Gultasab
Citizen
عورت محبت سے زیادہ عزت کی سزاوار ہے۔
رات کے آٹھ بج رہے تھے اور ہم نئی نویلی دُلہن کو لیکر واپس اپنے گاوٗں پانڈووال کی طرف گامزن تھے۔ دوست ہونے کے ناطے میں پچھلے تین دِنوں سے سکندر کے گھر میں موجود تھا اور پوری کوشش کر رہا تھا کہ جتنا ہو سکے سکندر اور اُس کے اہلِ خانہ کی اِس موقع پر اعانت کروں۔ وہ میرا بچپن کا دوست تھا لیکن پچھلے کچھ برس سے وہ بیرونِ مُلک اپنا خاندانی کاروبار دیکھ رہاتھا۔گاوٗں پہنچنے پر بڑا پُر تپاک استقبال کیا گیا ، آتشبازی سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ سکندر کا تعلق کسی عام گھرانے سے نہیں بلکہ گاوٗں کے امیر ترین گھرانے سے ہے۔
گھر پہنچنے پر میں سکندر کے چہرے پر ایک فاتحانہ مُسکراہٹ دیکھ رہا تھا۔ رات کے 12 بجے میں نے باقی دوستوں کے ساتھ اجازت مانگی جو سکندر نے فوراً دے دی اور کہا کہ تُمہارا بھائی تُم لوگوں کو مایوس نہیں کرے گا۔ سکندر کی اس بات کی مُجھے سمجھ نہیں آئی لیکن ایک دوست نے کہا کہ صُبح پتہ چل جائےگا۔ ہم چلے گئے اور صُبح پھر میں جلد حاضر ہوگیا کیونکہ ولیمہ کا دن تھا اور اس دن کام کاج بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ باقی دوستوں کے ساتھ جب ادھر پہُنچہ تو سکندر خلافِ معمُول گھر کی دہلیز پرکھڑا ہمارا ہی انتظار کر رہا تھا۔ وہ ہمیں اپنے مہمان خانے میں لے گیا اور بولا۔۔۔۔
تُمہارے بھائی نے جنگ جیت لی ہے۔ اب ساری زندگی حیا (سکندر کی بیوی) میرے سامنے اُونچی آواز میں بات نہیں کر سکے گی
ایک دفعہ نہیں بلکہ تین دفعہ جیتی ہے۔
حیاکو بولنے کابلکہ آواز نکالنے کا موقع بھی نہیں دیا۔
اس کے بعد سکندر نے گزشتہ رات ایک ایسا مکمل نقشہ کھینچہ کہ جس کو بیان کرنے کی میرا دین، اخلاقیات اور معاشرتی اقدار اجازت نہیں دیتیں غرضیکہ اس نے بتدریج ہر اُس عمل کاذکر کیا جو اُس نے رات کو اپنی بیوی حیا کے ساتھ کیا تھا۔ کافی دفعہ کوشش کی کہ موضوع کو تبدیل کروں لیکن باقی دوست اپنا اپنا منہ کھول کر اتنا محظوظ ہو رہے تھے کہ وہ پھر اسے اسی موضوع پر لے آتے۔ اسے بلکل اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ یہ حیا ہی اب اس کی ساری زندگی کی ساتھی ہے۔ یہ اس کی بیوی ہے نہیں بلکہ اس کی عزت اور محبت کی جائز حقدار بھی ہے۔ یہی اس کے بچو ں کی ماں بنے گی کہ جس کے پاوٗں کے نیچے جنّت کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔ وہ اس بات سے قطعً بے خبر تھا کہ حیا کا خاندان بھی ہے، والدین اور بھائی بھی ہیں۔ اس کے نزدیک حیا صرف ایک مقصد کے لئے بنی تھی جو آج پورا ہو گیا۔ یہی مقصد تھا جس کی تکمیل کے لئےوہ اس دُنیا میں آئی تھی جو سکندر کے نزدیک آج پورا ہو چُکا تھا۔ رات کو گھر جا کر میں کافی دیر تک یہ سوچتا رہا کہ اللہ سُبحان و تعالی نے عورت کیوں بنائی۔ کیا عورت صرف عورت اسی مقصد کے لئے بنی ہے کہ اسے ایک مشین کی طرح استعمال کیا جائے۔
ہمارا دین یا اخلاقیات تو اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ ہم عورت کو اتنا حقیر سمجھے۔ تو پھر ایسا کیوں ہے کہ ہماری مردانگی عورت پر آ کر جاگ جاتی ہے۔ گھر کے باہر ہوسکتا ہے کہ ہمیں کو ئی گھاس نہ ڈالتا ہو لیکن گھر کے اندر عورت کے اوپر ہم ایک حکمران اور رعایا جیسا سلوک کرتے ہیں۔ کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عورت کا ذہن مرد کی اس کائنات میں
اب تک ہے الجھنوں کا نشانہ بنا ہوا
Ismail
Twitter: @Gultasab