لائیو وِد ڈاکٹر پپّو مشہور
پپّو سلسلے کی پانچویں تھریڈ
جمعرات 30 مارچ 2017
تحریر: خداداد
ملکی سیاست کے حالات خواہ کیسے ہی ہو جائیں، پپّو کی ماضی قریب یا ماضی بعید کی گفتگو کا کوئی نہ کوئی ٹوٹا پروگرام میں فِٹ کرنے کے لیے دستیاب ہوتا تھا۔
کاکا ڈاکٹر پپّو کے علاوہ متبادل پروگرام بھی دیکھتا تھا اور ہر طرف کی بات سننے کے بعد عقل کی کسوٹی پر ساری معلومات کو پرکھنے کے بعد ہی اپنی رائے قائم کرتا تھا۔
اگر قافلے کے سرداروں کے شُتر بے مُہار ہو جائیں تو ان کی تقلید میں قافلے کو دشت میں بھٹکاتے نہ پھرو۔
پروڈکشن ٹیم نے پپّو کے پچھلے اڑھائی تین سال کے پروگرامز سے اہم ترین ٹوٹے نکال کر ان کی انتہائی مفصّل البم بنا رکھی تھی۔ اہم شخصیات کے زکر اور پپّو کے مستقبل کے تجزیوں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی وڈیو فائلز کو نفاست سے ترتیب دینے کے لیے پپّو کی ٹیم نے بہت محنت کی تھی اور اپنے کمپیوٹر میں ایان علی، ڈاکٹر عاصم، صدر زرداری، آپریشن دھبڑ دھوس، سول ملٹری اختلاف، اور اس قسم کے ناموں سے بے شمار فولڈرز بنا رکھے تھے۔ پروڈکشن ٹیم کے پاس کار آمد ٹوٹوں کی اتنی کثیر تعداد موجود تھی کہ ملکی سیاست کے حالات خواہ کیسے ہی ہو جائیں، پپّو کی ماضی قریب یا ماضی بعید کی گفتگو کا کوئی نہ کوئی ٹوٹا پروگرام میں فِٹ کرنے کے لیے دستیاب ہوتا تھا۔
پپّو کو پروڈکشن ٹیم کے ساتھ مل کر ٹوٹے کھنگالتے ہوئے گھنٹہ ہو گیا تھا جب سول ملٹری اختلاف والے فولڈر سے ایک ٹوٹا سرسری سا دیکھنے کے بعد پپّو نے کاکے کو وہ ٹوٹا شام کے پروگرام کے لیے استعمال کرنے کی ہدایت کی۔ کاکا اتنا بھی کاکا نہیں تھا۔ ڈاکٹر پپّو کے علاوہ متبادل پروگرام بھی دیکھتا تھا اور ہر طرف کی بات سننے کے بعد عقل کی کسوٹی پر ساری معلومات کو پرکھنے کے بعد ہی اپنی رائے قائم کرتا تھا۔ چونک کر بولا "ڈاکٹر صاحب اس میں تو اختلاف کا ذکر ہے۔!" پپّو جو کاکے کے عقب میں کھڑا اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھے اسے کمپوزنگ کرتا دیکھ رہا تھا، کاندھا دبا کر بولا "جو کہہ دیا ہے وہ کر دو بھائی، جو میرا پروگرام دیکھتے ہیں وہ پھر کسی اور بات کا یقین نہیں کرتے"۔
پچھلے تین برسوں میں جو درجن بھر خواتین پپّو کے پروگرام کی میزبانی کرتی رہیں ان میں نون جیم کے علاوہ باقی سب کا کام پپّو کے سامنے جی جی کرنے سے زیادہ نہیں تھا۔ پپّو کے اُن پروگرامز کا ابتدائیہ قدرے بہتر تھا جن میں اُس نے خود میزبانی کے فرائض ادا کیے۔
خیر! شام کا پروگرام شروع ہوا۔ خاتون میزبان کا وہی رٹّا رٹایا ابتدائیہ، پپّو کی وہی "کوئی این آر او نہیں ہو رہا" کی ضِد اور ساتھ ہی سول ملٹری اختلاف کا ٹوٹا بھی چل گیا۔ پروگرام کے بیچ وقفوں کے دوران پپّو ٹوئٹر پر اپنے مدّاحوں کے خوشامدانہ کمنٹس پڑھ کے خوش ہوتا رہا اور تنقیدی کمنٹس کو نظر انداز کرتا رہا اور یوں کئی ہزار پروگرامز کی دھبڑ دھوس سیریز کا ایک اور پروگرام اختتام پزیر ہوا۔
سٹوڈیو کی تیز روشنیاں تو اب کئی برس سے پپّو کی زندگی کا معمول تھا اور پروگرام کی ریکارڈنگ کے بعد کے چند لمحات میں آنکھوں کی تھکن اور سراب سے پپّو اچھی طرح واقف تھا، لیکن آج نہ جانے کیوں سٹوڈیو سے نکلنے کے بعد بھی پپّو کو اپنے گرد روشنی کا ایک ہالہ سا محسوس ہو رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ رات کی تاریکی اپنی پوری طاقت کے ساتھ مدھم سی روشنی کو نگل جانے کے درپے ہے لیکن روشنی ہے کہ ایمان کے چراغ کی مانند مقابلے پر آمادہ ہے۔
آخر گاڑی میں گھر کی جانب سفر کے دوران پپّو کا ضمیر انسانی شکل میں نمودار ہو ہی گیا۔ "تم قوم کو سچ بتا کے دل سے بوجھ اتار کیوں نہیں دیتے" ضمیر پپّو سے مخاطب ہوا۔ "قوم کی بندھی بندھائی امید ٹوٹ جائے گی" پپّو نے جواب دینے میں جلدی کی کہ شاید ضمیر مطمئن ہو کر اپنا راستہ لے، لیکن آج تو وہ بحث کے لیے تیار تھا۔ "امید وہ بندھاتا ہے جس کے اپنے دل میں یقین ہو، جب تم خود بے یقینی سے دوچار ہو تو پھر یہ امید نہیں، دھوکا ہے جو تم روزانہ خود کو دیتے ہو"۔ ضمیر نے ڈانٹنے کے انداز میں پپّو سے کہا اور پپّو سر جھکائے پچھلے کئی ماہ کے واقعات کو ذہن میں دہرا کر اس بات کی کھوج میں لگ گیا کہ امید کا یہ سفر آخر کس مرحلے پر دھوکے کا موڑ مُڑ گیا۔
سوچنے کی صلاحیت کے مفلوج ہو جانے پر پپّو نے مدد طلب نظروں سے ضمیر کی جانب دیکھا اور شعور و لاشعور کی بیچ کی اسی کھڑکی کے کھلنے کا ضمیر منتظر تھا۔ بولا "مملکت خداداد چند شخصیات یا اداروں کی جاگیر کا نام نہیں۔ یہ اللّہ کے نام پر قائم ہونے والی ریاست ہے جس کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کی عوام ہے جس کے شعور سے کھیلنے کی کوشش وہ دھوکا ہے جو آج کل تم خود کو دے رہے ہو۔ آج شام جب اپنی پرانی گفتگو کے حصّے تلاش کر رہے تھے تو تمہیں اپنی وہ بات کیوں یاد نہ آئی جب تم نے کہا تھا کہ کچھ وقت کے لیے کچھ لوگوں کو تو بیوقوف بنایا جا سکتا ہے لیکن ہمیشہ کے لیے سب کو بیوقوف بنانا ممکن نہیں؟ یہ ریاست ایک قافلے کی مانند محو سفر ہے۔ تم جیسے محب وطن افراد کے ہاتھ اپنے اپنے شُتر کی مُہار ہے۔ اگر قافلے کے سرداروں کے شُتر بے مُہار ہو جائیں تو ان کی تقلید میں قافلے کو دشت میں بھٹکاتے نہ پھرو۔ اس ریاست کے لیے ریاست بنانے والے نے راستے کا انتخاب کر دیا ہے۔ اگر راہ میں رکاوٹیں ہیں تو انہیں روندتے ہوئے گزرو لیکن بھٹکے ہوؤں کی تقلید نہ کرو۔ بھٹکے ہوؤں کو واپس اپنی ڈگر پر آنا ہے نہ کہ تم اپنی مُہاریں موڑتے پھرو"۔
گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے پپّو سوچ رہا تھا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے، وہ ہر طرح کے افراد اور اداروں سے اپنی دوستیاں، تعلقات، وابستگیاں اور اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے آج سے صرف وہ کلمۂ لا الہ دہرائے گا جسکا اسے ربّ کی جانب سے حکم دیا گیا ہے۔
[email protected]
پپّو سلسلے کی دیگر تھریڈز کے لیے نیچے دیے گئے لنکس پر کلک کریں
پپّو پٹواری
پپّو صحافی
پپّو، پارو اور پپّی
پپّو پنکچر
پپّو سلسلے کی پانچویں تھریڈ
جمعرات 30 مارچ 2017
تحریر: خداداد
ملکی سیاست کے حالات خواہ کیسے ہی ہو جائیں، پپّو کی ماضی قریب یا ماضی بعید کی گفتگو کا کوئی نہ کوئی ٹوٹا پروگرام میں فِٹ کرنے کے لیے دستیاب ہوتا تھا۔
کاکا ڈاکٹر پپّو کے علاوہ متبادل پروگرام بھی دیکھتا تھا اور ہر طرف کی بات سننے کے بعد عقل کی کسوٹی پر ساری معلومات کو پرکھنے کے بعد ہی اپنی رائے قائم کرتا تھا۔
اگر قافلے کے سرداروں کے شُتر بے مُہار ہو جائیں تو ان کی تقلید میں قافلے کو دشت میں بھٹکاتے نہ پھرو۔
پروڈکشن ٹیم نے پپّو کے پچھلے اڑھائی تین سال کے پروگرامز سے اہم ترین ٹوٹے نکال کر ان کی انتہائی مفصّل البم بنا رکھی تھی۔ اہم شخصیات کے زکر اور پپّو کے مستقبل کے تجزیوں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی وڈیو فائلز کو نفاست سے ترتیب دینے کے لیے پپّو کی ٹیم نے بہت محنت کی تھی اور اپنے کمپیوٹر میں ایان علی، ڈاکٹر عاصم، صدر زرداری، آپریشن دھبڑ دھوس، سول ملٹری اختلاف، اور اس قسم کے ناموں سے بے شمار فولڈرز بنا رکھے تھے۔ پروڈکشن ٹیم کے پاس کار آمد ٹوٹوں کی اتنی کثیر تعداد موجود تھی کہ ملکی سیاست کے حالات خواہ کیسے ہی ہو جائیں، پپّو کی ماضی قریب یا ماضی بعید کی گفتگو کا کوئی نہ کوئی ٹوٹا پروگرام میں فِٹ کرنے کے لیے دستیاب ہوتا تھا۔
پپّو کو پروڈکشن ٹیم کے ساتھ مل کر ٹوٹے کھنگالتے ہوئے گھنٹہ ہو گیا تھا جب سول ملٹری اختلاف والے فولڈر سے ایک ٹوٹا سرسری سا دیکھنے کے بعد پپّو نے کاکے کو وہ ٹوٹا شام کے پروگرام کے لیے استعمال کرنے کی ہدایت کی۔ کاکا اتنا بھی کاکا نہیں تھا۔ ڈاکٹر پپّو کے علاوہ متبادل پروگرام بھی دیکھتا تھا اور ہر طرف کی بات سننے کے بعد عقل کی کسوٹی پر ساری معلومات کو پرکھنے کے بعد ہی اپنی رائے قائم کرتا تھا۔ چونک کر بولا "ڈاکٹر صاحب اس میں تو اختلاف کا ذکر ہے۔!" پپّو جو کاکے کے عقب میں کھڑا اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھے اسے کمپوزنگ کرتا دیکھ رہا تھا، کاندھا دبا کر بولا "جو کہہ دیا ہے وہ کر دو بھائی، جو میرا پروگرام دیکھتے ہیں وہ پھر کسی اور بات کا یقین نہیں کرتے"۔
پچھلے تین برسوں میں جو درجن بھر خواتین پپّو کے پروگرام کی میزبانی کرتی رہیں ان میں نون جیم کے علاوہ باقی سب کا کام پپّو کے سامنے جی جی کرنے سے زیادہ نہیں تھا۔ پپّو کے اُن پروگرامز کا ابتدائیہ قدرے بہتر تھا جن میں اُس نے خود میزبانی کے فرائض ادا کیے۔
خیر! شام کا پروگرام شروع ہوا۔ خاتون میزبان کا وہی رٹّا رٹایا ابتدائیہ، پپّو کی وہی "کوئی این آر او نہیں ہو رہا" کی ضِد اور ساتھ ہی سول ملٹری اختلاف کا ٹوٹا بھی چل گیا۔ پروگرام کے بیچ وقفوں کے دوران پپّو ٹوئٹر پر اپنے مدّاحوں کے خوشامدانہ کمنٹس پڑھ کے خوش ہوتا رہا اور تنقیدی کمنٹس کو نظر انداز کرتا رہا اور یوں کئی ہزار پروگرامز کی دھبڑ دھوس سیریز کا ایک اور پروگرام اختتام پزیر ہوا۔
سٹوڈیو کی تیز روشنیاں تو اب کئی برس سے پپّو کی زندگی کا معمول تھا اور پروگرام کی ریکارڈنگ کے بعد کے چند لمحات میں آنکھوں کی تھکن اور سراب سے پپّو اچھی طرح واقف تھا، لیکن آج نہ جانے کیوں سٹوڈیو سے نکلنے کے بعد بھی پپّو کو اپنے گرد روشنی کا ایک ہالہ سا محسوس ہو رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ رات کی تاریکی اپنی پوری طاقت کے ساتھ مدھم سی روشنی کو نگل جانے کے درپے ہے لیکن روشنی ہے کہ ایمان کے چراغ کی مانند مقابلے پر آمادہ ہے۔
آخر گاڑی میں گھر کی جانب سفر کے دوران پپّو کا ضمیر انسانی شکل میں نمودار ہو ہی گیا۔ "تم قوم کو سچ بتا کے دل سے بوجھ اتار کیوں نہیں دیتے" ضمیر پپّو سے مخاطب ہوا۔ "قوم کی بندھی بندھائی امید ٹوٹ جائے گی" پپّو نے جواب دینے میں جلدی کی کہ شاید ضمیر مطمئن ہو کر اپنا راستہ لے، لیکن آج تو وہ بحث کے لیے تیار تھا۔ "امید وہ بندھاتا ہے جس کے اپنے دل میں یقین ہو، جب تم خود بے یقینی سے دوچار ہو تو پھر یہ امید نہیں، دھوکا ہے جو تم روزانہ خود کو دیتے ہو"۔ ضمیر نے ڈانٹنے کے انداز میں پپّو سے کہا اور پپّو سر جھکائے پچھلے کئی ماہ کے واقعات کو ذہن میں دہرا کر اس بات کی کھوج میں لگ گیا کہ امید کا یہ سفر آخر کس مرحلے پر دھوکے کا موڑ مُڑ گیا۔
سوچنے کی صلاحیت کے مفلوج ہو جانے پر پپّو نے مدد طلب نظروں سے ضمیر کی جانب دیکھا اور شعور و لاشعور کی بیچ کی اسی کھڑکی کے کھلنے کا ضمیر منتظر تھا۔ بولا "مملکت خداداد چند شخصیات یا اداروں کی جاگیر کا نام نہیں۔ یہ اللّہ کے نام پر قائم ہونے والی ریاست ہے جس کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کی عوام ہے جس کے شعور سے کھیلنے کی کوشش وہ دھوکا ہے جو آج کل تم خود کو دے رہے ہو۔ آج شام جب اپنی پرانی گفتگو کے حصّے تلاش کر رہے تھے تو تمہیں اپنی وہ بات کیوں یاد نہ آئی جب تم نے کہا تھا کہ کچھ وقت کے لیے کچھ لوگوں کو تو بیوقوف بنایا جا سکتا ہے لیکن ہمیشہ کے لیے سب کو بیوقوف بنانا ممکن نہیں؟ یہ ریاست ایک قافلے کی مانند محو سفر ہے۔ تم جیسے محب وطن افراد کے ہاتھ اپنے اپنے شُتر کی مُہار ہے۔ اگر قافلے کے سرداروں کے شُتر بے مُہار ہو جائیں تو ان کی تقلید میں قافلے کو دشت میں بھٹکاتے نہ پھرو۔ اس ریاست کے لیے ریاست بنانے والے نے راستے کا انتخاب کر دیا ہے۔ اگر راہ میں رکاوٹیں ہیں تو انہیں روندتے ہوئے گزرو لیکن بھٹکے ہوؤں کی تقلید نہ کرو۔ بھٹکے ہوؤں کو واپس اپنی ڈگر پر آنا ہے نہ کہ تم اپنی مُہاریں موڑتے پھرو"۔
گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے پپّو سوچ رہا تھا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے، وہ ہر طرح کے افراد اور اداروں سے اپنی دوستیاں، تعلقات، وابستگیاں اور اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے آج سے صرف وہ کلمۂ لا الہ دہرائے گا جسکا اسے ربّ کی جانب سے حکم دیا گیا ہے۔
[email protected]
پپّو سلسلے کی دیگر تھریڈز کے لیے نیچے دیے گئے لنکس پر کلک کریں
پپّو پٹواری
پپّو صحافی
پپّو، پارو اور پپّی
پپّو پنکچر
Last edited by a moderator: