لیبیا میں فوجی مداخلت کا کوئی منصوبہ نہیں

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
لیبیا میں فوجی مداخلت کا کوئی منصوبہ نہیں، امریکی وزیر خارجہ


امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے بدامنی کے شکار لیبیا میں کسی بیرونی فوجی مداخلت کا تاحال کوئی منصوبہ نہیں ہے اور اس شمالی افریقی عرب ریاست میں خونریز تنازعے کا سفارتی حل ہی نکالا جانا چاہیے۔
[FONT=&amp]

جان کیری، بائیں، روم میں اپنے اطالوی ہم منصب جینٹیلونی کے ساتھ
[/FONT]

[FONT=&amp][FONT=&amp]
اطالوی دارالحکومت روم سے ہفتہ تین دسمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق جان کیری نے کہا کہ لیبیا کے دارالحکومت طرابس میں نظر آنے والی تازہ خونریزی کے بعد اس امر کی ضرورت اور بھی زیادہ ہو گئی ہے کہ وہاں کسی بھی بیرونی طاقت یا عسکری اتحاد کی طرف سے کسی فوجی مداخلت کے بجائے مسلح تنازعے کے حل کے لیے سفارتی کوششیں کی جائیں۔

کیا ہونے والا ہے؟
امریکی اسپیشل آپریشن فورسز لیبیا میں

لیبیا بدترین غلطی ثابت ہوا، اوباما
امریکا، لیبیا میں عسکری کارروائی پر غور کرنے لگا

امریکی وزیر خارجہ نے بحیرہ روم کے علاقے کی ریاستوں کے مستقبل کے موضوع پر روم ہی میں جمعہ دو دسمبر کو ہونے والی ایک کانفرنس کے بعد اپنے اطالوی ہم منصب پاؤلو جینٹیلونی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ہمارا آلہء کار سفارت کاری ہے۔ ہم کسی بھی طرح کے دیگر امکانات پر غور نہیں کر رہے۔

اس موقع پر لیبیا کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کی رائے میں اس وقت کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے، جو لیبیا کے تنازعے میں اپنی عسکری حوالے سے شمولیت پر آمادہ ہو۔اے ایف پی نے لکھا ہے کہ اسی پریس کانفرنس میں یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ اطالوی وزیر خارجہ پاؤلو جینٹیلونی نے لیبیا کے تنازعے کے بارے میں کہا کہ اس مسئلے سے متعلق مذاکرات کا آج تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

معمر قذافی کے دور حکومت کے خاتمے کے بعد سے یہ ملک آج تک داخلی انتشار اور خونریزی کا شکار ہے

لیکن اس کے برعکس امریکی وزیر خارجہ کیری نے جینٹیلونی کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ لیبیا کے تنازعے کے حل کے لیے سفارتی مذاکرات اہم پیش رفت کی وجہ بنے ہیں تاہم ابھی اس سلسلے میں مزید پیش رفت کی ضرورت ہے۔

اطالوی حکومت کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے جان کیری نے کہا، گزشتہ ایک ماہ کے دوران کی جانے والی سفارتی کوششوں کا یہ قابل ذکر نتیجہ تو نکلا ہے کہ جنرل حفتر کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کاوشیں واضح طور پر آگے بڑھی ہیں۔ جان کیری کی مراد جنرل خلیفہ حفتر سے تھی، جو لیبیا میں ایک بڑی ملٹری فورس کے کمانڈر ہیں اور جنہوں نے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ ملک کی یونٹی گورنمنٹ کی حمایت کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔

اس کے برعکس خلیفہ حفتر ایک ایسی متوازی انتظامیہ کے حامی ہیں، جس کا مرکز مصر کے ساتھ سرحد کے قریب مشرقی لیبیا میں ہے اور جسے ملک میں تیل کی زیادہ تر پیداوار پر کنٹرول بھی حاصل ہے۔2011

ء میں لیبیا میں ایک عوامی انقلاب کے نتیجے میں طویل عرصے سے برسراقتدار آمر معمر قذافی کے دور حکومت کے خاتمے کے بعد سے یہ ملک آج تک داخلی انتشار اور خونریزی کا شکار ہے اور اسے مختلف ملیشیا گروپوں کے ساتھ ساتھ دو ایسی حریف حکومتوں کا بھی سامنا ہے، جو آپس میں اقتدار کی کشمکش میں الجھی ہوئی ہیں۔
[/FONT]http://www.dw.com/ur/%D9%84%DB%8C%D8%A8%DB%8C%D8%A7-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%81%D9%88%D8%AC%DB%8C-%D9%85%D8%AF%D8%A7%D8%AE%D9%84%D8%AA-%DA%A9%D8%A7-%DA%A9%D9%88%D8%A6%DB%8C-%D9%85%D9%86%D8%B5%D9%88%D8%A8%DB%81-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA-%D8%A7%D9%85%D8%B1%DB%8C%DA%A9%DB%8C-%D9%88%D8%B2%DB%8C%D8%B1-%D8%AE%D8%A7%D8%B1%D8%AC%DB%81/a-36628670[/FONT][FONT=&amp]
[/FONT]
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
لیبیا بدترین غلطی ثابت ہوا، اوباما

امریکی صدر باراک اوباما نے لیبیا کو اپنے دوراقتدار کی سب سے بدترین غلطی قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قذافی کو اقتدار سے الگ کرنے کے بعد مناسب منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی، جس کی وجہ سے وہاں حالات خراب ہوئے۔
[FONT=&amp][/FONT]
[FONT=&amp][FONT=&amp]امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ معمر قذافی کو اقتدار سے الگ کیے جانے کے بعد مناسب منصوبہ بندی کی جانا چاہیے تھی تاکہ وہاں کے حالات بہتر بنانے کی کوشش کی جا سکتی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ لیبیا میں عسکری کارروائی ایک درست اقدام تھا۔

امریکی نشریاتی ادارے فوکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے اوباما نے کہا کہ لیبیا کی پالیسی ان کے دور کی بدترین غلطی ثابت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس شمالی افریقی ملک میں مداخلت سے قبل ہی طویل المدت پالیسی بنا لینا چاہیے تھی۔

گزشتہ ماہ ہی باراک اوباما نے اپنے ایک انٹرویو میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور سابق فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ انہوں نے لیبیا میں بم حملوں کی مہم کے تناظر میں ان رہنماؤں کے کردار پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ کیمرون بدحواس ہو گئے تھے جبکہ سارکوزی اپنے ملک کی تشہیر چاہتے تھے۔

امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے دوراقتدار کی سب سے بدترین غلطی قرار دے دیا ہے


سن 2011ء میں نیٹو کی سربراہی میں لیبیا میں عسکری مداخلت شروع کی گئی تھی، جس کی وجہ سے معمر قذافی کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ تاہم قذافی کے قتل کے بعد اس ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور متحارب قبائلی گروہ ایک دوسرے کے مد مقابل آ گئے۔ اسی دوران وہاں انتہا پسند سنی عسکری گروہ داعش بھی اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہو گیا۔

لیبیا کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے اوباما نے البتہ وہاں جاری عسکری کارروائی کا دفاع بھی کیا۔ فوکس نیوز سے گفتگو میں اوباما نے اپنے دور صدارت کی اچھی یادوں پر بھی اظہار خیال کیا۔ انہوں نے اپنی سب سے بڑی کامیابی مالیاتی بحران میں اپنائی گئی اپنی پالیسیوں کو قرار دیا، جس کی بدولت امریکا بڑے اقتصادی بحران کا شکار ہونے سے بچ گیا تھا۔
[/FONT]http://www.dw.com/ur/%D9%84%DB%8C%D8%A8%DB%8C%D8%A7-%D8%A8%D8%AF%D8%AA%D8%B1%DB%8C%D9%86-%D8%BA%D9%84%D8%B7%DB%8C-%D8%AB%D8%A7%D8%A8%D8%AA-%DB%81%D9%88%D8%A7-%D8%A7%D9%88%D8%A8%D8%A7%D9%85%D8%A7/a-19179299[/FONT]
 

Back
Top