[h=1]لکھنوی فیصلے نہ کریں!
[/h]
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
آخری وقت اشاعت: منگل 19 جون 2012 ,* 14:16 GMT 19:16 PST
سپریم کورٹ کے مطابق پاکستان کے وزیراعظم گیلانی چھبیس اپریل سے نااہل تصور ہوں گے
حالانکہ پاکستانی سپریم کورٹ کے پاکستانی ججوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستانی سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ والے نا تو خلیل جبران کو تفصیلاً سمجھتے ہیں اور نا ہی اشاروں کنایوں اور رمز و گریز کی ادبی زبان پوری طرح ان کے پلّے پڑتی ہے۔
وہ تو سیدھی سیدھی جٹکی بات کہنے سننے کے عادی ہیں۔ پھر بھی سپریم کورٹ کے سات فاضل ججوں نے چھبیس اپریل کو وزیرِ اعظم کی نااہلی کا فیصلہ لکھنوی انداز و زبان میں کچھ یوں سنایا۔
قبلہ وزیرِ اعظم صاحب سوئس عدالت کو خط نا لکھنے کے سبب بادی النّظر میں نااہلی کی کگر پر پہنچ گئے ہیں۔ لہذٰا عدالت بیچ اس مسئلے کے اپنی ناخوشی ظاہر کرنے کی خاطر تا برخواستگی گیلانی بلموا کو منصفی نیناں سے اوجھل نا ہونے دیوے گی۔ مزید برآں عدالت محترمہ سپیکر صاحبہ سلمہہ سے توقع رکھتی ہے کہ وہ جنابِ وزیر اعظم کی نااہلی کےسوال پر عرق ریزی کرتے ہوئے مناسب سمجھیں تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مزید کارروائی کے لیے زحمت دینے کی مجاز ہیں۔
چنانچہ پھر وہی ہوا جو ہوا۔ نواز شریف اور عمران خان سمجھے کہ سپریم کورٹ نے حکومت کی چھٹی کرا دی۔ قبلہ وزیرِ اعظم سمجھے کہ ہم تو تیس سیکنڈ میں ہی چھوٹ گئے۔ سپیکر صاحبہ سمجھیں کہ دراصل عدالت نے یہ کہا ہے کہ جو حتمی فیصلہ کرنا ہے وہ میں کروں۔ آدھے وکیل و ارکانِ پارلیمان سمجھے کہ فیصلہ مبہم ہے۔ باقی آدھے سمجھے کہ چونکہ عدالت نے اپنے منہ سے کچھ واضح بات نہیں نکالی لہذٰا وزیرِ اعظم شک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بے شک وزیرِ اعظم رہتے رہیں۔ یہی وہ اعتماد تھا جس کے تحت وزیرِ اعظم چھبیس اپریل کے فیصلے کے بعد نا صرف اور چوڑے ہوگئے بلکہ اس قدر پھیل گئے کہ فیصلے کو اپیل کے قابل تک نہیں سمجھا۔
[h=3]شائد کہنے سننے میں کچھ نقص رہ گیا[/h] چنانچہ فاضل و معزز عدالت کو چون دن بعد احساس ہوا کہ شائد کہنے سننے میں کچھ نقص رہ گیا ہے۔لہذٰا پھر وہ زبان استعمال ہوئی جو سب کو سمجھ میں آگئی۔یعنی، ابے او شیانے۔۔۔تجھے پتا نہیں چلا کہ تو چھبیس اپریل کے بعد سے وزیرِ اعظم اور رکنِ قومی اسمبلی نہیں رہا۔اب پانچ سال کے لیے سیدھا سیدھا گھر جا۔خبردار پیچھے مڑ کے نا دیکھیو۔۔۔کیا سمجھا۔۔۔
چنانچہ فاضل و معزز عدالت کو چوّن دن بعد احساس ہوا کہ شائد کہنے سننے میں کچھ نقص رہ گیا ہے۔ لہٰذا پھر وہ زبان استعمال ہوئی جو سب کو سمجھ میں آگئی۔ یعنی، ابے او شیانے۔۔۔ تجھے پتا نہیں چلا کہ تو چھبیس اپریل کے بعد سے وزیرِ اعظم اور رکنِ قومی اسمبلی نہیں رہا۔اب پانچ سال کے لیے سیدھا سیدھا گھر جا۔ خبردار پیچھے مڑ کے نا دیکھیو۔۔۔کیا سمجھا۔۔۔
اگر یہی واضح فیصلہ چھبیس اپریل کو آجاتا تو ججوں سمیت ہر ایک کی زندگی کتنی آسان ہوجاتی۔
یوسف رضا گیلانی کی جگہ نیا وزیرِ اعظم آجاتا۔
ابہام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گیلانی صاحب اور ان کی کابینہ نے گذشتہ چوّن دن میں بجٹ سمیت جو چھوٹے بڑے انتظامی فیصلے کیے ہیں ان کی قانونی حیثیت مشکوک نا ہوتی۔
گیلانی صاحب کے بیرونی و اندرونی دوروں پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپے نئے وزیرِ اعظم کے کام آتے۔
عدالت اپنا قیمتی وقت دیگر مقدمات پر صرف کر سکتی۔
وکلاء کو لمبی لمبی فیسیں مزید نا دینی پڑتیں ۔
اگر یہی واضح فیصلہ چھبیس اپریل کو آجاتا تو ججوں سمیت ہر ایک کی زندگی کتنی آسان ہوجاتی۔ یوسف رضا گیلانی کی جگہ نیا وزیرِ اعظم آجاتا
ملک سیاسی و عدالتی و معاشی عدم استحکام کی جن کھونٹیوں سے کب سے لٹک رہا ہے ان میں ایک اور کھونٹی کا اضافہ نا ہوتا۔
مسائل ضرور پیدا ہوتے مگر ان کی نوعیت مختلف اور نئی ہوتی۔
ایک سردار جی کو خواب آیا کہ بارہ سنگھے نے انہیں ٹکر ماری اور ان کی دائیں ٹانگ اس کے سینگھوں میں پھنس کر ٹوٹ گئی۔ اگلی رات بھی یہی خواب آیا۔ اس سے اگلی رات کو بھی یہی خواب آیا۔ تیسرے دن انہوں نے چڑیا گھر جا کر اپنی دائیں ٹانگ ایک اصلی بارہ سنگھے کے سینگھوں میں اٹکا کر خود تڑوا لی۔ گھر والوں اور دوستوں نے پوچھا کہ سردار جی یہ آپ نے کیا کیا ؟ سردار جی کراہتے ہوئے بولے کہ اچھا ہی ہوا۔ روز روز نیند میں ٹانگ تڑوانے کی تکلیف سے بہتر ہے کہ ایک دفعہ ہی ٹوٹ جائے۔
تو کیا یہ ممکن ہے کہ آئندہ عدالتیں قومی نوعیت کے جو بھی فیصلے کریں وہ ابہام سے پاک اور اس زبان میں ہوں جو سب کو سمجھ میں آتی ہے۔تاکہ جو ٹانگ چوّن دن بعد ٹوٹنی ہے وہ چون دن پہلے ہی ٹوٹ جائے۔
[/h]
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
آخری وقت اشاعت: منگل 19 جون 2012 ,* 14:16 GMT 19:16 PST
حالانکہ پاکستانی سپریم کورٹ کے پاکستانی ججوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستانی سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ والے نا تو خلیل جبران کو تفصیلاً سمجھتے ہیں اور نا ہی اشاروں کنایوں اور رمز و گریز کی ادبی زبان پوری طرح ان کے پلّے پڑتی ہے۔
وہ تو سیدھی سیدھی جٹکی بات کہنے سننے کے عادی ہیں۔ پھر بھی سپریم کورٹ کے سات فاضل ججوں نے چھبیس اپریل کو وزیرِ اعظم کی نااہلی کا فیصلہ لکھنوی انداز و زبان میں کچھ یوں سنایا۔
قبلہ وزیرِ اعظم صاحب سوئس عدالت کو خط نا لکھنے کے سبب بادی النّظر میں نااہلی کی کگر پر پہنچ گئے ہیں۔ لہذٰا عدالت بیچ اس مسئلے کے اپنی ناخوشی ظاہر کرنے کی خاطر تا برخواستگی گیلانی بلموا کو منصفی نیناں سے اوجھل نا ہونے دیوے گی۔ مزید برآں عدالت محترمہ سپیکر صاحبہ سلمہہ سے توقع رکھتی ہے کہ وہ جنابِ وزیر اعظم کی نااہلی کےسوال پر عرق ریزی کرتے ہوئے مناسب سمجھیں تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مزید کارروائی کے لیے زحمت دینے کی مجاز ہیں۔
چنانچہ پھر وہی ہوا جو ہوا۔ نواز شریف اور عمران خان سمجھے کہ سپریم کورٹ نے حکومت کی چھٹی کرا دی۔ قبلہ وزیرِ اعظم سمجھے کہ ہم تو تیس سیکنڈ میں ہی چھوٹ گئے۔ سپیکر صاحبہ سمجھیں کہ دراصل عدالت نے یہ کہا ہے کہ جو حتمی فیصلہ کرنا ہے وہ میں کروں۔ آدھے وکیل و ارکانِ پارلیمان سمجھے کہ فیصلہ مبہم ہے۔ باقی آدھے سمجھے کہ چونکہ عدالت نے اپنے منہ سے کچھ واضح بات نہیں نکالی لہذٰا وزیرِ اعظم شک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بے شک وزیرِ اعظم رہتے رہیں۔ یہی وہ اعتماد تھا جس کے تحت وزیرِ اعظم چھبیس اپریل کے فیصلے کے بعد نا صرف اور چوڑے ہوگئے بلکہ اس قدر پھیل گئے کہ فیصلے کو اپیل کے قابل تک نہیں سمجھا۔
[h=3]شائد کہنے سننے میں کچھ نقص رہ گیا[/h] چنانچہ فاضل و معزز عدالت کو چون دن بعد احساس ہوا کہ شائد کہنے سننے میں کچھ نقص رہ گیا ہے۔لہذٰا پھر وہ زبان استعمال ہوئی جو سب کو سمجھ میں آگئی۔یعنی، ابے او شیانے۔۔۔تجھے پتا نہیں چلا کہ تو چھبیس اپریل کے بعد سے وزیرِ اعظم اور رکنِ قومی اسمبلی نہیں رہا۔اب پانچ سال کے لیے سیدھا سیدھا گھر جا۔خبردار پیچھے مڑ کے نا دیکھیو۔۔۔کیا سمجھا۔۔۔
چنانچہ فاضل و معزز عدالت کو چوّن دن بعد احساس ہوا کہ شائد کہنے سننے میں کچھ نقص رہ گیا ہے۔ لہٰذا پھر وہ زبان استعمال ہوئی جو سب کو سمجھ میں آگئی۔ یعنی، ابے او شیانے۔۔۔ تجھے پتا نہیں چلا کہ تو چھبیس اپریل کے بعد سے وزیرِ اعظم اور رکنِ قومی اسمبلی نہیں رہا۔اب پانچ سال کے لیے سیدھا سیدھا گھر جا۔ خبردار پیچھے مڑ کے نا دیکھیو۔۔۔کیا سمجھا۔۔۔
اگر یہی واضح فیصلہ چھبیس اپریل کو آجاتا تو ججوں سمیت ہر ایک کی زندگی کتنی آسان ہوجاتی۔
یوسف رضا گیلانی کی جگہ نیا وزیرِ اعظم آجاتا۔
ابہام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گیلانی صاحب اور ان کی کابینہ نے گذشتہ چوّن دن میں بجٹ سمیت جو چھوٹے بڑے انتظامی فیصلے کیے ہیں ان کی قانونی حیثیت مشکوک نا ہوتی۔
گیلانی صاحب کے بیرونی و اندرونی دوروں پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپے نئے وزیرِ اعظم کے کام آتے۔
عدالت اپنا قیمتی وقت دیگر مقدمات پر صرف کر سکتی۔
وکلاء کو لمبی لمبی فیسیں مزید نا دینی پڑتیں ۔
ملک سیاسی و عدالتی و معاشی عدم استحکام کی جن کھونٹیوں سے کب سے لٹک رہا ہے ان میں ایک اور کھونٹی کا اضافہ نا ہوتا۔
مسائل ضرور پیدا ہوتے مگر ان کی نوعیت مختلف اور نئی ہوتی۔
ایک سردار جی کو خواب آیا کہ بارہ سنگھے نے انہیں ٹکر ماری اور ان کی دائیں ٹانگ اس کے سینگھوں میں پھنس کر ٹوٹ گئی۔ اگلی رات بھی یہی خواب آیا۔ اس سے اگلی رات کو بھی یہی خواب آیا۔ تیسرے دن انہوں نے چڑیا گھر جا کر اپنی دائیں ٹانگ ایک اصلی بارہ سنگھے کے سینگھوں میں اٹکا کر خود تڑوا لی۔ گھر والوں اور دوستوں نے پوچھا کہ سردار جی یہ آپ نے کیا کیا ؟ سردار جی کراہتے ہوئے بولے کہ اچھا ہی ہوا۔ روز روز نیند میں ٹانگ تڑوانے کی تکلیف سے بہتر ہے کہ ایک دفعہ ہی ٹوٹ جائے۔
تو کیا یہ ممکن ہے کہ آئندہ عدالتیں قومی نوعیت کے جو بھی فیصلے کریں وہ ابہام سے پاک اور اس زبان میں ہوں جو سب کو سمجھ میں آتی ہے۔تاکہ جو ٹانگ چوّن دن بعد ٹوٹنی ہے وہ چون دن پہلے ہی ٹوٹ جائے۔