http://www.masoodanwar.com
[email protected]
مسعود انور
اس امر کا تذکرہ میں اکثر کرتا رہتا ہوں کہ عالمی سازش کاروں کادنیا کومحکوم بنانے کا سب سے بڑا ہتھیار کسی بھی قوم کو قرضوں کے جال میں جکڑ دینا ہے۔ یہ قرضے انفرادی سطح پر گھر کی تعمیر سے لے کر اس کی آرائش تک بھی ہوسکتے ہیں اور ایک لگژری کار کی خریداری سے لے کر ہنی مون تک کے لئے یہ قرضے پرکشش اشتہارات کے ذریعے رجھا کر فراہم کئے جاتے ہیں۔ کسی کی ضرورت سے بھی فائدہ اٹھایا جاتا ہے جیسا کہ بچیوں کی شادی یا کسی قدرتی آفت سے تباہی۔ قوموں کی سطح پر یہ قرضے گندم کی فراہمی کے لئے بھی ہوسکتے ہیں اور سڑکوں کی تعمیر کے لئے بھی۔ ڈیم کی تعمیر کے لئے بھی اور نئے جہازوں کی خریداری کے لئے بھی۔ فوجی ضروریات کے نام پر بھی اور صنعتی ترقی کے بہانے بھی۔ یہ عالمی سازش کار آخر ہیں کون۔ اس کا تذکرہ میں اپنی کتاب جنگوں کے سوداگر میں تفصیل کے ساتھ کرچکا ہوں۔ یہ عالمی بینکاروں کا گروہ ہے جو اپنی مالی سازشوں کے بل پر پوری دنیا کی معیشت پر قابض ہوچکا ہے اور اب گذشتہ دو سو برسوں سے پوری دنیا میں ایک عالمگیر تحریک انقلاب کے ذریعے پوری دنیا کے امن و امان کو تتر بتر کئے ہوئے ہے۔ یہی لوگ ایک عالمگیر شیطانی حکومت ون ورلڈ گورنمنٹ کے قیام کی سازشوں میں مصروف ہیں۔
قرضوں کی کہانی مجھے اس لئے دوبارہ سے یاد آگئی کہ میں ایک نیوز رپورٹ پڑھ رہا تھا جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جاپانی قوم اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ قرض تلے دبی ہوئی قوم ہونے کا اعزاز رکھتی ہے۔ اس کے مجموعی قرضوں کی مالیت ایک ہزار ٹریلین ین سے تجاوز کرچکی ہے۔ جی ہاں ایک ہزار ٹریلین ین سے بھی زیادہ۔ اگر فرانس ، برطانیہ اور جرمنی کے قرضوں کو بھی ملالیا جائے تو بھی جاپانی قوم کے قرضے کا بوجھ زیادہ ہے۔ جاپانی قوم پر قرض اس کی سالانہ مجموعی قومی پیداوار سے دو سو فیصد زائد ہے۔
آخر جاپانی حکومت اتنی قرضدار کیسے ہوئی ؟ اس سے بھی بڑھ کر ایک بہترین سوال تو یہ بھی ہے کہ جاپان تو خود قرض دینے والے ممالک میں شامل ہے۔ امریکا سعودی عرب اور چین کے ساتھ ساتھ جاپان کا بھی قرضدار ہے۔ جاپان نے امریکا کو جو قرض دیا ہوا ہے وہ تقریبا سوا ٹریلین ڈالر کے مساوی ہے یعنی جاپان پر موجود قرض کی مالیت کے دس فیصد کے برابر۔ امریکا پر جاپان کے قرضوں کی اتنی ہی مالیت ہے جتنا چین کی۔ پھر جاپان کی اتنی بری حالت کیوں ؟
اصل میں یہ کنفیوژن اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ میڈیا معاملات کو غلط ملط کردیتا ہے۔ جاپان کے نوے فیصدی قرضے اس نے ین میں حاصل کئے ہیں یعنی یہ قرضے اس نے ملک کے اندر سے ہی حاصل کئے ہوئے ہیں۔ یہ ین میں جاپانی حکومت کو کون قرض فراہم کرسکتا ہے۔ اس کا آسان سا جواب ہے کہ وہی جس کو ین چھاپنے کی اتھارٹی حاصل ہے۔ یعنی جاپان کا مرکزی بینک اور اس کے ساتھی۔ اب دیکھتے ہیں کہ امریکا کو کس نے قرض دیا ہے۔ یہ جاپانی حکومت نہیں ہے۔ یہ ہیں جاپانی بینک۔ یعنی ایک ہی ہاتھ ہے جو جاپانی حکومت کو بھی اپنے چنگل میں پھنسائے ہوئے ہے اور امریکی قوم کے نرخرے پر بھی اپنے انگوٹھے کا دباوٴ برقرار رکھے ہوئے ہے۔
جاپانی حکومت قرضوں کے جال میں اس لئے پھنسی کہ شہریوں کی ویلفیئر کا بل دن بہ دن بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔جو جاپانی حکومت اپنے عوام کی ویلفیئر پر 1990 میں 47 ٹریلین ین خرچ کررہی تھی وہی حکومت بیس برس کے بعد 2010 میں 103 ٹریلین ین خرچ کرنے پر مجبور ہوچکی تھی۔اس کا کہیں سے یہ مطلب نہیں ہے کہ اب ویلفیئر بڑھادی گئی ہے۔ نہیں ، اس میں تو روز کمی ہی آرہی ہے۔ یہ اخراجات اس لئے بڑھ رہے ہیں کہ جاپانی قوم عملا بوڑھوں کے ہجوم میں تبدیل ہوچکی ہے۔ شیطانی فلاسفروں کے بھرے میں آکر شرح پیدائش کم ہوتی چلی گئی ۔ خاندانی منصوبہ بندی اور پرآسائش زندگی کے جھمیلوں نے بچوں کی پیدائش کا عمل ختم ہی کرکے رکھ دیاہے۔ اب جوان ہوں گے تو کمائیں گے اور اپنے بوڑھوں کی کفالت بھی کریں گے۔ ان بچوں اور پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کی عدم موجودگی کے باعث حکومت کو ان بوڑھے افراد کی دیکھ بھال کرنی پڑ رہی ہے اور رفتہ رفتہ پوری جاپانی قوم قرض کے ایک ایسے گڑھے میں گر گئی ہے جس سے نکلنا اب اس کے بس کی بات نہیں رہی ہے۔یہ تو امریکا، برطانیہ، جاپان وغیرہ وغیرہ کی باتیں ہیں۔ ابھی ہم اس منزل تک نہیں پہنچے ہیں۔ ہمارے پاس ابھی بھی وقت ہے مگر دیکھئے کہ ان عالمی بینکاروں کے گماشتے کیسے کیسے گل کھلارہے ہیں۔ کراچی کے سابق سٹی ناظم مصطفٰے کمال نے تیس ارب روپے سے زائد کی تو کراچی میں سیوریج لائن ہی ڈال دی تھی جس کا نتیجہ ہم حالیہ بارشوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ یونیورسٹی روڈ پر لگائے گئے سڑک پار کرنے کا لوہے کا پل ڈھائی کروڑ میں لگایا گیا تھا۔ اربوں روپے کے بے مقصد بس اسٹاپ لگائے گئے جو کہیں پر بھی آج تک استعمال نہیں ہو رہے، دنیا کے مہنگے ترین پل اور سڑکیں بنائی گئیں اور فٹ پاتھ توڑ توڑ کر دوبارہ بنائے گئے۔ اس کے لئے پیسہ کہاں سے آیا؟ یہ کھربوں روپے ایشیائی ترقیاتی بینک سے قرض لے کر لگائے گئے یا لوٹے گئے۔ اب قرضدار کون ہوا۔ کراچی کے عوام اور پاکستانی قوم۔ اسی طرح روز لیاری میں پانی کی فراہمی اور انفرااٹرکچر کی فراہمی کے لئے پیپلزپارٹی اربوں روپے کے پیکیج کا اعلان کرتی ہے مگر لیاری کے عوام اسی طرح روز مر رہے ہیں اور پسماندگی کی زندگی گزاررہے ہیں۔
یہ چھوٹی سطح کی صورتحال ہے۔ اداروں کی سطح پر پی آئی اے کو دیکھیں، پاکستان اسٹیل مل کو دیکھیں، ریلوے کو دیکھیں۔ وفاقی سطح پر حکومت کو دیکھیں، روز اربوں ڈالر کا ایک منصوبہ ہوتا ہے جس سے عملا کوئی فائدہ یا تو پہنچتا نہیں یا پھر وہ منصوبہ بد انتظامی کا شکار ہوجاتا ہے۔ نجی بجلی گھروں کے اسکینڈل کو ہی دیکھ لیں۔ سارے ایجنٹوں کی ایک ہی سمت میں کوشش جاری ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی طرح ملک کو جاپان کی سطح پر لے جائیں۔ ابھی تو ہم ایجنٹوں کے غلام ہیں ۔ یہ صورتحال جاری رہی تو زیادہ عرصہ نہیں گذرے گا کہ ہم ان بینکاروں کے براہ راست غلام ہوں گے اور یہی ان کا مقصدہے۔
اس سازش کاروں اور ان کے ایجنٹوں کو پہچانئے۔اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھئے۔ ہشیار باش۔
Source
[email protected]
مسعود انور
اس امر کا تذکرہ میں اکثر کرتا رہتا ہوں کہ عالمی سازش کاروں کادنیا کومحکوم بنانے کا سب سے بڑا ہتھیار کسی بھی قوم کو قرضوں کے جال میں جکڑ دینا ہے۔ یہ قرضے انفرادی سطح پر گھر کی تعمیر سے لے کر اس کی آرائش تک بھی ہوسکتے ہیں اور ایک لگژری کار کی خریداری سے لے کر ہنی مون تک کے لئے یہ قرضے پرکشش اشتہارات کے ذریعے رجھا کر فراہم کئے جاتے ہیں۔ کسی کی ضرورت سے بھی فائدہ اٹھایا جاتا ہے جیسا کہ بچیوں کی شادی یا کسی قدرتی آفت سے تباہی۔ قوموں کی سطح پر یہ قرضے گندم کی فراہمی کے لئے بھی ہوسکتے ہیں اور سڑکوں کی تعمیر کے لئے بھی۔ ڈیم کی تعمیر کے لئے بھی اور نئے جہازوں کی خریداری کے لئے بھی۔ فوجی ضروریات کے نام پر بھی اور صنعتی ترقی کے بہانے بھی۔ یہ عالمی سازش کار آخر ہیں کون۔ اس کا تذکرہ میں اپنی کتاب جنگوں کے سوداگر میں تفصیل کے ساتھ کرچکا ہوں۔ یہ عالمی بینکاروں کا گروہ ہے جو اپنی مالی سازشوں کے بل پر پوری دنیا کی معیشت پر قابض ہوچکا ہے اور اب گذشتہ دو سو برسوں سے پوری دنیا میں ایک عالمگیر تحریک انقلاب کے ذریعے پوری دنیا کے امن و امان کو تتر بتر کئے ہوئے ہے۔ یہی لوگ ایک عالمگیر شیطانی حکومت ون ورلڈ گورنمنٹ کے قیام کی سازشوں میں مصروف ہیں۔
قرضوں کی کہانی مجھے اس لئے دوبارہ سے یاد آگئی کہ میں ایک نیوز رپورٹ پڑھ رہا تھا جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جاپانی قوم اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ قرض تلے دبی ہوئی قوم ہونے کا اعزاز رکھتی ہے۔ اس کے مجموعی قرضوں کی مالیت ایک ہزار ٹریلین ین سے تجاوز کرچکی ہے۔ جی ہاں ایک ہزار ٹریلین ین سے بھی زیادہ۔ اگر فرانس ، برطانیہ اور جرمنی کے قرضوں کو بھی ملالیا جائے تو بھی جاپانی قوم کے قرضے کا بوجھ زیادہ ہے۔ جاپانی قوم پر قرض اس کی سالانہ مجموعی قومی پیداوار سے دو سو فیصد زائد ہے۔
آخر جاپانی حکومت اتنی قرضدار کیسے ہوئی ؟ اس سے بھی بڑھ کر ایک بہترین سوال تو یہ بھی ہے کہ جاپان تو خود قرض دینے والے ممالک میں شامل ہے۔ امریکا سعودی عرب اور چین کے ساتھ ساتھ جاپان کا بھی قرضدار ہے۔ جاپان نے امریکا کو جو قرض دیا ہوا ہے وہ تقریبا سوا ٹریلین ڈالر کے مساوی ہے یعنی جاپان پر موجود قرض کی مالیت کے دس فیصد کے برابر۔ امریکا پر جاپان کے قرضوں کی اتنی ہی مالیت ہے جتنا چین کی۔ پھر جاپان کی اتنی بری حالت کیوں ؟
اصل میں یہ کنفیوژن اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ میڈیا معاملات کو غلط ملط کردیتا ہے۔ جاپان کے نوے فیصدی قرضے اس نے ین میں حاصل کئے ہیں یعنی یہ قرضے اس نے ملک کے اندر سے ہی حاصل کئے ہوئے ہیں۔ یہ ین میں جاپانی حکومت کو کون قرض فراہم کرسکتا ہے۔ اس کا آسان سا جواب ہے کہ وہی جس کو ین چھاپنے کی اتھارٹی حاصل ہے۔ یعنی جاپان کا مرکزی بینک اور اس کے ساتھی۔ اب دیکھتے ہیں کہ امریکا کو کس نے قرض دیا ہے۔ یہ جاپانی حکومت نہیں ہے۔ یہ ہیں جاپانی بینک۔ یعنی ایک ہی ہاتھ ہے جو جاپانی حکومت کو بھی اپنے چنگل میں پھنسائے ہوئے ہے اور امریکی قوم کے نرخرے پر بھی اپنے انگوٹھے کا دباوٴ برقرار رکھے ہوئے ہے۔
جاپانی حکومت قرضوں کے جال میں اس لئے پھنسی کہ شہریوں کی ویلفیئر کا بل دن بہ دن بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔جو جاپانی حکومت اپنے عوام کی ویلفیئر پر 1990 میں 47 ٹریلین ین خرچ کررہی تھی وہی حکومت بیس برس کے بعد 2010 میں 103 ٹریلین ین خرچ کرنے پر مجبور ہوچکی تھی۔اس کا کہیں سے یہ مطلب نہیں ہے کہ اب ویلفیئر بڑھادی گئی ہے۔ نہیں ، اس میں تو روز کمی ہی آرہی ہے۔ یہ اخراجات اس لئے بڑھ رہے ہیں کہ جاپانی قوم عملا بوڑھوں کے ہجوم میں تبدیل ہوچکی ہے۔ شیطانی فلاسفروں کے بھرے میں آکر شرح پیدائش کم ہوتی چلی گئی ۔ خاندانی منصوبہ بندی اور پرآسائش زندگی کے جھمیلوں نے بچوں کی پیدائش کا عمل ختم ہی کرکے رکھ دیاہے۔ اب جوان ہوں گے تو کمائیں گے اور اپنے بوڑھوں کی کفالت بھی کریں گے۔ ان بچوں اور پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کی عدم موجودگی کے باعث حکومت کو ان بوڑھے افراد کی دیکھ بھال کرنی پڑ رہی ہے اور رفتہ رفتہ پوری جاپانی قوم قرض کے ایک ایسے گڑھے میں گر گئی ہے جس سے نکلنا اب اس کے بس کی بات نہیں رہی ہے۔یہ تو امریکا، برطانیہ، جاپان وغیرہ وغیرہ کی باتیں ہیں۔ ابھی ہم اس منزل تک نہیں پہنچے ہیں۔ ہمارے پاس ابھی بھی وقت ہے مگر دیکھئے کہ ان عالمی بینکاروں کے گماشتے کیسے کیسے گل کھلارہے ہیں۔ کراچی کے سابق سٹی ناظم مصطفٰے کمال نے تیس ارب روپے سے زائد کی تو کراچی میں سیوریج لائن ہی ڈال دی تھی جس کا نتیجہ ہم حالیہ بارشوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ یونیورسٹی روڈ پر لگائے گئے سڑک پار کرنے کا لوہے کا پل ڈھائی کروڑ میں لگایا گیا تھا۔ اربوں روپے کے بے مقصد بس اسٹاپ لگائے گئے جو کہیں پر بھی آج تک استعمال نہیں ہو رہے، دنیا کے مہنگے ترین پل اور سڑکیں بنائی گئیں اور فٹ پاتھ توڑ توڑ کر دوبارہ بنائے گئے۔ اس کے لئے پیسہ کہاں سے آیا؟ یہ کھربوں روپے ایشیائی ترقیاتی بینک سے قرض لے کر لگائے گئے یا لوٹے گئے۔ اب قرضدار کون ہوا۔ کراچی کے عوام اور پاکستانی قوم۔ اسی طرح روز لیاری میں پانی کی فراہمی اور انفرااٹرکچر کی فراہمی کے لئے پیپلزپارٹی اربوں روپے کے پیکیج کا اعلان کرتی ہے مگر لیاری کے عوام اسی طرح روز مر رہے ہیں اور پسماندگی کی زندگی گزاررہے ہیں۔
یہ چھوٹی سطح کی صورتحال ہے۔ اداروں کی سطح پر پی آئی اے کو دیکھیں، پاکستان اسٹیل مل کو دیکھیں، ریلوے کو دیکھیں۔ وفاقی سطح پر حکومت کو دیکھیں، روز اربوں ڈالر کا ایک منصوبہ ہوتا ہے جس سے عملا کوئی فائدہ یا تو پہنچتا نہیں یا پھر وہ منصوبہ بد انتظامی کا شکار ہوجاتا ہے۔ نجی بجلی گھروں کے اسکینڈل کو ہی دیکھ لیں۔ سارے ایجنٹوں کی ایک ہی سمت میں کوشش جاری ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی طرح ملک کو جاپان کی سطح پر لے جائیں۔ ابھی تو ہم ایجنٹوں کے غلام ہیں ۔ یہ صورتحال جاری رہی تو زیادہ عرصہ نہیں گذرے گا کہ ہم ان بینکاروں کے براہ راست غلام ہوں گے اور یہی ان کا مقصدہے۔
اس سازش کاروں اور ان کے ایجنٹوں کو پہچانئے۔اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھئے۔ ہشیار باش۔
Source
Last edited by a moderator: