Sohail Shuja
Chief Minister (5k+ posts)
قانون اور عشق، جب تک اندھے نہ ہوں تب تک دونوں کو ادھورا سمجھا جاتا ہے۔ یعنی اندھے پن کا ہونا کسی بھی قانونی و معاشقی معاملے میں معزوری نہیں بلکہ اسکی عین طاقت ہے۔
لیکن کیا کرے کوئی، جب یہ دو اندھے آپس میں تصادم کا شکار ہوں؟
اس صورت میں دیکھا یہ گیا ہے کہ جو بھی کسی بھی اندھے کو راستہ دکھاتا ہے، وہی گالیاں کھاتا ہے۔ یہاں تو ایک اندھا دوسرے کو راستہ دکھا رہا ہے بھائی، اب خود سوچ لیں کہ عشق کو جب عدل راستہ دکھائے یا عدل سے جب عشق راہنمائی لے تو دونوں کہاں پہنچیں گے؟
اشارہ تو میرا میرے ہم وطنوں کو خوب سمجھ آگیا ہوگا، باقی اس دقیق مسئلے پر میں بھی اپنے اٹھنّی کے خیالات اچھال رہا ہوں، کیونکہ جمہوریت ہے۔
جو مجھے جانتے ہیں، وہ تو جانتے ہی ہیں، لیکن جو نہیں جانتے، انکے لیئے اطلاع عام ہے کہ بندہ اپنی فطرت میں انتہا درجہ وہمی واقع ہوا ہے۔ کانسپائریسی تھیوری میں اگر کہیں کوئی نصابی ڈگری میّسر ہوتی، تو بندۃ ضرور ملک اور قوم کا نام بین الاقوامی سطح پر روشن کرتا۔ لیکن اب یہ روشنائی کسی اندھے کو اندھیرے میں راستہ دکھانے کے علاوہ کچھ کام کی نہیں۔
تو چلیں ہم اپنی نئی کانسپائریسی تھیوری کے تحت مندرجہ بالا اندھے پن پرحسب استطاعت روشنائی بکھیرنا شروع کرتے ہیں۔
اپنے راستے کو وضع کرنے کے لیئے اس ٹویٹ سے بہتر مجھے کچھ نہ ملا، جو نہ جانے کیوں رہ رہ کر آج ذہن میں گھوم رہی ہے اور ہماری ساری کانسپائریسی تھیوری کا محور بنی ہوئی ہے۔ ملاحظہ ہو
https://twitter.com/x/status/1035540178180431872
جی ہاں، یہ اسی ملعون کی ٹویٹ ہے جس نے کچھ عرصہ پہلے ڈنمارک میں حضورﷺ کے گستاخانہ خاکوں کی نمائش کا ڈرامہ لگایا تھا۔ خیر ماضی میں پہلے بھی کئی مرتبہ ایسا ہوتا رہا ہے، لیکن ایک بات جو سمجھ سے بالا تر ہے وہ یہ کہ آخر حکومت پاکستان کو ہی اس نے ایسا جواب کیوں دیا؟ کیا ہمارے حالیہ یا بدحالیہ بحران کا اس سے کوئی جائز یا ناجائز تعلق ہے؟
عام الفہم جواب تو یہی ہے کہ صرف پاکستان ہی ایسا ملک ہے جس نے بین الاقوامی سطح پران خاکوں پر احتجاج کیا تھا بلکہ ہر ممکنہ جگہہ پر اسکے خلاف آواز بھی اٹھائی تھی۔ لیکن در پردہ کیا ہم نے اس بات کا عندیہ دے دیا تھا کہ ہم عشق رسولﷺ کی اس معراج پر براجمان ہیں جہاں اندھا پن ہمارا طرّہ امتیاز ہے؟ کیا ہم نے خود ہی اپنی اس دکھتی رگ کو اقوام عالم کے سامنے رکھ دیا کہ جہاں اگر ہمیں چھوا جائے تو ہم دیوانہ وار اپنے ہی جسم کے ٹکڑے کرنے تک پر آجاتے ہیں؟
جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ ملک خداداد مدینہ کے بعد تاریخ کی ایک ایسی ریاست ہے جو اسلام کے نام پر حاصل کی گئی، وہیں یہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اس ملک کے بانی یعنی قائد اعظم اور علّامہ اقبال وہ شخصیات ہیں جنکی نہ تو داڑھی تھی، نہ ہی وہ کسی مذہبی اعتبار سے عالم گردانے جاتے تھے، بلکہ قیام پاکستان سے قبل تو اکثر دینی علما و مشائخ، یعنی چوٹی کے اندھے عاشق انکو کافر اعظم اور پتہ نہیں کن کن القابات سے نوازتے تھے اور قیام پاکستان کے حق میں چنداں نہیں تھے۔ خیر یہ علیٰحدہ مسئلہ رہا کہ ان دو کلین شیو شخصیات نے ہی اسلام کی وہ خدمت کی جو اس وقت کے ہزاروں اندھے عاشق نہ کر سکے۔ آج ہم اسی پاکستان پر فخر سے کہتے ہیں کہ یہ ہے اس دور کا قلعہ اسلام۔
چلو، ان اندھے عاشقوں کو جاہ پناہ مل گئی۔ جی ہاں، یہ وہی اندھے عاشق ہیں جنکے لیئے داڑھی رکھنا، ٹخنوں سے پائنچے اوپر رکھنا، ہی اصل عشق کی علامات ہیں، جبکہ آدھا پیٹ کھانا اور ہندہ جیسی شخصیت کو فتح مکّہ کے وقت معاف کردینا انکے اندھے عشق کے اندھے پن کا شکار ہیں۔
یہاں پر ایک اور صاحب نظر یعنی منٹو کی بات یاد آتی ہے جو اس نے پاکستان بننے کے پانچ برس کے اندر ہی برملا کہہ دی تھی۔ اپنے مشہور ’’لیٹر ٹو انکل سام‘‘ نامی خطوط میں اس نے ساتویں خط میں امریکہ کو لکھا تھا کہ وہ جانتا ہے کہ امریکہ پاکستان میں موجود اس مذہبی طبقے کو روس کے خلاف استعمال کرے گا۔ اب اگر منٹو بھی اندھا عاشق ہوتا تو اسے بھی جہاد ہی لکھتا۔ خیر، امریکہ کے اس جہاد کو ہم آجتک بھگت رہے ہیں۔ اور پتہ نہیں کب تک بھگتیں گے؟
کہتے ہیں کہ اسلام میں یہی ہے کہ جو چوری کرے تو اسکے ہاتھ کاٹ دو۔ اس پر تو وہ حدیث نبویﷺ بھی سنائی جاتی ہے کہ اگر چوری کرنے والی میری اپنی بیٹی فاطمہؓ بھی ہوتیں تو ان کے لیئے بھی یہی سزا ہوتی، لیکن دوسری طرف عشرہ مبشّرہ کے اس عاشق کی معافی نظر نہیں آتی جس نے اس سزا کو دوران قحط معطّل کر دیا اور کہا کہ جو کوئی بھوکا روٹی چراتے پکڑا گیا، اس پر یہ سزا لاگو نہیں ہوتی۔ یہ اچھا ہوا کہ وہ ہم جیسے اندھے عاشقوں سے قبل کی بات ہے، نہیں تو ’’پین دی سری‘‘ کر کے رکھ دینی تھی۔
میرا تو خیال ہے کہ اگر ویسے عاشق رسولﷺ آج بھی ہوتے تو شائد وہ اس بات کو دیکھتے کہ سلمان رشدی ملعون، جو کہ پڑھا لکھا ہے، اور اپنی گستاخی کے پیچھے سیاسی و معاشی مقاصد رکھتا ہے، اسکی اور آسیہ بی بی جو کہ ایک ایک فالسے کے کھیت میں روزانہ اجرت پر کام کرنے والی عورت ہے، اسکی گستاخی میں فرق ہے۔ ان اندھوں سے پہلے کے اسلام میں صرف جرم نہیں، بلکہ محرکات جرم کو بھی دیکھا جاتا تھا۔ آسیہ بی بی نے اس گستاخی کے عوض کیا پانا تھا؟ سلمان رشدی نے کیا کچھ پا لیا؟
خیر ہم اندھے عاشق امریکی جنگ کو جہاد ہی لکھتے ہیں، برطانیہ کو سلمان رشدی کو پناہ دینے اور ’’سر‘‘ کا خطاب دینے پر بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں، جبکہ آسیہ کو ہم واجب القتل ہی سمجھتے ہیں۔ اب سمجھ آ رہی ہے جیرٹ وائلڈرز کی وہ ٹویٹ جہاں سے ہم نے شروع کیا تھا؟
اب آتے ہیں قانون کے اندھے پن پر، بلکہ اندھے قانون پر۔ تحریر ویسے ہی کافی طوالت کا شکار ہو چکی ہے، لہٰذا یہاں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ چلیں آسیہ بی بی بے گناہ ہی سہی، لیکن پھر قانونی اعتبار سے انکی سزا بھی تو دیکھیں جو ایک جھوٹا الزام لگانے والے کی ہوتی ہے۔ آپ اگر اتنے ہی قانون کے متوالے ہیں تو صرف آسیہ کو رہا نہ کریں، بلکہ اس پر الزام لگانے والوں کو بھی دھریں۔ لیکن پھر وہ قانون ہی کیا جو اندھا نہ ہوا؟ یہ فیصلے کی تاریخ کیا محض اتفاق تھا؟ ان اندھے قانونی پیروکاروں اور سفیدی کو سیاہی سے ڈھکنے والوں کے لیئے شائد یہ اتفاق ہی تھا۔
تو یہ ہے ہمارا اندھا عشق اور قانون، جو اب ایک دوسرے کو راستہ دکھانے لگے ہوئے ہیں، بلکہ بدست و گریباں ہوئے پڑے ہیںٴ یہ دونوں ہی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہیں۔ بدلے میں ملک اور قوم کو کیا دیا جا رہا ہے؟ املاک کی توڑ پھوڑ؟ اپنے ہی سپاہیوں کو اپنے ہی لوگوں پر بندوق تاننے اور ڈنڈے برسانے کے آرڈر؟ اپنے ہی ملک کی معاشی سینہ کوبی؟ بین الاقوامی اندھے پن کا تماشہ؟ اور پھر اسی اثناٗ میں مولانا سمیع الحق جیسی ہستی کو کھو دینا جنکی تعلیمات اور خیالات سے کوئی اتفاق کرے نہ کرے، لیکن انکی افغان پاکستان مسائل میں اہمیت سے انکار کسی طور ممکن نہیں۔
لیکن ہم تو اندھے ہیں، ویسے ہی والہانہ اندھے جیسے کسی دور کے کلیسا میں تھے، جو حضرت مریمؑ کی پاکبازی اور حضرت عیسیٰؑ کی سیرت میں صرف جنسیت کو دیکھتے ہوئے شادی نہ کرتے، اور پھر آہستہ آہستہ انھی کلیساوٗں کے تہہ خانے نہ جانے کتنے بچوں کا پوشیدہ قبرستان بن گئے۔ ہمارا عشق بھی اس سے کم والہانہ کسی صورت نہیں۔
دوسری طرف ہمارا اندھا قانون ہے، جو کہ قوم لوطؑ پر آنے والے عذاب کو صرف اسلیے عذاب گردانے گا کہ وہ ہم جنس پرست تو تھے، لیکن عذاب کے مستحق اسلیئے ہوئے کہ آپس میں نکاح نہیں کرتے تھے، اسلیئے اسلامی رو سے ان پر زنا کی حد لگتی تھی۔ آپ کل سے ہم جنسوں کی شادی کا انتظام کریں۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کیا؟
لیکن کیا کرے کوئی، جب یہ دو اندھے آپس میں تصادم کا شکار ہوں؟
اس صورت میں دیکھا یہ گیا ہے کہ جو بھی کسی بھی اندھے کو راستہ دکھاتا ہے، وہی گالیاں کھاتا ہے۔ یہاں تو ایک اندھا دوسرے کو راستہ دکھا رہا ہے بھائی، اب خود سوچ لیں کہ عشق کو جب عدل راستہ دکھائے یا عدل سے جب عشق راہنمائی لے تو دونوں کہاں پہنچیں گے؟
اشارہ تو میرا میرے ہم وطنوں کو خوب سمجھ آگیا ہوگا، باقی اس دقیق مسئلے پر میں بھی اپنے اٹھنّی کے خیالات اچھال رہا ہوں، کیونکہ جمہوریت ہے۔
جو مجھے جانتے ہیں، وہ تو جانتے ہی ہیں، لیکن جو نہیں جانتے، انکے لیئے اطلاع عام ہے کہ بندہ اپنی فطرت میں انتہا درجہ وہمی واقع ہوا ہے۔ کانسپائریسی تھیوری میں اگر کہیں کوئی نصابی ڈگری میّسر ہوتی، تو بندۃ ضرور ملک اور قوم کا نام بین الاقوامی سطح پر روشن کرتا۔ لیکن اب یہ روشنائی کسی اندھے کو اندھیرے میں راستہ دکھانے کے علاوہ کچھ کام کی نہیں۔
تو چلیں ہم اپنی نئی کانسپائریسی تھیوری کے تحت مندرجہ بالا اندھے پن پرحسب استطاعت روشنائی بکھیرنا شروع کرتے ہیں۔
اپنے راستے کو وضع کرنے کے لیئے اس ٹویٹ سے بہتر مجھے کچھ نہ ملا، جو نہ جانے کیوں رہ رہ کر آج ذہن میں گھوم رہی ہے اور ہماری ساری کانسپائریسی تھیوری کا محور بنی ہوئی ہے۔ ملاحظہ ہو
https://twitter.com/x/status/1035540178180431872
جی ہاں، یہ اسی ملعون کی ٹویٹ ہے جس نے کچھ عرصہ پہلے ڈنمارک میں حضورﷺ کے گستاخانہ خاکوں کی نمائش کا ڈرامہ لگایا تھا۔ خیر ماضی میں پہلے بھی کئی مرتبہ ایسا ہوتا رہا ہے، لیکن ایک بات جو سمجھ سے بالا تر ہے وہ یہ کہ آخر حکومت پاکستان کو ہی اس نے ایسا جواب کیوں دیا؟ کیا ہمارے حالیہ یا بدحالیہ بحران کا اس سے کوئی جائز یا ناجائز تعلق ہے؟
عام الفہم جواب تو یہی ہے کہ صرف پاکستان ہی ایسا ملک ہے جس نے بین الاقوامی سطح پران خاکوں پر احتجاج کیا تھا بلکہ ہر ممکنہ جگہہ پر اسکے خلاف آواز بھی اٹھائی تھی۔ لیکن در پردہ کیا ہم نے اس بات کا عندیہ دے دیا تھا کہ ہم عشق رسولﷺ کی اس معراج پر براجمان ہیں جہاں اندھا پن ہمارا طرّہ امتیاز ہے؟ کیا ہم نے خود ہی اپنی اس دکھتی رگ کو اقوام عالم کے سامنے رکھ دیا کہ جہاں اگر ہمیں چھوا جائے تو ہم دیوانہ وار اپنے ہی جسم کے ٹکڑے کرنے تک پر آجاتے ہیں؟
جہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ ملک خداداد مدینہ کے بعد تاریخ کی ایک ایسی ریاست ہے جو اسلام کے نام پر حاصل کی گئی، وہیں یہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اس ملک کے بانی یعنی قائد اعظم اور علّامہ اقبال وہ شخصیات ہیں جنکی نہ تو داڑھی تھی، نہ ہی وہ کسی مذہبی اعتبار سے عالم گردانے جاتے تھے، بلکہ قیام پاکستان سے قبل تو اکثر دینی علما و مشائخ، یعنی چوٹی کے اندھے عاشق انکو کافر اعظم اور پتہ نہیں کن کن القابات سے نوازتے تھے اور قیام پاکستان کے حق میں چنداں نہیں تھے۔ خیر یہ علیٰحدہ مسئلہ رہا کہ ان دو کلین شیو شخصیات نے ہی اسلام کی وہ خدمت کی جو اس وقت کے ہزاروں اندھے عاشق نہ کر سکے۔ آج ہم اسی پاکستان پر فخر سے کہتے ہیں کہ یہ ہے اس دور کا قلعہ اسلام۔
چلو، ان اندھے عاشقوں کو جاہ پناہ مل گئی۔ جی ہاں، یہ وہی اندھے عاشق ہیں جنکے لیئے داڑھی رکھنا، ٹخنوں سے پائنچے اوپر رکھنا، ہی اصل عشق کی علامات ہیں، جبکہ آدھا پیٹ کھانا اور ہندہ جیسی شخصیت کو فتح مکّہ کے وقت معاف کردینا انکے اندھے عشق کے اندھے پن کا شکار ہیں۔
یہاں پر ایک اور صاحب نظر یعنی منٹو کی بات یاد آتی ہے جو اس نے پاکستان بننے کے پانچ برس کے اندر ہی برملا کہہ دی تھی۔ اپنے مشہور ’’لیٹر ٹو انکل سام‘‘ نامی خطوط میں اس نے ساتویں خط میں امریکہ کو لکھا تھا کہ وہ جانتا ہے کہ امریکہ پاکستان میں موجود اس مذہبی طبقے کو روس کے خلاف استعمال کرے گا۔ اب اگر منٹو بھی اندھا عاشق ہوتا تو اسے بھی جہاد ہی لکھتا۔ خیر، امریکہ کے اس جہاد کو ہم آجتک بھگت رہے ہیں۔ اور پتہ نہیں کب تک بھگتیں گے؟
کہتے ہیں کہ اسلام میں یہی ہے کہ جو چوری کرے تو اسکے ہاتھ کاٹ دو۔ اس پر تو وہ حدیث نبویﷺ بھی سنائی جاتی ہے کہ اگر چوری کرنے والی میری اپنی بیٹی فاطمہؓ بھی ہوتیں تو ان کے لیئے بھی یہی سزا ہوتی، لیکن دوسری طرف عشرہ مبشّرہ کے اس عاشق کی معافی نظر نہیں آتی جس نے اس سزا کو دوران قحط معطّل کر دیا اور کہا کہ جو کوئی بھوکا روٹی چراتے پکڑا گیا، اس پر یہ سزا لاگو نہیں ہوتی۔ یہ اچھا ہوا کہ وہ ہم جیسے اندھے عاشقوں سے قبل کی بات ہے، نہیں تو ’’پین دی سری‘‘ کر کے رکھ دینی تھی۔
میرا تو خیال ہے کہ اگر ویسے عاشق رسولﷺ آج بھی ہوتے تو شائد وہ اس بات کو دیکھتے کہ سلمان رشدی ملعون، جو کہ پڑھا لکھا ہے، اور اپنی گستاخی کے پیچھے سیاسی و معاشی مقاصد رکھتا ہے، اسکی اور آسیہ بی بی جو کہ ایک ایک فالسے کے کھیت میں روزانہ اجرت پر کام کرنے والی عورت ہے، اسکی گستاخی میں فرق ہے۔ ان اندھوں سے پہلے کے اسلام میں صرف جرم نہیں، بلکہ محرکات جرم کو بھی دیکھا جاتا تھا۔ آسیہ بی بی نے اس گستاخی کے عوض کیا پانا تھا؟ سلمان رشدی نے کیا کچھ پا لیا؟
خیر ہم اندھے عاشق امریکی جنگ کو جہاد ہی لکھتے ہیں، برطانیہ کو سلمان رشدی کو پناہ دینے اور ’’سر‘‘ کا خطاب دینے پر بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں، جبکہ آسیہ کو ہم واجب القتل ہی سمجھتے ہیں۔ اب سمجھ آ رہی ہے جیرٹ وائلڈرز کی وہ ٹویٹ جہاں سے ہم نے شروع کیا تھا؟
اب آتے ہیں قانون کے اندھے پن پر، بلکہ اندھے قانون پر۔ تحریر ویسے ہی کافی طوالت کا شکار ہو چکی ہے، لہٰذا یہاں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ چلیں آسیہ بی بی بے گناہ ہی سہی، لیکن پھر قانونی اعتبار سے انکی سزا بھی تو دیکھیں جو ایک جھوٹا الزام لگانے والے کی ہوتی ہے۔ آپ اگر اتنے ہی قانون کے متوالے ہیں تو صرف آسیہ کو رہا نہ کریں، بلکہ اس پر الزام لگانے والوں کو بھی دھریں۔ لیکن پھر وہ قانون ہی کیا جو اندھا نہ ہوا؟ یہ فیصلے کی تاریخ کیا محض اتفاق تھا؟ ان اندھے قانونی پیروکاروں اور سفیدی کو سیاہی سے ڈھکنے والوں کے لیئے شائد یہ اتفاق ہی تھا۔
تو یہ ہے ہمارا اندھا عشق اور قانون، جو اب ایک دوسرے کو راستہ دکھانے لگے ہوئے ہیں، بلکہ بدست و گریباں ہوئے پڑے ہیںٴ یہ دونوں ہی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہیں۔ بدلے میں ملک اور قوم کو کیا دیا جا رہا ہے؟ املاک کی توڑ پھوڑ؟ اپنے ہی سپاہیوں کو اپنے ہی لوگوں پر بندوق تاننے اور ڈنڈے برسانے کے آرڈر؟ اپنے ہی ملک کی معاشی سینہ کوبی؟ بین الاقوامی اندھے پن کا تماشہ؟ اور پھر اسی اثناٗ میں مولانا سمیع الحق جیسی ہستی کو کھو دینا جنکی تعلیمات اور خیالات سے کوئی اتفاق کرے نہ کرے، لیکن انکی افغان پاکستان مسائل میں اہمیت سے انکار کسی طور ممکن نہیں۔
لیکن ہم تو اندھے ہیں، ویسے ہی والہانہ اندھے جیسے کسی دور کے کلیسا میں تھے، جو حضرت مریمؑ کی پاکبازی اور حضرت عیسیٰؑ کی سیرت میں صرف جنسیت کو دیکھتے ہوئے شادی نہ کرتے، اور پھر آہستہ آہستہ انھی کلیساوٗں کے تہہ خانے نہ جانے کتنے بچوں کا پوشیدہ قبرستان بن گئے۔ ہمارا عشق بھی اس سے کم والہانہ کسی صورت نہیں۔
دوسری طرف ہمارا اندھا قانون ہے، جو کہ قوم لوطؑ پر آنے والے عذاب کو صرف اسلیے عذاب گردانے گا کہ وہ ہم جنس پرست تو تھے، لیکن عذاب کے مستحق اسلیئے ہوئے کہ آپس میں نکاح نہیں کرتے تھے، اسلیئے اسلامی رو سے ان پر زنا کی حد لگتی تھی۔ آپ کل سے ہم جنسوں کی شادی کا انتظام کریں۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کیا؟
Last edited by a moderator: