[FONT=&]قرآن مجید کے مسلمانوں پر چار بنیادی حق ہیں[/FONT][FONT=&]: (1) قرآن کی تلاوت،(2) قرآن کی تفہیم، (3) قرآن پر عمل،(4) قرآن کی تبلیغ۔ یہ چاروں حقوق باہم مربوط و منسلک ہیں اور ان میں سے کسی کو دوسرے سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ مثلاً قرآن کے تعارف کے لیے اس کی تلاوت ضروری ہے۔ تلاوت کے بغیر قرآن کی تفہیم ممکن نہیں۔ قرآن کی تفہیم کے بغیر قرآن پر عمل کا امکان نہیں۔ اور قرآن پر عمل کے بغیر قرآن کی تبلیغ موثر نہیں ہوسکتی۔ تاہم ان حقوق میں سب سے زیادہ اہم حق قرآن کی تفہیم ہے۔ اس لیے کہ قرآن کی درست تفہیم ہی اہلِ ایمان کو درست عمل تک لے جاسکتی ہی، اور قرآن پر صحیح معنوں میں عمل کرکے ہی انسان تبلیغ کے تقاضے پورے کرسکتا ہے۔ ان تقاضوں میں سب سے اہم تقاضا تبلیغ کی اثرانگیزی ہے۔ لیکن مشاہدہ اور تجربہ بتاتا ہے کہ فی زمانہ قرآن فہمی کا پہلو سب سے زیادہ کمزور ہوگیا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ قرآن کی تفہیم کے اصول کیا ہیں؟ مسلم دنیا کے سیکولر اور لبرل طبقات میں یہ خیال عام ہے کہ قرآن مجید کی تفہیم پر علماءکا قبضہ ہے اور ان کے الفاظ میں قرآنِ مجید فرقانِ حمید کو علماءکے قبضے سے چھڑانے کی ضرورت ہے۔ اس کی صورت انہوں نے یہ نکالی ہے کہ قرآن کا ترجمہ پڑھ لیتے ہیں اور قرآن کے مفہوم پر گفتگو شروع کردیتے ہیں۔ لیکن صرف ترجمے سے قرآن کیا شاعری تک سمجھ میں نہیں آتی۔ سیکولر اور لبرل خواتین و حضرات میں کچھ لوگ اور بھی غضب ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن مجید کی تفسیر کی پوری روایت مردوں نے پیدا کی ہے۔ اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ قرآن کی تفسیر پر مردوں کے نقطہ نظر کا غلبہ ہے۔ چنانچہ ان کا اصرار یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر عورتوں کے نقطہ نظر سے بھی لکھی جانی چاہیے۔ اس کی بہترین صورت ان کے نزدیک یہ ہے کہ خود جدید خواتین قرآن پاک کی تفسیر لکھیں۔بعض لوگ لبرل اور سیکولر نہیں ہوتے بلکہ اچھے خاصے مذہبی ہوتے ہیں، تاہم ان کا خیال ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی تفسیر دشوار نہیں، اس کے لیے عربی کی شدبد اور قرآن مجید پر تھوڑا بہت غور و فکر کافی ہے۔ ایسے لوگوں کو قرآن مجید کے اس ارشاد سے تقویت ملتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو سمجھنے کے لیے اسے آسان کردیا ہے۔ لیکن یہاں قرآن کی تفسیر کی آسانی کا مفہوم ایک شرط سے مشروط ہے۔ جو شخص یہ شرط پوری کرے گا اُس کے لیے قرآن مجید کا فہم آسان ہی، اور جو شخص یہ شرط پوری نہیں کرے گا اُس کے لیے قرآن کی تفہیم مشکل ہے۔ بلکہ قرآن مجید کے ایک ارشاد کے معنی یہ ہیں کہ قرآن بعض لوگوں کو ہدایت دیتا ہے اور بعض لوگوں کو گمراہ کردیتا ہے۔ قرآن مجید سے گمراہ ہونے کی ایک بڑی مثال مرزا غلام احمد قادیانی ہے۔ سرسید نے دعویٰ کیا کہ قرآن فہمی کی پوری روایت مسترد کیے جانے کے لائق ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے صحابہ کرامؓ کے بارے میں کہاکہ وہ تو ”بدو“ تھے وہ بھلا قرآن کو کیا سمجھتی! قرآن کا حقیقی مفہوم تو صرف میں سمجھا ہوں، اور میں اس لیے سمجھا ہوں کہ مجھے جدید عہد اور جدید علوم کی روشنی فراہم ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے ختم نبوت کا مفہوم غلط سمجھا اور ضلالت میں مبتلا ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ درکار روحانی اور اخلاقی استعداد کے بغیر قرآن کو سمجھنے کی کوشش سخت خطرناک ہے اور اس کے نتیجے میں انسان کفر، شرک اور ضلالت و گمراہی میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قرآن مجید کی تفسیر کے حقیقی معیارات اور حقیقی اصول کیا ہیں؟ قرآن مجید کی تفسیر کا سب سے بڑا اصول یہ ہے کہ قرآن کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائی، یعنی قرآن پاک کی آیتوں کی تفسیر اس کی دوسری آیتوں کی روشنی میں کی جائے۔
اس اصول کی پاسداری کے لیے دو اہلیتیں ضروری تھیں: (1) پورے قرآن مجید کا بے مثال حافظ۔ (2)قرآن مجید کا تقابلی مطالعہ۔ مسلم دنیا میں قرآن مجید کے حفظ کی روایت قدیم ہے اور امت ِمسلمہ نے گزشتہ پندرہ سو سال میں کروڑوں حفاظ پیدا کیے ہیں، لیکن قرآن کی تفسیر کے لیے معمول کا حفظ کافی نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ قرآن کی جس آیت کا حوالہ دینا چاہیں وہ فوراً آپ کے حافظہ میں روشن ہوجائے۔ یہ اہلیت بڑے بڑے حفاظ میں بھی نایاب ہوتی ہے۔ قرآن کی آیات کے تقابل کی اہلیت پیدا کرنا اس سے بھی زیادہ دشوار ہے۔ اس اہلیت کا معاملہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ اقبال کے اس شعر کی تشریح میر اور غالب کے شعروں کے ذریعے کیجیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو اقبال کے شعر کے مفہوم کے حامل میر اور غالب کے شعر ازبر ہوں۔ یہ اتنی بڑی اہلیت ہے کہ اس کا بہترین نمونہ صرف صحابہ کرامؓ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کو جس طرح صحابہ کرامؓ نے سمجھا کسی اور نے نہیں سمجھا۔ظاہری اہلیت کے اعتبار سے قرآن کو قرآن کے بعد احادیث ِمبارکہ کی روشنی میں سمجھا گیا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ مفسر کو احادیث ِمبارکہ نہ صرف حفظ ہوں بلکہ وہ ان کے مفہوم سے بھی آگاہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں قرآن فہمی دشوار تھی۔ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ کا مرتبہ یہ ہے کہ انہیں حضرت عمرؓ کے بعد خلافت کے لیے موزوں سمجھا گیا، یہ اور بات کہ حضرت عمرؓ نے اس تجویز کو قبول نہ کیا اور کہا کہ عمرؓ کے خاندان میں ایک نے خلافت کا بوجھ اٹھالیا، یہ کافی ہے۔ انہی عبداللہ ابن عمرؓ کا بیان ہے کہ ہم نے سورہ بقرہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساڑھے آٹھ سال میں سیکھی۔ اس بات کا مفہوم کیا ہی؟ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا کے سب سے اچھے معلم اور سب سے اچھے شاگردوں کی موجودگی کے باوجود سورہ بقرہ کی تفہیم ساڑھے آٹھ سال پر محیط ہوگئی۔ تاہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد ِصحابہؓ کے بعد قرآن کی تفہیم کے اس معیار اور اس اصول کی پیروی دشوار ہوگئی۔ ہمارے زمانے تک آتے آتے صورتِ حال یہ ہوگئی ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں قاضی ثنا اللہ پانی پتی نے تفسیر مظہری کے نام سے ایک تفسیر لکھی ہی، اور یہ تفسیر ایک صدی کے دوران پورے برصغیر میں لکھی جانے والی اپنی نوعیت کی واحد تفسیر ہے۔ اس تفسیر میں مفسر کی رائے کم ہی، قرآن اور بالخصوص احادیث کے حوالے زیادہ ہیں۔ لیکن اب ایسا علم ناپید ہے۔ چنانچہ اب تفسیر کے لیے بیشتر صورتوں میں اس باطنی اہلیت پر اکتفا کرنا پڑتا ہے یا کرنا پڑے گا جو تفسیر کے لیے ہمیشہ سے ناگزیر رہی ہے اور ہمیشہ ناگزیر رہے گی۔ سوال یہ ہے کہ یہ اہلیت کیا ہی؟قرآن مجید میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِگرامی کے بارے میں دو بنیادی باتیں کہی گئی ہیں، ایک یہ کہ آپ کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، اور دوسری یہ کہ آپ نفوس کا تزکیہ کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کتاب و حکمت کی تفہیم کے لیے نفس کا تزکیہ ناگزیر ہے اور ان دونوں تصورات میں ایک ناگزیر ربط ِباہمی ہے اور انہیں ایک دوسرے سے الگ کرکے نہیں سمجھا جاسکتا۔قرآن مجید نے ایک اور مقام پر قرآن سے رابطے کا اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس کتاب کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو ”پاک“ ہیں۔ قرآن کا ایک ظاہر ہی، ایک باطن ہے۔ قرآن کا ظاہر اس کا متن ہی، اس کا Text ہے۔ قرآن کا باطن اس کے معنی ہیں۔ قرآن کے ظاہر تک رسائی کا اصول یہ ہے کہ اہلِ ایمان کا ظاہر پاک ہو۔ قرآن کے باطن تک رسائی کا اصول بھی یہی ہے۔ یعنی یہ کہ اہلِ ایمان کا باطن پاک ہو۔ جس شخص کا باطن پاک نہ ہو قرآن اسے اپنے معنی تک رسائی نہیں دے سکتا۔ یہ قرآن کی تفہیم کی سب سے بڑی، سب سے اہم اور دائمی اہلیت ہے۔ اس کے بغیر جو قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرے گا ناکام ہوگا، بلکہ اندیشہ یہ ہے کہ گمراہ ہوجائے گا۔ اس لیے امام جعفر صادقؒ نے فرمایا ہے کہ جس نے الہام کے بغیر قرآن پر کلام کیا وہ راندہ درگاہ ہوا۔ یعنی گمراہ ہوا۔ ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں تفکر اور تفہیم کی روایت کا تعلق صفائے قلب اور تزکیہ نفس سے زیادہ ہی، ذہن سے بہت کم ہے۔ غور کیا جائے تو الہام ایک خدائی مدد ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا قلب پاک، صاف اور نفس تزکیے کے مراحل سے گزرا ہوا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کا نفس جیسا ہوگا اس کا الہام بھی ویسا ہی ہوگا۔ مثلاً اگر کوئی شخص نفس امارہ یعنی تاریکی میں گھرے ہوئے نفس کا اسیر ہے تو اس کا الہام بھی ویسا ہی ہوگا۔ اور اگر کسی کو نفسِ مطمئنہ حاصل ہوگیا ہے تو اس کے الہام کی نوعیت مختلف ہوگی اور وہ قرآن مجید کے مفہوم تک رسائی کا زیادہ اہل ہوگا۔ ہمارے عہد کا مسئلہ یہ ہے کہ مغربی فکر کے زیراثر سمجھ لیا گیا ہے کہ فکر و تدبر کا تعلق صرف ذہن کے ساتھ ہی، اور ان چیزوں کو صفائے قلب اور تزکیہ نفس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ لیکن ذہن کا معاملہ یہ ہے کہ وہ انسانی وجود کا سب سے خود غرض حصہ ہے اور جب تک قلب اور نفس کو پاک صاف نہ کیا جائے ذہن کو مہذب نہیں بنایا جاسکتا۔ تجزیہ کیا جائے تو ایک سطح پر تہذیب کا مفہوم اپنے عقائد و نظریات کو ذہن کے لیے قابلِ قبول اور اطمینان بخش بنانا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی کی قرآنی تفہیم نفس کے پست ترین درجے یعنی نفس امارہ سے کلام کرنے کا نتیجہ ہیں۔
[/FONT]
اس اصول کی پاسداری کے لیے دو اہلیتیں ضروری تھیں: (1) پورے قرآن مجید کا بے مثال حافظ۔ (2)قرآن مجید کا تقابلی مطالعہ۔ مسلم دنیا میں قرآن مجید کے حفظ کی روایت قدیم ہے اور امت ِمسلمہ نے گزشتہ پندرہ سو سال میں کروڑوں حفاظ پیدا کیے ہیں، لیکن قرآن کی تفسیر کے لیے معمول کا حفظ کافی نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ قرآن کی جس آیت کا حوالہ دینا چاہیں وہ فوراً آپ کے حافظہ میں روشن ہوجائے۔ یہ اہلیت بڑے بڑے حفاظ میں بھی نایاب ہوتی ہے۔ قرآن کی آیات کے تقابل کی اہلیت پیدا کرنا اس سے بھی زیادہ دشوار ہے۔ اس اہلیت کا معاملہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ اقبال کے اس شعر کی تشریح میر اور غالب کے شعروں کے ذریعے کیجیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو اقبال کے شعر کے مفہوم کے حامل میر اور غالب کے شعر ازبر ہوں۔ یہ اتنی بڑی اہلیت ہے کہ اس کا بہترین نمونہ صرف صحابہ کرامؓ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کو جس طرح صحابہ کرامؓ نے سمجھا کسی اور نے نہیں سمجھا۔ظاہری اہلیت کے اعتبار سے قرآن کو قرآن کے بعد احادیث ِمبارکہ کی روشنی میں سمجھا گیا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ مفسر کو احادیث ِمبارکہ نہ صرف حفظ ہوں بلکہ وہ ان کے مفہوم سے بھی آگاہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں قرآن فہمی دشوار تھی۔ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ کا مرتبہ یہ ہے کہ انہیں حضرت عمرؓ کے بعد خلافت کے لیے موزوں سمجھا گیا، یہ اور بات کہ حضرت عمرؓ نے اس تجویز کو قبول نہ کیا اور کہا کہ عمرؓ کے خاندان میں ایک نے خلافت کا بوجھ اٹھالیا، یہ کافی ہے۔ انہی عبداللہ ابن عمرؓ کا بیان ہے کہ ہم نے سورہ بقرہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساڑھے آٹھ سال میں سیکھی۔ اس بات کا مفہوم کیا ہی؟ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا کے سب سے اچھے معلم اور سب سے اچھے شاگردوں کی موجودگی کے باوجود سورہ بقرہ کی تفہیم ساڑھے آٹھ سال پر محیط ہوگئی۔ تاہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد ِصحابہؓ کے بعد قرآن کی تفہیم کے اس معیار اور اس اصول کی پیروی دشوار ہوگئی۔ ہمارے زمانے تک آتے آتے صورتِ حال یہ ہوگئی ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں قاضی ثنا اللہ پانی پتی نے تفسیر مظہری کے نام سے ایک تفسیر لکھی ہی، اور یہ تفسیر ایک صدی کے دوران پورے برصغیر میں لکھی جانے والی اپنی نوعیت کی واحد تفسیر ہے۔ اس تفسیر میں مفسر کی رائے کم ہی، قرآن اور بالخصوص احادیث کے حوالے زیادہ ہیں۔ لیکن اب ایسا علم ناپید ہے۔ چنانچہ اب تفسیر کے لیے بیشتر صورتوں میں اس باطنی اہلیت پر اکتفا کرنا پڑتا ہے یا کرنا پڑے گا جو تفسیر کے لیے ہمیشہ سے ناگزیر رہی ہے اور ہمیشہ ناگزیر رہے گی۔ سوال یہ ہے کہ یہ اہلیت کیا ہی؟قرآن مجید میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِگرامی کے بارے میں دو بنیادی باتیں کہی گئی ہیں، ایک یہ کہ آپ کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، اور دوسری یہ کہ آپ نفوس کا تزکیہ کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کتاب و حکمت کی تفہیم کے لیے نفس کا تزکیہ ناگزیر ہے اور ان دونوں تصورات میں ایک ناگزیر ربط ِباہمی ہے اور انہیں ایک دوسرے سے الگ کرکے نہیں سمجھا جاسکتا۔قرآن مجید نے ایک اور مقام پر قرآن سے رابطے کا اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس کتاب کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو ”پاک“ ہیں۔ قرآن کا ایک ظاہر ہی، ایک باطن ہے۔ قرآن کا ظاہر اس کا متن ہی، اس کا Text ہے۔ قرآن کا باطن اس کے معنی ہیں۔ قرآن کے ظاہر تک رسائی کا اصول یہ ہے کہ اہلِ ایمان کا ظاہر پاک ہو۔ قرآن کے باطن تک رسائی کا اصول بھی یہی ہے۔ یعنی یہ کہ اہلِ ایمان کا باطن پاک ہو۔ جس شخص کا باطن پاک نہ ہو قرآن اسے اپنے معنی تک رسائی نہیں دے سکتا۔ یہ قرآن کی تفہیم کی سب سے بڑی، سب سے اہم اور دائمی اہلیت ہے۔ اس کے بغیر جو قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرے گا ناکام ہوگا، بلکہ اندیشہ یہ ہے کہ گمراہ ہوجائے گا۔ اس لیے امام جعفر صادقؒ نے فرمایا ہے کہ جس نے الہام کے بغیر قرآن پر کلام کیا وہ راندہ درگاہ ہوا۔ یعنی گمراہ ہوا۔ ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں تفکر اور تفہیم کی روایت کا تعلق صفائے قلب اور تزکیہ نفس سے زیادہ ہی، ذہن سے بہت کم ہے۔ غور کیا جائے تو الہام ایک خدائی مدد ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا قلب پاک، صاف اور نفس تزکیے کے مراحل سے گزرا ہوا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کا نفس جیسا ہوگا اس کا الہام بھی ویسا ہی ہوگا۔ مثلاً اگر کوئی شخص نفس امارہ یعنی تاریکی میں گھرے ہوئے نفس کا اسیر ہے تو اس کا الہام بھی ویسا ہی ہوگا۔ اور اگر کسی کو نفسِ مطمئنہ حاصل ہوگیا ہے تو اس کے الہام کی نوعیت مختلف ہوگی اور وہ قرآن مجید کے مفہوم تک رسائی کا زیادہ اہل ہوگا۔ ہمارے عہد کا مسئلہ یہ ہے کہ مغربی فکر کے زیراثر سمجھ لیا گیا ہے کہ فکر و تدبر کا تعلق صرف ذہن کے ساتھ ہی، اور ان چیزوں کو صفائے قلب اور تزکیہ نفس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ لیکن ذہن کا معاملہ یہ ہے کہ وہ انسانی وجود کا سب سے خود غرض حصہ ہے اور جب تک قلب اور نفس کو پاک صاف نہ کیا جائے ذہن کو مہذب نہیں بنایا جاسکتا۔ تجزیہ کیا جائے تو ایک سطح پر تہذیب کا مفہوم اپنے عقائد و نظریات کو ذہن کے لیے قابلِ قبول اور اطمینان بخش بنانا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سرسید اور مرزا غلام احمد قادیانی کی قرآنی تفہیم نفس کے پست ترین درجے یعنی نفس امارہ سے کلام کرنے کا نتیجہ ہیں۔
[/FONT]
[FONT=&]http://urdu.jamaat.org/site/article_detail/277
[/FONT]
[/FONT]