افسوس عید کی ساری خوشیاں برباد ہوگئیں اور اُن ”اُمیدوں پر پانی پھر گیا جو نئی حکومت سے خواہ مخواہ ہم نے وابستہ کر لی تھیں۔میرے گزشتہ کالم کا عنوان تھا ”عید کی خوشیاں مبارک“یہ کالم عید کے روز شائع ہوا۔ میرا خیال تھا ”صاف شفاف انتخابات“ جو کہ عدلیہ کی ”خصوصی مہربانی“ کی وجہ سے ممکن ہوئے کے نتیجے میں نئی حکومت برسرِاقتدار آچکی ہے اور اُس کے ”اہل ترین وزیر داخلہ “ اتنے پُراعتماد ہیں نہ صرف یہ کہ برادرم”جاوید چوہدری کے کالم میں “بغیر کسی پروٹوکول کے ہر جگہ دِکھائی دیتے ہیں بلکہ یہ ”خوشخبری“ بھی ”قوم“ کو سنا رہے ہیں عید کے موقع پر سابقہ حکمرانوں کی طرح موبائل فون بند نہیں کریں گے تو اُمید ہے عید کے موقع پر کوئی ایسا ناخوشگوار واقعہ یا سانحہ نہیں ہوگا عید کی خوشیاں جس سے برباد ہو جائیں۔ ویسے بھی محترم وزیراعظم ایک روز پہلے ہی عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے بعد واپس آئے تھے اور اخباری اطلاعات کے مطابق ملک و قوم کی سلامتی کے لئے ”خصوصی دعائیں“ بھی اُنہوں نے مانگی تھیں تو مجھے یقین تھا وہ چونکہ سابقہ حکمرانوں سے مختلف یعنی ”اچھے حکمران“ ہیں تو اُن کی دعائیں ضرور رنگ لائیں گی اور کم از کم عید کے موقع پر ملک میں امن و امان ہی رہے گا، جس کا ”کریڈٹ“ نئے حکمران خود بخود ہی لے لیں گے، کیونکہ ”کریڈٹ“ لینے کے لئے حکمران ہر وقت تیا ر رہتے ہیں، البتہ کسی سانحے پر اپنی نااہلی کا اعتراف کرتے ہوئے اُنہیں موت پڑتی ہے اور اِس کا ذمہ دار وہ ”سابقہ حکمرانوں“ کو ہی ٹھہراتے ہیں۔ ابھی تو خیر سے موجودہ حکمرانوں کو اقتدار میں آئے تین ماہ ہی ہوئے ہیں(یہ الگ بات ہے سابقہ حکمران جتنے بدنام تین برسوں میں ہوئے تھے یہ تین مہینوں میں ہی ہوگئے ہیں) تین بلکہ تیس برس بھی اُنہیں ہوگئے تو ”حکمرانی روایت‘ کے مطابق ساری خرابیوں اور برائیوں کا ذمہ دار وہ سابقہ حکمرانوں کو ہی ٹھہرائیں گے۔ جیسے سابقہ حکمران ”سابقہ حکمرانوں“ کو ٹھہراتے رہے۔
سابقہ سیاسی حکمرانوں نے اپنی مدت پوری کرکے”تاریخی کامیابی“ حاصل کی۔ صدارت کا حلف اُٹھانے کے بعد زرداری نے فرمایا تھا ”مسائل کا انبار ہمیں ورثے میں ملا ہے مگر اِس بار ہماری حکومت کو مدت پوری کرنے کا موقع ملا تو دودھ اور شہد کی نہریں بہادیں گے“….دودھ اور شہد کی نہریں صرف ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم میں ہی بہتی رہیں۔ ملک میں تو دودھ اور شہد کی ایک ”نالی“ بھی وہ نہیں بہا سکے البتہ ”خون کی نہریں“ اُن کے دور میں ضرور بہتی رہیں اور اب تو ”خون کے دریا“ بہنے لگے ہیں۔ ہزار برس بھی اِن حکمرانوں کو مل جائیں تو اپنی نااہلیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے خرابیوں کا ذمہ دار وہ ”سابقہ حکمرانوں“ کو ہی ٹھہرائیں گے۔ اور یہ عمل صرف عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے ہے۔ اندر سے سب آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ سابقہ حکمرانوں نے موجودہ حکمرانوں کا کوئی احتساب نہیں کیا اور موجودہ حکمران سابقہ حکمرانوں کے احتساب کا اب ذکر تک نہیں کرتے، جبکہ الیکشن سے قبل ”بھٹوانہ سٹائل“ میں ایسی ایسی تقریریں فرماتے تھے یوں محسوس ہوتا تھا اقتدار میں آکر کرپشن کی ایک ایک پائی سابقہ حکمرانوں کے پاپی پیٹوں سے وہ نکلوا لیں گے۔ خرابیوں کی انتہا تک پہنچے ہوئے نظام کا سب حصہ ہیں اور اپنا اپنا حصہ سب وصول کر رہے ہیں۔ کوئی سابقہ وزیر موجودہ وزیر کا داماد ہے تو کوئی موجودہ وزیر سابقہ وزیر کا سالا ہے۔ سابقہ ایم این اے کی کوئی بیٹی موجودہ ایم این اے کی بہو ہے تو موجودہ ایم این اے کی کوئی بیگم سابقہ ایم این اے کی بہن ہے۔ بہت سے جج، جرنیل اور افسر بھی اِن کے رشتہ دار ہیں مفادات کی ایک ہی تسبیح کے سب دانے ہیں اور یہ ”تسبیح“ بہت سالوں سے امریکہ کے ہاتھوں میں ہے اور ”امریکہ “ اب ہماری مسجدوں میں بھی آکر بیٹھ گیا ہے !
میرا بیٹا اعتکاف پر بیٹھا تھا۔ اُس کی عمر چودہ برس ہے۔ چاند رات کو اُسے مسجد سے لے کر ہم گھر آئے تو کچھ ”بھائیوں “ کا ذکر اُس نے کیا جو مسجد میں آکر خاص قسم کا درس دیتے تھے جس کے مطابق جنت چند سیکنڈوں میں حاصل کی جا سکتی ہے۔ کیا یہ ”مسلمان“ ہیں معصوم بچوں کے ذہن جو برباد کر رہے ہیں؟ اور کوئی اُنہیں روکنے والا نہیں ہے؟ دوسرے صوبوں کے حکمران تو ”نااہل “ ہیں۔ پنجاب کے حکمران تو اپنی اہلیت کی داد بیرون ملک سے بھی وصول کرتے ہیں تو اُنہیں کیوں خبر نہیں کہ ”دہشت گرد“ جو اصل میں امریکہ اور انڈیا کے ایجنٹ ہیں کس طرح اپنی جڑیں پنجاب میں بھی مضبوط کرتے جا رہے ہیں؟ اور پنجاب کے کچھ اداروں خصوصاً پنجاب پولیس کا جس طرح کا سربراہ تعینات کیا گیا ہے دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا تو دور کی بات ہے اُن کے بارے میں مکمل معلومات ہی وہ حاصل کر سکتا ہے؟ ”تابعداری“ ہی شرط تھی تو ”تابعداروں“ میں اہلیت والا کوئی ڈھونڈ لیا ہوتا۔ عید کی نماز کے موقع پر مسجدوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ اب کے بار کچھ مسجدیں آدھی سے زیادہ خالی تھیں۔ یہ یقینا دہشت گردی کے خوف کا نتیجہ ہے اور یہ خوف اُس صورت میں مزید بڑھ جاتا ہے جب اِس بات کا یقین ہو عوام کو تحفظ فراہم کرنے والے ادارے اپنے فرائض ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ انتہا یہ ہے اب اپنے تحفظ کا پوری طرح سے اہتمام بھی اُن سے نہیں ہو پا رہا۔ یہ تو دہشت گردوں کی ”مہربانی“ پاکستان میں روزانہ دو چار کارروائیاں ہی وہ ڈالتے ہیں ورنہ کچھ ”اداروں“ کی نااہلی کے نتیجے میں تو وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ جن کی رسائی جیلوں اور چھاﺅنیوں تک ہو چکی اُن کے آگے آہنی دیوار وہی بن سکتے ہیں پاکستان کے ساتھ جن کی محبت کسی اور ملک کی ملاوٹ سے پاک ہو!
محترم چیف جسٹس آف پاکستان نے چاند رات کو کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی کا از خود نوٹس لیا ہے۔ اِس سے قبل کوئٹہ میں شہید پولیس افسروں کی نمازِ جنازہ میں اُنہوں نے شرکت کی تو ہمیں اچھا لگا چلیں ”سرکار کی نمائندگی“ کسی نے تو کی۔ زرداری کا وزیر داخلہ دہشت گردی کے ہر سانحے پر فوری طور پر ”جائے وقوعہ“ پر پہنچ جاتا تھا، نواز شریف کا وزیر داخلہ تین دِن بعد پہنچتا ہے تو یہ بھی بڑی بات ہے ورنہ ”شیر“ کی مرضی وہ تین سالوں بعد بھی نہ پہنچے کوئی اُس کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟ ویسے محترم چیف جسٹس آف پاکستان دہشت گردی کے واقعات کا از خود نوٹس لینے کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کو سزائیں نہ ملنے کے ضمن میں ”عدالتی خرابیوں“ کو دور کرنے کا کچھ اہتمام جاتے جاتے ہی کر لیں تو تاریخ میں اُن کے بیانات، تقریروں اور تصویروں کے علاوہ اُن کا نام بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو حکومت نام کی کوئی چیز کم از کم مجھے تو دِکھائی نہیں دیتی۔ وزیراعظم نام کے ایک صاحب البتہ ضرور موجود ہیں، مختلف میٹنگوں میں جو بولتے کم اور اِدھر اُدھر گھورتے ہوئے زیادہ دِکھائی دیتے ہیں۔ اُن کی خدمت میں عرض ہے بجلی سب سے بڑا مسئلہ تھا جسے الیکشن سے قبل ایک سال اور اب تین سالوں میں حل کرنے کی یقین دہانی کروائی جا رہی ہے اور اُمید ہے تین سالوں بعد بھی تین سالوں بعد حل کروانے کی یقین دہانی کروائی جا رہی ہوگی۔ اُس سے بھی بڑا مسئلہ اب دہشت گردی کا آن پڑا ہے۔ بجلی اور گیس چوروں کو وہ ضرور پکڑیں اور اِس ضمن میں اپنے قریبی رشتہ داروں کی پروا کریں نہ کریں مگر دہشت گردوں پر ہاتھ ڈالنا اب زیادہ ضروری ہے!
یہ کہنا غلط ہے کہ آمریت کے بعد ” جمہوریت“ آئی تو کچھ تبدیل نہیں ہوا اور اب ”جمہوریت “ کے بعد پھر ”جمہوریت“ آئی ہے تو پھر بھی کچھ تبدیل نہیں ہوا۔ مہنگائی، بے روزگاری، ناانصافی، نااہلی اور سب سے بڑھ کر ”دہشت گردی“ پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے اور یہ ”تبدیلی “ عوام کو نظر نہیں آتی تو اِس سے بڑھ کر خوبصورت بات کیا ہو سکتی ہے ”جیسی قوم ہوگی ویسے حکمران اُس پر مسلط کر دیئے جائیں گے “…. اور حکمرانوں میں صرف ”سیاسی حکمران“ نہیں ہیں!
http://www.naibaat.pk/?p=60512c
سابقہ سیاسی حکمرانوں نے اپنی مدت پوری کرکے”تاریخی کامیابی“ حاصل کی۔ صدارت کا حلف اُٹھانے کے بعد زرداری نے فرمایا تھا ”مسائل کا انبار ہمیں ورثے میں ملا ہے مگر اِس بار ہماری حکومت کو مدت پوری کرنے کا موقع ملا تو دودھ اور شہد کی نہریں بہادیں گے“….دودھ اور شہد کی نہریں صرف ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم میں ہی بہتی رہیں۔ ملک میں تو دودھ اور شہد کی ایک ”نالی“ بھی وہ نہیں بہا سکے البتہ ”خون کی نہریں“ اُن کے دور میں ضرور بہتی رہیں اور اب تو ”خون کے دریا“ بہنے لگے ہیں۔ ہزار برس بھی اِن حکمرانوں کو مل جائیں تو اپنی نااہلیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے خرابیوں کا ذمہ دار وہ ”سابقہ حکمرانوں“ کو ہی ٹھہرائیں گے۔ اور یہ عمل صرف عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے ہے۔ اندر سے سب آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ سابقہ حکمرانوں نے موجودہ حکمرانوں کا کوئی احتساب نہیں کیا اور موجودہ حکمران سابقہ حکمرانوں کے احتساب کا اب ذکر تک نہیں کرتے، جبکہ الیکشن سے قبل ”بھٹوانہ سٹائل“ میں ایسی ایسی تقریریں فرماتے تھے یوں محسوس ہوتا تھا اقتدار میں آکر کرپشن کی ایک ایک پائی سابقہ حکمرانوں کے پاپی پیٹوں سے وہ نکلوا لیں گے۔ خرابیوں کی انتہا تک پہنچے ہوئے نظام کا سب حصہ ہیں اور اپنا اپنا حصہ سب وصول کر رہے ہیں۔ کوئی سابقہ وزیر موجودہ وزیر کا داماد ہے تو کوئی موجودہ وزیر سابقہ وزیر کا سالا ہے۔ سابقہ ایم این اے کی کوئی بیٹی موجودہ ایم این اے کی بہو ہے تو موجودہ ایم این اے کی کوئی بیگم سابقہ ایم این اے کی بہن ہے۔ بہت سے جج، جرنیل اور افسر بھی اِن کے رشتہ دار ہیں مفادات کی ایک ہی تسبیح کے سب دانے ہیں اور یہ ”تسبیح“ بہت سالوں سے امریکہ کے ہاتھوں میں ہے اور ”امریکہ “ اب ہماری مسجدوں میں بھی آکر بیٹھ گیا ہے !
میرا بیٹا اعتکاف پر بیٹھا تھا۔ اُس کی عمر چودہ برس ہے۔ چاند رات کو اُسے مسجد سے لے کر ہم گھر آئے تو کچھ ”بھائیوں “ کا ذکر اُس نے کیا جو مسجد میں آکر خاص قسم کا درس دیتے تھے جس کے مطابق جنت چند سیکنڈوں میں حاصل کی جا سکتی ہے۔ کیا یہ ”مسلمان“ ہیں معصوم بچوں کے ذہن جو برباد کر رہے ہیں؟ اور کوئی اُنہیں روکنے والا نہیں ہے؟ دوسرے صوبوں کے حکمران تو ”نااہل “ ہیں۔ پنجاب کے حکمران تو اپنی اہلیت کی داد بیرون ملک سے بھی وصول کرتے ہیں تو اُنہیں کیوں خبر نہیں کہ ”دہشت گرد“ جو اصل میں امریکہ اور انڈیا کے ایجنٹ ہیں کس طرح اپنی جڑیں پنجاب میں بھی مضبوط کرتے جا رہے ہیں؟ اور پنجاب کے کچھ اداروں خصوصاً پنجاب پولیس کا جس طرح کا سربراہ تعینات کیا گیا ہے دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا تو دور کی بات ہے اُن کے بارے میں مکمل معلومات ہی وہ حاصل کر سکتا ہے؟ ”تابعداری“ ہی شرط تھی تو ”تابعداروں“ میں اہلیت والا کوئی ڈھونڈ لیا ہوتا۔ عید کی نماز کے موقع پر مسجدوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ اب کے بار کچھ مسجدیں آدھی سے زیادہ خالی تھیں۔ یہ یقینا دہشت گردی کے خوف کا نتیجہ ہے اور یہ خوف اُس صورت میں مزید بڑھ جاتا ہے جب اِس بات کا یقین ہو عوام کو تحفظ فراہم کرنے والے ادارے اپنے فرائض ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ انتہا یہ ہے اب اپنے تحفظ کا پوری طرح سے اہتمام بھی اُن سے نہیں ہو پا رہا۔ یہ تو دہشت گردوں کی ”مہربانی“ پاکستان میں روزانہ دو چار کارروائیاں ہی وہ ڈالتے ہیں ورنہ کچھ ”اداروں“ کی نااہلی کے نتیجے میں تو وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ جن کی رسائی جیلوں اور چھاﺅنیوں تک ہو چکی اُن کے آگے آہنی دیوار وہی بن سکتے ہیں پاکستان کے ساتھ جن کی محبت کسی اور ملک کی ملاوٹ سے پاک ہو!
محترم چیف جسٹس آف پاکستان نے چاند رات کو کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی کا از خود نوٹس لیا ہے۔ اِس سے قبل کوئٹہ میں شہید پولیس افسروں کی نمازِ جنازہ میں اُنہوں نے شرکت کی تو ہمیں اچھا لگا چلیں ”سرکار کی نمائندگی“ کسی نے تو کی۔ زرداری کا وزیر داخلہ دہشت گردی کے ہر سانحے پر فوری طور پر ”جائے وقوعہ“ پر پہنچ جاتا تھا، نواز شریف کا وزیر داخلہ تین دِن بعد پہنچتا ہے تو یہ بھی بڑی بات ہے ورنہ ”شیر“ کی مرضی وہ تین سالوں بعد بھی نہ پہنچے کوئی اُس کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟ ویسے محترم چیف جسٹس آف پاکستان دہشت گردی کے واقعات کا از خود نوٹس لینے کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کو سزائیں نہ ملنے کے ضمن میں ”عدالتی خرابیوں“ کو دور کرنے کا کچھ اہتمام جاتے جاتے ہی کر لیں تو تاریخ میں اُن کے بیانات، تقریروں اور تصویروں کے علاوہ اُن کا نام بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو حکومت نام کی کوئی چیز کم از کم مجھے تو دِکھائی نہیں دیتی۔ وزیراعظم نام کے ایک صاحب البتہ ضرور موجود ہیں، مختلف میٹنگوں میں جو بولتے کم اور اِدھر اُدھر گھورتے ہوئے زیادہ دِکھائی دیتے ہیں۔ اُن کی خدمت میں عرض ہے بجلی سب سے بڑا مسئلہ تھا جسے الیکشن سے قبل ایک سال اور اب تین سالوں میں حل کرنے کی یقین دہانی کروائی جا رہی ہے اور اُمید ہے تین سالوں بعد بھی تین سالوں بعد حل کروانے کی یقین دہانی کروائی جا رہی ہوگی۔ اُس سے بھی بڑا مسئلہ اب دہشت گردی کا آن پڑا ہے۔ بجلی اور گیس چوروں کو وہ ضرور پکڑیں اور اِس ضمن میں اپنے قریبی رشتہ داروں کی پروا کریں نہ کریں مگر دہشت گردوں پر ہاتھ ڈالنا اب زیادہ ضروری ہے!
یہ کہنا غلط ہے کہ آمریت کے بعد ” جمہوریت“ آئی تو کچھ تبدیل نہیں ہوا اور اب ”جمہوریت “ کے بعد پھر ”جمہوریت“ آئی ہے تو پھر بھی کچھ تبدیل نہیں ہوا۔ مہنگائی، بے روزگاری، ناانصافی، نااہلی اور سب سے بڑھ کر ”دہشت گردی“ پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے اور یہ ”تبدیلی “ عوام کو نظر نہیں آتی تو اِس سے بڑھ کر خوبصورت بات کیا ہو سکتی ہے ”جیسی قوم ہوگی ویسے حکمران اُس پر مسلط کر دیئے جائیں گے “…. اور حکمرانوں میں صرف ”سیاسی حکمران“ نہیں ہیں!
http://www.naibaat.pk/?p=60512c