سڈنی: کرکٹ آسٹریلیا کے چیف ایگزیکٹو جیمز سدر لینڈ نے پاکستانی نژاد آسٹریلین لیگ اسپنر فواد احمد پر شراب لوگو والی کٹ نہ پہننے پر کیے جانے والے نسل پرستانہ حملوں پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
فواد احمد نے جولائی میں آسٹریلیا کی شہریت حاصل کی تھی اور گزشتہ ہفتے انگلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی میچ میں انٹرنیشنل ڈیبیو کیا تھا لیکن اس دوران ان کی کٹ پر شراب کی کمپنی وی بی کا لوگو نہیں تھا۔
یہ تنازع اس وقت کھڑا ہوا جب منگل کو ایک بیان میں انہوں نے اپنے مذہبی عقیدے کے باعث شراب کے لوگو والی شرٹ پہننے کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
اس پر کرکٹ آسٹریلیا نے ان سے تعاون کرتے ہوئے درخواست قبول کر لی تھی لیکن اس معاملے پر کرکٹ آسٹریلیا اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پاکستانی نژاد کرکٹر پر کڑی تنقید شروع کر دی گئی تھی۔
ایک ردعمل میں کہا گیا ہے کہ جائز وجہ مذمہب، نہیں ہرگز نہیں، یہ کرکٹ کا کھیل ہے، عبادت کا چرچ نہیں۔
اس حوالے سے سب سے زیادہ شدید ردعمل سابق آسٹریلین کرکٹر ڈگ والٹر نے دیا جہاں انہوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ میرے خیال میں اگر وہ ٹیم کی لوگو والی شرٹ نہیں پہننا چاہتا تو اسے ٹیم کا حصہ ہی نہیں ہونا چاہیے۔
اس کے جواب میں آسٹریلین رگبی پلیئر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر والٹر کو سراہتے ہوئے کہا کہ ڈگ نے بالکل ٹھیک کہا، اگر آپ کو یونیفارم پسند نہیں تو آپ آسٹریلیا کے لیے نہ کھیلیں، ان سے کہیں کہ اپنے گھر واپس جائیں۔
اس کے بعد آسٹریلیا کی جانب سے 101 رگبی ٹیسٹ میچز کھیلنے والے سابق بہترین کھلاڑی ڈیوڈ کیمپیس نے کہا کہ مجھے ان کے مذہب سے کوئی سروکار نہیں لیکن مجھے ان کے ان عقائد پر اعتراض ہے جس سے کھیل کی روح متاثر ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلی بات تو یہ کہ وہ آسٹریلیا آئے ہی کیوں، ایک بہتر زنگی کے لیے؟ اب وہ بتا رہے ہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں! ۔۔۔۔۔ یہاں بہت سے ایسے بچے ہیں جو بغیر کسی شکایت کے آسٹریلیا کے لیے کھیلنا پسند کریں گے۔
احمد سنہ 2010 میں شارٹ ٹرم ویزہ پر آسٹریلیا آئے تھے اور انہوں نے یہاں پناہ کی درخواست اس بنا پر دائر کی تھی کہ انھیں انتہا پسندوں کی جانب سے، خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک این جی او کے لئے کام کرنے پر، جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔
تاہم کرکٹ آسٹریلیا(سی اے) کے چیف ایگزیکٹو جیمز سدر لینڈ نے ان نسل پرستانہ تبصروں پر شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرکٹ آسٹریلیا کسی بھی حال یا صورت میں نسل پرستانہ حملوں کو برداشت نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ سی اے فواد کی مذہبی عقیدت کی بہت قدر کرتا ہے اور وہ آسٹریلین کرکٹ ٹیم اور کرکٹ برادری کے کے بہت اہم اور مقبول رکن ہیں۔
یاد رہے ایک اور مسلمان کرکٹر جنوبی افریقہ کے بلے باز ہاشم آملا کو بھی اسی صورتحال کا سامنا ہے اور انہیں بھی ساؤتھ افریقن بورڈ نے کھلاڑی کی جانب سے درخواست کے بعد اپنی ٹیم کے شراب کی کمپنی کے اسپانسر کاسل کے بغیر شرٹ پہننے کی اجازت دی تھی۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر کیے گئے ایک اور کمنٹ میں کہا گیا ہے کہ کھیل پیسے اور شائقین سے چلتا ہے مذہبی جنون سے نہیں، جن لوگوں کو آسٹریلین ثقافت پسند نہیں وہ یہاں سے چلیں جائیں یا اپنی گمراہ کن اقدار و روایات خود تک محدود رکھیں۔
سدر لینڈ نے ان سب تبصروں کو گھٹیا پن قرار دیتے ہوئے کہا کہ سی اے کو سوشل میڈیا پر فواد کے خلاف نسل پرستانہ حملوں پر شدید مایوسی ہوئی ہے جس میں سے کچھ کو سابق آسٹریلین کرکٹر ڈین جونز سے غلط انداز میں جوڑ دیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ یہ معاملہ انگلش فٹبال میں بھی اس وقت منظر عام پر آیا تھا جب نیو کاسل یونائیٹڈ نے اپنے اسٹرائیکر پاپس سیسے کو اسپانسر کی شرٹ پہننے سے انکار کے بعد رواں سال سیزن سے قبل ٹیم سے باہر کر دیا تھا۔
بعدازاں سینیگال کے فٹبالر نے مذہبی اسکالرز اور کلب سے بات چیت کے بعد نیو کیسل کی لوگو والی شرٹ پہننے پر رضامندی ظاہر کر دی تھی۔
فواد نے ایک انٹرویو کے دوران شین وارن کو اپنا آئیڈیل قرار دیا تھا اور کہا تھا وہ شین وارن کی طرح آسٹریلیا کی خدمت کر کے اس ملک کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔
Source
Source