jani1
Chief Minister (5k+ posts)
غُلامی ۔۔۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب شاپنگ مالز ابھی عام نہیں تھے یا کم از کم عام آدمی کے لئے عام نہیں تھے۔۔۔اورعام آدمی اُن میں جانے سے گھبراتا تھا۔۔۔ کہ ناجانے اندر کیا ہو۔۔۔کس قسم کا لباس درکار ہو۔۔۔کس قسم کی گُفتگو بولنی پڑے۔۔جیب میں کتنا مال ہو وغیرہ وغیرہ۔۔۔
چونکہ میں بیرون مُلک چند سال رہ لیا تھا۔۔اس لیے میرے لیے شاپنگ مالز ایک عام سی جگہ تھیں جہاں اکثر لوگ بریک ٹائم میں لنچ وغیرہ کرتے ہوں یا فارغ اوقات میں شاپنگ وغیرہ۔۔۔
ایک دن ہم بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے کہ ایک دوست آیا جو کافی اپ سیٹ لگ رہا تھا۔۔۔ جب اُس سے وجہ پُوچھی تو بتانے لگا کہ جو نیا مال کُھلا ہے وہاں پر گارڈز یا چوکیداروں نے اُسے اندر جانے نہیں دیا کہ یہاں ہر کسی کی انٹری نہیں ہوسکتی ۔۔۔اور بُرا سلوک بھی کیا۔۔۔
جب اُس نے مال کا نام بتایا تو مُجھے حیرت ہوئی کہ وہاں تو میں ایک آدھ بار گیا تھا اور مُجھے تو کسی نے نہیں روکھا ۔۔۔خیر دوست کوتیار کراکر دوبارہ اُس مال کی طرف گئے۔۔۔
گاڑی پارک کرکے ہم مال کی طرف بڑھے ۔۔۔ اپنے دوست سے آگے ہونے کا کہا اور میں اُس کے پیچھے رہا۔۔۔ گارڈز نے اُس کے سادہ شلوار قمیض کو دیکھ کر اُسے دوبارہ ہاتھ کے اشارے سے روکھا۔۔۔میں چونکہ اُس کے بالکل پیچھے تھا ۔۔۔ میں نے گارڈز کو انگریزی میں مُخاطب کیا کہ ۔۔۔ہی از وت می۔۔۔ گارڈز جو کہ پہلے ہی میرے سوٹ بُوٹ سے مُتاثر لگ رہے تھے ۔۔۔ایک جُملا انگریزی کا جیسے اُن کے کانوں پر جادوئی موسیقی کا اثر کر گیا ہو۔۔۔
اور انہوں نے فورا شیشے کا دروازہ کھولا بغیر کوئی لفظ بولے۔۔۔ میرا دوست میرے ساتھ اندر جاتے ہوئے مُسکُرارہا تھا۔۔۔ وہ بھی سمجھ گیا تھا کہ اصل کہانی کیا تھی۔۔۔
اس سے ملتی جُلتی کہانیاں سرکاری اداروں بجلی کے دفاتر اور بہت سے جگہوں پر ہوئیں کہ اپنا مسئلہ انگریزی جھاڑ کر حل کرایا ہو۔۔ اور بعض پرائیویٹ ہسپتالوں اور اداروں کا بھی یہی حال ہے۔۔۔
غلام سوچ۔۔۔ جی ہاں مسئلہ یہ نہیں کہ آپ انگریزی کیوں بولتے ہو بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ آپ بلا وجہ دوسروں سے انگریزی کیوں سُننا چاہتے ہو۔۔۔اور بلا وجہ کسی کو شلوار قمیض کی جگہ پینٹ شرٹ پہننے پر مجبُور کیوں کرتے ہو۔۔۔۔
چلو مانا کہ باہر کی دُنیا میں انگریزی کے بغیر آجکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی آنکھ والا اندھیرے میں
اندھوں کی طرح راستہ تلاش کرے۔۔۔
یہ بھی مانا کہ انگریزی کے بغیر وطن عزیز میں آپ کوئی داکٹر انجینئر وغیرہ نہیں بن سکتے۔۔۔
مگر جہاں اس کی ضرُورت نا ہو وہاں پر کسی اپنے سادہ پاکستانی کی توہین کرنا یا ذلیل کرنا کہاں کی عقل مندی ہے۔۔یہ غلامی جس نے ہماری سوچوں کو جھکڑا ہے سے آزاد ہونے کی اشد ضُرورت ہے۔۔۔
آجکل پاکستان میں بھی مالز وغیرہ عام ہوگئے ہیں اور تقریبا ہر کوئی بغیر روکاوٹ کے ان کے اندر جاسکتا ہے۔۔۔مگر ۔۔ وہ نچھلا طبقہ جو کہ ایک وقت کی روٹی کے بعد دوسرے وقت کو روئے ۔۔۔ کے لئےآج بھی مال کے اندر کا نظارا کسی خواب سے کم نہیں۔۔۔ اور اُن کے حُلیہ سے ہی اُنہیں گیٹ پر روک لیا جاتا ہوگا کہ یہ تو مانگنے والا یا والی ہے ۔۔۔ یقینا کوئی چیز چُرانے آیا یا آئی ہے۔۔۔
جبکہ اس عام سے نچھلے طبقے کے وزیر اعظم مُلک و قوم کے سب سے بڑے چور ہوکر اوردل کی چیر پھاڑ کراکر بھی لندن کی سب سے مہینگی شاپنگ مالز میں گھومتے نہیں تھکتے۔۔۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب شاپنگ مالز ابھی عام نہیں تھے یا کم از کم عام آدمی کے لئے عام نہیں تھے۔۔۔اورعام آدمی اُن میں جانے سے گھبراتا تھا۔۔۔ کہ ناجانے اندر کیا ہو۔۔۔کس قسم کا لباس درکار ہو۔۔۔کس قسم کی گُفتگو بولنی پڑے۔۔جیب میں کتنا مال ہو وغیرہ وغیرہ۔۔۔
چونکہ میں بیرون مُلک چند سال رہ لیا تھا۔۔اس لیے میرے لیے شاپنگ مالز ایک عام سی جگہ تھیں جہاں اکثر لوگ بریک ٹائم میں لنچ وغیرہ کرتے ہوں یا فارغ اوقات میں شاپنگ وغیرہ۔۔۔
ایک دن ہم بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے کہ ایک دوست آیا جو کافی اپ سیٹ لگ رہا تھا۔۔۔ جب اُس سے وجہ پُوچھی تو بتانے لگا کہ جو نیا مال کُھلا ہے وہاں پر گارڈز یا چوکیداروں نے اُسے اندر جانے نہیں دیا کہ یہاں ہر کسی کی انٹری نہیں ہوسکتی ۔۔۔اور بُرا سلوک بھی کیا۔۔۔
جب اُس نے مال کا نام بتایا تو مُجھے حیرت ہوئی کہ وہاں تو میں ایک آدھ بار گیا تھا اور مُجھے تو کسی نے نہیں روکھا ۔۔۔خیر دوست کوتیار کراکر دوبارہ اُس مال کی طرف گئے۔۔۔
گاڑی پارک کرکے ہم مال کی طرف بڑھے ۔۔۔ اپنے دوست سے آگے ہونے کا کہا اور میں اُس کے پیچھے رہا۔۔۔ گارڈز نے اُس کے سادہ شلوار قمیض کو دیکھ کر اُسے دوبارہ ہاتھ کے اشارے سے روکھا۔۔۔میں چونکہ اُس کے بالکل پیچھے تھا ۔۔۔ میں نے گارڈز کو انگریزی میں مُخاطب کیا کہ ۔۔۔ہی از وت می۔۔۔ گارڈز جو کہ پہلے ہی میرے سوٹ بُوٹ سے مُتاثر لگ رہے تھے ۔۔۔ایک جُملا انگریزی کا جیسے اُن کے کانوں پر جادوئی موسیقی کا اثر کر گیا ہو۔۔۔
اور انہوں نے فورا شیشے کا دروازہ کھولا بغیر کوئی لفظ بولے۔۔۔ میرا دوست میرے ساتھ اندر جاتے ہوئے مُسکُرارہا تھا۔۔۔ وہ بھی سمجھ گیا تھا کہ اصل کہانی کیا تھی۔۔۔
اس سے ملتی جُلتی کہانیاں سرکاری اداروں بجلی کے دفاتر اور بہت سے جگہوں پر ہوئیں کہ اپنا مسئلہ انگریزی جھاڑ کر حل کرایا ہو۔۔ اور بعض پرائیویٹ ہسپتالوں اور اداروں کا بھی یہی حال ہے۔۔۔
غلام سوچ۔۔۔ جی ہاں مسئلہ یہ نہیں کہ آپ انگریزی کیوں بولتے ہو بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ آپ بلا وجہ دوسروں سے انگریزی کیوں سُننا چاہتے ہو۔۔۔اور بلا وجہ کسی کو شلوار قمیض کی جگہ پینٹ شرٹ پہننے پر مجبُور کیوں کرتے ہو۔۔۔۔
چلو مانا کہ باہر کی دُنیا میں انگریزی کے بغیر آجکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی آنکھ والا اندھیرے میں
اندھوں کی طرح راستہ تلاش کرے۔۔۔
یہ بھی مانا کہ انگریزی کے بغیر وطن عزیز میں آپ کوئی داکٹر انجینئر وغیرہ نہیں بن سکتے۔۔۔
مگر جہاں اس کی ضرُورت نا ہو وہاں پر کسی اپنے سادہ پاکستانی کی توہین کرنا یا ذلیل کرنا کہاں کی عقل مندی ہے۔۔یہ غلامی جس نے ہماری سوچوں کو جھکڑا ہے سے آزاد ہونے کی اشد ضُرورت ہے۔۔۔
آجکل پاکستان میں بھی مالز وغیرہ عام ہوگئے ہیں اور تقریبا ہر کوئی بغیر روکاوٹ کے ان کے اندر جاسکتا ہے۔۔۔مگر ۔۔ وہ نچھلا طبقہ جو کہ ایک وقت کی روٹی کے بعد دوسرے وقت کو روئے ۔۔۔ کے لئےآج بھی مال کے اندر کا نظارا کسی خواب سے کم نہیں۔۔۔ اور اُن کے حُلیہ سے ہی اُنہیں گیٹ پر روک لیا جاتا ہوگا کہ یہ تو مانگنے والا یا والی ہے ۔۔۔ یقینا کوئی چیز چُرانے آیا یا آئی ہے۔۔۔
جبکہ اس عام سے نچھلے طبقے کے وزیر اعظم مُلک و قوم کے سب سے بڑے چور ہوکر اوردل کی چیر پھاڑ کراکر بھی لندن کی سب سے مہینگی شاپنگ مالز میں گھومتے نہیں تھکتے۔۔۔
Last edited by a moderator: