jani1
Chief Minister (5k+ posts)
گُل خان کی گُل کاریاں ۔۔..Gul Khan Series..
سالگرہ پر تلاشی۔۔۔۔..Captionistan(27)
فکر مند چوہدری۔۔..Captionistan(28)
ہاہاہاہا۔۔ کیسا دیا۔ بڑا آیا تھا قاضی کو لے کر میری تلاشی لینے۔ قاضی بھی کیا کرتا پہلوان کا دل رکھنے کے لیئے آتو گیا پر میرے تیور اور قاضی کی بیوی کو دیئے گئے زیور دیکھ کر وہ بھی موم پڑ گیا اور اپنی رُخصتی کے اور اپنی کمزور نظر و ڈھلتی عُمر کا بہانہ بناکر رفُو چکر ہوگیا۔اب یہ نیا قاضی ۔اس بے چارے نے تو فیصلے کو کہیں بہت ہی محفُوظ جگہ پر چُھپا دیا ہے۔ جسے نکالنا مُشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔
گنج پُور کے وڈے چوہدری نےٹیلیفُون پر اپنے وڈیرے یار کو ایک ہی سانس میں کہانی سُنائی۔ اور دوچار باتیں کرکے فون رکھ دیا۔
قریب پڑی چارپائی پر نکہ چوہدری اپنے خیالات کے گھوڑے دوڑا رہا تھا۔اور گُجر اُس کے پیر دبانے میں مصرُوف تھا۔پیجے میراثی کو جب سے حوالدار کے کہنے پر کام سے نکالا گیا تھا اُس کی جگہ رجےچول نے سنبھال لی تھی۔اور وہ اس وقت پنڈ میں چوہدریوں سے مُتعلق اچھی اچھی خبریں پھیلانے میں مصرُوف تھا۔ کھبی کھبار جب کام زیادہ ہوجاتا اور زیادہ جھوٹ اور چولیں مارنے والا درکار ہوتا تو پاس کے پنڈ سے آئے مانے پخ پخ کی خدمات بھی حاصل کی جاتیں ۔
نکے ۔۔
کن خیالات میں ڈھوبے ہو۔ کوئی لفٹ ہمیں بھی کراو۔
وڈے نے پیار سے نکے کو پُکارتے ہوئے کہا. جس پر نکے نے پہلے تو گُجر کو ٹھڈا مارتے ہوئے پیر دبانے سے روکھا۔ کہ کمینے ایک ہی جگہ دبائے جا رہا ہے۔اور پھر مُرجائی سی صُورت بناتے ہوئے وڈے کوجواب دیا۔
پا جی میں سوچھ رہا تھا۔ کہ کیا دن آ گئے ۔ ایک زمانہ تھا جب ہر طرف ہمارے قصے ہوا کرتے تھے۔ لوگ ہمیں شریف سمجھتے تھے اور وڈیرہ ہی بُرا تھا۔ یہاں تک کہ ہمارے قصوں کے لیئے سیاست پُور کے باسی بھی خاصے انتظار میں رہتے اور اب دیکھیں کوئی چار ماہ بعد اپنی داستان کی قسط آئی ہے۔
نہ کریا کر ایسی باتیں یرا۔ حالات ہر وقت ایک سے نہیں رہتے۔ تُو فکر نہ کر۔ پھر اپنا وقت آئے گا۔اور ہر طرف اپنا بول بالا ہوگا۔
پاجی بول بالا ہوبھی جائے تو آپ کا ہوگا ناں میں تو وہی نکے کا نکہ ہی رہونگا۔ نکے نے دل میں کہا اور وڈے کو جواب دیا۔ ہاں پا جی کیوں نہیں۔مگر۔
مگر کیا۔۔؟ نکے کے مُبہم سے جواب پر وڈے نے پُوچھا۔
وہ اپڑاں جیدہ ہے ناں ۔۔نکے نے جواب دیا۔
کونسا جیدہ۔ یہاں تو بہت سے جیدے ہیں۔ جیدے میراثی کی بات کر رہے ہو۔؟ وڈے نے وضاہت چاہی۔
نہیں وہ جیدہ کُکُڑ۔ جس کی مُچ دو رنگی ہے۔ جو چولیں مارنے اور چاپلُوسی کا ماشٹڑ ہے۔ نکے نے وضاحت کی۔
ارے ہاں وہی ناں جو کُکڑ چوری کی سزا میں پنڈ کی گلیوں میں کھوتے پر گھمایا گیا تھا۔مُنہ کالا اور سر گنجا کرا کے۔پھر کیا کیا ہے خبیث نے۔ وڈہ جیدے کُکڑ کا مزاق اُڑاتے ہوئے بولا۔
ہہہہہی۔۔اس پر نکے کی بھی ہنسی چُھوٹ گئ۔ پاجی اب وہ ایسا نہیں تھا۔ اب تو ہمارے کام کا بندہ بن گیا تھا۔
چلو دفع کرو ۔اور اصل بات بتاو۔ وڈہ اپنی پُرانی عادت پر آتے ہوئے بولا۔ وڈے کی یہی خُصُوصیت تھی پنڈ پر راج کرنے کی کہ آدمی کو آدمی نہی سمجھتا۔ اور استعمال کے بعد پھینک دیتا۔
پاجی وہ گُل خان ہے ناں۔یہ جیدہ اُس کے ہاتھوں پٹ کر آگیا۔ نکہ اپنے خیال میں بڑے راز سے پردہ فاش کرتے ہوئے بولا۔اور مزید گویا ہوا۔
اس گُل خان کا کُچھ کرنا ہی پڑے گا۔ یاد ہے ناں جب یہاں آیا تھا اور ہمارے اپنے ڈیرے پر میرے ساتھ بدمعاشی کی تھی۔
وڈے کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر گھوم گیا جب گُل خان نے ان کے ڈیرے پر نکے کو٫زمین پر پچھاڑ کر سینے پر پیر رکھ دیا تھا اور نکے کی ننی سی جان بال بال بچ گئی تھی۔ دوسرا منظر جب گُل خان نےوڈے کو ٹھڈے مار کر ایک پروگرام سے نکالا تھا جب وڈہ اُس پروگرام میں بغیر دعوت کے شریک ہوا تھا اور وہاں تقریر بھی کرنا چاہ رہا تھا جس کا سیکیوریٹی سُپر وائزر گُل خان ہی تھا۔ مگر یہ بات نکے کو معلُوم نہیں تھی کیونکہ اُس وقت جدے میراثی اور گُجر کے علاوہ اور کوئی موقع پر موجود نہیں تھا ۔ وڈے کے ڈر سے آج تک دونوں نے وہاں کی روداد کسی کو نہیں سُنائی تھی۔
ہاں میں بھی سوچ رہا ہوں کہ کُچھ ناں کُچھ تو کرنا ہی پڑے گا مگر کیا۔اب وڈہ بھی فکر میں پڑ گیا کہ ایک پہلوان کیا کم تھا ان کی چھترول کے لیئے کہ اب یہ گُل خان بھی۔
جاری ہے۔۔
سالگرہ پر تلاشی۔۔۔۔..Captionistan(27)
فکر مند چوہدری۔۔..Captionistan(28)
ہاہاہاہا۔۔ کیسا دیا۔ بڑا آیا تھا قاضی کو لے کر میری تلاشی لینے۔ قاضی بھی کیا کرتا پہلوان کا دل رکھنے کے لیئے آتو گیا پر میرے تیور اور قاضی کی بیوی کو دیئے گئے زیور دیکھ کر وہ بھی موم پڑ گیا اور اپنی رُخصتی کے اور اپنی کمزور نظر و ڈھلتی عُمر کا بہانہ بناکر رفُو چکر ہوگیا۔اب یہ نیا قاضی ۔اس بے چارے نے تو فیصلے کو کہیں بہت ہی محفُوظ جگہ پر چُھپا دیا ہے۔ جسے نکالنا مُشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔
گنج پُور کے وڈے چوہدری نےٹیلیفُون پر اپنے وڈیرے یار کو ایک ہی سانس میں کہانی سُنائی۔ اور دوچار باتیں کرکے فون رکھ دیا۔
قریب پڑی چارپائی پر نکہ چوہدری اپنے خیالات کے گھوڑے دوڑا رہا تھا۔اور گُجر اُس کے پیر دبانے میں مصرُوف تھا۔پیجے میراثی کو جب سے حوالدار کے کہنے پر کام سے نکالا گیا تھا اُس کی جگہ رجےچول نے سنبھال لی تھی۔اور وہ اس وقت پنڈ میں چوہدریوں سے مُتعلق اچھی اچھی خبریں پھیلانے میں مصرُوف تھا۔ کھبی کھبار جب کام زیادہ ہوجاتا اور زیادہ جھوٹ اور چولیں مارنے والا درکار ہوتا تو پاس کے پنڈ سے آئے مانے پخ پخ کی خدمات بھی حاصل کی جاتیں ۔
نکے ۔۔
کن خیالات میں ڈھوبے ہو۔ کوئی لفٹ ہمیں بھی کراو۔
وڈے نے پیار سے نکے کو پُکارتے ہوئے کہا. جس پر نکے نے پہلے تو گُجر کو ٹھڈا مارتے ہوئے پیر دبانے سے روکھا۔ کہ کمینے ایک ہی جگہ دبائے جا رہا ہے۔اور پھر مُرجائی سی صُورت بناتے ہوئے وڈے کوجواب دیا۔
پا جی میں سوچھ رہا تھا۔ کہ کیا دن آ گئے ۔ ایک زمانہ تھا جب ہر طرف ہمارے قصے ہوا کرتے تھے۔ لوگ ہمیں شریف سمجھتے تھے اور وڈیرہ ہی بُرا تھا۔ یہاں تک کہ ہمارے قصوں کے لیئے سیاست پُور کے باسی بھی خاصے انتظار میں رہتے اور اب دیکھیں کوئی چار ماہ بعد اپنی داستان کی قسط آئی ہے۔
نہ کریا کر ایسی باتیں یرا۔ حالات ہر وقت ایک سے نہیں رہتے۔ تُو فکر نہ کر۔ پھر اپنا وقت آئے گا۔اور ہر طرف اپنا بول بالا ہوگا۔
پاجی بول بالا ہوبھی جائے تو آپ کا ہوگا ناں میں تو وہی نکے کا نکہ ہی رہونگا۔ نکے نے دل میں کہا اور وڈے کو جواب دیا۔ ہاں پا جی کیوں نہیں۔مگر۔
مگر کیا۔۔؟ نکے کے مُبہم سے جواب پر وڈے نے پُوچھا۔
وہ اپڑاں جیدہ ہے ناں ۔۔نکے نے جواب دیا۔
کونسا جیدہ۔ یہاں تو بہت سے جیدے ہیں۔ جیدے میراثی کی بات کر رہے ہو۔؟ وڈے نے وضاہت چاہی۔
نہیں وہ جیدہ کُکُڑ۔ جس کی مُچ دو رنگی ہے۔ جو چولیں مارنے اور چاپلُوسی کا ماشٹڑ ہے۔ نکے نے وضاحت کی۔
ارے ہاں وہی ناں جو کُکڑ چوری کی سزا میں پنڈ کی گلیوں میں کھوتے پر گھمایا گیا تھا۔مُنہ کالا اور سر گنجا کرا کے۔پھر کیا کیا ہے خبیث نے۔ وڈہ جیدے کُکڑ کا مزاق اُڑاتے ہوئے بولا۔
ہہہہہی۔۔اس پر نکے کی بھی ہنسی چُھوٹ گئ۔ پاجی اب وہ ایسا نہیں تھا۔ اب تو ہمارے کام کا بندہ بن گیا تھا۔
چلو دفع کرو ۔اور اصل بات بتاو۔ وڈہ اپنی پُرانی عادت پر آتے ہوئے بولا۔ وڈے کی یہی خُصُوصیت تھی پنڈ پر راج کرنے کی کہ آدمی کو آدمی نہی سمجھتا۔ اور استعمال کے بعد پھینک دیتا۔
پاجی وہ گُل خان ہے ناں۔یہ جیدہ اُس کے ہاتھوں پٹ کر آگیا۔ نکہ اپنے خیال میں بڑے راز سے پردہ فاش کرتے ہوئے بولا۔اور مزید گویا ہوا۔
اس گُل خان کا کُچھ کرنا ہی پڑے گا۔ یاد ہے ناں جب یہاں آیا تھا اور ہمارے اپنے ڈیرے پر میرے ساتھ بدمعاشی کی تھی۔
وڈے کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر گھوم گیا جب گُل خان نے ان کے ڈیرے پر نکے کو٫زمین پر پچھاڑ کر سینے پر پیر رکھ دیا تھا اور نکے کی ننی سی جان بال بال بچ گئی تھی۔ دوسرا منظر جب گُل خان نےوڈے کو ٹھڈے مار کر ایک پروگرام سے نکالا تھا جب وڈہ اُس پروگرام میں بغیر دعوت کے شریک ہوا تھا اور وہاں تقریر بھی کرنا چاہ رہا تھا جس کا سیکیوریٹی سُپر وائزر گُل خان ہی تھا۔ مگر یہ بات نکے کو معلُوم نہیں تھی کیونکہ اُس وقت جدے میراثی اور گُجر کے علاوہ اور کوئی موقع پر موجود نہیں تھا ۔ وڈے کے ڈر سے آج تک دونوں نے وہاں کی روداد کسی کو نہیں سُنائی تھی۔
ہاں میں بھی سوچ رہا ہوں کہ کُچھ ناں کُچھ تو کرنا ہی پڑے گا مگر کیا۔اب وڈہ بھی فکر میں پڑ گیا کہ ایک پہلوان کیا کم تھا ان کی چھترول کے لیئے کہ اب یہ گُل خان بھی۔
جاری ہے۔۔
Last edited by a moderator: