قانونِ عشق اور اندھا پن

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
قانون اور عشق، جب تک اندھے نہ ہوں تب تک دونوں کو ادھورا سمجھا جاتا ہے۔ یعنی اندھے پن کا ہونا کسی بھی قانونی و معاشقی معاملے میں معزوری نہیں بلکہ اسکی عین طاقت ہے۔

لیکن کیا کرے کوئی، جب یہ دو اندھے آپس میں تصادم کا شکار ہوں؟

اس صورت میں دیکھا یہ گیا ہے کہ جو بھی کسی بھی اندھے کو راستہ دکھاتا ہے، وہی گالیاں کھاتا ہے۔ یہاں تو ایک اندھا دوسرے کو راستہ دکھا رہا ہے بھائی، اب خود سوچ لیں کہ عشق کو جب عدل راستہ دکھائے یا عدل سے جب عشق راہنمائی لے تو دونوں کہاں پہنچیں گے؟

اشارہ تو میرا میرے ہم وطنوں کو خوب سمجھ آگیا ہوگا، باقی اس دقیق مسئلے پر میں بھی اپنے اٹھنّی کے خیالات اچھال رہا ہوں، کیونکہ جمہوریت ہے۔

جو مجھے جانتے ہیں، وہ تو جانتے ہی ہیں، لیکن جو نہیں جانتے، انکے لیئے اطلاع عام ہے کہ بندہ اپنی فطرت میں انتہا درجہ وہمی واقع ہوا ہے۔ کانسپائریسی تھیوری میں اگر کہیں کوئی نصابی ڈگری میّسر ہوتی، تو بندۃ ضرور ملک اور قوم کا نام بین الاقوامی سطح پر روشن کرتا۔ لیکن اب یہ روشنائی کسی اندھے کو اندھیرے میں راستہ دکھانے کے علاوہ کچھ کام کی نہیں۔

تو چلیں ہم اپنی نئی کانسپائریسی تھیوری کے تحت مندرجہ بالا اندھے پن پرحسب استطاعت روشنائی بکھیرنا شروع کرتے ہیں۔
اپنے راستے کو وضع کرنے کے لیئے اس ٹویٹ سے بہتر مجھے کچھ نہ ملا، جو نہ جانے کیوں رہ رہ کر آج ذہن میں گھوم رہی ہے اور ہماری ساری کانسپائریسی تھیوری کا محور بنی ہوئی ہے۔ ملاحظہ ہو


https://twitter.com/x/status/1035540178180431872
جی ہاں، یہ اسی ملعون کی ٹویٹ ہے جس نے کچھ عرصہ پہلے ڈنمارک میں حضورﷺ کے گستاخانہ خاکوں کی نمائش کا ڈرامہ لگایا تھا۔ خیر ماضی میں پہلے بھی کئی مرتبہ ایسا ہوتا رہا ہے، لیکن ایک بات جو سمجھ سے بالا تر ہے وہ یہ کہ آخر حکومت پاکستان کو ہی اس نے ایسا جواب کیوں دیا؟ کیا ہمارے حالیہ یا بدحالیہ بحران کا اس سے کوئی جائز یا ناجائز تعلق ہے؟

عام الفہم جواب تو یہی ہے کہ صرف پاکستان ہی ایسا ملک ہے جس نے بین الاقوامی سطح پران خاکوں پر احتجاج کیا تھا بلکہ ہر ممکنہ جگہہ پر اسکے خلاف آواز بھی اٹھائی تھی۔ لیکن در پردہ کیا ہم نے اس بات کا عندیہ دے دیا تھا کہ ہم عشق رسولﷺ کی اس معراج پر براجمان ہیں جہاں اندھا پن ہمارا طرّہ امتیاز ہے؟ کیا ہم نے خود ہی اپنی اس دکھتی رگ کو اقوام عالم کے سامنے رکھ دیا کہ جہاں اگر ہمیں چھوا جائے تو ہم دیوانہ وار اپنے ہی جسم کے ٹکڑے کرنے تک پر آجاتے ہیں؟

جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ ملک خداداد مدینہ کے بعد تاریخ کی ایک ایسی ریاست ہے جو اسلام کے نام پر حاصل کی گئی، وہیں یہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اس ملک کے بانی یعنی قائد اعظم اور علّامہ اقبال وہ شخصیات ہیں جنکی نہ تو داڑھی تھی، نہ ہی وہ کسی مذہبی اعتبار سے عالم گردانے جاتے تھے، بلکہ قیام پاکستان سے قبل تو اکثر دینی علما و مشائخ، یعنی چوٹی کے اندھے عاشق انکو کافر اعظم اور پتہ نہیں کن کن القابات سے نوازتے تھے اور قیام پاکستان کے حق میں چنداں نہیں تھے۔ خیر یہ علیٰحدہ مسئلہ رہا کہ ان دو کلین شیو شخصیات نے ہی اسلام کی وہ خدمت کی جو اس وقت کے ہزاروں اندھے عاشق نہ کر سکے۔ آج ہم اسی پاکستان پر فخر سے کہتے ہیں کہ یہ ہے اس دور کا قلعہ اسلام۔

چلو، ان اندھے عاشقوں کو جاہ پناہ مل گئی۔ جی ہاں، یہ وہی اندھے عاشق ہیں جنکے لیئے داڑھی رکھنا، ٹخنوں سے پائنچے اوپر رکھنا، ہی اصل عشق کی علامات ہیں، جبکہ آدھا پیٹ کھانا اور ہندہ جیسی شخصیت کو فتح مکّہ کے وقت معاف کردینا انکے اندھے عشق کے اندھے پن کا شکار ہیں۔

یہاں پر ایک اور صاحب نظر یعنی منٹو کی بات یاد آتی ہے جو اس نے پاکستان بننے کے پانچ برس کے اندر ہی برملا کہہ دی تھی۔ اپنے مشہور ’’لیٹر ٹو انکل سام‘‘ نامی خطوط میں اس نے ساتویں خط میں امریکہ کو لکھا تھا کہ وہ جانتا ہے کہ امریکہ پاکستان میں موجود اس مذہبی طبقے کو روس کے خلاف استعمال کرے گا۔ اب اگر منٹو بھی اندھا عاشق ہوتا تو اسے بھی جہاد ہی لکھتا۔ خیر، امریکہ کے اس جہاد کو ہم آجتک بھگت رہے ہیں۔ اور پتہ نہیں کب تک بھگتیں گے؟

کہتے ہیں کہ اسلام میں یہی ہے کہ جو چوری کرے تو اسکے ہاتھ کاٹ دو۔ اس پر تو وہ حدیث نبویﷺ بھی سنائی جاتی ہے کہ اگر چوری کرنے والی میری اپنی بیٹی فاطمہؓ بھی ہوتیں تو ان کے لیئے بھی یہی سزا ہوتی، لیکن دوسری طرف عشرہ مبشّرہ کے اس عاشق کی معافی نظر نہیں آتی جس نے اس سزا کو دوران قحط معطّل کر دیا اور کہا کہ جو کوئی بھوکا روٹی چراتے پکڑا گیا، اس پر یہ سزا لاگو نہیں ہوتی۔ یہ اچھا ہوا کہ وہ ہم جیسے اندھے عاشقوں سے قبل کی بات ہے، نہیں تو ’’پین دی سری‘‘ کر کے رکھ دینی تھی۔

میرا تو خیال ہے کہ اگر ویسے عاشق رسولﷺ آج بھی ہوتے تو شائد وہ اس بات کو دیکھتے کہ سلمان رشدی ملعون، جو کہ پڑھا لکھا ہے، اور اپنی گستاخی کے پیچھے سیاسی و معاشی مقاصد رکھتا ہے، اسکی اور آسیہ بی بی جو کہ ایک ایک فالسے کے کھیت میں روزانہ اجرت پر کام کرنے والی عورت ہے، اسکی گستاخی میں فرق ہے۔ ان اندھوں سے پہلے کے اسلام میں صرف جرم نہیں، بلکہ محرکات جرم کو بھی دیکھا جاتا تھا۔ آسیہ بی بی نے اس گستاخی کے عوض کیا پانا تھا؟ سلمان رشدی نے کیا کچھ پا لیا؟

خیر ہم اندھے عاشق امریکی جنگ کو جہاد ہی لکھتے ہیں، برطانیہ کو سلمان رشدی کو پناہ دینے اور ’’سر‘‘ کا خطاب دینے پر بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں، جبکہ آسیہ کو ہم واجب القتل ہی سمجھتے ہیں۔ اب سمجھ آ رہی ہے جیرٹ وائلڈرز کی وہ ٹویٹ جہاں سے ہم نے شروع کیا تھا؟

اب آتے ہیں قانون کے اندھے پن پر، بلکہ اندھے قانون پر۔ تحریر ویسے ہی کافی طوالت کا شکار ہو چکی ہے، لہٰذا یہاں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ چلیں آسیہ بی بی بے گناہ ہی سہی، لیکن پھر قانونی اعتبار سے انکی سزا بھی تو دیکھیں جو ایک جھوٹا الزام لگانے والے کی ہوتی ہے۔ آپ اگر اتنے ہی قانون کے متوالے ہیں تو صرف آسیہ کو رہا نہ کریں، بلکہ اس پر الزام لگانے والوں کو بھی دھریں۔ لیکن پھر وہ قانون ہی کیا جو اندھا نہ ہوا؟ یہ فیصلے کی تاریخ کیا محض اتفاق تھا؟ ان اندھے قانونی پیروکاروں اور سفیدی کو سیاہی سے ڈھکنے والوں کے لیئے شائد یہ اتفاق ہی تھا۔

تو یہ ہے ہمارا اندھا عشق اور قانون، جو اب ایک دوسرے کو راستہ دکھانے لگے ہوئے ہیں، بلکہ بدست و گریباں ہوئے پڑے ہیںٴ یہ دونوں ہی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہیں۔ بدلے میں ملک اور قوم کو کیا دیا جا رہا ہے؟ املاک کی توڑ پھوڑ؟ اپنے ہی سپاہیوں کو اپنے ہی لوگوں پر بندوق تاننے اور ڈنڈے برسانے کے آرڈر؟ اپنے ہی ملک کی معاشی سینہ کوبی؟ بین الاقوامی اندھے پن کا تماشہ؟ اور پھر اسی اثناٗ میں مولانا سمیع الحق جیسی ہستی کو کھو دینا جنکی تعلیمات اور خیالات سے کوئی اتفاق کرے نہ کرے، لیکن انکی افغان پاکستان مسائل میں اہمیت سے انکار کسی طور ممکن نہیں۔

لیکن ہم تو اندھے ہیں، ویسے ہی والہانہ اندھے جیسے کسی دور کے کلیسا میں تھے، جو حضرت مریمؑ کی پاکبازی اور حضرت عیسیٰؑ کی سیرت میں صرف جنسیت کو دیکھتے ہوئے شادی نہ کرتے، اور پھر آہستہ آہستہ انھی کلیساوٗں کے تہہ خانے نہ جانے کتنے بچوں کا پوشیدہ قبرستان بن گئے۔ ہمارا عشق بھی اس سے کم والہانہ کسی صورت نہیں۔

دوسری طرف ہمارا اندھا قانون ہے، جو کہ قوم لوطؑ پر آنے والے عذاب کو صرف اسلیے عذاب گردانے گا کہ وہ ہم جنس پرست تو تھے، لیکن عذاب کے مستحق اسلیئے ہوئے کہ آپس میں نکاح نہیں کرتے تھے، اسلیئے اسلامی رو سے ان پر زنا کی حد لگتی تھی۔ آپ کل سے ہم جنسوں کی شادی کا انتظام کریں۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کیا؟
 
Last edited by a moderator:

profiler

MPA (400+ posts)
قانون اور عشق، جب تک اندھے نہ ہوں تب تک دونوں کو ادھورا سمجھا جاتا ہے۔ یعنی اندھے پن کا ہونا کسی بھی قانونی و معاشقی معاملے میں معزوری نہیں بلکہ اسکی عین طاقت ہے۔

لیکن کیا کرے کوئی، جب یہ دو اندھے آپس میں تصادم کا شکار ہوں؟

اس صورت میں دیکھا یہ گیا ہے کہ جو بھی کسی بھی اندھے کو راستہ دکھاتا ہے، وہی گالیاں کھاتا ہے۔ یہاں تو ایک اندھا دوسرے کو راستہ دکھا رہا ہے بھائی، اب خود سوچ لیں کہ عشق کو جب عدل راستہ دکھائے یا عدل سے جب عشق راہنمائی لے تو دونوں کہاں پہنچیں گے؟

اشارہ تو میرا میرے ہم وطنوں کو خوب سمجھ آگیا ہوگا، باقی اس دقیق مسئلے پر میں بھی اپنے اٹھنّی کے خیالات اچھال رہا ہوں، کیونکہ جمہوریت ہے۔

جو مجھے جانتے ہیں، وہ تو جانتے ہی ہیں، لیکن جو نہیں جانتے، انکے لیئے اطلاع عام ہے کہ بندہ اپنی فطرت میں انتہا درجہ وہمی واقع ہوا ہے۔ کانسپائریسی تھیوری میں اگر کہیں کوئی نصابی ڈگری میّسر ہوتی، تو بندۃ ضرور ملک اور قوم کا نام بین الاقوامی سطح پر روشن کرتا۔ لیکن اب یہ روشنائی کسی اندھے کو اندھیرے میں راستہ دکھانے کے علاوہ کچھ کام کی نہیں۔

تو چلیں ہم اپنی نئی کانسپائریسی تھیوری کے تحت مندرجہ بالا اندھے پن پرحسب استطاعت روشنائی بکھیرنا شروع کرتے ہیں۔
اپنے راستے کو وضع کرنے کے لیئے اس ٹویٹ سے بہتر مجھے کچھ نہ ملا، جو نہ جانے کیوں رہ رہ کر آج ذہن میں گھوم رہی ہے اور ہماری ساری کانسپائریسی تھیوری کا محور بنی ہوئی ہے۔ ملاحظہ ہو


https://twitter.com/x/status/1035540178180431872
جی ہاں، یہ اسی ملعون کی ٹویٹ ہے جس نے کچھ عرصہ پہلے ڈنمارک میں حضورﷺ کے گستاخانہ خاکوں کی نمائش کا ڈرامہ لگایا تھا۔ خیر ماضی میں پہلے بھی کئی مرتبہ ایسا ہوتا رہا ہے، لیکن ایک بات جو سمجھ سے بالا تر ہے وہ یہ کہ آخر حکومت پاکستان کو ہی اس نے ایسا جواب کیوں دیا؟ کیا ہمارے حالیہ یا بدحالیہ بحران کا اس سے کوئی جائز یا ناجائز تعلق ہے؟

عام الفہم جواب تو یہی ہے کہ صرف پاکستان ہی ایسا ملک ہے جس نے بین الاقوامی سطح پران خاکوں پر احتجاج کیا تھا بلکہ ہر ممکنہ جگہہ پر اسکے خلاف آواز بھی اٹھائی تھی۔ لیکن در پردہ کیا ہم نے اس بات کا عندیہ دے دیا تھا کہ ہم عشق رسولﷺ کی اس معراج پر براجمان ہیں جہاں اندھا پن ہمارا طرّہ امتیاز ہے؟ کیا ہم نے خود ہی اپنی اس دکھتی رگ کو اقوام عالم کے سامنے رکھ دیا کہ جہاں اگر ہمیں چھوا جائے تو ہم دیوانہ وار اپنے ہی جسم کے ٹکڑے کرنے تک پر آجاتے ہیں؟

جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ ملک خداداد مدینہ کے بعد تاریخ کی ایک ایسی ریاست ہے جو اسلام کے نام پر حاصل کی گئی، وہیں یہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اس ملک کے بانی یعنی قائد اعظم اور علّامہ اقبال وہ شخصیات ہیں جنکی نہ تو داڑھی تھی، نہ ہی وہ کسی مذہبی اعتبار سے عالم گردانے جاتے تھے، بلکہ قیام پاکستان سے قبل تو اکثر دینی علما و مشائخ، یعنی چوٹی کے اندھے عاشق انکو کافر اعظم اور پتہ نہیں کن کن القابات سے نوازتے تھے اور قیام پاکستان کے حق میں چنداں نہیں تھے۔ خیر یہ علیٰحدہ مسئلہ رہا کہ ان دو کلین شیو شخصیات نے ہی اسلام کی وہ خدمت کی جو اس وقت کے ہزاروں اندھے عاشق نہ کر سکے۔ آج ہم اسی پاکستان پر فخر سے کہتے ہیں کہ یہ ہے اس دور کا قلعہ اسلام۔

چلو، ان اندھے عاشقوں کو جاہ پناہ مل گئی۔ جی ہاں، یہ وہی اندھے عاشق ہیں جنکے لیئے داڑھی رکھنا، ٹخنوں سے پائنچے اوپر رکھنا، ہی اصل عشق کی علامات ہیں، جبکہ آدھا پیٹ کھانا اور ہندہ جیسی شخصیت کو فتح مکّہ کے وقت معاف کردینا انکے اندھے عشق کے اندھے پن کا شکار ہیں۔

یہاں پر ایک اور صاحب نظر یعنی منٹو کی بات یاد آتی ہے جو اس نے پاکستان بننے کے پانچ برس کے اندر ہی برملا کہہ دی تھی۔ اپنے مشہور ’’لیٹر ٹو انکل سام‘‘ نامی خطوط میں اس نے ساتویں خط میں امریکہ کو لکھا تھا کہ وہ جانتا ہے کہ امریکہ پاکستان میں موجود اس مذہبی طبقے کو روس کے خلاف استعمال کرے گا۔ اب اگر منٹو بھی اندھا عاشق ہوتا تو اسے بھی جہاد ہی لکھتا۔ خیر، امریکہ کے اس جہاد کو ہم آجتک بھگت رہے ہیں۔ اور پتہ نہیں کب تک بھگتیں گے؟

کہتے ہیں کہ اسلام میں یہی ہے کہ جو چوری کرے تو اسکے ہاتھ کاٹ دو۔ اس پر تو وہ حدیث نبویﷺ بھی سنائی جاتی ہے کہ اگر چوری کرنے والی میری اپنی بیٹی فاطمہؓ بھی ہوتیں تو ان کے لیئے بھی یہی سزا ہوتی، لیکن دوسری طرف عشرہ مبشّرہ کے اس عاشق کی معافی نظر نہیں آتی جس نے اس سزا کو دوران قحط معطّل کر دیا اور کہا کہ جو کوئی بھوکا روٹی چراتے پکڑا گیا، اس پر یہ سزا لاگو نہیں ہوتی۔ یہ اچھا ہوا کہ وہ ہم جیسے اندھے عاشقوں سے قبل کی بات ہے، نہیں تو ’’پین دی سری‘‘ کر کے رکھ دینی تھی۔

میرا تو خیال ہے کہ اگر ویسے عاشق رسولﷺ آج بھی ہوتے تو شائد وہ اس بات کو دیکھتے کہ سلمان رشدی ملعون، جو کہ پڑھا لکھا ہے، اور اپنی گستاخی کے پیچھے سیاسی و معاشی مقاصد رکھتا ہے، اسکی اور آسیہ بی بی جو کہ ایک ایک فالسے کے کھیت میں روزانہ اجرت پر کام کرنے والی عورت ہے، اسکی گستاخی میں فرق ہے۔ ان اندھوں سے پہلے کے اسلام میں صرف جرم نہیں، بلکہ محرکات جرم کو بھی دیکھا جاتا تھا۔ آسیہ بی بی نے اس گستاخی کے عوض کیا پانا تھا؟ سلمان رشدی نے کیا کچھ پا لیا؟

خیر ہم اندھے عاشق امریکی جنگ کو جہاد ہی لکھتے ہیں، برطانیہ کو سلمان رشدی کو پناہ دینے اور ’’سر‘‘ کا خطاب دینے پر بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں، جبکہ آسیہ کو ہم واجب القتل ہی سمجھتے ہیں۔ اب سمجھ آ رہی ہے جیرٹ وائلڈرز کی وہ ٹویٹ جہاں سے ہم نے شروع کیا تھا؟

اب آتے ہیں قانون کے اندھے پن پر، بلکہ اندھے قانون پر۔ تحریر ویسے ہی کافی طوالت کا شکار ہو چکی ہے، لہٰذا یہاں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ چلیں آسیہ بی بی بے گناہ ہی سہی، لیکن پھر قانونی اعتبار سے انکی سزا بھی تو دیکھیں جو ایک جھوٹا الزام لگانے والے کی ہوتی ہے۔ آپ اگر اتنے ہی قانون کے متوالے ہیں تو صرف آسیہ کو رہا نہ کریں، بلکہ اس پر الزام لگانے والوں کو بھی دھریں۔ لیکن پھر وہ قانون ہی کیا جو اندھا نہ ہوا؟ یہ فیصلے کی تاریخ کیا محض اتفاق تھا؟ ان اندھے قانونی پیروکاروں اور سفیدی کو سیاہی سے ڈھکنے والوں کے لیئے شائد یہ اتفاق ہی تھا۔

تو یہ ہے ہمارا اندھا عشق اور قانون، جو اب ایک دوسرے کو راستہ دکھانے لگے ہوئے ہیں، بلکہ بدست و گریباں ہوئے پڑے ہیںٴ یہ دونوں ہی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہیں۔ بدلے میں ملک اور قوم کو کیا دیا جا رہا ہے؟ املاک کی توڑ پھوڑ؟ اپنے ہی سپاہیوں کو اپنے ہی لوگوں پر بندوق تاننے اور ڈنڈے برسانے کے آرڈر؟ اپنے ہی ملک کی معاشی سینہ کوبی؟ بین الاقوامی اندھے پن کا تماشہ؟ اور پھر اسی اثناٗ میں مولانا سمیع الحق جیسی ہستی کو کھو دینا جنکی تعلیمات اور خیالات سے کوئی اتفاق کرے نہ کرے، لیکن انکی افغان پاکستان مسائل میں اہمیت سے انکار کسی طور ممکن نہیں۔

لیکن ہم تو اندھے ہیں، ویسے ہی والہانہ اندھے جیسے کسی دور کے کلیسا میں تھے، جو حضرت مریمؑ کی پاکبازی اور حضرت عیسیٰؑ کی سیرت میں صرف جنسیت کو دیکھتے ہوئے شادی نہ کرتے، اور پھر آہستہ آہستہ انھی کلیساوٗں کے تہہ خانے نہ جانے کتنے بچوں کا پوشیدہ قبرستان بن گئے۔ ہمارا عشق بھی اس سے کم والہانہ کسی صورت نہیں۔

دوسری طرف ہمارا اندھا قانون ہے، جو کہ قوم لوطؑ پر آنے والے عذاب کو صرف اسلیے عذاب گردانے گا کہ وہ ہم جنس پرست تو تھے، لیکن عذاب کے مستحق اسلیئے ہوئے کہ آپس میں نکاح نہیں کرتے تھے، اسلیئے اسلامی رو سے ان پر زنا کی حد لگتی تھی۔ آپ کل سے ہم جنسوں کی شادی کا انتظام کریں۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کیا؟

Very well said.
Most of the time the label of conspiracy theorist is being used by west / other champions of democracy when something does not goes in their way. When they do the same thing it is deductive reasoning and when their opponents do it is a conspiracy theory. In my opinion, it is a way of disarming your opponent without appearing immoral.
Even Islam encourages us to do Ijtihad
http://sunnahonline.com/library/fiqh-and-sunnah/777-ijtihad-and-taqlid
Which we have stopped doing and are happy to indulge in cosmetic practices which have there own place in Islam but those are not the whole Islam.
In my opinion, What you said is the result of aql-e-saleem
https://islamicspiritualitytranscri...02/20/on-getting-aql-e-saleem-pure-intellect/


It requires reading, understanding and to ponder over the message of the Quran.
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
یہ جو عاشق ہیں ..یہ اندھے نہیں ..مفاد پرست ہیں ..ان کا یہ " عاشقی کا کاروبار " سادہ لوح لوگوں کے ایمان پر چلتا ہے ..جنہوں نے شاید زندگی میں نہ کبھی قرآن ترجمہ کے ساتھ پڑھا ہو ہ اور نہ ہی کوئی مصدقہ سیرت بنوی کی کتاب کا مطالعہ کیا ہو گا ..انہوں نے اس بات کو پا لیا ہے کہ انہیں بیوقوف بنا کر کمانا کیسے ہے ..نہ کام کے نہ کاج کے ..ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر اپنی آگ اگلتی زبان سے اتنا کما لیتے ہیں کہ نسلیں کھائیں .
المیہ یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان ان پر اپنی سیاسی سکورنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ..چاہئے کوئی بھی سیاسی جماعت ہو .اسی طرح فوج بھی اپنی ضرورت کے وقت ان کی پشت پناہ رہی ہے ..اب یہ ملا گردی اتنی بڑی عفریت بن چکی ہے کہ اب ہر سیاست دان ، عدلیہ اور فوج بھی ان سے ڈرتی ہے ...ان کی زہر اگلتی زبان منٹوں میں لوگوں کے " ایمان " کو جگا دیتی ہے ..یہ فتوے تو جاری کرتے ہیں ..لیکن اس پر خود کبھی عمل نہیں کرتے کہ معلوم ہے اس کے بعد پھانسی ان کا مقدر ہو سکتی ہے ..اس لئے اپنے سننے والے " عاشقان رسول " کو پیغام دیتے ہیں کہ جو بھی سن رہا ہے وہ ان کے فتوے پر عمل کر دے .
جب تک پوری قوم متحد نہیں ہو گی ..اس پر قابو پانا مشکل ہے ..سب سے پہلے مدرسوں کے نظام کو درست کرنا ہوگا ..وہاں سے صرف " عاشقان رسول " ہی نہیں نارمل تعلیم یافتہ با شعور افراد بھی پیدا کرنے ہونگے
 

chacha jani

Chief Minister (5k+ posts)
45554206_974348002772808_3045594385136746496_n.jpg
 

patriot

Minister (2k+ posts)
نادان
یہ مدرسوں کا کاروبار سرے سے بند کرنا پڑے گا سرکاری سکولوں میں قرآن پڑھایا جائے اور جو کوئی عالم بننا چاہے وہ ایف اے کے بعد دینیات میں تخصیص کر سکتا ہے ۔
قوم کو اس شیطان مُلّا کے چنگل سے نکالنا ہوگا ورنہ ہمارا سفر جہنم جاری رہے گا ۔
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
نادان
یہ مدرسوں کا کاروبار سرے سے بند کرنا پڑے گا سرکاری سکولوں میں قرآن پڑھایا جائے اور جو کوئی عالم بننا چاہے وہ ایف اے کے بعد دینیات میں تخصیص کر سکتا ہے ۔
قوم کو اس شیطان مُلّا کے چنگل سے نکالنا ہوگا ورنہ ہمارا سفر جہنم جاری رہے گا ۔

سب ڈرتے ہیں ..فوج بھی ، عدلیہ بھی ، حکومت بھی
کون اس بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون ؟
 

Tenacious Khan

Councller (250+ posts)
سب ڈرتے ہیں ..فوج بھی ، عدلیہ بھی ، حکومت بھی
کون اس بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون ؟
why not hand over the government to the jaanglies/barbarians? apparently they have more power than the state :sneaky:
 

Tenacious Khan

Councller (250+ posts)
نادان
یہ مدرسوں کا کاروبار سرے سے بند کرنا پڑے گا سرکاری سکولوں میں قرآن پڑھایا جائے اور جو کوئی عالم بننا چاہے وہ ایف اے کے بعد دینیات میں تخصیص کر سکتا ہے ۔
قوم کو اس شیطان مُلّا کے چنگل سے نکالنا ہوگا ورنہ ہمارا سفر جہنم جاری رہے گا ۔
very true, that is the only solution we have. madrassas were supposed to be institutes from where intellectuals used to graduate but now they have all the ingredients for turning a person into a beast. they should be sacked or if the government doesn't have the power than the state should hand over the affairs to these barbarians. if the state cannot protect the lives and properties of its citizens then it has no chance of survival.
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
گھوسٹ سکول آباد کر کے ریاست دشمن کے بچوں کے ساتھ اپنے بچوں کو بھی پڑھائے
صاحب مسئلہ یہاں پڑھائی کا نہیں، نصاب کا ہے، کوشش کا ہے اور ہماری ترجیحات کا ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ملّا نے دین کو خراب کر دیا، میں ان سے اکثر یہ پوچھتا ہوں کہ بھائی دین تھا کس کا اور کس نے دیا ملّا کو خراب کرنے کے لیئے؟

دین سے دوری کے ہم سب خود ذمّہ دار ہیں۔ ہم نے خود دین کو پڑھنا اور سمجھنا چھوڑ کر مولوی کو ایک پیشہ بنا دیا، جس سے بوقت ضرورت استفادہ حاصل کرلیا۔ مسجد میں نماز پڑھانا، قرآن خوانی کروانا، جنازے پڑھانا وغیرہ سے لے کر اپنی مرضی کے فتوے تک ہم ان سے تمام کام بعوض نذرانہ کرواتے رہے۔ یہاں تک ہی نہیں، ہم نے آخر ملّا سے جہاد بھی بعوض امریکی کرنسی کروایا۔

ہم نے خود دین کا سودا کیا، ملّا کو دین فروخت کیا، خود اپنی آسانی خریدی، ملّا کو جانوں کا دلال بنایا، خود اپنی جائیدادیں بنائیں۔ اب ملّا کے پاس ہمارا دین بھی گروی ہے اور جانیں بھی۔ اب ہم سوچتے ہیں کہ کریں کیا؟ جایئں کہاں؟ دشمن بھی اس کمزوری کو سمجھ چکا ہے اور ہماری اسی دکھتی رگ کو بار بار چھیڑ رہا ہے، اور ہم بہ حیثیت قوم خود اپنی بوٹیاں نوچنے پر آئے ہوئے ہیں۔ ادارے ہمیشہ سے مفاد پرستی سے باز نہیں آ رہے اور اس وقت دشمن کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ مطلب کہ بات صرف اندھے قانون کی نہیں، ان کے اندھے پاسداروں کی بھی ہے۔ عشق اندھا، قانون اندھا، اس اندوہنی صورت حال میں کیوں نہ سر کھجائے کوئی؟
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
سب ڈرتے ہیں ..فوج بھی ، عدلیہ بھی ، حکومت بھی
کون اس بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون ؟
عدالت اگر ڈرتی تو شائد اس فیصلے کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔ فوج خود طالبان لیڈروں کو رہا کر چکی ہے اور امریکہ کو بتا چکی ہے کہ ہم حقانی نیٹورک کے خلاف کوئی آپریشن کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے، کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ کون ہمارے مفاد میں ہے اور کون نہیں، اس کے لیئے ہم کسی اور کے بتائے راستے پر اب چلنے والے نہیں۔ لیکن حال ہی میں دارلعلوم حقانیہ کے سربراہ مولانا سمیع الحق کی جان لیوا حملے میں موت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا مولوی اور ہمارے حکومتی ادارے، سب میں وہ بھاڑے کے ٹٹو موجود ہیں جو ان کے اشارے پر پورے ملک کی جڑیں ہلا سکتے ہیں۔

اگر ہم نے اس مسئلے کو واقعی ختم کرنا ہے تو اس قتل کی تحقیقات بھی صحیح طور کرنی ہوگی اور چیف جسٹس کو بھی پٹہ ڈالنا پڑے گا۔ عدالت کو سب سے پہلے اس بات پر آئینی طور پر پابند کرنا ہوگا کہ جب کبھی کوئی ایسا فیصلہ سنائے جس میں ملک میں انتشار کی صورت حال پیدا ہونے کا اندیشہ ہو، وہاں انکو پارلیمان کو پہلے اعتماد میں لینا چاہیئے، تا کہ حکومت پہلے سے اس سلسلے میں حفاظتی اقدامات کر سکے اور انھیں بھی کسی طریقہ کار کے تحت مکمل لا ئحہ عمل ترتیب کرنے میں رہنمائی دے۔ یہ بھی شطر بے مہار بنے ہر جگہہ منہ مارتے پھرتے ہیں۔
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
اگر پورے پاکستان میں یکساں نصاب جاری کیا جائے اور ان مدرسوں کو بھی اسی نصاب کا پابند کیا جائے تو شائد بہتری کی صورت نکلے۔
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
عدالت اگر ڈرتی تو شائد اس فیصلے کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔ فوج خود طالبان لیڈروں کو رہا کر چکی ہے اور امریکہ کو بتا چکی ہے کہ ہم حقانی نیٹورک کے خلاف کوئی آپریشن کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے، کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ کون ہمارے مفاد میں ہے اور کون نہیں، اس کے لیئے ہم کسی اور کے بتائے راستے پر اب چلنے والے نہیں۔ لیکن حال ہی میں دارلعلوم حقانیہ کے سربراہ مولانا سمیع الحق کی جان لیوا حملے میں موت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا مولوی اور ہمارے حکومتی ادارے، سب میں وہ بھاڑے کے ٹٹو موجود ہیں جو ان کے اشارے پر پورے ملک کی جڑیں ہلا سکتے ہیں۔

اگر ہم نے اس مسئلے کو واقعی ختم کرنا ہے تو اس قتل کی تحقیقات بھی صحیح طور کرنی ہوگی اور چیف جسٹس کو بھی پٹہ ڈالنا پڑے گا۔ عدالت کو سب سے پہلے اس بات پر آئینی طور پر پابند کرنا ہوگا کہ جب کبھی کوئی ایسا فیصلہ سنائے جس میں ملک میں انتشار کی صورت حال پیدا ہونے کا اندیشہ ہو، وہاں انکو پارلیمان کو پہلے اعتماد میں لینا چاہیئے، تا کہ حکومت پہلے سے اس سلسلے میں حفاظتی اقدامات کر سکے اور انھیں بھی کسی طریقہ کار کے تحت مکمل لا ئحہ عمل ترتیب کرنے میں رہنمائی دے۔ یہ بھی شطر بے مہار بنے ہر جگہہ منہ مارتے پھرتے ہیں۔

بھائی عدالت قانون کے مطابق فیصلہ کرتی ہے عوامی امنگوں کے مطابق نہیں۔
پٹا ڈالنے والی بات بالکل مناسب نہیں۔

عالمی عدالتی تاریخ میں بہت سے ایسے فیصلے موجود ہیں جس میں عدالتی فیصلی عوامی امنگوں کے خلاف ہوتا ہے۔
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
بھائی عدالت قانون کے مطابق فیصلہ کرتی ہے عوامی امنگوں کے مطابق نہیں۔
پٹا ڈالنے والی بات بالکل مناسب نہیں۔


عالمی عدالتی تاریخ میں بہت سے ایسے فیصلے موجود ہیں جس میں عدالتی فیصلی عوامی امنگوں کے خلاف ہوتا ہے۔

بھائی میں بھی اس حق میں نہیں کہ عدالت عوامی امنگوں کے حساب سے فیصلہ دے، اور میں اس حق میں بھی نہیں کہ عدالت کوئی فیصلہ خواص کی امنگوں کے حساب سے دے۔ مجھے تو قانون کے بارے میں سیدھی بات یہی پتہ ہے کہ اگر گستاخی کا الزام غلط لگا ہے تو ملزم کو بری اور الزام تراش کو پکڑنا چاہیئے۔ لیکن اس فیصلے میں کہاں ہیں الزام تراش؟

خیر میری پٹہ ڈالنے والی بات دراصل اس تناظر میں تھی کہ جب کبھی کوئی فیصلہ عوامی سطح پر حسّاسیت کا حامل ہو تو اس کے لیئے پہلے حکومت کو اعتماد میں لے کر پھر کوئی لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیئے، تا کہ وقت سے پہلے آگ بجھانے کے موٗثر اقدامات کر لیئے جایئں، نہ کہ آگ لگانے کے آوازیں نکالنی چاہیئں تا کہ سب کی دوڑ لگ جائے اور اسی ہڑبونگ میں کوئی نہ کوئی غلطی لازمی طور پر کسی نہ کسی سے ہوجائے۔ عدلیہ کی آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ جو چاہے اور جب چاہے کر دے اور دوسروں کے لیئے مسئلے کھڑی کرتی رہے۔

فیصلہ پانچ اکتوبر کو محفوظ کر لیا گیا تھا، پھر کیا وجہ تھی کہ یہ فیصلہ اسی دن سنایا گیا جس دن غازی علم دینؒ کا یوم شہادت تھا؟ آپ مانیں یا نہ مانیں، لیکن یہ عدالت اس فیصلے کو متنازع بنانے کے تمام مصالحے خود لگاتی رہی ہےٴ
 

Tenacious Khan

Councller (250+ posts)
بھائی میں بھی اس حق میں نہیں کہ عدالت عوامی امنگوں کے حساب سے فیصلہ دے، اور میں اس حق میں بھی نہیں کہ عدالت کوئی فیصلہ خواص کی امنگوں کے حساب سے دے۔ مجھے تو قانون کے بارے میں سیدھی بات یہی پتہ ہے کہ اگر گستاخی کا الزام غلط لگا ہے تو ملزم کو بری اور الزام تراش کو پکڑنا چاہیئے۔ لیکن اس فیصلے میں کہاں ہیں الزام تراش؟

خیر میری پٹہ ڈالنے والی بات دراصل اس تناظر میں تھی کہ جب کبھی کوئی فیصلہ عوامی سطح پر حسّاسیت کا حامل ہو تو اس کے لیئے پہلے حکومت کو اعتماد میں لے کر پھر کوئی لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیئے، تا کہ وقت سے پہلے آگ بجھانے کے موٗثر اقدامات کر لیئے جایئں، نہ کہ آگ لگانے کے آوازیں نکالنی چاہیئں تا کہ سب کی دوڑ لگ جائے اور اسی ہڑبونگ میں کوئی نہ کوئی غلطی لازمی طور پر کسی نہ کسی سے ہوجائے۔ عدلیہ کی آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ جو چاہے اور جب چاہے کر دے اور دوسروں کے لیئے مسئلے کھڑی کرتی رہے۔

فیصلہ پانچ اکتوبر کو محفوظ کر لیا گیا تھا، پھر کیا وجہ تھی کہ یہ فیصلہ اسی دن سنایا گیا جس دن غازی علم دینؒ کا یوم شہادت تھا؟ آپ مانیں یا نہ مانیں، لیکن یہ عدالت اس فیصلے کو متنازع بنانے کے تمام مصالحے خود لگاتی رہی ہےٴ
Saqib Nisar yes.... he likes mirch masala as he is an attention seeker.
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
بھائی میں بھی اس حق میں نہیں کہ عدالت عوامی امنگوں کے حساب سے فیصلہ دے، اور میں اس حق میں بھی نہیں کہ عدالت کوئی فیصلہ خواص کی امنگوں کے حساب سے دے۔ مجھے تو قانون کے بارے میں سیدھی بات یہی پتہ ہے کہ اگر گستاخی کا الزام غلط لگا ہے تو ملزم کو بری اور الزام تراش کو پکڑنا چاہیئے۔ لیکن اس فیصلے میں کہاں ہیں الزام تراش؟

خیر میری پٹہ ڈالنے والی بات دراصل اس تناظر میں تھی کہ جب کبھی کوئی فیصلہ عوامی سطح پر حسّاسیت کا حامل ہو تو اس کے لیئے پہلے حکومت کو اعتماد میں لے کر پھر کوئی لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیئے، تا کہ وقت سے پہلے آگ بجھانے کے موٗثر اقدامات کر لیئے جایئں، نہ کہ آگ لگانے کے آوازیں نکالنی چاہیئں تا کہ سب کی دوڑ لگ جائے اور اسی ہڑبونگ میں کوئی نہ کوئی غلطی لازمی طور پر کسی نہ کسی سے ہوجائے۔ عدلیہ کی آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ جو چاہے اور جب چاہے کر دے اور دوسروں کے لیئے مسئلے کھڑی کرتی رہے۔

فیصلہ پانچ اکتوبر کو محفوظ کر لیا گیا تھا، پھر کیا وجہ تھی کہ یہ فیصلہ اسی دن سنایا گیا جس دن غازی علم دینؒ کا یوم شہادت تھا؟ آپ مانیں یا نہ مانیں، لیکن یہ عدالت اس فیصلے کو متنازع بنانے کے تمام مصالحے خود لگاتی رہی ہےٴ

اب یہ مجھے نہیں پتا کہ توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والے کی کیا سزاہے۔ میں نے فیصلہ پڑھا ہے اس میں آسیہ کو شک کی بنا پر بری کیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ اس پر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔ اس لیے ان کو سزا کاکوئی جواز نظر نہیں آتا۔

فیصلہ والے دن غازی علم دین شہید کا یوم شہادت تھا یہ محض اتفاق بھی ہو سکتا ہے۔آخر ہم ہر بات میں سازش ہی کیوں تلاش کرتے ہیں۔
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)

اب یہ مجھے نہیں پتا کہ توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والے کی کیا سزاہے۔ میں نے فیصلہ پڑھا ہے اس میں آسیہ کو شک کی بنا پر بری کیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ اس پر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔ اس لیے ان کو سزا کاکوئی جواز نظر نہیں آتا۔

فیصلہ والے دن غازی علم دین شہید کا یوم شہادت تھا یہ محض اتفاق بھی ہو سکتا ہے۔آخر ہم ہر بات میں سازش ہی کیوں تلاش کرتے ہیں۔
جی اگر فیصلے کے الفاظ کے اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو پیرا نمبر پچیس کے یہ الفاظ آپ کے سوالات کے حساب سے قابل غور ہیں:
Blasphemy is a serious offence but the insult of the appellant’s religion
and religious sensibilities by the complainant party and then mixing
truth with falsehood in the name of the Holy Prophet Muhammad (Peace
Be Upon Him) was also not short of being blasphemous.

اس میں جھوٹے الزام لگانے کا واضع اشارہ بھی ہے اور اس فعل کی سزا بھی انھوں نے خود ہی بتا دی ہے۔ لیکن پھر آخری پیرے میں کہتے ہیں کہ شک کی بنیاد پر بری کر رہے ہیں۔ یہ کیا مذاق ہے؟ اس کیس کی دوبارہ تحقیقات بھی کروائی جاسکتی ہے اگر کہ معاملہ اس نوعیت کا ہے، لیکن صارف شک کی بنیاد پر اسطرح کے کیس میں کسی کی بریت سمجھ سے بالا تر ہے۔ یا تو توہین کی گئی ہے یا نہیں کی گئی، اور اگر نہیں کی گئی اور عدالت عظمیٰ کو اس بات کا ادراک ہو چلا ہے کہ کیس جھوٹا بنایا گیا ہے تو پھر جھوٹا کیس بنانے والوں پر وہی سزا صادر ہونی چاہیئے جو کہ توہین رسالتﷺ کے مجرم پر عائد ہوتی ہے۔
میرے بھائی، جب تک ہم اس قانون کا صحیح استعمال نہیں کرینگے تب تک لوگ اس قانون کا غلط استعمال نہیں چھوڑیں گے۔

دوسری بات یہ کہ اس فیصلے کی تاریخ غازی علم دین شہیدؒ کے یوم شہادت کی تاریخ سے ملنا تو چلیں میں بہ خاطر بحث مان بھی لوں، تو دوسری طرف اس بات کو کیسے جانے دوں کہ یہ بحران اس وقت پیدا کیا گیا جس وقت آپکا وزیر اعظم چین کے دورے پر روانہ ہو رہا تھا اور ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کے لیئے کوشش کر رہا تھا؟ کیا آپ اس امر سے بھی انکاری ہیں کہ اس وقت پیدا ہونے والی صورتحال نے بیرونی سرمایہ کاری کو بھی روک دیا اور اس کے علاوہ چین کی حکومت کو بھی یہ پیغام دے دیا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کے پیر ابھی جامد نہیں ہیں، لہٰذا ان سے کسی قسم کے بڑے منصوبے یا ڈیل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، کہ کل کو کوئی اور حکومت آجائے اور ان سے نئے سرے سے مذاکرات کرنے پڑیں یا پھر کوئی ملک میں رونما ہونے والےبڑے سانحے کی وجہ سے کوئی چین کی املاک کو پاکستان میں نقصان نہ پہنچے۔ کیا یہ فیصلہ مزید ایک ہفتہ اور تاخیر سے نہیں سنایا جا سکتا تھا؟

میرا نہیں خیال کہ اگر حکومت اور فوج کو کسی بھی طریقہ سے اعتماد میں لیا جاتا تو وہ ان تاریخوں پر کبھی رضامندی ظاہر کرتے۔ ان سے کوئی فیصلہ تبدیل کرنے کے لیئے نہیں کہتا، لیکن ہاں، اس فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے اگر بچا نہ بھی جاسکتا، تو بھی اسے بہت حد تک کم ضرور کیا جاسکتا تھا۔
 

Back
Top