Kashif Rafiq
Prime Minister (20k+ posts)

یہ کسی حکمران کی تقریر نہیں تھی۔ یہ ایک رہنما بول رہا تھا۔ یہ کسی پیشہ ور کے لکھے ہوئے بے معنی لفظ نہیں تھے جو اپنا قلم اور ضمیر اقتدار کی چوکھٹ پر رکھ کر بھیک میں چند سکے اور مناصب اٹھا لاتے ہیں۔ یہ ان گداگران سخن کی جگالی بھی نہیں تھی، حبیب جالب کے الفاظ مستعار لوں تو، جو قلم سے اہل اقتدار کے ازار بند ڈال کر معتبر ہوجاتے ہیں۔ یہ عمران کے دل کی آواز تھی، زباں سے ادا ہوئی اور دل میں ترازو ہو گئی۔ داغ دہلوی یاد آگئے: ” داغ معجز بیاں ہے، کیا کہنا طرز سب سے جدا ہے، کیا کہنا‘‘
بہت سے وزیر اعظم ہم دیکھ چکے اور قوم سے ان کے وہ خطاب بھی سن چکے پیشہ ور جنہیں لکھتے تھے اور وزرائے اعظم ایک رسم پوری کرتے ہوئے ایسے پڑھ دیا کرتے تھے جیسے کوئی خرانٹ تاجر کسی اتوار بازار کا نرخ نامہ پڑھ کر سنا رہا ہو۔ عمران نے تو دلوں کو چھو لیا۔ عوام سے خطاب نہیں کیا اس نے لوگوں سے باتیں کیں۔ گھر کا بڑا جیسے سب کے سامنے دل کھول کے رکھ دے۔ سچائی ِ خلوص ِ اور درد مندی کے ساتھ۔ اس سے اچھی امیدیں تو شروع سے تھیں لیکن وہ یوں دلوں کے تار ہلا دے گا یہ کبھی نہیں سوچا تھا۔ اس نے حیران کر دیا۔
وہ تو اپنی بات کہہ کر چلا گیا، سننے والوں کی پلکوں میں یہ نمی سی کیوں اتر آئی ہے؟ کیا خوشی کے بھی آنسو ہوتے ہیں؟ آغاز ہی حیران کن تھا۔ میں یہی سمجھتا رہا کہ عمران جب ریاست مدینہ کی بات کرتا ہے تو شاید برائے وزنِ بیت۔ میں نے اس کی یہ بات ہمیشہ اس کی سیاسی ضرورت ہی سمجھی۔ مجھے ہر گز اس سے یہ حسن ظن نہ تھا کہ وہ ریاست مدینہ کی سیاسی، سماجی اور قانونی مبادیات سے واقف ہو گا۔ لیکن یہ کیا؟ اس ” یہودی ایجنٹ‘‘ کو تو اچھی طرح معلوم تھا مدینے کی ریاست کیا تھی اور وہ کن اعلی اصولوں پر کھڑی تھی۔ کس اعتماد سے ایک ایک کر کے وہ گنوا رہا تھا کہ ریاست مدینہ کے یہ وہ بنیادی اوصاف تھے جو مغرب نے اختیار کیے اور ترقی کی لیکن ہم نے چھوڑ دیے اور رسوا ہو گئے۔
ایک عرصے سے یہ سوال مجھے اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھا کہ ہماری سیاست عام آدمی کو اپنا موضوع کیوں نہیں بناتی۔ یہ صرف سیاست کے برہمن طبقے کی بات کیوں کرتی ہے۔ لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں لیکن سیاسی بیانیے میں اگر کوئی مظلوم اور قابل رحم ہے تو عالی جاہ نواز شریف ہیںیا ان کی صاحبزادی جن کی لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں ہوا کرتی تھی۔ جیلوں میں قیدی جانوروں سے بھی بد تر زندگی گزار رہے ہیں لیکن وہ یا ان کے مسائل کبھی زیر بحث نہیں آئے۔ زیر بحث آیا تو صرف اتنا کہ نواز شریف صاحب کا غسل خانہ صاف نہیں ہے اور ان کو فی الفور ائر کنڈیشنڈ کی سہولت دی جائے۔ پورے معاشرے کو جانور سمجھ لیا گیا تھا اور خوشیوں پر صرف ایک طبقے کا حق تسلیم کر لیا گیا تھا۔
ٹاک شو بھی سیاست کے برہمنوں کے مسائل پر، کالم کا موضوع بھی یہی سیاسی برہمن، اخبارات کے صفحہ اول پر بھی اسی سیاسی برہمن طبقے کا قبضہ، خوشیوں پر بھی صرف ان کا حق، انسانی حقوق بھی صرف ان کے لیے اور احتجاج بھی صرف ان کے مسائل پر۔ عام آدمی تو غلام ابن غلام تھا جس کا وسائل پر کوئی حق ہے نہ خوشیوںپر نہ ہی وہ اس قابل ہے کہ اس کو موضوع بنایا جائے۔ عمران نے یہ شیطانی طلسم بھی توڑ دیا۔ اس نے بتایا کہ اے لوگو تم ان کے غلام نہیں آزاد ہو۔ اس نے اعدادو شمار قوم کے سامنے رکھ دیے کہ دیکھ لو تمہارے اتنے لاکھ بچے ہر سال صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔
نواز شریف کے صاحبزادے کی جے آئی ٹی میں پیشی کی ایک تصویر سامنے آ گئی تو اہل دربار نے پاؤں جلی بندریا کی طرح ٹاک شوز اور کالموں میں احتجاج فرمائے تھے لیکن نا اہل وزیر اعظم کے قافلے نے ایک بچے کو روند ڈالا تو ارشاد ہوا یہ جمہوریت کا شہید ہے۔ حالت یہ ہے کہ ہر سال ڈھائی لاکھ بچے پاکستان میں ڈائریا کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ جی ہاں دو لاکھ پچاس ہزار بچے۔ کیا کبھی ہم نے سنا کہ یہ بات پارلیمان میں زیر بحث آئی ہو۔ کبھی رائے ونڈ یا نواب شاہ کے محلات میں اس پر کوئی ہنگامی اجلاس بلایا گیا ہو؟ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی رپورٹ کے مطابق ہر سال 200000( دو لاکھ) بچے مضر صحت پانی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے ہاتھوں مر رہے ہیں۔ سر پیٹ لیجیے، ایک یا دو نہیں پورے دو لاکھ بچے لیکن کسی کو پرواہ نہیں۔ البتہ جاتی امرا کے مور مر جائیں تو طوفان اٹھ کھڑا ہو تا ہے۔
انڈی پنڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال تیس لاکھ لوگ مضر صحت پانی کی وجہ سے انفیکشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ کیا آپ کو یاد ہے کبھی پارلیمان نے عوام کے ٹیکس کو پھونک کر سجائے گئے اجلاس میں اس پر بات کی ہو؟ عمران نے سب کچھ کھول کر رکھ دیا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں غریب کی رگوں سے لہونچوڑ کر کیسے عیاشی کی جاتی ہے۔ اس نے سوال اٹھایا کہ دس سالوں میں اتنا زیادہ قرض لیا گیاوہ قرض کہاں گیا؟ لوٹ مار کا ایک بازار گرم تھا۔ وہی حکمران تھے وہی تاجر چنانچہ صنعتکاروں کو 140 ارب کی سبسڈی دی گئی اور 340 ارب کے قرضے معاف کر دیے گئے۔ پانی کی کمپنیاں تھیںیا ایسٹ انڈیا کمپنی کہ ان کے سی ای او کو 25، 25 لاکھ تنخواہیں دی جارہی تھیں۔ کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ قومی خزانہ خالی ہو گیا ان کے ذاتی کاروبار ترقی کرتے رہے۔
جمہوریت کے نام پر لوٹ مار کرنے والوں نے کارٹل بنا رکھا تھا عمران نے اسے توڑ کر پھینک دیا۔ تعلیم کی صورت حال یہ ہے کہ پانچ سے چھ سال کی عمر کے بچوں کا 44 فیصد کسی سکول میں نہیں جا رہا۔ کل 24 ملین بچے سکول نہیں جاتے اور ایک ملین میں دس لاکھ ہوتے ہیں۔ صرف 30 فیصد بچے ایسے ہیں جو پہلی جماعت میں داخلہ لیتے ہیں اور دسویں تک پڑھتے رہتے ہیں، 70 فیصد طلباء ایسے ہیں جو پہلی کلاس سے دسویں تک کے درمیان سکول چھوڑ جاتے ہیں۔ بلوچستان میں 70 فیصد بچے سکول نہیں جا رہے۔ فاٹا میں 60 فیصد بچے سکول سے باہر ہیں۔ گویاچند سال بعد نا خواندہ بے روزگاروں کا ایک تازہ لشکر دستک دینے والا ہے۔ کیا آپ نے کبھی سنا کہ پارلیمان میں اس مسئلے پر بات ہوئی؟ یہ عمران ہے جس نے اس پر بات کی اور سرکاری اداروں کے بہتر کرنے کا عزم کیا۔
وزیر اعظم ہاؤس میں کتنے آئے اور کتنے گئے۔ یہ مگر صرف عمران ہے جسے یہ درد محسوس ہوا کہ غریب قوم کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے۔ پانچ سو سے زیادہ ملازمیں اور گاڑیوں کالشکر۔ عمران نے اپنی ذات سے آغاز کیا۔ گاڑیاں نیلام ہوں گی۔ پانچ سو سے زیادہ ملازمین میں سے صرف دو رکھے گئے۔ کون کہتا ہے اس نے صرف باتیں کیں؟ اس نے اپنی ذات سے آغاز کر کے دکھا دیا ہے۔ ماحولیات کے مسئلے کو اس ملک میں صرف عمران نے سمجھا۔ اس نے کے پی کے میں درخت لگوائے اب سارے ملک میں یہ کام ہونے جا رہا ہے۔ احتساب اور لوٹی دولت واپس لینے کا اس نے واضح طور پر کہہ دیا۔ عوام کو بتا دیا کہ اب ان بے ایمانوں پر ہاتھ ڈلے گا تو یہ چیخیں گے ان کی جمہوریت خطرے میں پڑے گی۔
کچھ کمی اور تشنگی بھی رہ گئی۔ انسانی کاوش جتنی ہی اچھی کیوں نہ ہواس میں بہتری کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عمران میں جذبہ بھی تھا، احساس بھی، یقین بھی اور خلوص بھی۔ اس سے اچھی تقریر میں نے آج تک نہیں سنی۔ عمران نے نیک نیتی سے شروعات کر دی ہیں۔ اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔ کیا عجب وہ عمران کو کامیاب کر دے اور ہمارے بچوں کا پاکستان ہمارے خوابوں کا پاکستان ہو۔
بشکریہ روزنامہ 92۔
بہت سے وزیر اعظم ہم دیکھ چکے اور قوم سے ان کے وہ خطاب بھی سن چکے پیشہ ور جنہیں لکھتے تھے اور وزرائے اعظم ایک رسم پوری کرتے ہوئے ایسے پڑھ دیا کرتے تھے جیسے کوئی خرانٹ تاجر کسی اتوار بازار کا نرخ نامہ پڑھ کر سنا رہا ہو۔ عمران نے تو دلوں کو چھو لیا۔ عوام سے خطاب نہیں کیا اس نے لوگوں سے باتیں کیں۔ گھر کا بڑا جیسے سب کے سامنے دل کھول کے رکھ دے۔ سچائی ِ خلوص ِ اور درد مندی کے ساتھ۔ اس سے اچھی امیدیں تو شروع سے تھیں لیکن وہ یوں دلوں کے تار ہلا دے گا یہ کبھی نہیں سوچا تھا۔ اس نے حیران کر دیا۔
وہ تو اپنی بات کہہ کر چلا گیا، سننے والوں کی پلکوں میں یہ نمی سی کیوں اتر آئی ہے؟ کیا خوشی کے بھی آنسو ہوتے ہیں؟ آغاز ہی حیران کن تھا۔ میں یہی سمجھتا رہا کہ عمران جب ریاست مدینہ کی بات کرتا ہے تو شاید برائے وزنِ بیت۔ میں نے اس کی یہ بات ہمیشہ اس کی سیاسی ضرورت ہی سمجھی۔ مجھے ہر گز اس سے یہ حسن ظن نہ تھا کہ وہ ریاست مدینہ کی سیاسی، سماجی اور قانونی مبادیات سے واقف ہو گا۔ لیکن یہ کیا؟ اس ” یہودی ایجنٹ‘‘ کو تو اچھی طرح معلوم تھا مدینے کی ریاست کیا تھی اور وہ کن اعلی اصولوں پر کھڑی تھی۔ کس اعتماد سے ایک ایک کر کے وہ گنوا رہا تھا کہ ریاست مدینہ کے یہ وہ بنیادی اوصاف تھے جو مغرب نے اختیار کیے اور ترقی کی لیکن ہم نے چھوڑ دیے اور رسوا ہو گئے۔
ایک عرصے سے یہ سوال مجھے اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھا کہ ہماری سیاست عام آدمی کو اپنا موضوع کیوں نہیں بناتی۔ یہ صرف سیاست کے برہمن طبقے کی بات کیوں کرتی ہے۔ لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں لیکن سیاسی بیانیے میں اگر کوئی مظلوم اور قابل رحم ہے تو عالی جاہ نواز شریف ہیںیا ان کی صاحبزادی جن کی لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں ہوا کرتی تھی۔ جیلوں میں قیدی جانوروں سے بھی بد تر زندگی گزار رہے ہیں لیکن وہ یا ان کے مسائل کبھی زیر بحث نہیں آئے۔ زیر بحث آیا تو صرف اتنا کہ نواز شریف صاحب کا غسل خانہ صاف نہیں ہے اور ان کو فی الفور ائر کنڈیشنڈ کی سہولت دی جائے۔ پورے معاشرے کو جانور سمجھ لیا گیا تھا اور خوشیوں پر صرف ایک طبقے کا حق تسلیم کر لیا گیا تھا۔
ٹاک شو بھی سیاست کے برہمنوں کے مسائل پر، کالم کا موضوع بھی یہی سیاسی برہمن، اخبارات کے صفحہ اول پر بھی اسی سیاسی برہمن طبقے کا قبضہ، خوشیوں پر بھی صرف ان کا حق، انسانی حقوق بھی صرف ان کے لیے اور احتجاج بھی صرف ان کے مسائل پر۔ عام آدمی تو غلام ابن غلام تھا جس کا وسائل پر کوئی حق ہے نہ خوشیوںپر نہ ہی وہ اس قابل ہے کہ اس کو موضوع بنایا جائے۔ عمران نے یہ شیطانی طلسم بھی توڑ دیا۔ اس نے بتایا کہ اے لوگو تم ان کے غلام نہیں آزاد ہو۔ اس نے اعدادو شمار قوم کے سامنے رکھ دیے کہ دیکھ لو تمہارے اتنے لاکھ بچے ہر سال صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔
نواز شریف کے صاحبزادے کی جے آئی ٹی میں پیشی کی ایک تصویر سامنے آ گئی تو اہل دربار نے پاؤں جلی بندریا کی طرح ٹاک شوز اور کالموں میں احتجاج فرمائے تھے لیکن نا اہل وزیر اعظم کے قافلے نے ایک بچے کو روند ڈالا تو ارشاد ہوا یہ جمہوریت کا شہید ہے۔ حالت یہ ہے کہ ہر سال ڈھائی لاکھ بچے پاکستان میں ڈائریا کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ جی ہاں دو لاکھ پچاس ہزار بچے۔ کیا کبھی ہم نے سنا کہ یہ بات پارلیمان میں زیر بحث آئی ہو۔ کبھی رائے ونڈ یا نواب شاہ کے محلات میں اس پر کوئی ہنگامی اجلاس بلایا گیا ہو؟ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی رپورٹ کے مطابق ہر سال 200000( دو لاکھ) بچے مضر صحت پانی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے ہاتھوں مر رہے ہیں۔ سر پیٹ لیجیے، ایک یا دو نہیں پورے دو لاکھ بچے لیکن کسی کو پرواہ نہیں۔ البتہ جاتی امرا کے مور مر جائیں تو طوفان اٹھ کھڑا ہو تا ہے۔
انڈی پنڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال تیس لاکھ لوگ مضر صحت پانی کی وجہ سے انفیکشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ کیا آپ کو یاد ہے کبھی پارلیمان نے عوام کے ٹیکس کو پھونک کر سجائے گئے اجلاس میں اس پر بات کی ہو؟ عمران نے سب کچھ کھول کر رکھ دیا کہ وزیر اعظم ہاؤس میں غریب کی رگوں سے لہونچوڑ کر کیسے عیاشی کی جاتی ہے۔ اس نے سوال اٹھایا کہ دس سالوں میں اتنا زیادہ قرض لیا گیاوہ قرض کہاں گیا؟ لوٹ مار کا ایک بازار گرم تھا۔ وہی حکمران تھے وہی تاجر چنانچہ صنعتکاروں کو 140 ارب کی سبسڈی دی گئی اور 340 ارب کے قرضے معاف کر دیے گئے۔ پانی کی کمپنیاں تھیںیا ایسٹ انڈیا کمپنی کہ ان کے سی ای او کو 25، 25 لاکھ تنخواہیں دی جارہی تھیں۔ کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ قومی خزانہ خالی ہو گیا ان کے ذاتی کاروبار ترقی کرتے رہے۔
جمہوریت کے نام پر لوٹ مار کرنے والوں نے کارٹل بنا رکھا تھا عمران نے اسے توڑ کر پھینک دیا۔ تعلیم کی صورت حال یہ ہے کہ پانچ سے چھ سال کی عمر کے بچوں کا 44 فیصد کسی سکول میں نہیں جا رہا۔ کل 24 ملین بچے سکول نہیں جاتے اور ایک ملین میں دس لاکھ ہوتے ہیں۔ صرف 30 فیصد بچے ایسے ہیں جو پہلی جماعت میں داخلہ لیتے ہیں اور دسویں تک پڑھتے رہتے ہیں، 70 فیصد طلباء ایسے ہیں جو پہلی کلاس سے دسویں تک کے درمیان سکول چھوڑ جاتے ہیں۔ بلوچستان میں 70 فیصد بچے سکول نہیں جا رہے۔ فاٹا میں 60 فیصد بچے سکول سے باہر ہیں۔ گویاچند سال بعد نا خواندہ بے روزگاروں کا ایک تازہ لشکر دستک دینے والا ہے۔ کیا آپ نے کبھی سنا کہ پارلیمان میں اس مسئلے پر بات ہوئی؟ یہ عمران ہے جس نے اس پر بات کی اور سرکاری اداروں کے بہتر کرنے کا عزم کیا۔
وزیر اعظم ہاؤس میں کتنے آئے اور کتنے گئے۔ یہ مگر صرف عمران ہے جسے یہ درد محسوس ہوا کہ غریب قوم کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے۔ پانچ سو سے زیادہ ملازمیں اور گاڑیوں کالشکر۔ عمران نے اپنی ذات سے آغاز کیا۔ گاڑیاں نیلام ہوں گی۔ پانچ سو سے زیادہ ملازمین میں سے صرف دو رکھے گئے۔ کون کہتا ہے اس نے صرف باتیں کیں؟ اس نے اپنی ذات سے آغاز کر کے دکھا دیا ہے۔ ماحولیات کے مسئلے کو اس ملک میں صرف عمران نے سمجھا۔ اس نے کے پی کے میں درخت لگوائے اب سارے ملک میں یہ کام ہونے جا رہا ہے۔ احتساب اور لوٹی دولت واپس لینے کا اس نے واضح طور پر کہہ دیا۔ عوام کو بتا دیا کہ اب ان بے ایمانوں پر ہاتھ ڈلے گا تو یہ چیخیں گے ان کی جمہوریت خطرے میں پڑے گی۔
کچھ کمی اور تشنگی بھی رہ گئی۔ انسانی کاوش جتنی ہی اچھی کیوں نہ ہواس میں بہتری کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عمران میں جذبہ بھی تھا، احساس بھی، یقین بھی اور خلوص بھی۔ اس سے اچھی تقریر میں نے آج تک نہیں سنی۔ عمران نے نیک نیتی سے شروعات کر دی ہیں۔ اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔ کیا عجب وہ عمران کو کامیاب کر دے اور ہمارے بچوں کا پاکستان ہمارے خوابوں کا پاکستان ہو۔
بشکریہ روزنامہ 92۔
- Featured Thumbs
- https://i.imgur.com/mZ5mdQn.jpg