ایک چیز ہوتی ہے اعتماد_ اور ایک چیز ہوتی ہے خوش فہمی_ ایک ہوتی ہے خود ترسی اور ایک ہوتی ہے خود احتسابی_
جو قومیں اپنی حقیقی صلاحیتوں پر فخر کرتی ہیں، خوش فہمیوں کا شکار نہیں ہوتیں اور جو خود احتسابی کرتی ہیں، خود ترسی نہیں کرتیں، وہ آخر کار آگے بڑھ جاتی ہیں_ سپورٹس کا میدان بظاہر بہت غیر اہم نظر آتا ہے مگر دراصل یہ بہت اہم ہوتا ہے_ یہ قومی اتحاد کو فروغ دیتا ہے، بین الاقوامی میدان میں اعتماد دیتا ہے، آپ کے ملک کا نام بناتا ہے- آپ آج کل کی کھیلوں کو پرانے زمانے کی دعوت مبازرت سمجھ لیں_ اولمکپس خاص طور پر اس کا اظہار کرتے ہیں_ جو ملک جتنا طاقتور ہوتا ہے سائنسی اور مالی طور پر اتنے ہی میڈلز جیتتا ہے_
آج پاکستان کی ٹیم ورلڈ کپ سے باہر ہو گئی_ بہت آسان ہے گالیاں دینا، اداس ہونا،کم اعتمادی کا شکار ہو جانا_ لیکن جو مشکل کام ہے وہی کرنے کی کوشش ہے_ پاکستانی قوم ٹیلنٹ اور قابلیت میں دنیا کی ہر قوم سے بڑھ کر ہے یہ کھوکھلا دعوی نہیں ہے_
سکواش میں تیس سال تک بلا شرکت غیرے حکمرانی کرنا وہ بھی مختلف کھلاڑیوں کی طرف سے، کوئی چھوٹی بات نہیں ہے- جہانگیر خان کا کسی بھی ایتھلیٹ کی طرف سے سب سے زیادہ لگاتار میچ جیتنے کا ریکارڈ آج بھی قائم ہے_ جان شیر خان کا لگاتار دس ورلڈ کپ جیتنے کا ریکارڈ آج بھی قائم ہے- ہاکی جیسی مشکل اور ٹیکنیکل کھیل میں پاکستانیوں کی ماضی کی کارکردگی آج بھی مثال ہے اسی طرح کرکٹ میں موجودہ تنزلی سے پہلے ہمارے ملک کی صلاحیتوں کا لوہا تسلیم کیا گیا ہمیشہ_
غلط کیا ہوا اور کہاں ہوا؟ سیاست آپ کی قوم کی مجموعی حالت اور کردار کی غماز ہوتی ہے- آپ کا حکمران آپ کی قوم کا نمائندہ ہوتا ہے- خود احتسابی یہی ہے کہ آج ہم ایمانداری کے ساتھ اپنا احتساب کریں کہ کیا ہم اپنا ووٹ دینے کا حق ایمانداری کے ساتھ استعمال کرتے ہیں؟ کیا ہم جہاں بھی جو بھی نوکری کر رہے ہیں، اسے ایمانداری سے کرتے ہیں؟ کیا ہم پولیس کی غیر موجودگی میں قانون کا خیال رکھتے ہیں؟ کیا ہمارے مذہبی علما اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں؟ کیا ہماری عدالتیں بروقت انصاف یقینی بنا رہی ہیں؟ کیا ہماری پولیس مجرم کی دشمن اور عوام کی دوست ہے؟ کیا ہمارے تعلیمی ادارے درست سوچ پیدا کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں ہمارے وزیروں کے بچے علاج کرواتے ہیں؟ کیا عوام کو اختیار دیا گیا ہے حکومت میں؟ کیا پٹوار کا نظام یتیموں اور بیواؤں کی زمینوں کو بروقت ایمانداری کے ساتھ حقدار تک پہنچا رہا ہے؟ کیا ہمارے حاکم ایماندار ہیں؟ اپنے فرنٹ مین کے واسطے سے قومی اثاثے نہیں بیچتے؟ کیا ہم برادری، ذات، علاقے اور ذاتی انا و مفاد سے ہٹ کر ووٹ دینا شروع ہو چکے ہیں؟
ان چیزوں کو ٹھیک کریں تو ان کے اثرات آپ کو کھیلوں میں بھی نظر آنا شروع ہو جائیں گے_ جب تک کنویں سے کتا نہیں نکالیں گے، کنواں پاک نہیں ہو گا- جب تک ہماری قوم کی ترجیحات درست نہیں ہوں گی، معاشی اور معاشرتی انصاف ان کا فوکس نہیں بنے گی تب تک پاکستان کے نظام حکمرانی کا نام چاہے خلافت رکھ دیں، چاہے لبرل، چاہے سیکولر اور چاہے جو بھی، بہتری نہیں ہو گی_ ترجیحات درست کریں اور دنیا میں دوبارہ ایک با وقار قوم بن کے چلنا شروع کر دیں- نجم سیٹھی کو چیئرمین بنا کر اچھے نتائج کی توقع رکھنا ایسے ہی ہے جیسے نواز شریف کو وزیر اعظم بنا کر ایمانداری اور بنیادی مسائل میں بہتری کی توقع کرنا_ اور سب سے چیزیں ایک دوسرے سے کنکٹڈ ہیں_
الله ہمیں خود اعتمادی دے، خوش فہمی سے بچاۓ، خود احتسابی کرنے کی توفیق دے، خود ترسی سے بچائے_ پاکستان زندہ باد
:)