نبی کریمﷺنے قبروں کو پختہ کرنے اور ان پر عمارتیں بنانے سے منع فرمایا
روایت ہےکہ حضرت ام حبیبہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے حبشے میں ایک گرجا دیکھا، جس میں تصویریں تھیں، انہوں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا ان اولئك اذا كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا علي قبره مسجدا وصوره فيه تلك الصور' فاولئك شرار الخلق عندالله يوم القيامة (صحيح البخاري' الصلاة' باب هل تنبش قبور مشركي الجاهلية ويتخذ مكانها مساجد' ح: 427)
یہ لوگ، جب ان میں نیک آدمی مر جاتا، تو اس کی قبر پر سجدہ گاہ بنا لیتے اور اس میں اس کی تصویرین رکھ لیتے، یہ لوگ قیامت کے دن اللہ عزوجل کے نزدیک مخلوق میں سب سے بدترین ہوں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو مذکورہ حکم دینے کے ساتھ ساتھ بارگاہ الہی میں بھی دعا فرمائی (اللهم لا تجعل قبري وثنا يعبد) (مسند احمد: 2/246' والمصنف لابن ابي شيبة: 3/345) "اے اللہ میری قبر کو ایسا بت نہ بنانا جس کی پوجا کی جائے"
اس سے معلوم ہوا کہ کسی قبر کو خاص قابل تعظیم سمجھنا، بار بار اس کی زیارت کے لئے آنا، یا حاجت برآری کے لئے وہاں حاضری دینا، اس قبر کو بت بنا دینے اور سمجھنے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ بہت سی قبروں کا یہی حال ہم دیکھ رہے ہیں۔
چنانچہ نبی کریمﷺنےاپنے مرض الموت میں فرمایا
لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ
''اللہ تعالیٰ یہود ونصاری پر لعنت فرمائے،انہوں نے اپنی انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا''
پچھلی امتوں(یہود ونصاری) نے اپنے انبیاء اور صالحین کی قبروں کے ساتھ یہی غلو کیا اور انہوں نے قبروں کو عبادت گاہیں بنا لیا،جس پر وہ لعنت کے مستحق قرار پائے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں لَوْلَا ذَلِكَ أُبْرِزَ قَبْرُهُ غَيْرَ أَنَّهُ خَشِيَ أَوْ خُشِيَ أَنَّ يُتَّخَذَ مَسْجِدًا
(صحیح البخاری،الجنائز،باب ماجا فی القبر النبیﷺ وابی بکر و عمر رضی اللہ عنہما،ح؛1390
''اگر مذکورہ اندیشہ نہ ہوتا تو آپ کی قبر مبارک ظاہر کردی جاتی(یعنی اسی کسی کھلی جگہ پر بنایا جاتا)مگر آپ نے اندیشہ محسوس کیا کہ کہیں اسے سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے''
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتےہیں۔ وقول النبي صلي الله عليه وسلم: اللهم لا تجعل "الحديث" دليل علي ان القبور قد تجعل اوثانا وهو صلي الله عليه وسلم خاف من ذلك فدعا الله ان لا يفعله بقبر واستجاب الله دعاءه رغم النف المشركين الضالين الذين يشبهون قبر غيره بقبره(كتاب الرد علي الاخنائي علي هامش "الرد علي البكري" ص: 234
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو اس بات کا ڈرتھا کہ کہیں میری قبر بھی بت نہ بن جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے دعا کی کہ میری قبر کے ساتھ ایسا نہ ہو اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلي الله عليه وسلم کی دعا کو قبول فرما لیا۔ أَنْ يُجَصَّصَ الْقَبْرُ، وَأَنْ يُقْعَدَ عَلَيْهِ، وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهِ
(صحیح مسلم،الجنائز،باب النھی عن تجصیص القبر۔۔۔۔،ح:970)
رسول اللہﷺنے قبروں کو چونہ گچ(پختہ ) کرنے سے،ان پر بیٹھنے سے اور ان پر عمارت تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے
اسی طرح قبر پر نام لکھنے سے بھی آپ نے منع فرمایا ہے۔ان چیزوں سے منع کرنے میں یہی حکمت ہےکہ لوگ شرک سے دور رہیں۔کیونکہ قبروں کو پختہ کرنا یا ان پر قبے وغیرہ بنانا یا ان کے ناموں کی تختی لگانا یہ صالحین کی یا ان کی قبروں کی تعظیم میں غلو کرنے ہی کا نتیجہ ہے،جو مفضی الیٰ الشرک ہے۔
قبروں پر بیٹھنے اور ان کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے
لَا تُصَلُّوا إِلَى الْقُبُورِ، وَلَا تَجْلِسُوا عَلَيْهَا
صحیح مسلم،الجنائز،باب النھی عن الجلوس علی القبر والصلاۃ علیہ،ح:971
''تم قبروں کی طرف نماز پڑھو اورنہ ان پر بیٹھو''
قبروں کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے میں بھی اندیشہ شرک پایا جاتا ہے،اسی طرح اگر بیٹھنے سے مراد مجاور بن کر بیٹھنا مراد لی لیا جائے(کیونکہ یہ بھی بیٹھنے میں آجا تا ہے) تو یہ تعظیم قبر میں غلو کی شکل ہے،جو نہایت خطرناک ہے۔
حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ آل عمران 173 ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔
in post number 2 brother Abdullah Malik posted some pictures, is it Shirk and why is it overlooked by Saudiia and other Islamic states?
May I say Saudies are promoting SHIRK?
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے اسلام کو فالو کرنا ہے تو اللہ کا حکم اور نبی ﷺ کا فرمان دیکھو ۔ مسلمانوں کے
اعمال نہیں
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تشریف آوری کے مبارک ماہ ربیع الاول اول کی آمد آمد ہے لیکن مرتدین اور گستاخانِ محمد صلی الہ علیہ و آلہ وسلم کی تبخیریات ایڈوانس میں ہی مقام اخراج کی تلاش میں باہر کو لپک رہی ہے۔ اللہ مسلمانوں کو مرتد ہونے کی عذاب سے محفوظ فرمائے۔
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے اسلام کو فالو کرنا ہے تو اللہ کا حکم اور نبی ﷺ کا فرمان دیکھو ۔ مسلمانوں کے
اعمال نہیں
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے اسلام کو فالو کرنا ہے تو اللہ کا حکم اور نبی ﷺ کا فرمان دیکھو ۔ مسلمانوں کے
اعمال نہیں
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ایک واقعہ ملاحظہ ہو جس کو شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک شاگردِ رشید مولانا محمد بشیر الدین قبوجی (متوفیٰ: 1296ھ) نے فقہ کی ایک کتاب "غرائب فی تحقیق المذاہب" کے حوالہ سے لکھا ہے
(راي الامام ابوحنيفة من ياتي القبور لاهل الصلاح فيسلم ويخاطب ويتكلم يقول: يا اهل القبور هل لكم من خبر وهل عندكم من اثر اني اتيتكم من شهور وليس سؤالي الا الدعاء فهل دريتم ام غفلتم فسمع ابوحنيفة بقول يخاطبه بهم فقال: هل اجابوا لك؟ قال: لا! فقال له: سحقا لك وتربت يداك كيف تكلم اجسادا لا يستطيعون جوابا ولا يملكون شيئا ولا يسمعون صوتا وقرا (وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ تفهيم المسائل مولانا محمد بشير الدين قنوجي
"امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کچھ نیک لوگوں کی قبروں کے پاس آ گر ان سے کہہ رہا تھا: "اے قبروں والو! کیا تمہیں خبر بھی ہے اور کیا تمہارے پاس کچھ اثر بھی ہے؟ میں تمہارے پاس کئی مہینوں سے آ رہا ہوں اور تمہیں پکار رہا ہوں، تم سے میرا سوال بجز دُعا کرانے کے اور کچھ نہیں۔ تم میرے حال کو جانتے ہو یا میرے حال سے بے خبر ہو؟" امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی یہ بات سُن کر اس سے پوچھا: "کیا (ان قبروں والوں نے) تیری بات کا جواب دیا؟" وہ کہنے لگا: "نہیں!" تو آپ نے فرمایا: "تجھ پر پھٹکار ہو، تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں، تو ایسے (مردہ) جسموں سے بات کرتا ہے جو نہ جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں، نہ کسی چیز کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ کسی کی آواز (فریاد) سُن سکتے ہیں، پھر امام صاحب نے یہ آیت پڑھی
(وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ) (الفاطر: 22)
"(اے پیغمبر!) تم ان کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں۔) علامہ آلوسی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی وضاحت
علامہ آلوسی حنفی بغدادی اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں
(ان الاستغاثة بمخلوق وجعله وسيلة بمعني طلب الدعاء منه لا شك في جوازه ان كان المطلوب منه حيا ... واما اذا كان المطلوب منه ميتا او غائبا فلا يستريب عالم انه غير جائز وانه من البدع التي لم يفعلها احد من السلف) (تفسير روح المعاني 2/297' طبع قديم 1301ه) "کسی شخص سے درخواست کرنا اور اس کو اس معنی میں وسیلہ بنانا کہ وہ اس کے حق میں دُعا کرے اس کے جواز میں کوئی شک نہیں بشرطیکہ جس سے وہ درخواست کی جائے وہ زندہ ہو ... لیکن اگر وہ شخص جس سے درخواست کی جائے مُردہ ہو یا غائب، تو ایسے استغاثے ان میں سے ہیں جن کو سلف میں سے کسی نے نہیں کیا۔"
اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ، تابعین، ائمہ کرام اور تمام اسلافِ صالحین رحمۃ اللہ علیھم زندہ نیک لوگوں سے تو دُعا کرانے کے قائل تھے لیکن کسی مُردہ کو انہوں نے مدد کے لئے نہیں پکارا اور ان سے استغاثہ نہیں کیا۔ حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک سے استغاثہ نہیں کیا۔ اب آپ کے بعد کونسی ہستی ایسی ہے جو آپ سے زیادہ فضیلت رکھتی ہو کہ اسے مدد کے لئے پکارا جائے اور اس سے استعانت کی جائے۔ (فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ ؟)
وسیلے کی جائز صورتیں
اس تفصیل سے واضح ہے کہ وسیلے کی کئی صورتیں ہیں۔ بعض جائز ہیں اور بعض ممنوع ۔ وسیلے کی جائز صورتیں حسب ذیل ہیں۔
(1)کسی زندہ نیک آدمی سے دعا کی درخواست کی جائے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروائی۔
(2)اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے وسیلے یعنی ان کے حوالے سے دعا کی جائے جیسے قرآن مجید میں ہے
(وَقُل رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ ﴿١١٨﴾) (المومنون: 118)
"اور آپ کہئے اے رب! تو معاف کر دے اور رحم فرما، اور تو سب رحم کرنے والوں سے بہتر رحم کرنے والا ہے۔"
یہاں اللہ سے رحم کرنے کی دعا کی جا رہی ہے اس کی صفت خیر الراحمین کے حوالے سے۔ اسی طرح یا ارحم الراحمین کا حوالہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اس سے رزق کی دعا اس کی صفت رزاق اور خیر الرازقین کے حوالے سے اور دیگر دعائیں ان کے حسب حال دیگر اسمائے حسنیٰ کے حوالے سے کی جائیں۔
(3)اپنی تکلیف، اپنی تقصیر اور فقر و حاجت کا اظہار کر کے اس سے دعا کی جائے۔ اس صورت میں گویا انسان اپنی بے چارگی و بے کسی اور اپنی عاجزی و درماندگی کا وسیلہ یعنی حوالہ اللہ کی بارگاہ میں پیش کرتا ہے۔ جیسے حضرت ایوب علیہ السلام نے اپنی بیماری کے حوالے سے دعا فرمائی۔
( أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ﴿٨٣﴾) (الانبياء: 83)
"بے شک مجھے تکلیف (بیماری) پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔"
اور جیسے زکریا علیہ السلام نے اولاد کے لئے دعا فرمائی تو اس میں ظاہری اسباب کے مطابق اپنی بے چارگی کا اس طرح اظہار فرمایا:
( رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا﴾ (مريم: 4)
"اے میرے رب! میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور سر بڑھاپے کی وجہ سے بھڑک اٹھا ہے، لیکن اے میرے رب! میں کبھی بھی تجھ سے دعا کر کے محروم نہیں رہا ہو۔"
حضرت یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں اپنی تقصیر کا اعتراف کرتے ہوئے یوں دعا فرمائی:
"تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، یقینا میں ہی قصوروار ہوں۔"
(4)نیک اعمال کے وسیلے یعنی حوالے سے دعا کی جائے۔ جیسے قرآن مجید میں ہے
(رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا ۚ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ ﴿١٩٣﴾ (آل عمران : 193)
"اے ہمارے رب! ہم نے ایک آواز دینے والے کو سنا جو ایمان قبول کرنے کی آواز لگا رہا تھا، پس ہم (اس کی پکار پر) ایمان لے آئے، اے ہمارے رب! پس (اس ایمان کی بدولت) تو ہمارے گناہ معاف فرما دے اور ہم سے ہماری برائیاں دور کر دے اور ہمیں نیکوں کے ساتھ فوت کرنا۔"
یا جیسے حدیث میں سابقہ امتوں میں سے تین اشخاص کا واقعہ آتا ہے جنہوں نے بارش آنے پر غار میں پناہ لی تو غار کا منہ بند ہو گیا اور وہ تینوں غار میں پھنس گئے۔ وہاں ان تینوں نے اپنا اپنا خالص عمل، جو انہوں نے صرف اللہ کی رضا کے لیے کیا تھا، اللہ کی بارگاہ میں پیش کیا اور اس کے وسیلے اور حوالے سے اللہ سے دعا کی۔ اللہ نے ان کی دعاؤں کو قبول فرما کر غار کے دھانے سے اس چٹان کو سرکا دیا جس نے غار کا منہ بند کر دیا تھا اور وہ سب اس سے باہر نکل آئے۔ (صحیح بخاری، احادیث الانبیاء، باب حدیث الغار، حدیث: 3465)
قرآن مجید میں دو مقام پر "الوسیلہ" کا لفظ آیا ہے، دونوں جگہ وسیلے سے مراد یہی ذریعہ قرب الہی یعنی اعمال صالحہ ہیں۔ یہ دونوں مقام حسب ذیل ہیں:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ) (المائدة: 35)
"اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو۔"
یعنی اعمال صالحہ کے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو۔
أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ الاسراء: 57
"وہ لوگ جن کو یہ پکارتے ہیں، وہ تو اپنے رب کی طرف وسیلہ (ذریعہ قرب) تلاش کرتے ہیں کہ کون ان میں سے (اللہ کے) زیادہ قریب ہے۔ اور وہ اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔"
زمانہ جاہلیت میں کچھ لوگ فرشتوں کی پوجا کرتے تھے اور کچھ جنات کی۔ اللہ نے فرمایا، یہ تو خود اللہ کا قرب تلاش کرنے کی فکر میں رہتے اور اس کی رحمت کی آس لگائے رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ جب یہ خود ایسے ہیں، تو یہ معبود کس طرح بن سکتے ہیں؟
ہر فریق کو حقیقت جانے اور علم حاصل کئے بغیر دوسرے کو نیچا دکھانے کی بہت جلدی ہے۔ بجائے تمیز اور دلیل سے بات کرنے کے دھنگا مشتی پر زور ہے۔
امت وسط اور اعتدال کے لوگ انتہائی افراط و تفریط کا شکار ہیں۔
مضمون نگار نے شروع کچھ اور کیا۔ بعد میں اسمیں مزید بہت کچھ خود ہی گھسیڑ دیا۔
انتظامیہ کی غیر جانبداری بھی بڑی واضح ہے۔ ایک تھریڈ لاک کر دیا۔ کسی کو انتباہ نہیں کیا۔ جبکہ من پسند کو کھلا چھوڑ دیا۔ اگر انتظامیہ ساتھ ساتھ انتباہ جاری کرتی رہے تو معاملات قابو میں رہ سکتے ہیں۔
Following is the background of Prophet Muhammad صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم burial place:
The presence of the Prophets grave in his masjid in Madeenah can neither be used to justify the placing of bodies in other masjid s nor the building of masjids over graves. The Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) did not order that he be buried in his masjid, nor did his companions put his grave into the masjid. The companions of the Prophet (RA) wisely avoided burying the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in the local graveyard for fear that later generations would become overly attached to his grave.Umar, the freed slave of Ghafrah, related that when the Sahaabah (رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ) gathered to decide on the Prophets (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) burial, one said:Let us bury him in the place where he used to pray. Abu Bakr (رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ) replied,May Allaah protect us from making him an idol to be worshipped. Others said,Let us bury him in al-Baqee (a graveyard in Madeenah) where his brothers among the Muhaajireen (migrants from Makkah) are buried. Abu Bakr (رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ) replied:Verily burying the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in al-Baqee is detestable because some people may try to seek refuge in him which is a right belonging only to Allaah. So, if we take him out (to the graveyard), we will ruin Allaahs right, even if we carefully guard the Messengers grave. They then asked,What is your opinion, O Abu Bakr (رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ)? He replied,I heard Allaahs Messenger say:Allaah has not taken the life of any of his prophets except thatwere buried where they died. Some of them said,By Allaah, what you have said is pleasing and convincing. Then they made a line around the Prophets (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) bed inAaeshahs (رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ) house) and dug the grave where his bed was.Alee, al-Abbaas, al-Fadl, and the Prophets (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) family took his body and prepared it for burial.[Collected by Ibn Zanjooyah and quoted by al-Albaanee in Tahdheer as-Saajid, (Beirut: al- Maktab al-Islaamee, 2nd. ed., 1972), pp.13-4.]
Aaeshahs (رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ) house was separated from the masjid by a wall and it had a door through which the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) used to enter the masjid to lead salaah . The companions (رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ) sealed off this doorway in order to complete the separation of the Prophets (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) grave from his masjid. Consequently, the only way that his grave could be visited at that time was from outside the masjid.
Expansions of the masjid took place in the time of the second CaliphUmar (رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ) and the third CaliphUthmaan (رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ). But both of them cautiously avoided the inclusion of eitherAaeshahs (رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ) house or that of any of the other wives of the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم). Expansion in the direction of the houses of the wives of the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) would have automatically included the Prophets grave in the masjid. However, after the death of all the Sahaabah who were in Medinah,[The last Sahaabee to die in Madeenah was Jaabir ibnAbdillaah. He died there in 699 CE during the reign of CaliphAbdul-Malik (reign 685-705 CE).]
Caliph al-Waleed ibnAbdil- Malik (reign 705-715 C.E.) was the first to extend the masjid in an easterly direction. He includedAaeshahs (رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ) house inside the masjid, but demolished the houses of the other wives of the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم). The expansion was reported to have been carried out by al-Waleeds governorUmar ibnAbdul-Azeez.
WhenAaeshahs (رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ) house was included inside the masjid, a high circular wall was built around it so that it would not be visible at all from inside the masjid. Two additional walls were later built at an angle from the two northern corners of the house in such a way that they met each other forming a triangle. This was down to prevent anyone from facing the grave directly.[Narrated by al-Qurtubee and quoted in Tayseer al-Azeez al-Hameed, p.324.]
Many years later, the familiar dome was added to the roof of the masjid and was placed directly above the Prophets (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) grave.[Sultan Kalawoon as-Salaahee built the first dome over the chamber in 1282 CE and it was first painted green by order of Sultan Abdul-Hameed in 1837 (see Ali Hafiz, Chapters from the History of Madinah, (Jeddah: Al-Madina Printing and Publication Co., 1st ed., 1987), pp.78-9).]
The grave was later surrounded by a brass cage with doors and windows, and the walls of the grave itself were draped in green cloth. In spite of the barriers which have been placed around the Prophets grave, the error still remains to be corrected. Walls should once again be placed to separate it from the masjid so that no one could pray in its direction nor visit it inside the masjid. 'A'isha reported: The Messenger of Allah (may peace be upon him) said during his illness from which he never recovered: Allah cursed the Jews and the Christians that they took the graves of their prophets as mosques. She ('A'isha) reported: Had it not been so, his (Prophet's) grave would have been in an open place, but it could not be due to the fear that it may not be taken as a mosque. (Sahih Muslim; Book #004, Hadith #1079)