پاک فوج نے انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا۔لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا ہے اور ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھاکہ سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے تفصیلی کورٹ آف انکوائری کی گئی، انکوائری پاک فوج نےفیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں شکایات کی درستگی کا پتا لگانے کیلئے کی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق فیض حمید کے خلاف ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی کئی خلاف ورزیاں ثابت ہوچکی ہیں۔
صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے فیض حمید کے خلاف کاروائی کو خوش آئند قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ آئندہ بھی خلاف ورزی کرنیوالے جرنیلوں کے خلاف ایسی کاروائیاں ہونگی۔
رضوان غلزئی نے تبصرہ کیا کہ آئی ایس پی آر کے مطابق جنرل فیض کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ جرنیلوں کا احتساب خوش آئند ہے۔ امید ہے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے جرنیلوں کے خلاف مزید کارروائیاں بھی ہونگی
زبیرعلی خان نے مطالبہ کیا کہ جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل کی کارروائی براہ راست دکھائی جانی چاہئے، تاکہ کوئی جرنیل آئندہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے
خرم اقبال کا کہنا تھا کہ فوج کی جانب سے طاقتور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کی گرفتاری معمولی بات نہیں، بہت بڑی پیشرفت ہے
جنید نے لکھا کہ جرنیلوں کے خلاف کاروائی کی روایت شروع ہونا خوش آئند عمل ہے۔ ہمیں اسکی حمایت کرنی چاہیے۔
فہیم اختر نے ری ایکشن دیا کہ پہلی بار کسی سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ر فیض حمید کا کورٹ مارشل ہورہا ہے۔۔ یہ بہت غیر معمولی بات ہے اب بات بہت آگے بڑھے گی
بشارت راجہ کا کہنا تھا کہ سیاسی معاملات میں مداخلت کا دروازہ بند کرنے کے لیے ضروری ہے جنرل فیض حمید کا معاملہ منطقی انجام تک پہنچایا جائے
رحیق عباسی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اچھا کیا ۔۔ سلسلہ کہیں سے تو شروع ہونا تھا ۔۔ آج ریٹائرڈ دی جی آئی ایس آئی کو تحویل میں لیا گیا یے۔۔ تو جو آج حاضر سروس ہیں انہوں نے بھی ایک دن ریٹائر ہونا ہے چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
وقار احمد شیخ کا کہنا تھا کہ ریٹائرڈ جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کا فیصلہ پاکستان کے مستقبل کیلئے اس لحاظ سے خوش آئند ثابت ہوسکتا ہے کہ آئندہ کیلئے بڑے عہدیداروں کے محاسبے کی راہ کھل جائیگی۔
صحافی ماجد نظامی کا کہنا تھا کہ 2017 میں اس وقت کے آئی ایس آئی کے ڈی جی سی میجر جنرل فیض حمید کے حوالے سے اعزاز سید کی رپورٹ جیو نیوز پر نشر ہوئی۔ اس کے بعد جنرل فیض نے آئی ایس آئی اور دو مختلف کورز کمانڈ کیں۔ یعنی 7 سال کے طویل عرصہ تک اس معاملہ پر فوج کا اعلی ترین، خودکار احتسابی نظام مکمل خاموش رہا