SAYDANWAR
Senator (1k+ posts)
میں اللہ تعالی سے پاکستان کی بقاء ترقی کیلئے جو دعا کرتا ہوں اسمیں چند توجہ طلب نکات کی پہلے وضاحت کردوں، کہ میں پاکستان کی حب کیساتھ دنیا کے پرامن رہنے کی دعا کرتا ہوں۔
یہ ضروری نہیں کہ پاکستانی اپنے ہرے پاسپورٹ کیساتھ خلاء میں آئیندہ چار سالوں میں جائے اہم یہ ہوگا کہ آئیندہ پانچ مہینوں میں پاکستان اور عمران خان صاحب کو دوبارہ دوست ممالک کا دورہ اس وجہ سے لازمی نہ ہو کہ اب پھر عالمی مقروضیت کی ششماہی قسط دینے کیلئے پیسے نہیں۔
لازمی یہ ہے کہ پاکستان میں گیس ، پانی ، بجلی اپنے پڑوسی ممالک سے سستی کرکے ملک کی بند ایکسپورٹ کرنے والی انڈسٹری میں شور اور روانی پیدا کیجائے۔میں پاکستان دوست ہوں اور شخصیت پرست نہیں جو انتظامیہ اور لیڈر ملک کو ان بحرانوں سے نکالے گا وہ اور اسکی ترقیاتی پالیسیوں کو پزیرائی ملنا چاہئے،خواہ مخمو آہ حکمرانوں کی تعریف ملک میں ایکسپورٹ کا فروغ نہیں بلکہ چمچوں کی نرسری اور اسکی آبیاری کر کے ملک کو تباہ کرتی ہے ،ان ہی افراد نے پچھلی خاص طور پر دو حکومتوں کی تعریفیں کرکے ہمیں عالمی فقیر بنایا ہے۔
اب اور ترقیاتی امور پر توجہ کیساتھ وزیر داخلہ کو ایک کو چمچہ کنٹرولنگ وزارت میں یہ شعبہ فعال کرکے اسکی نگرانی خود کرنا چاہئے مزید میرا ماننا یہ ہے کہ زبیر عمر ہی کی طرح اسد عمر ابھی نابالغ ایک مالیاتی وزیر لگتے ہیں
کہیں ایسا نہ ہو کہ نائی قصائی کی طرح تراش خراش میں یہ نحیف پاکستان تجربات کا شکار ہوکر ماہرین تجزیہ کاروں کو یہ کہنے کا موقعہ نہ خداناخواستہ فراہم کرے کہ اگر ایسا کر لیتے تو ایسا ہوجاتا اور ویسا کرنے سے یہ خرابی ہوئی ہے۔اسلئے اسد عمر صاحب کو دو مشیر مالیات نامی انکی پسند کے دئے جانے چاہیں،اس بگڑی معیشت کا سنبھالنے کیلئے صرف ایک شریف شخصیت کی ضرورت تو ہے ہی مگر اسکے کیساتھ اسمیں میمنوں کی طرح چالاکیاں اور مکاریوں کی سخت ضرورت ہے۔کسی امریکی کمپنی میں فٹپاتھی مکاروں کی زیادتی نہیں ہوتی وہاں تنخواہ پلس انوسٹمنٹ پر ماہانہ خطیر رقم کا کمانا آسان ہوتا ہے وہاں لچوؤں کو آپ کنٹرول نہیں کرتے وہاں وہ میٹرک پاس پالیسی میکر نہیں ہوسکتے۔
آخر میں ۲۰۲۲ میں پاکستانی کو بغیر ٹکٹ خلاء میں بھیجنے سے بہت زیادہ ضروری ایسے پاکستانی اور پاکستان کا ہونا ہے جو ٹکٹ خرید کر اپنی ذہانت اور مالی وسائل کے بل بوتے پر لے جایا جائے،پھر پچاس لاکھ گھر، نوکریاں،دوسری ممالک کو قرضے دینے ،پانی سے لبریز ڈیموں کو دیکھ کر اس سر سبز پاکستان کو رول ماڈل دنیا ماننے پر مجبور ہوگی جو ڈیزرونگ ہوگا ریکمنڈی نہیں۔بس اسکے بعد خدا کرے میری آنکھ اس سہانے خواب سے کھل نہ جائے بلکہ میں کھلی آنکھوں سے ایسے پاکستان کو دیکھوں جسمیں خواب کا ذکر نہ ہو،دوسری جنگ عظیم میں جرمنی موجودہ پاکستان کی طرح ہو گیا تھا اور پاکستان سے کچھ قرض ادھار لینے کی غلطی کر بیٹھا تھا جو آج بھی ہر پاکستانی کو حفظ ہے۔
یہ ضروری نہیں کہ پاکستانی اپنے ہرے پاسپورٹ کیساتھ خلاء میں آئیندہ چار سالوں میں جائے اہم یہ ہوگا کہ آئیندہ پانچ مہینوں میں پاکستان اور عمران خان صاحب کو دوبارہ دوست ممالک کا دورہ اس وجہ سے لازمی نہ ہو کہ اب پھر عالمی مقروضیت کی ششماہی قسط دینے کیلئے پیسے نہیں۔
لازمی یہ ہے کہ پاکستان میں گیس ، پانی ، بجلی اپنے پڑوسی ممالک سے سستی کرکے ملک کی بند ایکسپورٹ کرنے والی انڈسٹری میں شور اور روانی پیدا کیجائے۔میں پاکستان دوست ہوں اور شخصیت پرست نہیں جو انتظامیہ اور لیڈر ملک کو ان بحرانوں سے نکالے گا وہ اور اسکی ترقیاتی پالیسیوں کو پزیرائی ملنا چاہئے،خواہ مخمو آہ حکمرانوں کی تعریف ملک میں ایکسپورٹ کا فروغ نہیں بلکہ چمچوں کی نرسری اور اسکی آبیاری کر کے ملک کو تباہ کرتی ہے ،ان ہی افراد نے پچھلی خاص طور پر دو حکومتوں کی تعریفیں کرکے ہمیں عالمی فقیر بنایا ہے۔
اب اور ترقیاتی امور پر توجہ کیساتھ وزیر داخلہ کو ایک کو چمچہ کنٹرولنگ وزارت میں یہ شعبہ فعال کرکے اسکی نگرانی خود کرنا چاہئے مزید میرا ماننا یہ ہے کہ زبیر عمر ہی کی طرح اسد عمر ابھی نابالغ ایک مالیاتی وزیر لگتے ہیں
کہیں ایسا نہ ہو کہ نائی قصائی کی طرح تراش خراش میں یہ نحیف پاکستان تجربات کا شکار ہوکر ماہرین تجزیہ کاروں کو یہ کہنے کا موقعہ نہ خداناخواستہ فراہم کرے کہ اگر ایسا کر لیتے تو ایسا ہوجاتا اور ویسا کرنے سے یہ خرابی ہوئی ہے۔اسلئے اسد عمر صاحب کو دو مشیر مالیات نامی انکی پسند کے دئے جانے چاہیں،اس بگڑی معیشت کا سنبھالنے کیلئے صرف ایک شریف شخصیت کی ضرورت تو ہے ہی مگر اسکے کیساتھ اسمیں میمنوں کی طرح چالاکیاں اور مکاریوں کی سخت ضرورت ہے۔کسی امریکی کمپنی میں فٹپاتھی مکاروں کی زیادتی نہیں ہوتی وہاں تنخواہ پلس انوسٹمنٹ پر ماہانہ خطیر رقم کا کمانا آسان ہوتا ہے وہاں لچوؤں کو آپ کنٹرول نہیں کرتے وہاں وہ میٹرک پاس پالیسی میکر نہیں ہوسکتے۔
آخر میں ۲۰۲۲ میں پاکستانی کو بغیر ٹکٹ خلاء میں بھیجنے سے بہت زیادہ ضروری ایسے پاکستانی اور پاکستان کا ہونا ہے جو ٹکٹ خرید کر اپنی ذہانت اور مالی وسائل کے بل بوتے پر لے جایا جائے،پھر پچاس لاکھ گھر، نوکریاں،دوسری ممالک کو قرضے دینے ،پانی سے لبریز ڈیموں کو دیکھ کر اس سر سبز پاکستان کو رول ماڈل دنیا ماننے پر مجبور ہوگی جو ڈیزرونگ ہوگا ریکمنڈی نہیں۔بس اسکے بعد خدا کرے میری آنکھ اس سہانے خواب سے کھل نہ جائے بلکہ میں کھلی آنکھوں سے ایسے پاکستان کو دیکھوں جسمیں خواب کا ذکر نہ ہو،دوسری جنگ عظیم میں جرمنی موجودہ پاکستان کی طرح ہو گیا تھا اور پاکستان سے کچھ قرض ادھار لینے کی غلطی کر بیٹھا تھا جو آج بھی ہر پاکستانی کو حفظ ہے۔
Last edited by a moderator: