Zia Hydari
Chief Minister (5k+ posts)
آج کل جہاد کو فرض کفایہ قرار دینے کی باتیں، نام نہاد مذہبی اسکالرز دھڑلے سے کررہے ہیں۔
فرض کفایہ وہ ہے کہ بعض کے ادا کرنے سے باقی دوسروں کے ذمہ سے بھی اتر جائے گا لیکن اگر کوئی بھی ادا نہ کرے تو سب گناہگار ہوں گے جیسے نماز جنازہ۔
اسی طرح سنت موکدہ علی الکفایہ بھی ہے جس کی مثال رمضان مبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف ہے۔
قتال فی سبیل اللہ… اللہ پاک نے مسلمانوں پر فرض قرار دیا ہے… بلکہ سورہ انفال کی آیت نمبر 65 میں تو اللہ پاک اپنے پیغمبرۖ سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں۔
ترجمہ: ” اے نبیۖ آپ مسلمانوں کو قتال (جہاد) کا شوق دلائیے”
قرآن مقدس کی سورہ بقرہ میں ارشاد خداوندی ہے’ ترجمہ: ” اور قتال کرو اللہ کے راستے میں اور جان لو بے شک اللہ تعالیٰ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے”
ڈاکٹر اسرار اب تہہ خاک ہیں، ان کے ساتھ قبر میں کیا ہورہا ہوگا اللہ بہتر جانتا ہے، وہ کوئی عالم دین نہ تھے، مگر ایسا شو کرتے تھے، ان کایہ کہنا کہ جہاد فرض عین نہیں ہے ایک من گھڑت بات ہے، اس ضمن میں قرآن کی آیت یا کوئی حدیث ہوتو پیش کی جائے تاویلات نہ بیان کی جائیں۔
اسلام میں مشہور فرض کفایہ سلام کا جواب دینا، چھینک کا جواب دینا یعنی یَرحَمُکَ اللّٰہ کہنا، عیادت مریض جبکہ مرض شدید ہو، مسلمان میت کا غسل و کفن و نماز جنازہ و دفن وغیرہ، ہر شہر میں ایام جمعہ و عیدین میں قاضی مفتی و امیر(حاکم) و خطیب کا موجود ہونا، فرض عین علم سے زائد علومِ شرعیہ فقہ و اصول وغیرہ کا پڑھنا، تمام قران مجید کا حفظ کرنا، امر بالمعروف و نہی عن منکر کرنا، بادشاہ کے لئے طاقت اور عالم کے لئے زبان سے کرنا اور عوام کے لئے جبکہ فتنہ کا ڈر ہو دل سے منکرات کو برا جاننا فرض کفایہ ہے، اولاد کی تعلیم و تربیت و نکاح کرنا، کسی پیغام دینے والے کا پیغام پہچانا، طالب علموں کا خرچ و امداد، مومن بھوکا مر رہا ہو تو اس کو کھانا دینا اور خود توفیق نہ ہو تو لوگوں میں اعلان کرنا، جب کفار غلبہ کریں تو ان سے لڑنا فرضِ عین ہے اور جب کفار غلبہ نہ کریں تو ان سے جہاد کرنا فرض کفایہ ہے۔
آپ سب جانتے ہیں کہ افغانستان میں سوویت یونین نے حملہ کیا تو اس وقت ان کی جنگ جہاد قرار دی گئی تھی، لیکن اب۔ ۔ ۔ ۔ دنیا بدل جائے لیکن اللہ کاحکم نہیں بدلتا ہے۔
نام نہاد ریجئس اسکالرز کایہ کہنا کہ جہاد فرض عین نہیں ہے ایک من گھڑت بات ہے، اس ضمن میں قرآن کی آیت یا کوئی حدیث ہوتو پیش کی جائے تاویلات نہ بیان کی جائیں۔
بات کو گھما پھرا کر، لوگو کو اللہ کے حکم سے دور کرنا علماء سو کاکام ہوتا ہے، آپ جہاد کی گرامر اور لفظی معنوں پر جرح کرکے اپنے آپ کو عالم ثابت کرتے رہئے۔ حقیقت تو یہ کہ جہاد جن معنوں میں مستعمل ہے وہ امت پر واضح ہیں۔ جب جہاد فرض ہوجاتا ہے تو پھر یہ نہیں دیکھا جاتا ہے کہ دشمن کتنا بڑا ہے اور ہم کتنے چھوٹے، ان وار ٹیکنالوجی کتنی برتر ہے یا ہمارے پاس ناکافی ہتھیار ہیں،
جنگِ احزاب کے موقع پر قریش نے پورے عرب کی طاقت کو جمع کیا اورکم و بیش دس ہزار (بعض روایا ت کے مطابق چوبیس ہزار )کا ناقابل شکست لشکر لے کر مدینے پر حملہ آور ہوئے۔ کھلے میدان میں اس لشکر کا مقابلہ ناممکن تھا۔ حضورنبیۖ نے اس موقع پر حضرت سلمان فارسی کا مشورہ قبول کیا۔چنانچہ مدینے کے دفاع کے لیے ایک بڑی خندق کھودی گئی ۔یہ چیز اہل عرب کے لیے قطعی نامانوس تھی۔چنانچہ ان کی عددی اکثریت قطعاً غیر موثر ہوگئی اور آخر کار انہیں نامراد ہوکر لوٹنا پڑا۔
Last edited: