MAK-THE-ONE
MPA (400+ posts)
جس زمانے میں مستقل قومی مصیبت نے دیواروں پر لکھنا شروع کیا تھا
شہر ہمارا جنگل تمہارا ، تو نظر سے ایک تحریر گزری ، آپ لوگوں کے لئے یہاں
پوسٹ کی ہے
غدارا ن ِ پاکستان کی فہرست میں سے
آج بات کرتا ہوں اپنے وطن کے ایسے غداروں کی جو بزد ل ا ور غافل عوام کے سروں کا تاج بنے بیٹھے ہیں ۔حال کے دشمنان ِ پاکستان اور غدار ِ پاکستان کی طویل فہرست میں میرے شہر کراچی کی لسانیت، فرقہ وار یت اور قومیت پر مبنی ایک نام نہاد سیاسی مگر دہشت گرد تنظیم جو کراچی شہر کو جہیز میں ملا مال سمجھتی ہے، یا وارثت میں ملی جائداد جو آئے دن کسی نہ کسی بہانے ، کسی نہ کسی میت پر شہر کو بند کرانے کا ہنر باخوبی جانتی ہے ، نمایاں اور ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔
یہ ایک بار پھر اپنے اصل عزائم کے ساتھ ظاہر ہو چکے ہیں۔ ان ابتدائی سطور سے پڑھنے والے پر واضح ہوگیا ہو گا کہ اس بار چوٹ زیادہ شدید ہے اس لئے اس کا اثر لفظوں میں کوٹ کوٹ کر عیاں ہو چلا ہے۔پچھلے دنوں کراچی کے علاقے حسن ا سکوئر کی گلیوں میں گھومنے کا اتفاق ہوا۔ تو آنکھوں نے وہ پڑھا جس سے روح کو تکلیف ہوئی، اور قلم کی نوک بے اختیارچیخ اٹھی۔ وہ کہتے ہیں شہر ہمارا، جنگل تمہارا یہ نعرہ ہی ان کی ذہنی پسماندگی ، جاگیردارانہ انداز ، ظالمانہ سوچ کی بھرپور عکاسی کر رہا ہے۔
اب جس کو اپنی بوری بنوانی ہو وہ ان سے سوال کرے کہ تم کس شہر کی بات کر رہے ہو؟ اس شہر کی جس کو تم نے انتشار کی نذر کر دیا، اس شہر کی جہاں اردو بولنے والے کودیگر زبان بولنے والوں سے الجھا دیا، اس شہر کی بات کرتے ہو جس کی روشنیوں کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تاریکی کی نذرکر دیا، اس شہر کی بات کرتے ہو جس کی دیواریں لہو سے رنگین کر چکے ہو، اس نگر کی بات کرتے ہو جہاں جنگل کا قانون نافذ کئے ہوئے ہو، اس شہر کو تم شہر کہتے ہو جہاں تم بھڑئیے بن کر دوسروں کامال ہڑپ کرتے ہو ، اس شہر کی بات کرتے ہو جہاں کی عزت کو تم نیلام کرتے ہو،جہاں سب کچھ کرکے انجان و معصوم بن جاتے ہو، جہاں تم ظلم کرکے بھی مظلوم بن جاتے ہو، جہاںتم قتل کرتے ہو پھرسوگ مناتے ہو
اول تو کوئی ان سے پوچھنے کی ہمت یا حماقت نہیں کر سکتا اور اگر کوئی پوچھ بھی لے تو کہتے ہیں یہ نعرے دیواروں پر لکھنے والے ہم نہیں ہیں، کوئی ان سے بڑا معصوم نہیں اپنے ہی علاقے میں جہاں ان کی اکثریت ہے ، جہاں گلی گلی پر ان لوگوں کی بیٹھک لگتی ہے جو ہر گزرنے والی صنف ِنازک کا ایکسرے کرنا اپنا اولین فرض سمجھتی ہے اس تمام بیٹھک کے باوجود اپنی ہی اکثریت والے علاقوں میں دیواروں پر ایسے نعروں سے یہ بیگانے ہوتے ہیں، ہونٹوں میں انگلی دبائے ، جہاں بھر کی معصومیت چہرے پر سجائے کہتے ہیں ہم کو معلوم نہیں یہ نعرے یہاں کس نے اور کب لکھے،اُس وقت یہ دودھ پیتے بچے بن جاتے ہیں، وہی نامعلوم افراد پھر آجاتے ہیں جوازل سے ان کے پیچھے پڑے ہیں۔ یا ان کی گود میں ایسے آڑھے وقتوں کے لئے پناہ لئے ہوئے ہیں۔
زمانہ اس کو سیاست کہتا ہے ، مذہب اس کو ظلم ، جھوٹ ، منافقت جیسے نہ جانے کن کن لفظوں سے یاد کرتا ہے، انسانیت اس کو درندگی کہتی ہے اور شیطان اس کو شیطانیت کہتا ہے اور ناز کرتا ہے ، یہ دراصل اس کے ہی ہیں،کوئی سراپا ابلیس ہے تو کوئی ابلیس نما، مگر یہ سب ایک ہی جماعت کے ہیں بس نام اور چہرے مختلف ہیں۔
یہ اپنی ابتدا سے اُس نظام کے خلاف بات کرتے ہیں جس کو اپنے آپ اپنائے ہوئے ہیں، یہ پنجاب و سندھ کے جاگیرداروں کے خلاف بات کرتے ہیں ، شہر کراچی کے جاگیردار بن کر، یہ شہر کے کونے کونے کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں، وراثت سمجھتے ہیں ۔ اور اپنے خلاف کسی کو برداشت نہیں کرتے ، جب زبان ان کا قائد کھولتا ہے تو شرم آتی ہے اپنے آپ کو اردو بولنے اور لکھنے والا کہہ کر، جب اردو زبان والے پورے نہ پڑے تو متحدہ کا نعرہ لگایا اور اب متحدہ کا نعرہ لگاےا تو سندھ کا بٹوارہ لسانی زبان پر کرنے کا مطالبہ کس بنیاد پر کرتے ہیں۔
کوئی بھی قائد جب تقریر کرنے آتا ہے تو تیار ہو کر آتا ہے اور ان کا نام نہاد قائدپی کر آتا ہے، اس کو معلوم ہی نہیں ہوتا کیا بکواس کر رہا ہے ، وہ تو جو من میں آیا خمار میں بولتا چلا جاتا ہے بعد میں اس کے نمائندے لوگوں کے سوالوں کے بے حد بھونڈے جوابات دیتے رہتے ہیں، جس کو بات کرنے کی تمیز نہیں اس کو اپنے سر پر بیٹھایا ہوا ہے۔
یہ وہ تنظیم جس نے اپنی ابتدا ہی سے کچے ذہنوں کو تعلیم چھوڑ کر ہتھیار اٹھانے کی تلقین کی، جس کا نتیجہ کہیں آنسوﺅں کا سمندر نظر آیا تو کہیں خون ہی خون، کہیں آنسو بہانے والا بھی نہیں بچا۔جانے کتنی ماﺅں کی گود اجاڑی گئی، کتنی ہتھیلیوں میں کھیلیں ٹھونکی گئیں، کتنوں کو اپاہج کیا گیا، کتنے گلوں پر چھڑی پھیری گئی۔قائد کی بھوک مٹانے کے لئے یہ بھی دیکھا کہ بیٹے نے اپنے ہی گھر میں ڈکیتی کروائی۔بھائی نے بھائی کا گریبان پکڑا، شاگرد نے استاد کو دھمکیاں دی، مارا پیٹا، کتنا لکھوں آنکھوں دیکھا حال ، ایک دفتر بھی کم ہو گا اور اگر لکھنے بیٹھ جاﺅں کانوں سنا تو شاید زندگی تمام ہوجائے مگر ان کی ظلمت کے قصے تمام نہ ہوں۔
اور یہ حقیقت ہے کہ جس خواب ، جس منصوبے کو لے کر یہ وجود میں آئے تھے ۔ یعنی جناح پور آج بھی نام بدل کر اس کے حصول کے لئے کوشاںہیں۔ آج پھربلی تھیلے سے باہر آئی تھی ، قائد خمار میںمن کی خواہش کا اظہار کر کے چلے گئے۔آج یہ فرماتے ہیں کہ جنگل تمہارا اور شہر ہمارا، جو شہر ان کے پاس تھا اس کو یہ جنگل بنا چکے ہیں ۔ لگتا ہے اب یہ کسی اور شہر میں خون خرابے کا یہ کھیل پھر سے کھیلنا چاہتے ہیں۔جو یہ مطالبہ کر رہے ہیں اور جس ڈھٹائی سے مطالبہ کرتے ہیں اتنی ہی معصومیت سے اپنے کئے گئے مطالبے سے لاتعلقی کا اظہارکر دیتے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے جو شہر پہلے تمہارے پاس تھا اس کا تم نے کیا کیا؟؟؟
مختصر یہ کہ یہ ایک ایسے روگ کی صورت ہیں جس کا اب بھی علاج نہ کیا گیا تو کینسر کی مانند یہ بیماری پوری دھرتی کو چاٹ جائے گی، اس پر لکھی ہر خوشی کو مٹا دے گی، ہر آنکھ میں آنسو سجا دے گی۔ یہ وہ مجرم ہیں جن کے جرم کی تلافی نہیں، جن کے جرم کی سزا نہ قید با مشقت ہے اور نہ سزائے موت ۔
ان کی سزا کچھ اور ہونا ضروری ہے جس کو دیکھ کر کوئی پھر کبھی میرے وطن میں ان کی ڈگر پر چلنے کی غلطی نہ کرے۔ بزدلوں کو خوف کی ردا اتارنا ہوگی، کل جس انداز سے انہوں نے مجھ سے کھلے عام چھینا جھپٹی کی اور محلہ ، راہ چلتے لوگ تماشہ دیکھتے رہے، کل اگر ان تماش بین پر یہ وقت آیا، یا ان کے گھر کی عورتوں کی عصمت کو یوں ہی چھینا گیا تو کیا کل مجھے تنہا چھوڑنے والے اپنے اوپر آئی آفت پر بھی خاموش رہیں گے؟؟ آج یہ اتنے دلیر ہوچکے ہیں محض لوگوں کی بزدلی کی وجہ سے کہ کل جو مال چھینتے تھے رات کی تاریکی یا تنہائی میں آج وہ یہ کام دن کی روشنی میں اور لوگوں کے سامنے کر رہے ہیں، آج یہ مال کے بھوکے ہیں کل جب عورت کی بھوک ان کی بڑھ جائے گی تو یہ جو کام رات میں کرتے ہیں ، بند کمروں میں ۔وہ دن میں ، بازاروں میں کریں گے، تو گزرے کل میں جو تماش بین بنے رہے تھے وہ آنے والے وقت میں بھی کیا تماش بین بنے رہیں گے؟؟؟ کیا وہ اپنی بربادی کا تماشہ بھی چپ چاپ دیکھتے رہیں گے، یقینا جواب یہ ہی ہوگا کہ نہیں وہ اس وقت خاموش نہیں رہیں گے، تو میرا سوال ہے پھر آج جب شہر چیخ رہا ہے ، وہ برباد ہو چلا ہے تو یہ کیوں خاموش ہیں؟؟
اگر آج نہیں بولے، شہر کی چیخوں کے ساتھ اپنی آواز نہ ملائی تو کل یہ زمین بھی ان کو پناہ نہیں دے گی۔ان کو بتانا ہوگا کہ شہر ہمارا تھا جس کو جنگل تم نے بنا دیا ہے۔ان کو بتا نا ہوگا کہ ایک شہر کوتمہارے ہاتھوں جنگل ہم نے اپنے خوف کے سبب بنوا دیا اب مزید شہروں کو تمہاری بھوک کی نذر نہیں کریں گے۔بلکہ جس شہر کو تم نے جنگل بنایا ہے اس کو تمہاری ظلمت سے پاک کر کے پھر سے گلستاں بنائیں گے۔اتحاد، اتفاق، محبت کا بھلایا ہوا درس پھر یاد کریں گے۔ لسانی ، سیاسی، قومیت کی تمام دیواروں کو گرا دیں گے۔ اور تاریکی میں ڈوبے شہر کو پھر روشن کریں گے۔اور ان کو ہر جگہ تنہا کرتے چلے جائیں گے۔ یہ ہی ان کی سزا ہے اور یہ ہی ان کا انجام۔