
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ 7 ارب ڈالر کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کیلیے استعمال کیے جانے والے معاشی مفروضوں کا حصول منظوری کے ایک ماہ کے اندر ہی ناکامی کا شکار ہوگیا, اور اب حکومت کے پاس صرف 2 راستے رہتے ہیں کہ وہ معاہدہ پر دوبارہ مذاکرات کرے یا مزید ٹیکسوں کے ذریعے معیشت کا گلا گھونٹتے رہیں۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تقریباً 13 ہزار ارب روپے کا ٹیکس ہدف حاصل کرنے کیلیے4 اہم بنیادی مفروضے اقتصادی ترقی کی شرح، افراط زر، بڑے پیمانے پرپیداوار اور درآمدات دیے گئے تھے مگران میں سے 3 مفروضے اس مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے اختتام تک غلط ثابت ہو چکے ہیں۔
وفاقی حکومت نے چاروں صوبائی حکومتوں کی طرف سے حد سے زیادہ وعدے کرلیے اورصوبائی حکومتیں بھی معاہدے کے نفاذ سے ہی ان شرائط کو پوری کرنے کیلیے مسلسل تگ ودو ہی کر رہی ہیں ۔
پہلی سہ ماہی کے سرکاری اعدادوشمار سے سامنے آیا فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ٹیکس وصولی کے ہدف سے لے کر صوبائی کیش سرپلس رہنے تک کوئی بھی ہدف حاصل نہیں ہو سکا ۔
نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے بھی مارکیٹ کے ذریعے طے شدہ شرح مبادلہ کے نظام کے خلاف کھلے عام بات کی ہے جو 7 ارب ڈالر پروگرام کا ایک اور بنیادی ہدف ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان پر پھر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ روپے کی قدر میں مزید کمی کرے حالانکہ اسحاق ڈار کے مطابق روپے کی قدر پہلے ہی کم از کم 16 فیصد تک زیادہ گر چکی ہے۔
کئی لوگوں نے آئی ایم معاہدہ ہوتے ہی آئی ایم ایف معاہدے پر عمل درامد کے حوالے سے سنگین مسائل کی پیش گوئی کردی تھی جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ دونوں اطراف کے مذاکرات کاروں نے اسے کتنے برے طریقے سے انجام دیا تھا ۔
ایکسپریس ٹریبیون نے پہلے ہی رپورٹ کر دیا تھا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ ایک غلط معاہدے کو حتمی شکل دے ہے جو پٹڑی سے جلد اتر سکتا ہے۔ ذرائع نے بتایا جی ڈی پی کی شرح نمو 3 فیصد رہنے کے مفروضے کے سوا باقی تین ترقی کے خود مختار اشارئے افراط زر، درآمدات اور بڑے پیمانے پر پیداوار پہلی سہ ماہی میں نمایاں طور پر اہداف سے بہت پیچھے رہے ہیں ۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/shai1h1h2.jpg