آجکل کے دور میں جمہوری ملکوں صرف ایک ہی طریقہ ہے بغیر خوں بہاۓ انقلاب کے ، ووٹ کے ذریعے- ووٹ کے ذریعے انقلاب کے لیے عوام کے شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ شعور صرف صحیح تعلیم کے ذریعے دیا جا سکتا ہے- جب تک ایک غالب آبادی تعلیم یافتہ نہ ہو تو خطرہ ہے کہ وہ ایک محب وطن اور دیندار حکمران کے خلاف مزاہمت شروع کر دے، جس کی وجہ سے ملک تنزلی کی طرف گامزن ہو جاۓ گا -اس کی مثال پاکستان میں مولانا ڈیزل اور خادم رضوی کا عمران خان کی حکومت کو، اپنے مدرسوں کے ذہنی غلام طالب علموں کے ساتھ مل کر، بلیک میل کرنے کی کوشش ہے۔
اگر کسی اسلامی ملک میں ڈکٹیٹر شپ ہے اور عوام کی بہتری کے لیے سنجیدہ ، مخلص اور کسی طور پر بھی مسلمانوں کو اپنی مذہبی فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ نہ بنے، خواہ خود عملی طور پر دیندار نہ ہو لیکن کھلم خلا کفر میں ملوث نہ ہو ، اس کے علاوہ ان غیر مسلم ممالک سے مسلمانوں کے خلاف کوئی اتحاد نہ بناتا ہو تو اس کے خلاف بغاوت کا کوئی جواز نہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں الٹا اس ملک کو مجموئی طور پر نقصان کا اندیشہ ہے- اس سلسلے میں لیبیا کی مثال دی جا سکتی ہے- جہاں کرنل قذافی ایک ڈکٹیٹر کے طور پر حکومت چلا رہا تھا لیکن اپنی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے مخلص تھا- اب انقلاب کے بعد لیبیا میں خانہ جنگی کی صورت حال ہے اور جو ملک دوسرے اسلامی ممالک کو روزگار فراہم کر رہا تھا اب اس ملک کے باشندے روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔
اگر کوئی اسلامی ملک جہاں کے حکمران مسلمانوں کے دشمن ممالک کے ساتھ اتحاد کر لیں تاکہ اپنی سلطنت کو برقرار رکھ سکیں تو یہ مسلمان ریایا کے طویل مدتی مفاد اور قرآن آیات کے خلاف ہے:ہ
(Qur'an 5:82) لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا ۖ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ
تو سب لوگو ں سے زیادہ مسلمانوں کا دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پائے گا اور تو سب سے نزدیک محبت میں مسلمانوں سے ان لوگوں کو پائے گا جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں یہ اس لیے اکہ ان میں علماء اور فقراء ہیں اور اس لیے کہ وہ تکبر نہیں کرتے
لہذا مسلمانوں پر فرض ہے اپنے حاکم کے خلاف جہاد کریں اگر طاقت رکھتے ہوں، اگر ابھی ایسی طاقت حاصل نہ کر پاۓ ہوں تو اس کے خلاف آواز بلند کریں ورنہ کم از کم اس حاکم کو دل میں برا سمجھیں- اور مسلمان جیسے ہی ایسی طاقت حاصل کر لیں کہ ایسے ظالم حکمران کو طاقت کے ذریعے ہٹا سکیں تو ضرور ایسا کریں۔
حدیث مبارکہ میں کہ حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عید کے دن نماز سے پہلے جس شخص نے سب سے پہلے خطبہ دینا شروع کیا وہ مروان تھا، ایک شخص نے مروان کو ٹوکا اور کہا کہ نماز خطبہ سے پہلے ہوتی ہے، مروان نے جواب دیا کہ وہ دستور اب متروک ہو چکا ہے۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا اس شخص پر شریعت کا جو حق تھا وہ اس نے ادا کر دیا۔ اس نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد سنا ہے:
مَنْ رَأَی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِکَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ.
تم میں سے جو شخص خلاف شریعت کام دیکھے تو اپنے ہاتھوں سے اس کی اصلاح کرے اور اگر طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اس کا رد کرے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے اس کو برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
مسلم، الصحيح، 1: 69، رقم: 49، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي
أحمد بن حنبل، المسند، 3: 10، رقم: 11088، مصر: مؤسسه قرطبة
أبي داود، السنن، 4: 123، رقم: 4340، دار الفکر
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں برائی کی ہاتھوں کے ساتھ اصلاح کرنے اور طاقت نہ رکھنے کی صورت میں زبان سے اس کا رد کرنے کا فرمایا گیا ہے۔ یہ بات برحق ہے کہ ہر برائی کو ہاتھ سے روکنے کے لیے طاقت اور اختیار کا ہونا ضروری ہے
© Copyrights 2008 - 2025 Siasat.pk - All Rights Reserved. Privacy Policy | Disclaimer|