جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تسلسل کے ساتھ عسکری ادارے کے ساتھ محاذ آرائی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ پاکستان کی تاریخ میں عدلیہ کے کسی اہم رکن نے کبھی طاقتور ترین ادارے کو یوں للکارا ہو۔
کالے بوٹ اور وردی کی پوجا پاٹ کرنے والی تحریک انصاف کے لیے وہی ڈھاک کے تین پات ہیں۔ یعنی کہ شوکت عزیز صدیقی، نواز شریف کا بندہ ہے اور فلاں فلاں کا رشتہ دار ہے۔ مطلب پٹواری ہے۔ ثابت یہ ہوا کہ پٹواری بڑے جی دار اور بہادر ہوتے ہیں کہ وقت کے خداؤں کو علی الاعلان چیلنج کردیتے ہیں۔
معلوم یہ ہوتا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز کا اللہ پر پختہ یقین ہے، وہ جانتے ہیں کہ زندگی اور موت آئی ایس آئی کے ہاتھ میں نہیں بلکہ صرف اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے مقابلے میں تحریک انصاف کی قیادت شرک کے راستے پر چلتے ہوئے کالا جادو اور مردوں کے آگے سجدے کر کے پیغام دے رہی ہے کہ وزارت عظمیٰ کا حصول آئی ایس آئی اور آرمی چیف کی عبادت کے ساتھ منسوب ہے۔ یعنی جب اللہ حق کا ساتھ دینے کا حکم دے، تو عمران خان نے جھوٹ اور فریب کے سائے میں کھڑے ہونا ہے۔ ظالم کی رسی کو مضبوط کرنا ہے اور اللہ کی رسی کو قطعی نظر انداز کرنا ہے۔
درحقیقت تحریک انصاف، فوج کے ساتھ مل کر اسی جرم عظیم میں شریک ہے جو 1971 میں اس وقت کے لوٹے ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے فوج کی حمایت اور وفاق پاکستان کی مخالفت میں کیا۔
فوج کو 1971 میں اپنی طاقت اور امریکہ و چین کی حمایت کا اتنا یقین تھا کہ اس نے عوامی لیگ کے ساتھ وہی بدمعاشی کی جو آج کی فوجی قیادت مسلم لیگ (نون)، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ کر رہی ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں ایسا ہی ایک کھیل کراچی میں بھی کھیلا گیا جب اسٹیبلشمنٹ نے اپنے پرانے مہرے الطاف حسین کو مائنس کر کے کراچی کی سیاسی طاقت کو پارہ پارہ کر دیا۔
ممکنہ طور پر، دنیا کی نمبر ون ایجنسی نے ایم کیو ایم لندن کی صفوں میں موجود اپنے کسی مہرے کو استعمال کرتے ہوئے، علیل، نحیف اور ضعیفی کی جانب گامزن الطاف حسین کو اکسا کر یا کسی ترغیب و تحریک کے ذریعے پاکستان مخالف نعرے لگوائے۔ ہو سکتا ہے دنیا کی نمبر ون ایجنسی نے الطاف حسین کو شراب میں کچھ ملا کر پلوایا ہو، اور جب وہ پورے ٹن ہوگئے ہوں تو ان کو ایک لکھی ہوئی تقریر پڑھوا دی ہے۔ یوں جارج ڈبلیو بش کے نائن الیون اسٹائل پر اپنے ہی اوپر حملہ کروا کر اپنا دفاع کیا گیا۔ الطاف کو راستے سے ہٹاکر کراچی کی مہاجر طاقت کو ختم کر دیا گیا۔ آج کراچی بٹا ہوا ہے۔ کراچی کے عوام 25 جولائی 2018 کو ہونے والے ڈرامے میں بلوچستان کے عوام کی طرح لاچار اور مجبور طبقہ بننے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں۔
کراچی سے فارغ ہونے کے بعد آئی ایس آئی کی اگلی نظر وفاق پاکستان کی مقبول ترین قیادت نواز شریف پر تھی۔ فوج کو طیب اردگان سے شدید نفرت ہے کیوں کہ اس نے ترک لادینیت اور مغربیت کی محافظ ترک فوج کو لگام دے کر عوامی کنٹرول میں لیا ہے۔ پاک فوج، نواز شریف کو اردگان بننے کی اجازت کبھی نہیں دے سکتی تھی۔ نواز اگر اردگان بن جاتا تو کشمیر کا کوئی نہ کوئی حل نکل آتا، ہندوستان، افغانستان وغیرہ سے تعلقات اچھے ہوجاتے۔ تو پھر کشمیر کے نام پر، اور لائن آف کنٹرول پر جعلی جھڑپوں کے نام پر کمائی کون کرتا؟ پھر کراچی میں ہزاروں رینجرز تعینات کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ پھر شاید دفاعی بجٹ کم کر دیا جاتا، شاید پاکستان کے بھوکے ننگے عوام کو تعلیم اور صحت کی سہولیات ملنے کی امید پیدا ہوجاتی۔ لوگ پڑھ لکھ جاتے تو جرنیلوں کی جنگی معیشت ناکام ہوجاتی۔ پھر آئی ایس پی آر کی دو نمبر فلمیں کون دیکھتا؟ بس یہی وجہ تھی۔ ڈر تھا کہ عوام کو کوئی مقبول قیادت نہ مل جائے۔
تو پھر کیا کیا جائے؟ پھر یہ کہ نواز شریف کے اوپر اتنے جھوٹ بولو، دن رات بولو، میڈیا پر دکھاؤ، اخبارات میں لکھو کہ لوگ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ماننے لگیں۔ اس چیز کو عام زبان میں پراپیگنڈا کہتے ہیں۔ جھوٹ کی تشہیر کے لیے بدکردار عمران احمد خان نیازی کو چنا گیا، اور اس کے ساتھ اسی کی اوقات کے مداری چنے گئے مثلاً طاہر القادری، شیخ رشید اور ہمنوا۔
یہ اسی طرح کا جھوٹ اور پراپیگنڈا ہے جیسے ان کے امریکی اور برطانوی آقاؤں نے عراق پر حملے سے قبل دنیا بھر میں کیا تھا۔ وقت نے اس پراپیگنڈے کو غلط ثابت کیا اور ٹونی بلیئر کو قوم سے معافی مانگنی پڑی۔ لیکن ہمارے ہاں طالع آزماؤں کے اندر اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ یہ لوگ اپنے سیاہ کرتوت پر قوم سے معافی مانگیں۔ معافی درکنار، ان کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ 1971 میں اپنی نااہلی، بزدلی اور بے غیرتی پر بھی شرمسار نہیں بلکہ اس کا الزام بھی اپنے ایک چیلے بھٹو پر اور ہندوستان کی وزیراعظم اندرا گاندھی پر لگادیتے ہیں۔
فوجی قیادت ہوش کے ناخن لینے کی کیفیت میں نظر نہیں آتی۔ اس لیے وہ اہل نظر جو اس شورش و آشوب کے دور میں کسی بڑی تباہی کے آثار دیکھ رہے ہیں، میدان عمل میں نکل آئیں۔ 1947 میں جس عظیم قربانی کے ذریعے یہ ملک حاصل کیا گیا اس کو انگریز کی وردی والی باقیات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ ہمیں سلطنت برطانیہ سے آزادی کے بعد ان کالے انگریزوں کی غلامی کا سامنا ہے۔ ان کالے انگریزوں کی غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لیے ویسے ہی سچ بولنا ہوگا جیسے نواز شریف اور مریم نواز بولے، اور جیسے اب اسی نظام کا ایک سینیئر جج بھی بول رہا ہے۔
جسٹس شوکت کے الزامات اگر درست ہیں تو نواز شریف سے لے کر حنیف عباسی تک کے فیصلے عدالت سے نہیں، آئی ایس آئی کے کسی جرنیل کے قلم سے لکھے گئے ہیں۔ اس جرنیل سے قلم واپس لینے اور اس کا احتساب کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔
کالے بوٹ اور وردی کی پوجا پاٹ کرنے والی تحریک انصاف کے لیے وہی ڈھاک کے تین پات ہیں۔ یعنی کہ شوکت عزیز صدیقی، نواز شریف کا بندہ ہے اور فلاں فلاں کا رشتہ دار ہے۔ مطلب پٹواری ہے۔ ثابت یہ ہوا کہ پٹواری بڑے جی دار اور بہادر ہوتے ہیں کہ وقت کے خداؤں کو علی الاعلان چیلنج کردیتے ہیں۔
معلوم یہ ہوتا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز کا اللہ پر پختہ یقین ہے، وہ جانتے ہیں کہ زندگی اور موت آئی ایس آئی کے ہاتھ میں نہیں بلکہ صرف اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے مقابلے میں تحریک انصاف کی قیادت شرک کے راستے پر چلتے ہوئے کالا جادو اور مردوں کے آگے سجدے کر کے پیغام دے رہی ہے کہ وزارت عظمیٰ کا حصول آئی ایس آئی اور آرمی چیف کی عبادت کے ساتھ منسوب ہے۔ یعنی جب اللہ حق کا ساتھ دینے کا حکم دے، تو عمران خان نے جھوٹ اور فریب کے سائے میں کھڑے ہونا ہے۔ ظالم کی رسی کو مضبوط کرنا ہے اور اللہ کی رسی کو قطعی نظر انداز کرنا ہے۔
درحقیقت تحریک انصاف، فوج کے ساتھ مل کر اسی جرم عظیم میں شریک ہے جو 1971 میں اس وقت کے لوٹے ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے فوج کی حمایت اور وفاق پاکستان کی مخالفت میں کیا۔
فوج کو 1971 میں اپنی طاقت اور امریکہ و چین کی حمایت کا اتنا یقین تھا کہ اس نے عوامی لیگ کے ساتھ وہی بدمعاشی کی جو آج کی فوجی قیادت مسلم لیگ (نون)، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ کر رہی ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں ایسا ہی ایک کھیل کراچی میں بھی کھیلا گیا جب اسٹیبلشمنٹ نے اپنے پرانے مہرے الطاف حسین کو مائنس کر کے کراچی کی سیاسی طاقت کو پارہ پارہ کر دیا۔
ممکنہ طور پر، دنیا کی نمبر ون ایجنسی نے ایم کیو ایم لندن کی صفوں میں موجود اپنے کسی مہرے کو استعمال کرتے ہوئے، علیل، نحیف اور ضعیفی کی جانب گامزن الطاف حسین کو اکسا کر یا کسی ترغیب و تحریک کے ذریعے پاکستان مخالف نعرے لگوائے۔ ہو سکتا ہے دنیا کی نمبر ون ایجنسی نے الطاف حسین کو شراب میں کچھ ملا کر پلوایا ہو، اور جب وہ پورے ٹن ہوگئے ہوں تو ان کو ایک لکھی ہوئی تقریر پڑھوا دی ہے۔ یوں جارج ڈبلیو بش کے نائن الیون اسٹائل پر اپنے ہی اوپر حملہ کروا کر اپنا دفاع کیا گیا۔ الطاف کو راستے سے ہٹاکر کراچی کی مہاجر طاقت کو ختم کر دیا گیا۔ آج کراچی بٹا ہوا ہے۔ کراچی کے عوام 25 جولائی 2018 کو ہونے والے ڈرامے میں بلوچستان کے عوام کی طرح لاچار اور مجبور طبقہ بننے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں۔
کراچی سے فارغ ہونے کے بعد آئی ایس آئی کی اگلی نظر وفاق پاکستان کی مقبول ترین قیادت نواز شریف پر تھی۔ فوج کو طیب اردگان سے شدید نفرت ہے کیوں کہ اس نے ترک لادینیت اور مغربیت کی محافظ ترک فوج کو لگام دے کر عوامی کنٹرول میں لیا ہے۔ پاک فوج، نواز شریف کو اردگان بننے کی اجازت کبھی نہیں دے سکتی تھی۔ نواز اگر اردگان بن جاتا تو کشمیر کا کوئی نہ کوئی حل نکل آتا، ہندوستان، افغانستان وغیرہ سے تعلقات اچھے ہوجاتے۔ تو پھر کشمیر کے نام پر، اور لائن آف کنٹرول پر جعلی جھڑپوں کے نام پر کمائی کون کرتا؟ پھر کراچی میں ہزاروں رینجرز تعینات کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ پھر شاید دفاعی بجٹ کم کر دیا جاتا، شاید پاکستان کے بھوکے ننگے عوام کو تعلیم اور صحت کی سہولیات ملنے کی امید پیدا ہوجاتی۔ لوگ پڑھ لکھ جاتے تو جرنیلوں کی جنگی معیشت ناکام ہوجاتی۔ پھر آئی ایس پی آر کی دو نمبر فلمیں کون دیکھتا؟ بس یہی وجہ تھی۔ ڈر تھا کہ عوام کو کوئی مقبول قیادت نہ مل جائے۔
تو پھر کیا کیا جائے؟ پھر یہ کہ نواز شریف کے اوپر اتنے جھوٹ بولو، دن رات بولو، میڈیا پر دکھاؤ، اخبارات میں لکھو کہ لوگ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ماننے لگیں۔ اس چیز کو عام زبان میں پراپیگنڈا کہتے ہیں۔ جھوٹ کی تشہیر کے لیے بدکردار عمران احمد خان نیازی کو چنا گیا، اور اس کے ساتھ اسی کی اوقات کے مداری چنے گئے مثلاً طاہر القادری، شیخ رشید اور ہمنوا۔
یہ اسی طرح کا جھوٹ اور پراپیگنڈا ہے جیسے ان کے امریکی اور برطانوی آقاؤں نے عراق پر حملے سے قبل دنیا بھر میں کیا تھا۔ وقت نے اس پراپیگنڈے کو غلط ثابت کیا اور ٹونی بلیئر کو قوم سے معافی مانگنی پڑی۔ لیکن ہمارے ہاں طالع آزماؤں کے اندر اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ یہ لوگ اپنے سیاہ کرتوت پر قوم سے معافی مانگیں۔ معافی درکنار، ان کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ 1971 میں اپنی نااہلی، بزدلی اور بے غیرتی پر بھی شرمسار نہیں بلکہ اس کا الزام بھی اپنے ایک چیلے بھٹو پر اور ہندوستان کی وزیراعظم اندرا گاندھی پر لگادیتے ہیں۔
فوجی قیادت ہوش کے ناخن لینے کی کیفیت میں نظر نہیں آتی۔ اس لیے وہ اہل نظر جو اس شورش و آشوب کے دور میں کسی بڑی تباہی کے آثار دیکھ رہے ہیں، میدان عمل میں نکل آئیں۔ 1947 میں جس عظیم قربانی کے ذریعے یہ ملک حاصل کیا گیا اس کو انگریز کی وردی والی باقیات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ ہمیں سلطنت برطانیہ سے آزادی کے بعد ان کالے انگریزوں کی غلامی کا سامنا ہے۔ ان کالے انگریزوں کی غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لیے ویسے ہی سچ بولنا ہوگا جیسے نواز شریف اور مریم نواز بولے، اور جیسے اب اسی نظام کا ایک سینیئر جج بھی بول رہا ہے۔
جسٹس شوکت کے الزامات اگر درست ہیں تو نواز شریف سے لے کر حنیف عباسی تک کے فیصلے عدالت سے نہیں، آئی ایس آئی کے کسی جرنیل کے قلم سے لکھے گئے ہیں۔ اس جرنیل سے قلم واپس لینے اور اس کا احتساب کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔

- Featured Thumbs
- https://pbs.twimg.com/media/DW5UCzlW4AE5rDr.jpg
Last edited: