Zafar Malik
Chief Minister (5k+ posts)
را ایجنٹ کل بھوشن کو پاکستانی فورسز نے ایک ہفتہ قبل گرفتار کیا تھا مگر ہماری حکومتی وزاء نے اس معاملے میں چُپ سادھ لی تھی جیسے یہ معمولی واقعہ ہو جیسے کوئی ماہی گیر بھٹک کے آگیا ہو ۔ کل بھوشن ایک ٹاپ کلاس جاسوس ہے جس کا مشن پاکستان سے کراچی اور بلوچستان کو الگ کرنا ، فرقہ ورانہ فسا د کروانا اور پاکستانی مفاد کو ہر طرح سے زک پہچانا گوادر پورٹ کے منصوبہ کے خلاف اسکا مشن تھا ۔ اتنے بڑے پاکستان دشمن کے جاسوس کا پکڑا جانا ہماری فورسز کا بلا شبہ ایک کارنامہ ہے مگر حکومت نے اس کو اگنورکیا حالانکہ اس کو بین الاقوامی فورم پر أٹھانا چاہیے تھا ۔ وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے بھی اس کا زکر تک نہ کیا ۔
عوام نے نواز لیگ کو بھرپور مینڈیٹ دیا ہے مگر حکومت عوام کو کیا دے رہی ہے لولی پاپ ۔ ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات ہر اچھے ملک کی خواہش ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہئیےمگر ایسے تعلقات کے لئے اپنے مفاد سے چشم پوشی نہیں کی جاتی ۔ پنجاب میں اقبال پارک میں خون کی ہولی کھیلی گئی ۔ حکومت مذمتی بیان تک محدود رہی آخر کمانڈر انچیف راحیل شریف کو آگے بڑھ کر ایکشن لینے کی ضرورت محسوس ہوئی اور پنجاب میں بھی دہشت گردوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو سکی ، واقعہ کے چھ گھنٹے بعد وزرا ہسپتالوں میں گئے اور راحیل شریف کے ایکشن لینے کے بعد حکومت کو احساس ہوا کہ ستر سے زیادہ ہلاکتیں اور تین سو سے زیادہ افراد کا زخمی ہونا سیریس معاملہ ہے ۔ سوچنا چاھیے کہ اگر چیف نوٹس نہ لیتا تو پنجاب میں تو سب ٹھیک کی رپورٹ رانا فیصل ابادی دے چکا ہوتا اب بھی اس کے بیان یہی ہیں کہ پنجاب میں کوئی خفیہ اڈے نہیں یہاں سندھ اور کراچی جیسے اپریشن کی ضرورت نہیں ۔ پٹھانکوٹ میں حملہ ہوا تو ا سکا مقدمہ نواز حکومت نے پاکستان میں درج کیا تحقیق کے لئے انڈیا پاکستانیوں کو ویزہ ہی نہیں دے تھا اب اگر ان کو اجازت ملی تو وہاں ان سے تعاون ہی نہیں کیا جا رہا ۔
نواز شریف ایک بڑے مینڈٹ کے ساتھ پاکستان کا وزیر اعظم ہے مگرانڈیا کے اتنا نیچے
کیوں لگا ہوا ہے ۔ بومبائی حملوں میں ایک متنازعہ کردار اجمل قصاب کے بارے نواز شریف خود گواھی دیتے رہے کہ یہ پاکستانی ہے ۔ اے ایس آئی کے خلاف نواز شریف ہمیشہ دوسرے ممالک سے شکایت کرتا پایا گیا ۔ کل تک اگر افواج پاکستان نے نواز حکومت کو اپنے ساتھ ایک پیج پر ہونے کا تاثر دیئے رکھا تو یہ ان کی فراخدلی تھی ورنہ نواز شریف کبھی بھی دل سے افواج پاکستان کے ساتھ نہیں تھا ۔ اب پاکستانی فورسز نواز حکومت سے کام اپنی مرضی سے کروائیں گی جیسے آج جنرل عاصم باجوہ نے پرویز رشید کو کان سے پکڑ کےاپنے ساتھ بٹھا کر پریس کانفرنس کی ۔ اگر حکومت مخلص ہوتی تو جس دن کل بھوشن را ایجنٹ پکڑا گیا تھا اسی دن میڈیا کے سامنے لایا جاتا مگر حکومت ٹال مٹول کرتی رہی ۔ جنرل عاصم باجوہ اکیلے بھی یہ پریس کانفرنس کر سکتے تھے مگر اب بھی پاکستانی فورسز حکومت کو ساتھ ے کر چلنا چاہتی ہیں ۔
اگر حکومت کے یہی ڈھنگ رہے تو کچھ بعید نہیں کہ عنان حکومت آرمی اپنے ہاتھ میں لے لے کیونکہ پاکستانی سلامتی کے لئے دن رات محنت تو راحیل شریف کر رہے ہیں بیرونی ممالک کو پاکستان کی مشکلات سے اگاہ کرنا حکومت کا کام ہے مگر یہ بھی راحیل شریف کو کرنا پڑتا ہے اندرونی دشت گردی اور ضرب عصب اور نیشنل سیکورٹی کے کاز بھی راحیل شریف نے سنبھالے ہوئے ہیں حتی کہ را ابجنٹ کا ایرانی زمین استعمال کرنے کی بابت ایرانی صدر کو راحیل شریف نے آگاہ کیا ورنہ نواز نے ت لٹیا ڈبو دی تھی ۔
کیا حالات نواز شریف کی محب الوطنی پر سوالیہ نشان نہیں لگا رہے ۔ کیا ایسا نہیں لگتا
کہ نواز شریف پاکستان سے زیادہ انڈیا کےمفاد کا خیال رکھتا ہے ۔ کہیں یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
عوام نے نواز لیگ کو بھرپور مینڈیٹ دیا ہے مگر حکومت عوام کو کیا دے رہی ہے لولی پاپ ۔ ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات ہر اچھے ملک کی خواہش ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہئیےمگر ایسے تعلقات کے لئے اپنے مفاد سے چشم پوشی نہیں کی جاتی ۔ پنجاب میں اقبال پارک میں خون کی ہولی کھیلی گئی ۔ حکومت مذمتی بیان تک محدود رہی آخر کمانڈر انچیف راحیل شریف کو آگے بڑھ کر ایکشن لینے کی ضرورت محسوس ہوئی اور پنجاب میں بھی دہشت گردوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو سکی ، واقعہ کے چھ گھنٹے بعد وزرا ہسپتالوں میں گئے اور راحیل شریف کے ایکشن لینے کے بعد حکومت کو احساس ہوا کہ ستر سے زیادہ ہلاکتیں اور تین سو سے زیادہ افراد کا زخمی ہونا سیریس معاملہ ہے ۔ سوچنا چاھیے کہ اگر چیف نوٹس نہ لیتا تو پنجاب میں تو سب ٹھیک کی رپورٹ رانا فیصل ابادی دے چکا ہوتا اب بھی اس کے بیان یہی ہیں کہ پنجاب میں کوئی خفیہ اڈے نہیں یہاں سندھ اور کراچی جیسے اپریشن کی ضرورت نہیں ۔ پٹھانکوٹ میں حملہ ہوا تو ا سکا مقدمہ نواز حکومت نے پاکستان میں درج کیا تحقیق کے لئے انڈیا پاکستانیوں کو ویزہ ہی نہیں دے تھا اب اگر ان کو اجازت ملی تو وہاں ان سے تعاون ہی نہیں کیا جا رہا ۔
نواز شریف ایک بڑے مینڈٹ کے ساتھ پاکستان کا وزیر اعظم ہے مگرانڈیا کے اتنا نیچے
کیوں لگا ہوا ہے ۔ بومبائی حملوں میں ایک متنازعہ کردار اجمل قصاب کے بارے نواز شریف خود گواھی دیتے رہے کہ یہ پاکستانی ہے ۔ اے ایس آئی کے خلاف نواز شریف ہمیشہ دوسرے ممالک سے شکایت کرتا پایا گیا ۔ کل تک اگر افواج پاکستان نے نواز حکومت کو اپنے ساتھ ایک پیج پر ہونے کا تاثر دیئے رکھا تو یہ ان کی فراخدلی تھی ورنہ نواز شریف کبھی بھی دل سے افواج پاکستان کے ساتھ نہیں تھا ۔ اب پاکستانی فورسز نواز حکومت سے کام اپنی مرضی سے کروائیں گی جیسے آج جنرل عاصم باجوہ نے پرویز رشید کو کان سے پکڑ کےاپنے ساتھ بٹھا کر پریس کانفرنس کی ۔ اگر حکومت مخلص ہوتی تو جس دن کل بھوشن را ایجنٹ پکڑا گیا تھا اسی دن میڈیا کے سامنے لایا جاتا مگر حکومت ٹال مٹول کرتی رہی ۔ جنرل عاصم باجوہ اکیلے بھی یہ پریس کانفرنس کر سکتے تھے مگر اب بھی پاکستانی فورسز حکومت کو ساتھ ے کر چلنا چاہتی ہیں ۔
اگر حکومت کے یہی ڈھنگ رہے تو کچھ بعید نہیں کہ عنان حکومت آرمی اپنے ہاتھ میں لے لے کیونکہ پاکستانی سلامتی کے لئے دن رات محنت تو راحیل شریف کر رہے ہیں بیرونی ممالک کو پاکستان کی مشکلات سے اگاہ کرنا حکومت کا کام ہے مگر یہ بھی راحیل شریف کو کرنا پڑتا ہے اندرونی دشت گردی اور ضرب عصب اور نیشنل سیکورٹی کے کاز بھی راحیل شریف نے سنبھالے ہوئے ہیں حتی کہ را ابجنٹ کا ایرانی زمین استعمال کرنے کی بابت ایرانی صدر کو راحیل شریف نے آگاہ کیا ورنہ نواز نے ت لٹیا ڈبو دی تھی ۔
کیا حالات نواز شریف کی محب الوطنی پر سوالیہ نشان نہیں لگا رہے ۔ کیا ایسا نہیں لگتا
کہ نواز شریف پاکستان سے زیادہ انڈیا کےمفاد کا خیال رکھتا ہے ۔ کہیں یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
Last edited by a moderator: