہے . باشاہ نے بہلول دانا سے پوچھا تھا اللہ تعا لیٰ جب کسی بادشاہ سے خوش ہوتا ہے تو وہ اسے کیا تحفہ دیتا ہے درویش نے بتایا اللہ اسے بروقت فیصلوں کی قوت دیتا ہے بادشاہ نے پوچھا اور اگر اللہ ناراض ہو جائے تو؟ درویش نے جواب دیا اللہ اس سے فیصلے کی قوت چھین لیتا ہے۔ بادشاہ نے پوچھا اگر کوئی اللہ کی ناراضگی کا شکار ہو جائے تو اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ در در کی ٹھوکریں بادشاہ کی مقدر بن جاتی ہیں۔ وہ سونے کو ہاتھ لگاتا ہے تو وہ ریت بن جاتا ہے اس کے اپنے پرائے ہو جاتے ہیں اور اس کا اچھا کیا ہوا بھی برا ہوجاتا ہے. میں اس کہانی کو یہاں روک کر آج کے ایک فیصلے کی طرف آتا ہوں آج سپریم کورٹ نے میاں صاحب کی نظر ثانی کی درخواست کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیاپانچ رکنی بینچ فیصلہ دیا کہ نواز شریف کی نا اہلی سے متعلق شواہد غیر متنازعہ تھے نواز شریف نے بد نیتی سے جھوٹا بیانِ حلفی دیا نواز شریف نے نہ صرف عدالت کو بیوقوف بنیا بلکہ پارلیمنٹ اور عوام کو بھی بیوقوف بنانے کی کوشش کی ساڑھے چھ سال کی تنخواہ نواز شریف کا اثاثہ تھی ۔۔ یہ تفصیلی فیصلہ کیا کہہ رہا ہے؟ .. میں بہلول دانا کی طرف واپس آتا ہوں میرا خیال ہے میاں نواز شریف کو بھی یہ مکالمہ پڑھنا چاہیئے اور اللہ تعا لیٰ سے توبہ کرنی چاہیئے.. .
.
(بھلے وقتوں کے لیئے کالم) . ۔
.
" آپ کو یقین نہ آئے تو آپ تحقیق کرکے دیکھ لیں‘ وہ تمام لوگ جو ماضی میں ان کے راستے کی رکاوٹ بنے‘ وہ آج کہاں ہیں؟ آپ کو اللہ کی رضا سمجھتے دیر نہیں لگے گی‘ آپ ان مسائل‘ ان مشکلات اور ان رکاوٹوں کا تجزیہ بھی کر لیجئے جو میاں نواز شریف کے سامنے آئیں اور وہ عین وقت پر چپ چاپ ان کے راستے سے ہٹ گئیں‘ میاں نواز شریف ہمیشہ بند گلی میں داخل ہوئے‘ ان کا ہر بند گلی سے نکلنا ناممکن دکھائی دیا لیکن یہ جوں ہی گلی کے آخری سرے پر پہنچے دیوار میں دروازہ بن گیا اور یہ چلتے چلتے اس دروازے سے باہر نکل گئے‘ یہ دو بار اقتدار سے نکالے گئے‘ یہ دونوں بار زیادہ قوت کے ساتھ واپس آئے اور یہ خاندان سمیت ملک بدر کر دیئے گئے لیکن یہ زیادہ تگڑے ہو کر واپس آئے یہاں تک کہ ان کو فارغ کرنے والے ایک ایک کر کے خود فارغ ہوتے چلے گئے یہ کیا ثابت کرتا ہے؟ یہ ثابت کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت میاں نواز شریف کے ساتھ ہے۔"
ہارون الرشید صاحب کو سنیں پڑھیں جب بھی کہیں کسی جرنیل کا تذکرہ شروع ہوتا ہے موصوف کے چہرے پر ویسی اطمینان کی کیفیت نظر آنا شروع ہوتا ہے جیسے کسی پیرِ کامل کے ذکر پر کسی مریدِ خاص کا حال ہوتا ہے
ایسے میں دوسرے بندے کی بات کاٹ کر اپنے مخصوص انداز میں کہنا شروع ہوجاتے ہیں " کہ میں گزشتہ اتنے۔۔۔۔۔ سالوں سے ملٹری ایسٹیبلشمنٹ کو کور کر رہا ہوں جہاں تک "جرنل " صاحب کا تعلق ہے یا جتنا میں جرنل صاحب کو جانتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد متعلقہ جرنل صاحب کی تعریفوں کا ایک لامتناہی سلسہ شروع ہوتا ہے اور ایسی ایسی خوبیاں بتائی جاتی ہیں جو جرنل موصوف شاید خود بھی نہ جانتے ہوں
.
موصوف اپنی 21 دسمبر 2017 کے ایک تجزیئے میں حسب معمول سپہ سالار کی تعریف کا ایک پہلو ڈھونڈ نکال لائے آپ بھی پڑھیں
.
"6 ستمبر کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اعلان کیا کہ دہشت گردی کے خلاف ہم نے کافی کام کیا ہے۔اب دنیا کو "ڈو مور" کرنا ہوگا۔ اس کے بعد امریکیوں کا لہجہ بدلنا شروع ہو ا۔وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن پاکستان آئے تو انہوں نے "ڈو مور" کی اصطلاح استعمال کرنے سے گریز کیا،البتہ یہ کہا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کو اپنی کوششیں "دوگنا" کر دینی چاہیئں۔"
.
اب اس تجزیئے پر رویا جائے یا ہنسا جائے کہ امریکیوں نے سپہ سالار سے در کر ڈو مور کے بجائے اپنی کوششیں دگنا کرنے کو کہا
.
مزے کی بات ہے اس سے اگلے دن امریکہ نے پاکستان پر کھل کر الزام لگائے آپ ان دنوں کے اخبار دیکھ سکتے ہیں جس میں امریکیوں نے پاکستای ریاست کو دہشت گردوں کی سپورٹ کا الزام لگایا۔ لیکن کالم نگار موصوف اس "کامیابی" پر خوشیاں منا رہے کہ سپہ سالار سے ڈر کر امریکیوں نے ڈومور کا تقاضا کرنے کے بجائے کوششیں دوگنا کرنے کو کہا
.
سلیم صافی سے کون واقف نہیں ہے۔ بظاہر موصوف ایک غیر جانبدار صحافی ہیں ریفرنس کے لیئے کالم موجود ہیں جس میں کالم نگار "بلا تفریق" تمام پارٹیوں اور لیڈروں پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے (حالیہ واردات سے ہٹ کر) موصوف عمران سے خدا واسطے کا بیر رکھتے ہیں۔ آپ یقین کریں گے آج سے سات آٹھ سال پہلے اس انتہائی غیر جانبدار صحافی نے جو تمام لیڈرز پر بلا تفریق تنقید کرتے ہیں، نے عمران اور نواز شریف کا موازنہ کیا جس میں موصوف نے اپنے پڑھنے والوں کے علم میں گرااں قدر اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ دونوں لیڈرز نے سیاست میں آنے سے پہلے فلاحی کام کیئے مثلا میاں صاحب نے اتفاق ہاسپیٹل بنایا اور عمران نے شوکت خانم۔ ایسی " غیر جانبداری " پر بلا شبہ قربان ہونے کو دل کرتا ہے۔
.
موصوف نے کچھ عرصہ قبل "جماعت اسلامی کی سیاسی ناکامی" کے عنوان سے ایک کالم لکھا اس میں چند ایک پوایئنٹس ذرا پڑھیں اور موصوف کی غیر جانبدار اور عمران خان سے اس کی بے پناہ محبت کی داد دیں
.
گزشتہ پانچ سالوں میں سراج الحق نے نتھیاگلی کے وزیراعلیٰ ہائوس میں ایک دن بھی نہیں گزارا لیکن عمران خان صاحب نے اسے جتنا استعمال کیا، اتنا شاید گزشتہ بیس سالوں میں بھی استعمال نہیں ہوا۔
.
عوامل اور بھی بہت سارے ہیں لیکن ماضی قریب میں جماعت اسلامی کو سب سے زیادہ نقصان تحریک انصاف نے پہنچایا ہے۔ یہ جماعت اپنی ساخت میں اور مقصد کے لحا ظ سے جماعت اسلامی سے کوسوں دور ہے لیکن چونکہ اس کی نوک پلک امپائروں نے درست کی، اس لئے اس کی قیادت کو زیادہ تر جماعت اسلامی کے نعرے تھمادئیے گئے۔
.
(جماعت اسلامی کی صفوں میں کئی سال تک اس بات پر بحث ہوتی رہی کہ تصویر حلال ہے یا حرام ہے جبکہ موسیقی کے بارے میں اب بھی یہ بحث جاری ہے جبکہ تحریک انصاف میں ہر طرح کے حدودو قیود سے آزاد رہ کر بھی انسان انقلاب کا نعرہ لگاسکتا ہے)
..
ہر کوئی جانتا ہے کہ سپریم کورٹ میں پہلے سراج الحق گئے اور جب لاک ڈائون ناکام ہوا تو امپائروں نے خان صاحب کو سراج الحق کی اقتدا میں سپریم کورٹ بھجوادیا لیکن کریڈٹ سارا عمران خان لے گیا۔
..
دوسری طرف خیبرپختونخوا میں بھی اگر کریڈٹ ہوتو وہ پی ٹی آئی لے جارہی ہے جبکہ ڈس کریڈٹ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ شیئر کررہی ہے۔ مثلاً بلدیاتی اداروں کے قانون کا کریڈٹ ملکی سطح پر تحریک انصاف نے لیا حالانکہ یہ وزارت جماعت اسلامی کے پاس ہے۔ اسی طرح پشاور کی سڑکوںکا کسی حد تک حلیہ درست کرنے کا کریڈٹ بھی جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے بلدیات کے وزیر عنایت اللہ کو جاتا ہے لیکن اس کا کریڈٹ ملک بھر میں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے تحریک انصاف لے گئی۔
.
ابنِ خلدون کے عصبیت والے خورشید ندیم سے کون نہیں واقف، موصوف مدتوں "صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں" کی عملی تصویر بنے میاں صاحب کو سپورٹ کرتے رہے یہاں تک 2014 کا دھرنہ ہوا۔ اس کے بعد سے موصوف نے "تکلف برطرف کر کے سرِ بازار ناچنا شروع کر دیا"
.
یہ ایک حلف نامہ ٹائپ چیز ہے جو انھوں نے 10 اکتوبر 2016ء کے کالم اپنی غیر جانبداری کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے لکھا. آپ بھی پڑھیے. "میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ ملک و قوم کے معاملات کو کسی فردِ واحد کے ساتھ محبت یا نفرت کی نظر سے دیکھوں۔ پروردگار وہ دن نہ دکھائے کہ ہم کرپشن یا کسی اخلاقی برائی کے وکیل بن جائیں۔ ہم سب کو اپنے پروردگار کے حضور میں پیش ہونا ہے۔ وہاں باطن اور ظاہر کا فرق باقی نہیں رہنا۔ اس دن ہمارے اعضاگواہ بنیں گے۔ اس دن کی آمد اتنی ہی یقینی ہے جتنا یقینی آج کا دن ہے۔ اس احساس کے ساتھ مجھے اپنی بات کہنی چاہیے۔ کسی کی ملامت کا اندیشہ، کسی الزام کا خوف۔ مجھے ہر بات سے بلند تر ہو کروہ کچھ کہنا چاہیے جسے میں صحیح سمجھتا ہوں۔" (2016-10-10)
موصوف تسلسل کے ساتھ عمران کو کہتے رہے کہ آپ ہیجان کا شکار ہیں حکومت کو چلنے دیں میاں صاحب کو نکالنے کے دو طریقے ہیں عوام ووٹ کے ذریعے اتاریں یا عدالتوں سے نا اہل ہو (یہ بات میں ثبوت کے ساتھ کہہ رہا اس پر پورا کالم موجود ہے میرا) جیسے ہی عمران نے احٹجاج چھوڑ کر عدالتوں کا رخ کیا موصوف نے ایک بارپھر عمران کو ہی مورد الزام ٹھہرایا کہ اب عمران نے عدالتوں سے ساز باز کر لی۔ جب میاں عدالتوں میں ثبوت فراہم کرنے میں ناکام ہو گئے تو موصوف اپنی پٹاری سے عصبیت نامی سانپ نکال کر لے آئے کہ میاں صاحب کی چونکہ عصبیت ہے اس لیئے اس کے خلاف عدالتی فیصلہ ملک کے لیئے نقصان دہ ہے۔ موصوف جو کہ ملک و قوم کے معاملات کو کسی فردِ واحد کے ساتھ محبت یا نفرت کی نظر سے نہیں دیکھتے عمران کی جیت پر فرمانے لگے کہ عمران کی جیت پوسٹ ٹروتھ کا نتیجہ ہے گویا ابنِ خلدون کی عصبیت کے تمام مالکانہ حقوق بحق میاں صاحب محفوظ ہیں۔
.
موصوف جو کہ ملک و قوم کے معاملات کو کسی فردِ واحد کے ساتھ محبت یا نفرت کی نظر سے نہیں دیکھتے اس لیئے مریم کی جے آئی ٹی کے پیشی کے موقعے پر کالم لکھ مارتے ہیں کہ مریم اب لیڈر بن گئی ہے۔ موصوف کے تضادات پر کالم نہیں پوری ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ پروفیسر رفیق کا کھلے الفاظ میں مذاق اڑایا کہ جعلی صوفی ہیں (کالم موجود ہے) لیکن جیسے ہی عمران نے پاک پتن کا رخ کیا موصوف نے پروفیسر کو ابن عربی کے لیول کا صوفی بنایا اور اسے عمران کے بد قسمتی قرار دیا کہ عمران کو اللہ بطور ترجیح اول نہیں اقتدار کی خواہش ہے اس لیئے پاک پتن جا کر گمراہ ہوئے
.
ایک انتہائی "کریڈبل" صحافی جن کا نام طلعت حسین ہیں وہ کسی سے کیوں پیچھے رہیں۔ موصوف نے کیانی دور میں جرنل کی وہ وہ تعریفیں ڈھونڈ کر لکھ ماریں جن کے بارے شاید کیانی خود بھی بے خبر ہوں پورے پی پی کے دور میں سویلیئن حکومت کے لتے لیتے رہے میاں صاحب کے دور کے شروع میں موصوف میاں صاحب اور جیو سے نالاں رہے کہ میاں صاحب صحافیوں کے ذریعے ملک چلا رہے ہیں یہ کھلم کھلا نجی محفلوں میں فوج کو گالیاں دیتے ہیں اچانک دیکھتے ہی دیکھتے موصوف جیو اور میاں صاحب کو پیارے ہوگئے۔ جب میاں صاحب لندن سے واپس لاہور آ رہے تھے موصوف انقلاب لاتے لاتے رہ گئے۔ سوشل میڈیا پر موجود ایک کلپ میں موصوف فرماتے ہیں کہ بد ترین سنسر شپ ہے فلاں گلی یا دروازے میں تقریبا پچاس ہزار بندے میں نے خود دیکھے کوئی دکھانے نہیں دے رہا۔ موصوف سے ایک سوال تو بنتا ہے کہ ٹھیک ہے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بد ترین سنسر شپ عائد تھی اس سنسر شپ کے باوجود آپ لاہور کی گلیوں میں گھوم پھر کر جس طرح انقلاب لیکرآنا چاہ رہے تھے، آپ کی ویڈیو ہم تک پینچ گئی تو آپ کے بقول اگر ایک گیٹ پر پر، آپ نے پچاس ہزار کے قریب لوگ دیکھے تھے تو لاہور جس کی آبادی تقریبا کروڑ تو ہو گی، ایسے میں یقیننا لاکھوں لوگ نکلے ہونگے۔ سوشل میڈیا پر وہ لاکھوں لوگ کیوں نظر نہیں آئے؟ کیا اس دور میں ممکن ہے لاکھوں لوگ کہیں نکلیں اور وہ دیکھے نہ جا سکیں جس بد ترین سینسرشپ کو آپ تنقید کا نشانہ بنا رہے ، وہ ویڈیو تو ہم تو پہنچتی ہے لیکن لاکھوں لوگوں کی کوئی ویڈیو ہماری نظر سے نہیں گزری۔ اور کیا نون لیگ بحیثیتِ سیاسی پارٹی کوئی ایسا موقع ضائع کرنے کی حماقت کرتی جب ان کے حق میں لاکھوں لوگ نکلیں اور وہ شہابز شریف کی قیادت میں لاہور کی سڑکوں پر گواچی گاں کی طرح پھریں اور ایئر پورٹ کا رخ تک نہ کریں۔
یہی موصوف پچھلے دنوں بی بی سی کے ایک پروگرام میں عمران کی سادگی کے بیان کا مذاق اڑاتے ہوئے فرما رہے تھے کہ ارب روپے کے مکان میں بیٹھ کر کونسی سادگی۔۔۔۔ تعصب کے ہمالیہ پہ بیٹھ کر اس مایئنڈ لیس جینیئس سے کوئی پوچھے عمران نے کب کہا میں کوئی لینن ٹائپ انقلاب لیکر آ رہا ہوں جو اقتدار میں آتے ہیں سب کچھ تقسیم کر دونگا عمران نے ایک دعویٰ کیا تھا کہ وہ ٹیکس پیئر کا پیسہ عیاشیوں پر ضائع نہیں کرے گا۔
لیکن کیا کریں "غیر جانبداری " کے تقاضے بھی پورے کرنے ہوتے ہیں جمہوریت کو بھی سرپرستی کی ضرورت ہوتی ہے ایسے میں اس ٹائپ بیان ہی دیئے جا سکتے ہیں
.
تحریر کافی لمبی ہو گئی ابھی اور بھی بڑے بڑے نام ہیں جن کے بارے لکھا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم لوگ اپنی پسند کا سچ سننا چاہتے ہیں صابر شاکر ، عارف حمید بھٹی ارشد شریف جب عمران اور پی ٹی آئی کی تریفیں کرتے ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے طلعت اور سلیم صافی جب پی ٹی آئی اور عمران کے لیتے لیتے ہیں تو نون لیگی سپورٹر خوشی سے نہال ہو جاتے ہیں۔ہمیں سمجھنا ہو گا ہماری زوال اور برے حالات میں ان لوگوں کا بڑا ہاتھ ہے یہ اشرافیہ کا دست و بازو ہیں اور بد قسمتی سے ہم "راویان خبر زدہ" ان لوگوں کے یک طرفہ سچ کو یونیورسل ٹروتھ سمجھ کر ناچنا شروع کر دیتے ہیں۔۔
.
عماد بزدار
Last edited by a moderator: