بھارتی معروف گلوکارہ لتامنگیشکر احسان فراموش نکلیں
ممبئی (خصوصی رپورٹ) بھارت کے سب سے بڑا سویلین اعزاز بھارت رتنا اور بھارتی سینما کے اعلیٰ ترین دادا صاحب پھالکے ایوارڈ کی مالک لتا منگیشکر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بچپن میں اپنی چھوٹی بہن آشا کو ہر وقت اپنے ساتھ رکھتی تھیں۔ حتیٰ کہ سکول بھی اسے ساتھ لے جاتیں جب اساتذہ نے لتا سے کہا کہ وہ آشا کو سکول نہ لایا کرے تو سات آٹھ برس کی لتا نے سکول جانا ہی چھوڑ دیا۔ لتا کی سکول کی تعلیم وہیں رک گئی
لیکن آشا جب سولہ برس کی ہوئی تو وہ گنپ راﺅ بھوسلے سے شادی کرنے کیلئے گھر سے بھاگ گئی کیونکہ لتا کو گنپت راﺅ بھوسلے سے آشا کے رشتے پر اعتراض تھا ۔ آشا کی شادی کی وجہ سے گھرکی تمام ذمہ داریاں لتا پر آ گئیں ۔
سگی بہن نے لتا کا ساتھ نہیں دیا لیکن یہ مسلمان گلوکار اور فنکار تھے جنہوں نے لتا کو اپنی پہچان بنانے میں مدد دی۔ اس کے باوجود لتا عمر بھر انتہا پسند ہندو ہی بنی رہیں اور آج بھی ہیں وہ برسوں سے ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کی فنڈنگ کر رہی ہیں۔
لتا 17برس کی تھیں جب 1945ءمیں وہ اپنے والد کے دوست ماسٹر وینائیک کی فلم کمپنی کے ساتھ ممبئی پہنچیں۔ لتا نے اس وقت تک صرف مراٹھی گیت گائے تھے۔ وہ استاد امانت علی خان کی شاگردی میں رہیں اور ہندوستانی کلاسیکی موسیقی سیکھنے لگیں۔ 1947ءمیں استاد امانت علی خان پاکستان چلے آئے۔1948ءمیں ماسٹر وینائیک چل بسے۔ اب لتا کو جو واحد سہارا میسر آیا وہ میوزک ڈائریکٹر غلام حیدر تھے۔ غلام حیدر ایک دن لتا کو پلے بیک گلوکاری کا کام دلوانے کیلئے اس وقت کے معروف پروڈیوسر ایس مکھرجی کے پاس لے گئے لیکن مکھرجی نے یہ کہتے ہوئے لتا کو مسترد کر دیا کہ ان کی آواز بہت پتلی ہے۔ تاہم غلام حیدر نے فلم مجبور (1948ئ) میں لتا کو گلوکاری کا موقع دیا اور اس طرح وہ پورے بھارت میں مشہور ہوگئیں۔ لتا نے خود ایک انٹرویو میں تسلیم کیا کہ اس دور میں صرف غلام حیدر نے ان کی صلاحیتوں پر بھروسہ کیا۔ تاہم لتا نے کامیاب ہونے کے بعد ہندو انتہا پسندوں کی مدد شروع کردی
بھارتی ریاستوں مہاراشٹرا اور گجرات کے بیج میں ایک علاقہ دادراونگر حویلی کے نام سے ہے اس پر پرتگالیوں کی حکومت تھی۔ 1949ءمیں آر ایس ایس والوں نے اس علاقے پرحملہ کرکے اسے بھارت میں شامل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ انہیں رقم کی ضرورت تھی۔ لتا نے آر ایس ایس کیلئے گلوکاری کا پروگرام کیا۔ اس پروگرام سے حاصل ہونے والی آمدن آر ایس ایس کو مل گئی۔ حویلی کا علاقہ بھارت میں شامل ہوگیا۔ یہ ہندو انتہا پسندوں کیلئے لتا کی پہلی بڑی خدمت تھی۔ یاد رہے کہ ہندو انتہا پسند راشٹریہ سویم سیوک سنگھ 1925 سے سرگرم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لتا منگیشکر مذہبی بنیادوں پر بھی ہندو انتہاپسندوں کی حمایت کرتی رہی ہیں۔
میں لتا نے کہا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ گجرات کے وزیراعلیٰ مودی ملک کے وزیراعظم بن جائیں۔ گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث مودی کو ان دنوں امریکہ کا ویزا بھی نہیں مل رہا تھا۔ گجرات کے قصائی کے وزیراعظم بننے کی بات ضرور ہو رہی تھی لیکن اس کے امکانات اتنے واضح نہ تھے لتا کے بیان پر کانگریس کے رہنما جناردھن چندر کرنے شدید احتجاج کیا۔
لتا اپنی بہن آشا س ےکبھی زندگی میں نہیں بن سکی۔ اس میں صرف آشا کی شادی ہی نہیں بلکہ پیشہ وارانہ رقابت کا عنصر بھی شامل ہے۔ لتا نے کبھی شادی نہیں کی ان کی زندگی آشا بھوسلے سے رقابت اور ہندو انتہا پسندوں کی مدد میں گزری۔ شادی سے متعلق سوال پر گزشتہ برس ایک انٹرویو میں لتا نے کہا زندگی میں کبھی کبھی خالی پن محسوس ہوتا ہے لیکن جو ہوتا ہے اچھے کیلئے ہوتا ہے۔ اور جو ہیں ہوتا وہ بھی اچھے کیلئے ہوتا ہے۔ شادی سے متعلق سوال پر گزشتہ برس انٹرویو میں لتا نے کہا کہ زندگی میں کبھی خالی پن محسوس ہوتا ہے ،آپ پانچ عشرے پہلے مجھ سے یہ سوال پوچھتے تو میرا جواب کچھ اور ہوتا لیکن آج میرے دل میں ایسے خیالات کی کوئی جگہ نہیں۔
http://www.khabraingroup.com/detail.aspx?id=24524