فن اور فن کار

485374_421174131302059_160165168_n.jpg




ایک فن کار کا فن یہ ہوتا ہے کہ وہ ناممکن کو ممکن کردکھائے۔اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ مجید میں ایک مثال سے ممکن اور ناممکن کو سمجھایا ہے۔ کس کے حق میں
جنت کو حاصل کرنا ممکن ہے اور کس کے حق میں ناممکن!جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کیا ان کا جنت میں جانا اتنا ہی ممکن ہے جتنا کہ ایک سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزر جانا:


إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُواْ عَنْهَا لاَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاء وَلاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ وَكَذَلِكَ نَجْزِی الْمُجْرِمِينَ O
’’یقین جانو، جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور ان کے مقابلے میں سرکشی کی ہے ان کے لیے آسمان کے دروازے ہرگز نہ کھولے جائیں گے۔ ان کا جنت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزر نا۔ مجرموں کو ہمارے ہاں ایسا ہی بدلہ ملا کرتا ہے۔‘‘ (الاعراف:40)


جہاں تک تو جنت دوزخ کا معاملہ ہے وہاں تو کسی فن کار کی فن کاری نہیں چل سکتی البتہ اس دنیا میں موجود فن کاراس فن میں اپنی مہارت کے جوہر دکھاتے ہیں۔ ہزاروں آیتوں اور لاکھوں حدیثوں کے بیچوں بیچ پڑی سیاق و سباق سے کٹی آیت اور کسی آدھی پونی حدیث کے رخنے میں سے پورے کا پورا لشکر، ٹینکوں ، توپوں، بحری بیڑوں اور طیّاروں سمیت بحفاظت گزار لاتے ہیں اور سوئی کے ناکے جتنا رخنہ جوں کا توں رہتا ہے۔یہ فن کار بکترشکن مواد کے بنے اس رخنے کونیٹو اور ایساف کی فوجوں، این جی اوز کے چیف ایگزیکٹوز کے بوئنگ طیاروں ، بلیک واٹر اور ڈین کارپوریشن کے کارندوں اور اسلام کے نام پر غیر اسلامی دستورکو گزارنے کے لیے استعمال کرتےہیں۔موٹی موٹی توندوں والے مشیر ،ساٹھ ساٹھ سود خوروں کی کابینہ اور صدرِ مملکت کی لیموزین اور ایوانِ صدر کی عمارت بھی اس رخنے میں سے گزر جاتی ہے۔ آخر کو کافروں کو مرعوب کرنے کے لیے حضرتِ معاویہؓ نے بھی تو اچھے کپڑے پہنے تھے کیا ہوا کہ ایک لیموزین ایٹمی ملک کے صدر کے پاس بھی ہو!یہ رخنہ اگر آپ کو نظر نہ آئے تو پریشان مت ہو جائیے گا۔ اسے دیکھنے کے لیے خوردبینی نظر درکار ہے اور پھر یہ تو اہلِ فن کی شے ہے۔ اس فن کی باریکیوں سے ناواقف لوگوں کو یہ کہاں نظر آنے والا ہے!!پھر اس میں سے لشکر چھوڑ ، آپ ایک اونٹ کا بچہ ہی نکال لیں تو بڑی بات ہوگی۔ آپ تو اتنے تنگ نظر ہیں کہ چیونٹی بھی بمشکل ہی اس سوئی کے ناکے سے گزار پائیں گے!لہٰذا اعتراض مردود ہے۔یہ مردود عربی والا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے رد کیا ہوا۔ ویسے ذائقہ بدلنے کے لیےاردو والا بھی لے سکتے ہیں۔
ایسے رخنےجابجا ان دیدہ وروں کو نظر آجاتے ہیں۔ نبی اکرمﷺنے جس سرزمین سے غیر مسلموں کو نکال دینے کا حکم دیا تھا آج وہاں ہزاروں امریکی براجمان ہیں۔ افغانستان اور عراق میں ایسے کئی فن کار تکیے لگائے بیٹھے ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ سارے کے سارے حملہ آور دراصل مستأمن اور معاہد ہیں۔ اگر آپ کی سمجھ سے یہ دو لفظ بالاتر ہوں توانہیں سیکھنے کے لیے کسی ذہنی مشقت کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا سادہ زبان میں مطلب یہ ہے کہ ان فوجیوں کو انگلی بھی نہیں چبھونی چاہیے ۔ اگر ان کے منہ سے اوئی بھی نکل گئی تو روزِ حشر اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا اور اگر مسئلہ قتل وتل تک پہنچ گیا تو برخوردار جہنم کا ٹکٹ پکا سمجھو!اگر یہ تیل ویل چوری کرلیں، تمہاری بہو بیٹیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرلیں، بگرام اور ابوغریب کے جیل بنا لیں تو ان سے نبٹنا ’’امیرالمؤمنین‘‘ کا کام ہے ،جنھوں نے انہیں امان دے رکھی ہے،تمہارا نہیں۔ اگر کسی وجہ سے تمہاری درخواستیں سنی نہیں جارہیں تو سمجھ جاؤ کہ رموزِ مملکت نوشیرواں داند!تمہارے جیسے کٹیا کے رہائشی کیا جانیں کہ ڈپلومیسی کیا ہوتی ہے۔ رہی تمہاری بیٹی کی عصمت تو اتنا چِلانے کی ضرورت نہیں ہے۔سنا نہیں تم نے کہ کسی نے کربلا کے بعد خانوادۂ حسینؓ میں سے کسی کا زیور اتروا لیا اور پھر خود ہی سینہ پیٹنے لگا۔ انہوں نے کہا کہ تم تو شیعانِ علی میں سے تھے تم نے یہ جفا کیوں کی اور جفا بھی کی اوراب ماتم بھی کرتے ہو؟ اس نے ماتم کرتے ہوئے جواب دیا کہ آپ نے درست کہا لیکن اگر میں نہ اتارتا تو کوئی اور اتار لے جاتا۔پس اے جذباتی نوجوان اگر یہ تیل چوری نہ کرتے، تمہاری زمینوں پر قبضہ نہ کرتے، تمہاری بہو بیٹیوں کی عصمت تار تار نہ کرتے، تمہارے خون سے ہاتھ نہ رنگتے تو کوئی اور ضرور ہی ایسا کرجاتا۔ اس میں اتنا غم نہ کرو بلکہ ان کی ’’مجبوری‘‘سمجھنے کی کوشش کرو!اب بھی اگر تمہیں یہ سمجھ نہیں آتا تو خبردار جو تم نے کسی ’’مُعاہد‘‘پر ہاتھ اٹھایا!اس حربی کافر کو سو مشکلوں سے، کھینچ تان کر ہم نےسوئی کے اس ناکے سے گزارا ہے اور تم ہو کہ اسے پھر سے دھکیلنے چلے ہو!
یہ تو تھا ان دو الفاظ کا مطلب۔ رہی ان فن کاروں کی وقعت تو وہ بھی آپ سے آپ واضح ہے۔یہ وہ فن کار ہیں جن کی سوئی کے ناکوں سے استعمار کے لاؤ لشکر، توپ و تفنگ اورلمبے چوڑے ایجنڈے تو با آسانی پار ہوجاتے ہیں، نہیں پار ہوتا تو وہ قانونِ شریعت ، امّت کے زخموں کا مرہم اور اس امّت کا کھویا وقار ہے۔
(تحریر: محمد سعید حسن)

1.jpg
 

Back
Top