سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کرونا پر حکومتی اقدامات پر بریفنگ کے لیے آج حکومت اور اپوزیشن کا ایک مشترکہ اجلاس بلایا جس میں وزیر اعظم پاکستان نے اب تک کرونا وباء سے نمٹنے کے لیے حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات اور حکومت کی کارکردگی پر ایک تفصیلی اور جامع رپورٹ بنفس نفیس پیش کی . اس کے بعد وزیر اعظم نے چونکہ اسی موضوع پر بیک ٹو بیک رات گئے تک کئی اجلاسوں کی صدارت کرنا تھی جس میں غیر ملکی وفود بھی شامل تھے تو انہوں نے سپیکر سے درخواست کی کہ وقت کی کمی کے باعث انہیں جانے کی اجازت دے دی جائے . وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت دوسرے وزراء ، مشراء اور حکومت کے تمام زمام کار اس اجلاس میں شریک ہیں اور وہ سب بھرپور تیاری کے ساتھ آئے ہیں اور اس ضمن میں اجلاس کے شرکاء کا اگر کوئی سوال ہوا تو وہ جواب دے دیں گے اور اگر شرکاء کی کوئی مثبت تجویز ہوئی تو اسے مشترکہ اعلامیے میں شامل کر لیا جائے گا . اسپیکر نے معاملات کی نزاکت اور وقت کی کمی کے جائز مطالبے پر اپنا استحقاق استعمال کرتے ہوۓ وزیر اعظم کی درخواست قبول کر کے انہیں جانے کی اجازت دے دی . پروفیسر ڈاکٹر شہباز شریف جو لندن سے اپنا ایجنڈا لے کر زبردست تیاری کے ساتھ آئے تھے جب انہوں نے یہ سنا تو ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور وہ قومی موضوعات پر اپنے روایتی گھٹیا طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوۓ نہایت بھونڈے انداز میں نام نہاد واک آوٹ کر گئے . ان کی دیکھا دیکھی بلاول نے بھی ان جیسا رویہ اپنایا، وہ بھلا کیوں پیچھے رہتے وہ بھی اپنا الگ سے واک آوٹ کر گئے
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قوم کے خلاف ان دونوں کو ایسا رویہ اپنانے کی ضرورت کیا تھی جب کہ وزیر اعظم نے بڑے مدلل انداز میں اعداد و شمار کے ساتھ ایک مدبر لیڈر کی طرح حکومت کا کیس پیش کر دیا تھا ؟؟؟
ایک نابینا شخص کو بھی نظر آ رہا ہے کہ وزیر اعظم سے ملاقات کے کل کے ٹی وی اینکروں کے عوام دشمن مظاہرے کی طرح پروفیسر شہباز کا بھی وہی عوام دشمن ایجنڈا تھا جو ان اینکروں کا تھا . گمان یہی کیا جاتا ہے کہ کرونا سے نمٹنے کے متعلق بات کم ہونا تھی اور مالخولیا اور ہذیان کا یہ مریض سیلف پروجیکشن کے لیے کرونا سے زیادہ میر شکیل ، پائی جان ، بھتیجی اور دوسرے موضوعات پر اپنا خطبہ اور فتوے دینے سے باز نہ آتا . یہی حال بلاول کا تھا . دونوں یہ پلیٹ فارم اپنی سیاست اور پوائنٹ سکورنگ کے لیے استعمال کرنے کا موقع ضائع ہو جانے پر سیخ پا تھے . اس ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ جتنی اہلیت اور قابلیت الله کے فضل سے ان لوگوں میں ہے، ان کے پاس کرونا سے کیسے نمٹا جائے کا کوئی جواب نہ تھا، نہ ہے اور نہ کبھی ہو گا
آج یہ لوگ اور ان کے وظیفہ خوار لفافی میڈیا کے لوگ ہر چینل پر بیٹھ کر اپنے پھیپھڑے پھاڑ پھاڑ کر چنگھاڑتے پھر رہے ہیں کہ وزیر اعظم اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنا نہیں چاھتے . یہاں سوال وزیر اعظم کے چاہنے نہ چاہنے کا نہیں ہے . یہاں سوال ہم نہتے غریب عوام کا ہے جو ان اپوزیشن والوں سے دکھی دل کے ساتھ پوچھتے ہیں کہ آپ نے ہمارے ترجمان بن کر اپنا اپوزیشن کا رول کب ادا کیا ہے؟؟ دو سال ہونے کو ہیں اسمبلی کے فلور پر ان لوگوں کا صرف ایک ہی کام رہا ہے "لوٹا ہوا مال بچاؤ، کھال بچاؤ" ایک، صرف ایک تقریر اسبملی کے فلور پر دکھا دیں جس میں عوام کی بھلائی کے لیے ان کی طرف سے ایک بھی قانون پیش کیا گیا ہو . ان لوگوں کا کام سوائے وزیر اعظم، مراد سعید، فواد چوہدری اور دوسرے زعماء کو گالیاں دینے کے اور کیا رہا ہے؟؟ اپوزیشن کا ہر ممبر حکومتی زعماء کو گالم گلوچ کر کے اور حکومت کا جواب سننے سے پہلے یہ سب لوگ با جماعت اسمبلی کے فلور سے اٹھ کر باہر اسمبلی کیفیٹیریا میں بھاگ جاتے ہیں . اس کے بعد اپنا روز کا ٹی اے ڈی اے وصول کیا اور یہ جا اور وہ جا . یہ ہے ان لوگوں کا کل چلن اور ان کی کل اوقات . عوام عوام کرتے ان کی زبانیں نہیں سوکھتیں . ان کو شرم آنی چاہئیے اپنے کردار اور اپنے روئیے پر
وقت آ گیا ہے کہ اپوزیشن اپنے گریبان میں منه ڈال کر جھانکے اور سوچے کہ عوام کے نمائندے ہونے کے ناطے ان کا کام عوام کے حقوق محفوظ بنانے کے لے قانون سازی کرنا ہے یا ان کے دیے ہوۓ ووٹ کو صرف اپنے ذاتی فوائد حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا ہے ؟؟؟
جس دن ان لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آ گئی اس دن سے اس ملک کی قسمت بدلنا شروع ہو جائے گی
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قوم کے خلاف ان دونوں کو ایسا رویہ اپنانے کی ضرورت کیا تھی جب کہ وزیر اعظم نے بڑے مدلل انداز میں اعداد و شمار کے ساتھ ایک مدبر لیڈر کی طرح حکومت کا کیس پیش کر دیا تھا ؟؟؟
ایک نابینا شخص کو بھی نظر آ رہا ہے کہ وزیر اعظم سے ملاقات کے کل کے ٹی وی اینکروں کے عوام دشمن مظاہرے کی طرح پروفیسر شہباز کا بھی وہی عوام دشمن ایجنڈا تھا جو ان اینکروں کا تھا . گمان یہی کیا جاتا ہے کہ کرونا سے نمٹنے کے متعلق بات کم ہونا تھی اور مالخولیا اور ہذیان کا یہ مریض سیلف پروجیکشن کے لیے کرونا سے زیادہ میر شکیل ، پائی جان ، بھتیجی اور دوسرے موضوعات پر اپنا خطبہ اور فتوے دینے سے باز نہ آتا . یہی حال بلاول کا تھا . دونوں یہ پلیٹ فارم اپنی سیاست اور پوائنٹ سکورنگ کے لیے استعمال کرنے کا موقع ضائع ہو جانے پر سیخ پا تھے . اس ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ جتنی اہلیت اور قابلیت الله کے فضل سے ان لوگوں میں ہے، ان کے پاس کرونا سے کیسے نمٹا جائے کا کوئی جواب نہ تھا، نہ ہے اور نہ کبھی ہو گا
آج یہ لوگ اور ان کے وظیفہ خوار لفافی میڈیا کے لوگ ہر چینل پر بیٹھ کر اپنے پھیپھڑے پھاڑ پھاڑ کر چنگھاڑتے پھر رہے ہیں کہ وزیر اعظم اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنا نہیں چاھتے . یہاں سوال وزیر اعظم کے چاہنے نہ چاہنے کا نہیں ہے . یہاں سوال ہم نہتے غریب عوام کا ہے جو ان اپوزیشن والوں سے دکھی دل کے ساتھ پوچھتے ہیں کہ آپ نے ہمارے ترجمان بن کر اپنا اپوزیشن کا رول کب ادا کیا ہے؟؟ دو سال ہونے کو ہیں اسمبلی کے فلور پر ان لوگوں کا صرف ایک ہی کام رہا ہے "لوٹا ہوا مال بچاؤ، کھال بچاؤ" ایک، صرف ایک تقریر اسبملی کے فلور پر دکھا دیں جس میں عوام کی بھلائی کے لیے ان کی طرف سے ایک بھی قانون پیش کیا گیا ہو . ان لوگوں کا کام سوائے وزیر اعظم، مراد سعید، فواد چوہدری اور دوسرے زعماء کو گالیاں دینے کے اور کیا رہا ہے؟؟ اپوزیشن کا ہر ممبر حکومتی زعماء کو گالم گلوچ کر کے اور حکومت کا جواب سننے سے پہلے یہ سب لوگ با جماعت اسمبلی کے فلور سے اٹھ کر باہر اسمبلی کیفیٹیریا میں بھاگ جاتے ہیں . اس کے بعد اپنا روز کا ٹی اے ڈی اے وصول کیا اور یہ جا اور وہ جا . یہ ہے ان لوگوں کا کل چلن اور ان کی کل اوقات . عوام عوام کرتے ان کی زبانیں نہیں سوکھتیں . ان کو شرم آنی چاہئیے اپنے کردار اور اپنے روئیے پر
وقت آ گیا ہے کہ اپوزیشن اپنے گریبان میں منه ڈال کر جھانکے اور سوچے کہ عوام کے نمائندے ہونے کے ناطے ان کا کام عوام کے حقوق محفوظ بنانے کے لے قانون سازی کرنا ہے یا ان کے دیے ہوۓ ووٹ کو صرف اپنے ذاتی فوائد حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا ہے ؟؟؟
جس دن ان لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آ گئی اس دن سے اس ملک کی قسمت بدلنا شروع ہو جائے گی