Haidar Ali Shah
MPA (400+ posts)
وہ پچھلے تین سال سے اس کے تعاقب میں تھا. آخر کار وہ اسکا ٹھکانہ جان چکا تھا* وہ ایک دوست کے گھر مقیم تھا. وہ ظالم اور سفاک ادمی بالکل ناخبر تھا کہ اسکے ساتھ کیا ہونے والا ہیں.
یہ ناصر کی دردناک کہانی ہیں جو انتقام لینے کیلئے کئی دنوں سے ہمارے علاقے میں مقیم تھا. کہانی کچھ یوں ہے کہ ناصر اپنی بیوی اور ایک بچی کے ساتھ مردان میں رہائش پذیر تھا. اسکی اپنی چھوٹی سی سبزی کی دکان تھی. ایک دن اسکا کزن خالد اس کے پاس آیا اور اس سے کام کے بارے میں مدد طلب کی. آگر چہ خالد* اچھے کردار کا مالک نہیں تھا لیکن ناصر نے اسے انکار کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اسے اپنی بیٹھک رہائش دی اور ساتھ میں کاروبار شروع کرانے کی کوشش شروع کردی. چند دن گزرنے کے بعد ناصر کو یقین آگیا کے خالد کام میں دلچسپی لے رہا ہیں تو اسکا اعتماد بڑھ گیا. اس نے اپنی بیوی کو سمجھا دیا کے آگر خالد کام سے پہلے آئے تو اسے کھانا اور چائے فراہم کرے تاکہ وہ میرے انتظار میں بھوکا نہ رہے. یوں خالد کا گھر کے اندر بھی آنا جانا شروع ہوا اور ایک دن خالد نے ناصر کے کام پر جانے کے بعد ناصر کی بیوی سے چھیڑ خانی کی کوشش کی جس پر اس نے خالد کو منع کیا*یا اس نے پڑوسیوں کو بلانے کی کوشش کی جس پر خالد مشتعل ہوا اور ناصر کی بیوی اور بچی کو قتل کر دیا.
(موت کی اصل وجہ صرف خالد کو پتہ تھا) خالد کو احساس ہو گیا تھا کے کوئی بہانہ کام نہیں آئےگا اب زندہ رہنے کیلئے* اسے ساری عمر بھاگنا پڑے گا اسے اپنے سائے سے بھی دور رہنا پڑے گا. جس دن اس نے بھاگنا چھوڑ دیا اور دوسروں پر اعتماد کرنا شروع کر دیا اس دن سے وہ دنیا میں "مہمان" بن کر جئے گا. لیکن وہ کب تک بھاگتا اور کہاں تک بھاگتا اسے احساس ہو چکا تھا کے دنیا گول ہیں پچھلے تین سال سے وہ اسی دائرے میں گھوم گھوم کر تھک چکا تھا. اس کے پاس دوستوں پر بھروسہ کرنے کے علاوہ کوئی چوائس نہیں تھی. اس کو شاید معلوم نہیں تھا کہ "انتقام" کا جذبہ تھکتا نہیں. ناصر پچھلے تین سال سے پاکستان کے ہر شہر میں دو تین ہفتوں کیلئے مقیم رہا اسےنے ہر شہر میں خالد کو ڈھونڈا . خالد موت کے خوف سے خرگوش کی طرح چھلانگیں لگاتے ہوئے بھاگتا رہا لیکن اب اسمیں اور بھاگنےکی سکت نہیں رہی موت اس کے سر پرکھڑی تھی.بلی او چوہوں کی یہ انکھ مچولی ختم ہونے والی تھی. ناصر کو سب دوست اور احباب شادی کرنے کا مشورہ دیتے رہے لیکن اس کا ایک ہی جواب تھا کہ انتقام بہت ضروری ہیں.
خالد جس دوست پر سب سے ذیادہ بھروسہ کر رہا تھا وہ خود خوفزدہ تھا کے کہیں ناصر اسے ہی گولی نا ماردے یا خالد اسکے ساتھ بھی* کوئی برا نہ کردے آخر وہ ایک عادی مجرم تھا. ناصر کو خالد کے دوست نے اطلاع دی ہوئی تھی کے وہ بازار آرہے ہیں ناصر اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ گاڑی اڈے میں خالد کا انتظار کرنے لگا. تھوڑی دیر بعد مسافر کوچ آئی خالد کو گاڑی سے اترتے ہی ناصر نظر آگیا. خالد نے پستول نکال کر فائر کرنی چاہی لیکن پستول جیم ہوگئی* ناصر نے بھی پستول نکال لی تھی لیکن وہ خالد کو زندہ پکڑنے کی کوشش میں تھا.* اس سے پہلے کے ناصر یا اسکا بھائی اسے دبوچ لیتےخالد نے دوڑ لگا دی لیکن پانچ منٹ دوڑنے کے بعد اس کی سانس پھول گئی تھی اس نے ایک بیکری کے گودام میں گھس کر دروازہ اندر سے بن کر دیا. ناصر اور اس کے بھائی نے دروازہ توڑنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی اسلئے دونوں نے دروازے پر اندھا دھند فائرنگ کی دروازہ ٹوٹ گیا اور خالد بھی اندر گولیوں کا نشانہ بن کر اپنے انجام کو پہنچ گیا تھا.
پولیس حسب عادت لیٹ آئی اور لاش لیکر نامعلوم افراد پر مقدمہ درج کرکے لاش کو اس کے رشتہ داروں کے حوالے کردی. سب کو معلوم تھا اور گواہان بھی موجود تھے لیکن خالد کے کردار کیوجہ سے نا تو رشتہ داروں نے ناصر کیخلاف کاروائی کی اور نہ ہی کسی اور نے گواہی دی. ناصر بھی کچھ دن بعد علاقہ چھوڑ کر چلا گیا اسکے بعد اس سے ملاقات نہ ہو سکی.* اللہ سے دعا ہیں کے اس نے اپنی زندگی پھر سے شروع کر دی ہوں. *
*
یہ ناصر کی دردناک کہانی ہیں جو انتقام لینے کیلئے کئی دنوں سے ہمارے علاقے میں مقیم تھا. کہانی کچھ یوں ہے کہ ناصر اپنی بیوی اور ایک بچی کے ساتھ مردان میں رہائش پذیر تھا. اسکی اپنی چھوٹی سی سبزی کی دکان تھی. ایک دن اسکا کزن خالد اس کے پاس آیا اور اس سے کام کے بارے میں مدد طلب کی. آگر چہ خالد* اچھے کردار کا مالک نہیں تھا لیکن ناصر نے اسے انکار کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اسے اپنی بیٹھک رہائش دی اور ساتھ میں کاروبار شروع کرانے کی کوشش شروع کردی. چند دن گزرنے کے بعد ناصر کو یقین آگیا کے خالد کام میں دلچسپی لے رہا ہیں تو اسکا اعتماد بڑھ گیا. اس نے اپنی بیوی کو سمجھا دیا کے آگر خالد کام سے پہلے آئے تو اسے کھانا اور چائے فراہم کرے تاکہ وہ میرے انتظار میں بھوکا نہ رہے. یوں خالد کا گھر کے اندر بھی آنا جانا شروع ہوا اور ایک دن خالد نے ناصر کے کام پر جانے کے بعد ناصر کی بیوی سے چھیڑ خانی کی کوشش کی جس پر اس نے خالد کو منع کیا*یا اس نے پڑوسیوں کو بلانے کی کوشش کی جس پر خالد مشتعل ہوا اور ناصر کی بیوی اور بچی کو قتل کر دیا.
(موت کی اصل وجہ صرف خالد کو پتہ تھا) خالد کو احساس ہو گیا تھا کے کوئی بہانہ کام نہیں آئےگا اب زندہ رہنے کیلئے* اسے ساری عمر بھاگنا پڑے گا اسے اپنے سائے سے بھی دور رہنا پڑے گا. جس دن اس نے بھاگنا چھوڑ دیا اور دوسروں پر اعتماد کرنا شروع کر دیا اس دن سے وہ دنیا میں "مہمان" بن کر جئے گا. لیکن وہ کب تک بھاگتا اور کہاں تک بھاگتا اسے احساس ہو چکا تھا کے دنیا گول ہیں پچھلے تین سال سے وہ اسی دائرے میں گھوم گھوم کر تھک چکا تھا. اس کے پاس دوستوں پر بھروسہ کرنے کے علاوہ کوئی چوائس نہیں تھی. اس کو شاید معلوم نہیں تھا کہ "انتقام" کا جذبہ تھکتا نہیں. ناصر پچھلے تین سال سے پاکستان کے ہر شہر میں دو تین ہفتوں کیلئے مقیم رہا اسےنے ہر شہر میں خالد کو ڈھونڈا . خالد موت کے خوف سے خرگوش کی طرح چھلانگیں لگاتے ہوئے بھاگتا رہا لیکن اب اسمیں اور بھاگنےکی سکت نہیں رہی موت اس کے سر پرکھڑی تھی.بلی او چوہوں کی یہ انکھ مچولی ختم ہونے والی تھی. ناصر کو سب دوست اور احباب شادی کرنے کا مشورہ دیتے رہے لیکن اس کا ایک ہی جواب تھا کہ انتقام بہت ضروری ہیں.
خالد جس دوست پر سب سے ذیادہ بھروسہ کر رہا تھا وہ خود خوفزدہ تھا کے کہیں ناصر اسے ہی گولی نا ماردے یا خالد اسکے ساتھ بھی* کوئی برا نہ کردے آخر وہ ایک عادی مجرم تھا. ناصر کو خالد کے دوست نے اطلاع دی ہوئی تھی کے وہ بازار آرہے ہیں ناصر اپنے دوسرے بھائی کے ساتھ گاڑی اڈے میں خالد کا انتظار کرنے لگا. تھوڑی دیر بعد مسافر کوچ آئی خالد کو گاڑی سے اترتے ہی ناصر نظر آگیا. خالد نے پستول نکال کر فائر کرنی چاہی لیکن پستول جیم ہوگئی* ناصر نے بھی پستول نکال لی تھی لیکن وہ خالد کو زندہ پکڑنے کی کوشش میں تھا.* اس سے پہلے کے ناصر یا اسکا بھائی اسے دبوچ لیتےخالد نے دوڑ لگا دی لیکن پانچ منٹ دوڑنے کے بعد اس کی سانس پھول گئی تھی اس نے ایک بیکری کے گودام میں گھس کر دروازہ اندر سے بن کر دیا. ناصر اور اس کے بھائی نے دروازہ توڑنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی اسلئے دونوں نے دروازے پر اندھا دھند فائرنگ کی دروازہ ٹوٹ گیا اور خالد بھی اندر گولیوں کا نشانہ بن کر اپنے انجام کو پہنچ گیا تھا.
پولیس حسب عادت لیٹ آئی اور لاش لیکر نامعلوم افراد پر مقدمہ درج کرکے لاش کو اس کے رشتہ داروں کے حوالے کردی. سب کو معلوم تھا اور گواہان بھی موجود تھے لیکن خالد کے کردار کیوجہ سے نا تو رشتہ داروں نے ناصر کیخلاف کاروائی کی اور نہ ہی کسی اور نے گواہی دی. ناصر بھی کچھ دن بعد علاقہ چھوڑ کر چلا گیا اسکے بعد اس سے ملاقات نہ ہو سکی.* اللہ سے دعا ہیں کے اس نے اپنی زندگی پھر سے شروع کر دی ہوں. *
*
Last edited by a moderator: