ابابیل
Senator (1k+ posts)
قرآن مجید کی ایک آیت کی سائنسی توضیح
قرآن معجزاتی کتاب ہے اور ابد تک اس کے معجزے دنیا کے سامنے آتے رہیں گے- یہ قرآن کی شان ہے کہ بندہ جب بھی ہدایت حاصل کرنے کیلئے اس کو پڑھتا ہے یا سننے کیلئے بیٹھتا ہے، ضرور وہ کچھ نہ کچھ نیا سیکھتا ہے- کل میں ایک ٹاپک تیار کرنے کیلئے بائیولوجی اور اسلام پر اسٹڈی کر رہا تھا- قرآن مجید اور سائنس کے حوالاجات دیکھنے کے بعد ایک آیت ذہن میں آئی جو فزکس کے ایک اصول کو بہت خوبصورتی کے ساتھ بیان کرتی ہے تو اسی آیت پر محدود علم کے ساتھ لکھنے کی کوشش کی ہے- سورہ انعام کی آیت 125 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.
فَمَن يُرِدِ اللّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلإِسْلاَمِ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاء كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُون
جس کو اللّه ھدایت دینا چاہے اس کا سینہ اسلام کیلئے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہے اس کا سینہ خوب رکا ہوا تنگ کر دیتا ہے جیسے زبردستی آسمان پر چڑھا جا رہا ہو- اللّه اسی طرح عذاب ڈالتا ہے ایمان نہ لانے والوں پر
پہلے الفاظ کے معنی سمجھتے ہیں- ضیّقاً کا لفظ یہاں آیا ہے جس کے معنی ہیں تنگ (narrow, chocked)، حَرجاً کے معنی تنگ اور کسی چیز سے بہت زیادہ بھرا ہوا (over filled) اور يَصَّعَّدُ کا لفظ زبردستی کے ساتھ چڑھنا اور Sheer ascent کے مطلب میں استعمال ہوتا ہے- اب سائنسی پہلو کی طرف آتے ہیں
آیت میں بیان کی گئی مثال کو دو سائنسی توضیحات کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے- پہلا جو بہت سادہ ہے اور آپ نے اس کے بارے میں ضرور سنا ہوگا کہ جب سطح سمندر سے بلندی Altitude زیادہ ہوتی ہے تو ہوا کا دباؤ کم ہوتا ہے اور جب دباؤ کم ہوتا ہے تو گیسوں خصوصاً آکسجن کی دستیابی کم سے کم ہوتی ہے اور آخر میں ہوا کے بہت کم دباؤ کہ وجہ سے سانس لینا بھی ممکن نہیں رہتا اور choking کی کیفیت پیدا ہوتی ہے
آج سے چودہ سو سال پہلے اللّہ تعالیٰ نے قرآن میں اس سائنسی نقطے کو بیان فرما دیا، فرماتا ہے کہ جسے آسمان میں زبردستی چڑھا جا رہا ہو
دوسری توضیح ماڈرن سائنس سے ہے جس میں اسراع Acceleration کی وجہ سے اجسام پر دباؤ پڑتا ہے جس کو g-force کہا جاتا ہے- زمین پر اگر کوئی چل رہا ہوتا ہے تو اس پر اس دباؤ کی قوت کی مقدار 1g ہوگی اور جب کوئی چیز سرعت کے ساتھ تیز سے تیر تر جا رہی ہوتی ہے تو اسکی g-force میں ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا ہے- ہواباز اور خلاباز زیادہ Gs کا دباؤ کا سامنا کرتے ہیں اور اس دباؤ کو سہنے کیلئے ان کے پاس خصوصی سوٹ ہوتے ہیں- اوپر کی جانب اسراع سے دباؤ پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے جسم کو stress and strain کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور خون پیروں اور اعضاء کے درمیان جمع ہوتا ہے، دماغ کو خون کی سپلائی بند ہو جاتی ہے اور اگر یہ دباؤ سہنے کا سوٹ نہ پہنا ہو تو آدمی کا دماغ کام کرنا بند کر دیتا ہے اور بے ہوش طاری ہوتی ہے جس کا سائنسی نام g-LOC ہے
قرآن کی یہ مثال کہ سینہ تنگ کئے جانا کہ جیسے زبردستی آسمان میں چڑھا جا رہا ہوں آج کی ماڈرن سائنس سے سو فیصد مطابقت رکھتی ہے- قرآن مجیدکی شان ہے کہ اس میں اللہ رب العالمین نے مشکل سائنسی توضیحات کو بھی نہایت ہی آسان اسلوب میں بیان کیا ہے
ہے کوئی ھداہت قبول کرنے والا
نعمان بخاری

قرآن معجزاتی کتاب ہے اور ابد تک اس کے معجزے دنیا کے سامنے آتے رہیں گے- یہ قرآن کی شان ہے کہ بندہ جب بھی ہدایت حاصل کرنے کیلئے اس کو پڑھتا ہے یا سننے کیلئے بیٹھتا ہے، ضرور وہ کچھ نہ کچھ نیا سیکھتا ہے- کل میں ایک ٹاپک تیار کرنے کیلئے بائیولوجی اور اسلام پر اسٹڈی کر رہا تھا- قرآن مجید اور سائنس کے حوالاجات دیکھنے کے بعد ایک آیت ذہن میں آئی جو فزکس کے ایک اصول کو بہت خوبصورتی کے ساتھ بیان کرتی ہے تو اسی آیت پر محدود علم کے ساتھ لکھنے کی کوشش کی ہے- سورہ انعام کی آیت 125 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.
فَمَن يُرِدِ اللّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلإِسْلاَمِ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاء كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُون
جس کو اللّه ھدایت دینا چاہے اس کا سینہ اسلام کیلئے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہے اس کا سینہ خوب رکا ہوا تنگ کر دیتا ہے جیسے زبردستی آسمان پر چڑھا جا رہا ہو- اللّه اسی طرح عذاب ڈالتا ہے ایمان نہ لانے والوں پر
پہلے الفاظ کے معنی سمجھتے ہیں- ضیّقاً کا لفظ یہاں آیا ہے جس کے معنی ہیں تنگ (narrow, chocked)، حَرجاً کے معنی تنگ اور کسی چیز سے بہت زیادہ بھرا ہوا (over filled) اور يَصَّعَّدُ کا لفظ زبردستی کے ساتھ چڑھنا اور Sheer ascent کے مطلب میں استعمال ہوتا ہے- اب سائنسی پہلو کی طرف آتے ہیں
آیت میں بیان کی گئی مثال کو دو سائنسی توضیحات کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے- پہلا جو بہت سادہ ہے اور آپ نے اس کے بارے میں ضرور سنا ہوگا کہ جب سطح سمندر سے بلندی Altitude زیادہ ہوتی ہے تو ہوا کا دباؤ کم ہوتا ہے اور جب دباؤ کم ہوتا ہے تو گیسوں خصوصاً آکسجن کی دستیابی کم سے کم ہوتی ہے اور آخر میں ہوا کے بہت کم دباؤ کہ وجہ سے سانس لینا بھی ممکن نہیں رہتا اور choking کی کیفیت پیدا ہوتی ہے
آج سے چودہ سو سال پہلے اللّہ تعالیٰ نے قرآن میں اس سائنسی نقطے کو بیان فرما دیا، فرماتا ہے کہ جسے آسمان میں زبردستی چڑھا جا رہا ہو
دوسری توضیح ماڈرن سائنس سے ہے جس میں اسراع Acceleration کی وجہ سے اجسام پر دباؤ پڑتا ہے جس کو g-force کہا جاتا ہے- زمین پر اگر کوئی چل رہا ہوتا ہے تو اس پر اس دباؤ کی قوت کی مقدار 1g ہوگی اور جب کوئی چیز سرعت کے ساتھ تیز سے تیر تر جا رہی ہوتی ہے تو اسکی g-force میں ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا ہے- ہواباز اور خلاباز زیادہ Gs کا دباؤ کا سامنا کرتے ہیں اور اس دباؤ کو سہنے کیلئے ان کے پاس خصوصی سوٹ ہوتے ہیں- اوپر کی جانب اسراع سے دباؤ پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے جسم کو stress and strain کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور خون پیروں اور اعضاء کے درمیان جمع ہوتا ہے، دماغ کو خون کی سپلائی بند ہو جاتی ہے اور اگر یہ دباؤ سہنے کا سوٹ نہ پہنا ہو تو آدمی کا دماغ کام کرنا بند کر دیتا ہے اور بے ہوش طاری ہوتی ہے جس کا سائنسی نام g-LOC ہے
قرآن کی یہ مثال کہ سینہ تنگ کئے جانا کہ جیسے زبردستی آسمان میں چڑھا جا رہا ہوں آج کی ماڈرن سائنس سے سو فیصد مطابقت رکھتی ہے- قرآن مجیدکی شان ہے کہ اس میں اللہ رب العالمین نے مشکل سائنسی توضیحات کو بھی نہایت ہی آسان اسلوب میں بیان کیا ہے
ہے کوئی ھداہت قبول کرنے والا
نعمان بخاری
Last edited by a moderator: