فرقہ واریت کیا ہے اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ۔
اور تم سب مل کر حبل اللہ کے ساتھ چپکے رہو (مضبوطی سے پکڑے رکھو) اور تفرقہ میں مت پڑو۔
یقیناً قرآن میں ہدایت ہے۔ قرآن پاک کی اس مشہور آیت میں نہ صرف تفرقہ اختیار کرنے کی ممانعت کی گئی ہے بلکہ اس سے بچاؤ کی واحد ترکیب بھی بتائی گئی ہے کہ کس طرح تفرقہ سے بچا جاسکتا ہے۔ اور وہ واحد راستہ ہے مل کر حبل اللہ کے ساتھ چپک جانا (یعنی مضبوطی سے تھام لینا)۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اللہ کے پاک رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس امت کو حبل اللہ کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ کیا ہے؟ اور حبل اللہ کے ساتھ متمسک ہونے کا طریقہ کیا ہے؟۔ یقیناً اللہ کے پاک رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امت کی اس بارے میں ھدایت کی ہے اور کسی بات کا ابہام نہیں رکھا۔ اب مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ سوچیں سمجھیں اور غور کریں۔ اور تفرقہ سے بچاؤ کی واحد قرآنی ترکیب پر عمل کریں اور امت مسلمہ کے اتحاد اور اتفاق کا باعث بنیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اللہ کے پاک نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس بارے میں امت کی ھدایت کیلیے کیا فرمایا ہے۔
(1)
حدثني : زهير بن حرب وشجاع بن مخلد جميعاً ، عن إبن علية ، قال زهير : ، حدثنا : إسماعيل بن إبراهيم ، حدثني : أبو حيان ، حدثني : يزيد بن حيان قال : إنطلقت أنا وحصين بن سبرة ، وعمر بن مسلم إلى زيد بن أرقم فلما جلسنا إليه قال له حصين : لقد لقيت يا زيد خيراً كثيراً رأيت رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وسمعت حديثه وغزوت معه وصليت خلفه ، لقد لقيت يا زيد خيراً كثيراً ، حدثنا : يا زيد ما سمعت من رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، قال : يا إبن أخي والله لقد كبرت سني وقدم عهدي ونسيت بعض الذي كنت أعي من رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فما حدثتكم فأقبلوا وما لا فلا تكلفونيه ، ثم قال : قام رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم يوماًً فينا خطيباً بماء يدعى خماً بين مكة والمدينة ، فحمد الله وأثنى عليه ووعظ وذكر ، ثم قال : أما بعد ألا أيها الناس فإنما أنا بشر يوشك أن يأتي رسول ربي فأجيب ، وأنا تارك فيكم ثقلين أولهما كتاب الله فيه الهدى والنور فخذوا بكتاب الله وإستمسكوا به ، فحث على كتاب الله ورغب فيه ، ثم قال : وأهل بيتي ، أذكركم الله في أهل بيتي ، أذكركم الله في أهل بيتي ، أذكركم الله في أهل بيتي ، فقال له حصين : ومن أهل بيته يا زيد اليس نساؤه من أهل بيته ، قال : نساؤه من أهل بيته ، ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده ، قال : ومن هم ، قال : هم آل علي وآل عقيل وآل جعفر وآل عباس قال : كل هؤلاء حرم الصدقة ، قال : نعم ۔
صیح مسلم، جلد 6، کتاب فضائل صحابہؓ باب فضائل علی کرم اللہ وجہہ
حصین بن سبرۃ کُچھ احباب کے ساتھ حضرت زید بن ارقمؓ کے پاس گئے۔ پس ہم سب اکٹھے اُن کے پاس بیٹھ گئے۔ حصین نے زید بن ارقمؓ سے کہا، ’’ائے زید آپ نے تو بہت زیادہ بھلائی اور نیکی کمائی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا اور اُن سے حدیثیں سُنی اور اُن کے ساتھ غزوات میں شریک ہوئے اور اُن کے پیچھے نماز پڑھی۔ ائے زید آپ نے تو بہت زیادہ نیکی کمائی۔ ائے زید ہمیں خبر دیجیے اُس میں سے جو کُچھ آپ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و االہ وسلم سے سُنا۔‘‘۔ تو ذید بن ارقمؓ بولے، ’’ائے میرے بھتیجے اللہ کی قسم اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور بہت عرصہ گزر گیا۔ اور میں نے جو کُچھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سُن رکھا تھا اُس میں سے بعض باتیں بھول گیا ہوں۔ پس میں تم سے جو بیان کروں اُسے قبول کرلو اور جو بیان نہ کروں اُس کیلیے مجھے تکلیف مت دینا‘‘۔
پھر فرمایا ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام(وادی) خُم پر پڑاؤ ڈالا اور ہم سے خطاب کیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ کی حمد بیان کی اور اللہ کے احسانات یاد دلائے اور وعظ و نصیحت کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’ ائے لوگو کہ میں بھی بشر ہوں اور قریب ہے کہ مجھے اللہ کا بلاوہ آ جائے اور میں اُسے قبول کر لوں۔ اور میں تمھارے درمیان دو قیمتی ترین چیزیں (ثقلین) چھوڑے جا رہا ہوں۔ اُن میں سے پہلی اللہ کی کتاب ہے۔ پس اُس میں ھدایت اور نور ہے۔ پس اللہ کی کتاب کو تھام لو اور اُس سے متمسک رہو۔‘‘ پس آپ نے کتاب اللہ کی طرف شوق اور رغبت دلائی پھر فرمایا، ’’ اور (دوسری) میرے اھلبیت ہیں۔ میں تمھیں اپنے اھلبیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمھیں اپنے اھلبیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمھیں اپنے اھلبیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں‘‘۔
پس حصین نے اُن سے پوچھا، ’’ ائے زید اُن (رسول اللہ) کے اھلبیت کون ہیں؟ کیا اُن کی عورتیں اُن کے اھلبیت سے ہیں؟‘‘۔ زیدؓ بولے،’’اُن کی عورتیں اُنکے اھلبیت سے ہیں لیکن اُن کے اھلبیت وہ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے۔ اور وہ آل علی، آل عقیل، آل جعفر اور آل عباس ہیں۔ حصین نے بوچھا، ’’ کیا ان سب پر صدقہ حرام ہے؟‘‘ زید نے جواب دیا، ’’ ہاں‘‘۔
أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ هِبَةُ اللَّهِ بْنُ سَهْلِ بْنِ عُمَرَ ، وأَبُو الْقَاسِمِ زَاهِرُ بْنُ طَاهِرٍ ، قَالا : أنا أَبُو عُثْمَانَ الْبَحِيرِيُّ ، أَنْبَأَ أَبُو عَمْرِو بْنُ حَمْدَانَ ، أنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يُونُسَ السِّمْنَانِيُّ ، نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ ، نا حَسَّانُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، نا سَعِيدُ بْنُ مَسْرُوقٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ حِبَّانَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ : دَخَلْنَا عَلَيْهِ ، فَقُلْنَا لَهُ : لَقَدْ رَأَيْتَ خَيْرًا ، صَاحَبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَّيْتَ خَلْفَهُ ، فَقَالَ : لَقَدْ رَأَيْتُهُ وَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ إِنَّمَا أُخِّرْتُ لِشَرٍّ مَا حَدَّثْتُكُمْ بِهِ فَاقْبَلُوهُ ، وَمَا سَكَتُّ عَنْهُ فَدَعُوهُ ، قَالَ : قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَادٍ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةَ يُدْعَى خَمٌّ ، فَخَطَبَ ، فَقَالَ : " إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ ، أُوشِكُ أَنْ أُدْعَى فَأُجِيبَ ، أَلا وَإِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ أَحَدُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ ، حَبْلُ اللَّهِ مَنِ اتَّبَعَهُ كَانَ عَلَى الْهُدَى وَمَنْ تَرَكَهُ كَانَ عَلَى الضَّلالَةِ ، ثُمَّ أَهْلُ بَيْتِي ، ثُمَّ أَهْلُ بَيْتِي ، أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي " ، ثَلاثَ مَرَّاتٍ . قَالَ : فَقُلْنَا : مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ ؟ نِسَاؤُهُ ؟ قَالَ : لا ، لأَنَّ الْمَرْأَةَ تَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ الْبُرْهَةَ مِنَ الدَّهْرِ ، ثُمَّ يُطَلِّقُهَا فَتَرْجِعُ إِلَى أَبِيهَا ، وَقَوْمِهَا أَهْلُ بَيْتِهِ أَصْلُهُ وَعَصَبَتُهُ الَّذِينَ حُرِمُوا الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ ، آلُ عَلِيٍّ ، والْعَبَّاسُ ، وآلُ جَعْفَرٍ ، وآلُ عَقِيلٍ
تاريخ دمشق لابن عساكر حَرْفُ الْخَاءِ ذِكْرُ مِنِ اسْمُهُ عَقِيلٌ عَقِيلُ بْنُ أَبِي طَالِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ أَبُو ...۔ رقم الحديث: 42386
یزید بن حبان سے روایت ہے کہ کہ اُنھوں نے زید بن ارقمؓ سے کہا آپ نے بڑی بھلائی کو دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مصاحبت اختیار کی اوراُن کے پیچھے نماز پڑھی۔ پس زید بن ارقمؓ بولے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و االہ وسلم کو دیکھا ہے اور میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ بڑا عرصہ گزر گیا پس میں جو تم سے بیان کروں اُسے قبول کر لو اور جس پر خاموشی اختیار کروں اُس پر مجھ سے مطالبہ نہ کرو۔ پھر فرمایا، ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ اور مدینہ کی ایک درمیانی جگہ ٹھہرے جسے خُم کہا جاتا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہاں خطاب کیا اور فرمایا، ’’سوائے اسکے نہیں کہ میں بھی بشر ہوں اور قریب ہے کہ اللہ کی طرف سے میرا بلاوا آجائے اور میں قبول کرلوں۔ اور بے شک میں تمھارے درمیان دو بیش بہا چیزیں (ثقلین) چھوڑے جاتا ہوں۔ اُن دونوں میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے جو کہ حبل اللہ ہے۔ جو اُس کی پیروی کرے گا وہ ھدایت پر ہو گا اور جو اُسے چھوڑ سے گا وہ گمراھی پر ہو گا۔۔ پھر میرے اھل بیت ہیں، پھر میرے اھل بیت ہیں۔ میں تمھیں اپنے اھل بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں۔‘‘ (یزید بن حبان کہتے ہیں کہ) یہ تین بار فرمایا۔ پھر ہم پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اھل بیت کون ہیں؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عورتیں؟ زید بن ارقمؓ نے جواب دیا، ’’ نہیں، ایک عورت کُچھ عرصہ تک ایک مرد کے ساتھ ہوتی ہے پھر وہ اُسے طلاق دے دیتا ہے تو وہ اپنے باپ کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ آپ کی قوم اور آپ کی اصل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اھلبیت ہیں جن پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد بھی صدقہ حرام ہے۔ اور وہ آل علی، آل عباس، آل جعفر اور آل عقیل ہیں‘‘۔
(2)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَطِيَّةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ , وَالْأَعْمَشُ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَا : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي ، أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ ، كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي , وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ ، فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا " . قَالَ : هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ
جامع الترمذي كِتَاب الدَّعَوَاتِ أبوابُ الْمَنَاقِبِ بَاب مَنَاقِبِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ علیه و آله وسلم رقم الحديث: 3749
حضرت ابوسعید خدریؓ اور حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’بے شک میں تمھارے درمیان وہ چھوڑے جاتا ہوں اگر تم ان سے متمسک رہو تو میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ ان میں سے ایک آخری سے عظیم تر ہے۔ (بامحاورہ ترجمہ ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں)۔ اللہ کی کتاب جو کہ آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی رسی (حبل) ہے۔ اور میری عترت میرے اھل بیت۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہوں گے حتٰی کہ اسی طرح (اکٹھے) میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے۔ پس میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد ان دونوں سے کیسا سلوک کرتے ہو‘‘۔ ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحَسَنِ هُوَ الْأَنْمَاطِيُّ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّتِهِ يَوْمَ عَرَفَةَ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ يَخْطُبُ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ : " يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا ، كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي " . قَالَ : وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، وَأَبِي سَعِيدٍ ، وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ ، قَالَ : وَهَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ ، قَالَ : وَزَيْدُ بْنُ الْحَسَنِ قَدْ رَوَى عَنْهُ سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ
جامع الترمذي كِتَاب الدَّعَوَاتِ أبوابُ الْمَنَاقِبِ باب مناقب اھل بیت رقم الحديث: 3747
حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ سے روایت ہے۔ کہ انھوں نے حجۃ الوداع میں عرفہ والے دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنی اُونٹنی پر بیٹھے خطبہ دیتے دیکھا۔ پس میں نے سُنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرما رہے تھے، ’’اے لوگو! بے شک میں جو تمھارے درمیان چھوڑے جاتا ہوں اسے اگر تم مضبوطی سے پکڑ لو تو میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ وہ اللہ کی کتاب اور میری عترت میرے اھل بیت ہیں‘‘۔ ترمذی کہتے ہیں کہ اس باب میں حضرت ابوذرؓ، حضرت زید بن ارقمؓ اور حذیفہ بن اسید انصاریؓ کی بھی روایات حدیث موجود ہیں۔
(3)
أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم حضَر الشجرةَ بخمٍّ ثم خرَج آخذًا بيدِ عليٍّ فقال: ألستُم تَشهَدونَ أنَّ اللهَ ربُّكم ؟ قالوا: بَلى قال: ألستُم تَشهَدونَ أن اللهَ ورسولَه أولى بكم مِن أنفسِكم وأنَّ اللهَ ورسولَه مولاكم ؟ قالوا: بَلى قال: فمَن كان اللهُ ورسولُه مَولاه فإنَّ هذا مَولاه وقد تركتُ فيكم ما إن أخَذتُم به لن تَضِلُّوا كتابُ اللهِ سببُه بيدِه وسببُه بأيديكم وأهلُ بيتي
الراوي : علي بن أبي طالبؑ | المحدث : البوصيري | المصدر : إتحاف الخيرة المهرة
الصفحة أو الرقم: 7/210 | خلاصة حكم المحدث : سنده صحيح
الراوي : علي بن أبي طالبؑ | المحدث : ابن حجر العسقلاني | المصدر : المطالب العالية
الصفحة أو الرقم: 4/252 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت ہے کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وادی خُم میں ایک درخت کے نیچے قیام کیا۔ پھر وہ حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر باہر تشریف لائے پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے (صحابہؓ کو) فرمایا، ’’ کیا تم گواھی دیتے ہو کہ بے شک اللہ تمھارا رب ہے؟‘‘ سب نے جواب دیا، ’’ہاں یقیناً‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’ کیا تم اس بات کی گواھی دیتے ہو کہ بے شک اللہ اور اُس کا رسولؐ تمھاری جانوں پر تم سے بھی بڑھ کر حق رکھتے ہیں اور بے شک اللہ اور اُس کا رسولؐ تمھارے مولا ہیں؟‘‘۔ تمام صحابہؓ نے عرض کی، ’’ہاں ہم گواھی دیتے ہیں‘‘۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’ پس جس کے اللہ اور اُس کا رسولؐ مولا ہیں پس یہ (علی) بھی اُس کا مولا ہے۔ اور میں تمھارے درمیان وہ چھوڑے جاتا ہوں اگر تم اُسے مضبوطی سے تھام لو تو میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اللہ کی کتاب جس کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ایک سرا تمھارے ہاتھ میں اور میرے اھلبیت‘‘۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَ : حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ : " لَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَجَّةِ الْوَدَاعِ ، وَنَزَلَ غَدِيرَ خُمٍّ أَمَرَ بَدَوْحَاتٍ فَقُمِمْنَ ، ثُمَّ قَالَ : كَأَنِّي قَدْ دُعِيتُ ، فَأَجَبْتُ ، إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ ، أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الآخِرِ : كِتَابُ اللَّهِ ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي ، فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا ، فَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّ اللَّهَ مَوْلايَ ، وَأَنَا وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ ، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ ، فَقَالَ : مَنْ كُنْتُ وَلِيَّهُ ، فَهَذَا وَلِيُّهُ ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ ، فَقُلْتُ لِزَيْدٍ : سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ : مَا كَانَ فِي الدَّوْحَاتِ أَحَدٌ إِلا رَآهُ بِعَيْنَيْهِ ، وَسَمِعَهُ بِأُذُنَيْهِ" ۔
السنن الكبرى للنسائي كِتَابُ : الْمَنَاقِبِ مَنَاقِبُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُعلیه و آله وسلم فَضَائِلُ عَلِيٍّ کرم اللَّهُ وجههُ
رقم الحديث: 7832، 8145
حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و االہ وسلم نے حجۃ الوداع سے واپس ہوئے اور غدیرِ خُم میں پہنچے اور وہاں رکنے کا حکم دیا۔ پس ہم سب وہاں رک گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’میرا بلاوا آ گیا ہے اور میں نے قبول کر لیا ہے۔ بے شک میں تمھارے درمیان دو بھاری چیزیں (ثقلین) چھوڑے جاتا ہوں۔ ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے۔ ( با محاورہ ترجمہ: ان میں سے ہر ایک دوسرے سے بڑی ہے) اللہ کی کتاب اور میری عترت میرے اھلبیت۔ پس میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد ان دونوں سے کیا سلوک کرتے ہو۔ پس بے شک یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔ حتٰی کہ اسی طرح اکٹھے (میرے پاس) حوض کوثر پر وارد ہوں گے۔ پھر فرمایا، ’’ بے شک اللہ میرا مولا ہے اور میں تمام مومنین کا ولی ہوں۔‘‘ پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ہاتھ پکڑا اور بلند کیا۔ پس فرمایا، ’’ جس کا میں ولی ہوں پس اُسکا یہ (علی) ولی ہے۔ ائے اللہ محبت رکھ اُس سے جو علی سے محبت رکھے اور دُشمن رکھ اُسے جو علی سے دُشمنی رکھے‘‘۔ پس ابوالطفیلؓ کہتے ہیں کہ میں نے زیدؓ سے پوچھا، ’’ کیا یہ سب آپ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے خود سنا‘‘ تو زیدؓ نے جواب دیا، ’’وہاں جو بھی موجود تھا اُس نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا اور یہ سب اپنے کانوں سے سُنا‘‘۔
(4)
زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’بے شک میں تمھارے درمیان دو گراں بہا چیزیں (ثقلین)، اللہ کی کتاب اور میری عترت میرے اھلبیت، چھوڑے جاتا ہوں۔ اور بے شک یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے حتٰی کہ اسی طرح (اکٹھے) حوض کوثر پر (میرے پاس) وارد ہوں گے‘‘۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى ، قَالَ : حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ : قَالَ : النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا : كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي ، وَأَنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَى الْحَوْضِ . ۔
المعرفة والتاريخ ليعقوب بن سفيان بَابُ سَعْدٍ أَخْبَارُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، وَأَخْبَارُ ...۔ رقم الحديث: 599
حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ’’بے شک میں تمھارے درمیان جو چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم اس سے تمسک رکھو تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ اللہ عزوجل کی کتاب اور میری عترت میرے اھلبیت۔ اور یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے حتٰی کہ اس طرح (اکٹھے) حوض کوثر پر (میرے پاس) وارد ہوں گے‘‘۔
(5)
Source
علی بن ربیعۃ الاسدیؒ کہتے ہیں کہ میں زید بن ارقمؓ سے ملا۔ وہ آ رہے تھے یا شاید جا رہے تھے۔ پس میں نے اُن سے پوچھا کہ ایک حدیث آپ کی نسبت سے مجھ تک پہنچی ہے کہ آپ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے سُنا، ’’ بے شک میں تمھارے درمیان دو قیمتی ترین چیزیں (ثقلین) چھوڑے جاتا ہوں۔ اللہ کی کتاب اور میری عترت (میرے اھلبیت)‘‘۔ ذیدؓ نے کہا، ’’ہاں میں نے سُنا ہے‘‘۔
(6)
عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ، قَالَ : لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ وَالْبَيْتُ غَاصٌّ بِمَنْ فِيهِ قَالَ : " ادْعُوا لِيَ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ " فَدَعَوْتُهُمَا فَجَعَلَ يُلْثِمُهُمَا حَتَّى أُغْمِيَ عَلَيْهِ ، قَالَ : فَجَعَلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَرْفَعُهُمَا عَنْ وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَفَتَحَ عَيْنَيْهِ ، فَقَالَ : " دَعْهُمَا يَتَمَتَّعَانِ مِنِّي ، وَأَتَمَتَّعُ مِنْهُمَا فَإِنَّهُ سَيُصِيبَهُمَا بَعْدِي أَثَرَةٌ " ، ثُمَّ قَالَ : " يَا أَيُّهَا النَّاسُ ، إِنِّي خَلَّفْتُ فِيكُمْ كِتَابَ اللَّهِ ، وَسُنَّتِي وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي ، فَالْمُضَيِّعُ لِكِتَابِ اللَّهِ كَالْمُضَيِّعِ لِسُنَّتِي ، وَالْمُضَيِّعُ لِسُنَّتِي كَالْمُضَيِّعِ لِعِتْرَتِي ، أَمَا إِنَّ ذَلِكَ لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى أَلْقَاهُ عَلَى الْحَوْضِ " . ۔
مسند زيد كِتَابُ الْفَرَائِضِ بَابٌ رقم الحديث: 644
Source
حضرت زید بن علیؑ اپنے والد علی بن حسینؑ سے اور وہ اپنے والد حسین بن علیؑ سے اور وہ حضرت علی علیھم السلام سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اپنے مرض کی شدت تھی اور آپ کا گھر وہاں موجود حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’حسن اور حسین کو میرے پاس لاؤ‘‘۔ پس اُن دونوں کو آپؐ کے پاس لایا گیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دونوں کو خوب بوسے دیے۔ حتٰی کہ آپ کو غش آ گیا۔ پس حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے دونوں شہزادوں کو آپؐ کے چہرے سے دور کیا اور اُوپر اُٹھا لیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی آنکھیں کھولیں اور فرمایا، ’’ان دونوں کو مجھ سے فیض یاب ہو لینے دو اور مجھے ان دونوں سے جی بھر کر مل لینے دو۔ پس بے شک یہ دونوں میرے بعد بہت سختی اور مصیبتیں دیکھیں گے‘‘۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’ اے لوگو: بے شک میں تمھارے درمیان چھوڑے جاتا ہوں اللہ کی کتاب اور میری سُنت اور میری عترت میرے اھلبیت۔ پس اُس نے کتاب اللہ کو کھو دیا جس نے میری سُنت کو چھوڑ دیا اور اُس نے میری سُنت کو کھو دیا جس نے میری عترت کو چھوڑ دیا۔ بے شک یہ ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہوں گے حتٰی کہ حوض کوثر پر مجھ سے اسی طرح اکٹھے ملیں گے ‘‘۔
(7)
حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنِ الرُّكَيْنِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ خَلِيفَتَيْنِ كِتَابُ اللَّهِ وَأَهْلُ بَيْتِي ، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ جَمِيعًا "۔
مسند أحمد بن حنبل مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رقم الحديث: 21114
حضرت زید بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و االہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ُُ ’’بے شک میں تمھارے درمیان دو خلیفہ (خلیفتین) چھوڑے جاتا ہوں۔ اللہ کی کتاب اور میری عترت میرے اھلبیت۔ اور یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے حتٰی کہ اسی طرح اکٹھے (میرے پاس) حوض کوثر پر وارد ہوں گے‘‘۔
حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنِ الرُّكَيْنِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ خَلِيفَتَيْنِ كِتَابُ اللَّهِ ، حَبْلٌ مَمْدُودٌ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَوْ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي ، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ "۔
مسند أحمد بن حنبل مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رقم الحديث: 21043
فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل أَخْبَارُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طالب ۔
رقم الحديث: 888
حضرت زید بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و االہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ’’بے شک میں تمھارے درمیان دو خلیفہ (خلیفتین) چھوڑے جاتا ہوں۔ اللہ کی کتاب جو کہ آسمان اور زمین کے درمیان لٹکی ہوئی رسی (حبل) ہےاور میری عترت میرے اھلبیت۔ اور یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے حتٰی کہ اسی طرح اکٹھے (میرے پاس) حوض کوثر پر وارد ہوں گے‘‘۔
حدیث ثقلین پر شیخ شعیب الارناوط کی تحقیق پر ایک نظر
شیخ شعیب الارناوط کا شمار اہلسنت کے مشہور علمائے رجال میں ہوتا ہے۔ اور کئی کتب میں مذکورہ اسناد پر انہوں نے تحقیق کی ہے۔
انہی میں مسند احمد بھی شامل ہے
مسند احمد کے جلد ۳۵، صفحہ ۴۵٦؛ پر ایک روایت آتی ہے کہ
زید بن ثابتؓ نے نبی پاک سے نقل کیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں تم میں ۲ خلیفہ چھوڑے جاتا ہوں: اللہ کی کتاب جو کہ ایک رسی ہے زمین و آسمان کو ملائے ہوئے، اور میرے عترت اہلبیت۔ یہ ہر گز جدا نہیں ہوں گے جب تک حوض پر نہ آ جائیں
عربی متن یوں ہے
۔21578 - حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنِ الرُّكَيْنِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ خَلِيفَتَيْنِ: كِتَابُ اللهِ، حَبْلٌ مَمْدُودٌ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، أَوْ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ
شیخ اس حدیث پر اپنی رائے کچھ یوں دیتے ہیں
۔(1) حديث صحيح بشواهده دون قوله: “وإنهما لن يتفرقا حتى يردا عَليَّ الحوضَ“۔
کہ حدیث اپنے شواہد کی روشنی میں صحیح ہے سوائے اس حصہ کہ: اور یہ ہرگز جدا نہ ہوں گے جب تک حوض پر نہ آ جائیں
اس بات سے قطع نظر کہ اس روایت کو شیخ البانی نے اپنی صحيح الجامع الصغير وزياداته، جلد ۱، صفحہ ۴۸۲، حدیث ۲۴۵۸؛ پر صحیح قرار دیتے ہیں، اور شیخ حمزہ احمد زین اپنی مسند احمد کی تحقیق کے جلد ۱٦، صفحہ ۲۸؛ پر سند کو حسن قرار دیتے ہیں، نیز حافظ ہیثمی اپنی مجمع الزوائد کے جلد ۱، صفحہ ۱۷۰؛ پر راویان حدیث کو ثقہ، اور جلد ۹، صفحہ ۱٦۲؛ پر سند کو جید قرار دیتے ہیں
اگر ہم شیخ شعیب ہی کی تحقیق کو مد نظر رکھیں، تو ان کا یہ قول کہ اس حصے کا شاہد نہیں کہ یہ حوض پر آنے تک ساتھ رہیں گے؛ جب ہم خود انہی کی ایک تحقیق شدہ ایک اور کتاب، العواصم و القواصم، جلد ۱، صفحہ ۱۷۸؛ پر نظر کرتے ہیں، تو موصوف فسوی کی کتاب، المعرفۃ و التاریخ کے جلد ۱، صفحہ ۵۳٦؛ کی حدیث کو صحیح قرار دیتے ہیں جس کے الفاظ یوں ہیں کہ
زید بن ارقمؓ نے نبی پاک سے نقل کیا کہ آپ نے کہا کہ میں تم میں چھوڑے جاتا ہوں کہ جن سے اگر تم تمسک رکھو، تو ہر گز گمراہ نہ ہو؛ اللہ کی کتاب اور میری عترت اہلبیت۔ اور یہ ہر گز جدا نہ ہوں گے جب تک حوض پر نہ آ جائیں
عربی متن یوں ہے
حدثنا يحيى قال : حدثنا جرير عن الحسن بن عبيد اللهعن أبي الضحى عن زيد بن أرقم قال : قال النبي صل الله عليه وسلم : إني تاريك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا كتاب الله عز وجل وعترتي أهل بيتي وإنهما لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض
اب ذرا الفاظ کی مماثلت دیکھیے۔ شیخ نے کہا تھا
حديث صحيح بشواهده دون قوله: “وإنهما لن يتفرقا حتى يردا عَليَّ الحوضَ“۔
اور جس روایت کو وہ خود صحیح قرار دیتے ہیں، اس میں الفاظ ملاحظہ ہوں
وإنهما لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض
گویا، شیخ الارناوط کا یہ کہنا کہ کہ اس جملے کا کوئی شاہد نہیں، درست نہیں
انکی ہی تسلیم کردہ ایک اور مستند روایت میں بھی یہ جملہ موجود ہے۔
نوٹ: اگر شیخ شعیب الارناوط نے صرف اس جملے إِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ جَمِيعًا کے بارے میں یہ کہا ہوتا کہ اس کا کوئی شاھد نہیں (دیکھیے پہلا سکین) تو شائد اُنکی بات ٹھیک ہوتی۔ کیونکہ لفظ جمیعاً کے ساتھ یہ جملہ صرف اِسی روایت میں آیا ہے لیکن شیخ نے دوسری جگہ بھی یہی کہا ہے جہاں یہ جملہ لفظ جمیعاً کے بغیر وارد ہوا ہے اور یہ ایک غلطی ہے۔
|
إِنَّي تاركٌ فيكم خليفتينِ : كتابُ اللهِ حبلٌ ممدودٌ ما بينَ السماءِ والأرْضِ ، وعترتي أهلُ بيتي ، و إِنَّهما لن يتفرقا حتى يرَِدا عَلَيَّ الحوْضَ
الراوي : زيد بن ثابتؓ | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح الجامع
الصفحة أو الرقم: 2457 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
زید بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’بے شک میں تمھارے درمیان دو خلیفہ چھوڑے جاتا ہوں۔ اللہ کی کتاب جو ایک آسمان اور زمین تک پھیلی ہوئی رسی (حبل) ہے اور میری عترت میرے اھلبیت۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے حتٰی کہ حوض کوثر پر وارد ہوں گے‘‘۔
قال رسولُ اللهِ إني تارِكٌ فيكم الخَلِيفَتَيْنِ من بَعْدِي كتابَ اللهِ وعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي وإنهما لن يَتَفَرَّقا حتى يَرِدَا عَلَىَّ الحَوْضَ
الراوي : زيد بن ثابت | المحدث : الألباني | المصدر : تخريج كتاب السنة
الصفحة أو الرقم: 754 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
زید بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’بے شک میں اپنے بعد تمھارے درمیان دو خلیفہ چھوڑے جاتا ہوں۔ اللہ کی کتاب اور میری عترت میرے اھلبیت۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے حتٰی کہ حوض کوثر پر وارد ہوں گے‘‘۔
إنِّي تاركٌ فيكم خليفتين كتابَ اللهِ عزَّ وجلَّ حبلٌ ممدودٌ ما بينَ السَّماءِ والأرضِ أو ما بينَ السَّماءِ إلى الأرضِ وعِترتي أهلَ بيتي وإنَّهما لن يفتَرِقا حتَّى يَرِدا عليَّ الحوضَ
الراوي : زيد بن ثابتؓ | المحدث : الهيثمي | المصدر : مجمع الزوائد
الصفحة أو الرقم: 9/165 | خلاصة حكم المحدث : إسناده جيد
Source
إني تركتُ فيكم خليفتينِ كتابَ اللهِ وأهلَ بيتي وإنهما لن يتفرَّقا حتى يرِدا علَىَّ الحوضَ
الراوي : زيد بن ثابتؓ | المحدث : الهيثمي | المصدر : مجمع الزوائد
الصفحة أو الرقم: 1/175 | خلاصة حكم المحدث : رجاله ثقات
Source
یہ حدیث بصیغہ خلیفتین دوسری کتب حدیث میں بھی موجود ہے دیکھیے یہ لنک
یہ حدیث بصیغہ ثقلین دوسری کتب حدیث میں دیکھنے کیلیے اس لنک پر کلک کیجیے۔
پس تمام ممبران کو چند اہم نقاط پر غور کرنے کی دعوت ہے۔
جتنی احادیث میں نے یہاں درج کیں ہیں یہ خیال رکھا ہے کہ وہ سند کے اعتبار سے صحیح یا حسن ہوں۔
یہ حدیث متعدد صحابہ کرامؓ سے منقول ہے۔ کم از کم 25 صحابہؓ سے روایت ہوئی ہے۔
یہ حدیث اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے متعدد مقامات پر ارشاد فرمائی۔ مثلاً یہاں جو احادیث درج کیں ہیں اُن ہی سے واضح ہے کہ یہ حدیث حج کے دوران یوم عرفہ کو، حج سے واپسی پر غدیر خُم کے مقام پر اور مرض الموت کے دوران اپنے حجرہ میں بھی ارشاد فرمائی گئی۔ اسکے علاوہ بھی متعدد مقامات پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی۔
دوران حج اور واپسی پر غدیرِ خُم کے مقام پر یہ حدیث ایک لاکھ سے زیادہ صحابہؓ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمائی۔
ان احادیث سے اور دوسری صحیح احادیث سے واضح ہے کہ حبل اللہ سے مراد کتاب اللہ ہے۔
ان احادیث میں ہی اس بات کا بھی جواب ہے کہ حبل اللہ کو مضبوطی سے کیسے تھاما جا سکتا ہے؟ اور وہ صرف اور صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اھلبیت کے ساتھ تمسک رکھنے سے ہی ممکن ہے۔ کیونکہ اُنھیں کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خبر دی ہے کہ میرے یہ اھلبیت کبھی بھی حبل اللہ سے جدا نہ ہوں گے۔ حتٰی کہ حوض کوثر پر بھی یوں ہی اکٹھے وارد ہوں گے۔
اب جو پورے قرآن کا حقیقی علم (تاویل) نہیں رکھتا وہ کتاب اللہ (حبل اللہ) سے جدا ہے۔ کیونکہ اگر وہ ایک آیت کے حقیقی علم سے بھی ناواقف ہے۔ وہ اُس آیت سے جدا ہے۔
جس کا عمل مکمل طور پر قرآن کے مطابق نہیں وہ بھی قرآن سے جدا ہے۔ پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد یہی اھلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی ایسی ہستیاں ہیں جن کا خُلق قرآن ہے۔
قرآن خود نہیں بولتا۔ پس ممکن ہے کہ لوگ اس کی آیات کا غلط مطلب نکالیں۔ اور غلط رنگ دیں۔ پس یہ اھلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی ہیں جو قرآن کی حقیقت سے واقف ہیں اور وہی قرآن کا مطلب بیان کریں گے۔
اھلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سُنت سے کامل واقف ہیں۔ اور اُس کے صحیح مفہوم سے آشنا ہیں۔
پس حبل اللہ کو مضبوطی سے، بغیر اھلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تمسک رکھے، نہیں تھاما جا سکتا۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے تمام صحابہؓ سمیت پوری امت کو قرآن اور اپنے اھلبیت کے ساتھ متمسک ہونے کا حکم دیا اور ان دونوں کو ثقلین قرار دیا اور اپنے بعد ثقلین سے تمسک رکھنے کو ہی گمراھی سے بچاؤ کا ذریعہ بتایا۔ اور قرآن نے اسی بات کو تفرقہ سے بچاؤ کا واحد راستہ قرار دیا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قرآن اور اپنے اھلبیت کو ثقلین قرار دیا۔ مطلب قرآن ثقل (گراں بہا) ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اھلبیت بھی ثقل (گراں بہا) ہیں دونوں ہی برابر کی اہمیت کے حامل ہیں اور دونوں ہی اہمیت میں ہم پلہ ہیں۔
پس قرآن اسلیے ہے کہ اُسکا علم حاصل کرکے اُسکی پیروی کی جائے۔ اور اھلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلیے ہیں کہ وہ قرآن کی باتیں کھول کھول کر واضح بیان کریں۔ کیونکہ وہ ہی اسکی تاویل سے آگاہ ہیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اھلبیت کی پیروی واجب ہے کیونکہ وہ وہی حُکم دیتے ہیں جو قرآن میں موجود ہے۔
پس آسان الفاظ میں امت کے اتحاد کا واحد ذریعہ مسلمانوں کا مل کر اھلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے متمسک ہو جانا ہے۔ اور تفرقہ کا وہی باعث ہے جو اھلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو چھوڑ دے یا اُن کو وہ اہمیت نہ دے جس کا حکم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا ہے۔ حالانکہ تمسک بالثقلین کا حُکم تو سب سے پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بلا تخصیص اپنے تمام صحابہؓ کو دیا تھا۔
حضرت امام مھدی علیہ السلام بھی اھلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہوں گے۔
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پردہ کرنے کے بعد اھلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تمسک رکھے بغیر کتاب اللہ (حبل اللہ) سے متمسک ہونے کا دعوٰی کرنے والا اپنے دعوٰی میں جھوٹا ہے۔
ممبران سے گزارش ہے کہ میں جو کُچھ جانتا تھا اور سمجھتا تھا دیانت داری سے آپ کے سامنے رکھا ہے۔ اگر آپ میں سے کوئی بھی میری بات میں کوئی سقم یا کمی پائے تو قرآن و احادیث صحیحہ کو اپنی دلیل بنا کر بات کرے۔ اسطرح میرے علم میں بھی اضافہ ہو گا۔ اور اللہ تعالٰی اُس کو اس نیک کاوش کا اجر بھی دے گا۔ اور میں بھی اُسکا مشکور ہوں گا۔
اللھم صلی علی محمد و آل محمد