عمران خان کےکن اقدامات نے انہیں کمزور اور پی ڈی ایم کو مضبوط کیا؟

ansiah112.jpg

عمران خان نے اپنی سیاست کو عدالتوں اور سڑکوں پر ہونے والے احتجاج تک محدود کردیا ہے۔ قومی اسمبلی سے اپنی پارٹی کے ارکان کے اجتماعی استعفوں کے فیصلے، اور پنجاب وخیبرپختونخوا میں اپنی حکومت اور اسمبلیوں کی تحلیل کے فیصلے سے ان کے مخالفین کی بجائے عمران خان کو خود کو نقصان ہوا ہے۔

نجی اخبار سے منسلک سینئر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ عمران خان کے مخالفین ان کے ایسے فیصلوں کی وجہ سے مضبوط ہوئے ہیں حالانکہ یہ فیصلے پی ڈی ایم کی حکومت کو کمزور کرنے اور عام انتخابات کی راہ ہموار کرنے کیلئے کیے گئے تھے۔ 2018 کے انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آنے والی پی ٹی آئی نے خود کو قومی اسمبلی سے نکال باہر کیا ہے۔

صحافی کے مطابق اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پارٹی ارکان نے استعفوں کا اعلان کیا تاکہ پی ڈی ایم اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لاکر جلد الیکشن کرائے جا سکیں۔

اس کے بعد پی ڈی ایم حکومت نے فوری طور پر استعفے قبول نہیں کیے اور اس میں اس وقت تک تاخیر کی جب عمران خان نے اعلان کیا کہ استعفے واپس لے کر پارٹی کی طاقت کو قومی اسمبلی میں استعمال کرکے شہباز شریف کی حکومت کو گرایا جائے گا اور اس کیلئے اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے کہا جائے گا یا پھر عدم اعتماد کی تحریک لائی جائیگی۔

تاہم اب پی ڈی ایم نے عمران خان کو قومی اسمبلی میں اپنی طاقت دکھانے سے محروم کر دیا اور پی ٹی آئی ارکان کے استعفے منظور کرلیے۔ اب اپوزیشن حکومت کی حامی بن گئی ہے اور اس میں زیادہ تر ایسے ارکان ہیں جو پی ٹی آئی کے منحرف ارکان ہیں، اور اب پی ڈی ایم حکومت کیلئے ایوان میں کوئی خطرہ باقی نہیں رہا۔

اب شہباز شریف کیلئے عدم اعتماد کی تحریک کا کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی اعتماد کا ووٹ لینے کے معاملے میں کسی نقصان کا اندیشہ ہے۔ عمران خان نے مرکز میں اپنے مخالفین کو مضبوط کرنے کے ساتھ کے پی اور پنجاب اسمبلی تحلیل کرکے اپنی سیاسی اور انتظامی اتھارٹی کو بھی نقصان پہنچایا جس کا فائدہ پی ڈی ایم کو ہوا۔

اسمبلیوں کے تحلیل ہونے سے دونوں صوبوں میں پی ٹی آئی حکومت ختم ہوگئی۔ سیاسی اور انتظامی لحاظ سے پنجاب کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے اہم رہا ہے۔ لیکن عمران خان نے خود ہی صوبہ پی ڈی ایم کے حوالے کر دیا جہاں پی ڈی ایم کے من پسند شخص محسن نقوی اب نگراں وزیراعلیٰ ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے محسن نقوی پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے گزشتہ سال اپریل میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے نقوی کو پی ٹی آئی کا دشمن قرار دیا۔ اب عمران خان کو ڈر ہے کہ نقوی کے ذریعے پی ٹی آئی کو صوبے میں نشانہ بنایا جائے گا۔ نقوی کے تقرر کیخلاف عمران خان نے مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور پرویز الہٰی کی زیر قیادت ق لیگ نے اس تقرر کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے سوچا تھا کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے سے الیکشن کی راہ ہموار ہوگی لیکن ان کے اس فیصلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب وہ سڑکوں پر دھرنے دینے اور عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہیں۔

اس سے قبل گزشتہ سال اپریل میں حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان کے تمام اقدامات (اجتماعی استعفوں سے لیکر لانگ مارچ اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے تک) کا مقصد ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لا کر جلد الیکشن کرانے کا مطالبہ پورا کرانا تھا۔

مگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہِ راست تصادم پہلے جنرل باجوہ کے ساتھ اور اس کے بعد موجودہ آرمی چیف کے ساتھ کی وجہ سے عمران خان کو لگتا ہے کہ ان کا نام ملکی سیاست سے اب حذف ہونے ہی والا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو یہ بھی عمران خان کیلئے ایک نقصان ہی ہے اور اس کا بڑا فائدہ پی ڈی ایم کو ہوگا جو یہی چاہے گی کہ یہ تصادم جاری رہے اور وہ سیاسی فائدہ حاصل کرتے رہیں۔

الیکشن کمیشن بھی عمران خان کیلئے دشمن بنا ہوا ہے کیونکہ عمران خان کسی بھی سیاسی مخالف سے بات کرنے کو تیار نہیں کیونکہ عمران خان اپنے مخالفین کو چور اور ڈاکو قرار دیتے ہیں۔ وہ جلد الیکشن چاہتے ہیں، نئے الیکشن کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جب عام انتخابات ہوں تو مرکز میں ان کی پسند کا نگران سیٹ اپ آئے۔

انصار عباسی کا ماننا ہے کہ سب سے بڑی سیاسی جماعت اور ایک اہم اسٹیک ہولڈر بن کر ابھرنے والی سیاسی جماعت پی ٹی آئی نے اپنے تمام تر قانونی آپشنز اور سیاسی معاملات میں پی ڈی ایم کے آگے شکست خوردہ ہے۔
 

Bebabacha

Senator (1k+ posts)
Adam eitmad sirf us waqt tk khtra thi jb tk mqm ke elehda huney ke chance they. Jo nhi hain.. Pti apnay saray members ke sath bhi kch nhi kr skti thi
 

Pak1stani

Prime Minister (20k+ posts)
تحریک انصاف اور عمران خان کی عوامی مقبولیت مقبولیت عروج پر ،
آج صاف شفاف انتخابات بو تو تین چوتھائی اکثریت اور یہ کہہ رہا ہے عمران خان کمزور ہوے ہیں

عمران خان اور تحریک انصاف انصاف کی کوشش ہے کہ حالات خراب نہ ہو جس کا فائدہ اور کوشش حافظ میر جعفر اور اسکی کٹھ پتلیاں کر رہی ہیں
 

Lubnakhan

Minister (2k+ posts)
We support PTI to bring a change in system of Pakistan. It was useless to sit in assemblies and be part of status quo. The moment IK lost his government, fascist activities against insafians started, this shows how flaws and fragility of system. The purpose of government should not be to just escape from persecution. People must join their IK to change this system that protects there one in power.
 

3rd_Umpire

Chief Minister (5k+ posts)
ansiah112.jpg

عمران خان نے اپنی سیاست کو عدالتوں اور سڑکوں پر ہونے والے احتجاج تک محدود کردیا ہے۔ قومی اسمبلی سے اپنی پارٹی کے ارکان کے اجتماعی استعفوں کے فیصلے، اور پنجاب وخیبرپختونخوا میں اپنی حکومت اور اسمبلیوں کی تحلیل کے فیصلے سے ان کے مخالفین کی بجائے عمران خان کو خود کو نقصان ہوا ہے۔

نجی اخبار سے منسلک سینئر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ عمران خان کے مخالفین ان کے ایسے فیصلوں کی وجہ سے مضبوط ہوئے ہیں حالانکہ یہ فیصلے پی ڈی ایم کی حکومت کو کمزور کرنے اور عام انتخابات کی راہ ہموار کرنے کیلئے کیے گئے تھے۔ 2018 کے انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آنے والی پی ٹی آئی نے خود کو قومی اسمبلی سے نکال باہر کیا ہے۔

صحافی کے مطابق اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پارٹی ارکان نے استعفوں کا اعلان کیا تاکہ پی ڈی ایم اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لاکر جلد الیکشن کرائے جا سکیں۔

اس کے بعد پی ڈی ایم حکومت نے فوری طور پر استعفے قبول نہیں کیے اور اس میں اس وقت تک تاخیر کی جب عمران خان نے اعلان کیا کہ استعفے واپس لے کر پارٹی کی طاقت کو قومی اسمبلی میں استعمال کرکے شہباز شریف کی حکومت کو گرایا جائے گا اور اس کیلئے اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے کہا جائے گا یا پھر عدم اعتماد کی تحریک لائی جائیگی۔

تاہم اب پی ڈی ایم نے عمران خان کو قومی اسمبلی میں اپنی طاقت دکھانے سے محروم کر دیا اور پی ٹی آئی ارکان کے استعفے منظور کرلیے۔ اب اپوزیشن حکومت کی حامی بن گئی ہے اور اس میں زیادہ تر ایسے ارکان ہیں جو پی ٹی آئی کے منحرف ارکان ہیں، اور اب پی ڈی ایم حکومت کیلئے ایوان میں کوئی خطرہ باقی نہیں رہا۔

اب شہباز شریف کیلئے عدم اعتماد کی تحریک کا کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی اعتماد کا ووٹ لینے کے معاملے میں کسی نقصان کا اندیشہ ہے۔ عمران خان نے مرکز میں اپنے مخالفین کو مضبوط کرنے کے ساتھ کے پی اور پنجاب اسمبلی تحلیل کرکے اپنی سیاسی اور انتظامی اتھارٹی کو بھی نقصان پہنچایا جس کا فائدہ پی ڈی ایم کو ہوا۔

اسمبلیوں کے تحلیل ہونے سے دونوں صوبوں میں پی ٹی آئی حکومت ختم ہوگئی۔ سیاسی اور انتظامی لحاظ سے پنجاب کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے اہم رہا ہے۔ لیکن عمران خان نے خود ہی صوبہ پی ڈی ایم کے حوالے کر دیا جہاں پی ڈی ایم کے من پسند شخص محسن نقوی اب نگراں وزیراعلیٰ ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے محسن نقوی پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے گزشتہ سال اپریل میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے نقوی کو پی ٹی آئی کا دشمن قرار دیا۔ اب عمران خان کو ڈر ہے کہ نقوی کے ذریعے پی ٹی آئی کو صوبے میں نشانہ بنایا جائے گا۔ نقوی کے تقرر کیخلاف عمران خان نے مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور پرویز الہٰی کی زیر قیادت ق لیگ نے اس تقرر کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے سوچا تھا کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے سے الیکشن کی راہ ہموار ہوگی لیکن ان کے اس فیصلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب وہ سڑکوں پر دھرنے دینے اور عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہیں۔

اس سے قبل گزشتہ سال اپریل میں حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان کے تمام اقدامات (اجتماعی استعفوں سے لیکر لانگ مارچ اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے تک) کا مقصد ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لا کر جلد الیکشن کرانے کا مطالبہ پورا کرانا تھا۔

مگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہِ راست تصادم پہلے جنرل باجوہ کے ساتھ اور اس کے بعد موجودہ آرمی چیف کے ساتھ کی وجہ سے عمران خان کو لگتا ہے کہ ان کا نام ملکی سیاست سے اب حذف ہونے ہی والا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو یہ بھی عمران خان کیلئے ایک نقصان ہی ہے اور اس کا بڑا فائدہ پی ڈی ایم کو ہوگا جو یہی چاہے گی کہ یہ تصادم جاری رہے اور وہ سیاسی فائدہ حاصل کرتے رہیں۔

الیکشن کمیشن بھی عمران خان کیلئے دشمن بنا ہوا ہے کیونکہ عمران خان کسی بھی سیاسی مخالف سے بات کرنے کو تیار نہیں کیونکہ عمران خان اپنے مخالفین کو چور اور ڈاکو قرار دیتے ہیں۔ وہ جلد الیکشن چاہتے ہیں، نئے الیکشن کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جب عام انتخابات ہوں تو مرکز میں ان کی پسند کا نگران سیٹ اپ آئے۔

انصار عباسی کا ماننا ہے کہ سب سے بڑی سیاسی جماعت اور ایک اہم اسٹیک ہولڈر بن کر ابھرنے والی سیاسی جماعت پی ٹی آئی نے اپنے تمام تر قانونی آپشنز اور سیاسی معاملات میں پی ڈی ایم کے آگے شکست خوردہ ہے۔
@Rana Asim
Don't promote bastards like AA unnecessarily,,his biased opinion has no credibility
 

Zulu76

MPA (400+ posts)
ansiah112.jpg

عمران خان نے اپنی سیاست کو عدالتوں اور سڑکوں پر ہونے والے احتجاج تک محدود کردیا ہے۔ قومی اسمبلی سے اپنی پارٹی کے ارکان کے اجتماعی استعفوں کے فیصلے، اور پنجاب وخیبرپختونخوا میں اپنی حکومت اور اسمبلیوں کی تحلیل کے فیصلے سے ان کے مخالفین کی بجائے عمران خان کو خود کو نقصان ہوا ہے۔

نجی اخبار سے منسلک سینئر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ عمران خان کے مخالفین ان کے ایسے فیصلوں کی وجہ سے مضبوط ہوئے ہیں حالانکہ یہ فیصلے پی ڈی ایم کی حکومت کو کمزور کرنے اور عام انتخابات کی راہ ہموار کرنے کیلئے کیے گئے تھے۔ 2018 کے انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آنے والی پی ٹی آئی نے خود کو قومی اسمبلی سے نکال باہر کیا ہے۔

صحافی کے مطابق اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پارٹی ارکان نے استعفوں کا اعلان کیا تاکہ پی ڈی ایم اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لاکر جلد الیکشن کرائے جا سکیں۔

اس کے بعد پی ڈی ایم حکومت نے فوری طور پر استعفے قبول نہیں کیے اور اس میں اس وقت تک تاخیر کی جب عمران خان نے اعلان کیا کہ استعفے واپس لے کر پارٹی کی طاقت کو قومی اسمبلی میں استعمال کرکے شہباز شریف کی حکومت کو گرایا جائے گا اور اس کیلئے اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے کہا جائے گا یا پھر عدم اعتماد کی تحریک لائی جائیگی۔

تاہم اب پی ڈی ایم نے عمران خان کو قومی اسمبلی میں اپنی طاقت دکھانے سے محروم کر دیا اور پی ٹی آئی ارکان کے استعفے منظور کرلیے۔ اب اپوزیشن حکومت کی حامی بن گئی ہے اور اس میں زیادہ تر ایسے ارکان ہیں جو پی ٹی آئی کے منحرف ارکان ہیں، اور اب پی ڈی ایم حکومت کیلئے ایوان میں کوئی خطرہ باقی نہیں رہا۔

اب شہباز شریف کیلئے عدم اعتماد کی تحریک کا کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی اعتماد کا ووٹ لینے کے معاملے میں کسی نقصان کا اندیشہ ہے۔ عمران خان نے مرکز میں اپنے مخالفین کو مضبوط کرنے کے ساتھ کے پی اور پنجاب اسمبلی تحلیل کرکے اپنی سیاسی اور انتظامی اتھارٹی کو بھی نقصان پہنچایا جس کا فائدہ پی ڈی ایم کو ہوا۔

اسمبلیوں کے تحلیل ہونے سے دونوں صوبوں میں پی ٹی آئی حکومت ختم ہوگئی۔ سیاسی اور انتظامی لحاظ سے پنجاب کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے اہم رہا ہے۔ لیکن عمران خان نے خود ہی صوبہ پی ڈی ایم کے حوالے کر دیا جہاں پی ڈی ایم کے من پسند شخص محسن نقوی اب نگراں وزیراعلیٰ ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے محسن نقوی پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے گزشتہ سال اپریل میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے نقوی کو پی ٹی آئی کا دشمن قرار دیا۔ اب عمران خان کو ڈر ہے کہ نقوی کے ذریعے پی ٹی آئی کو صوبے میں نشانہ بنایا جائے گا۔ نقوی کے تقرر کیخلاف عمران خان نے مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور پرویز الہٰی کی زیر قیادت ق لیگ نے اس تقرر کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے سوچا تھا کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے سے الیکشن کی راہ ہموار ہوگی لیکن ان کے اس فیصلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب وہ سڑکوں پر دھرنے دینے اور عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہیں۔

اس سے قبل گزشتہ سال اپریل میں حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان کے تمام اقدامات (اجتماعی استعفوں سے لیکر لانگ مارچ اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے تک) کا مقصد ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لا کر جلد الیکشن کرانے کا مطالبہ پورا کرانا تھا۔

مگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہِ راست تصادم پہلے جنرل باجوہ کے ساتھ اور اس کے بعد موجودہ آرمی چیف کے ساتھ کی وجہ سے عمران خان کو لگتا ہے کہ ان کا نام ملکی سیاست سے اب حذف ہونے ہی والا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو یہ بھی عمران خان کیلئے ایک نقصان ہی ہے اور اس کا بڑا فائدہ پی ڈی ایم کو ہوگا جو یہی چاہے گی کہ یہ تصادم جاری رہے اور وہ سیاسی فائدہ حاصل کرتے رہیں۔

الیکشن کمیشن بھی عمران خان کیلئے دشمن بنا ہوا ہے کیونکہ عمران خان کسی بھی سیاسی مخالف سے بات کرنے کو تیار نہیں کیونکہ عمران خان اپنے مخالفین کو چور اور ڈاکو قرار دیتے ہیں۔ وہ جلد الیکشن چاہتے ہیں، نئے الیکشن کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جب عام انتخابات ہوں تو مرکز میں ان کی پسند کا نگران سیٹ اپ آئے۔

انصار عباسی کا ماننا ہے کہ سب سے بڑی سیاسی جماعت اور ایک اہم اسٹیک ہولڈر بن کر ابھرنے والی سیاسی جماعت پی ٹی آئی نے اپنے تمام تر قانونی آپشنز اور سیاسی معاملات میں پی ڈی ایم کے آگے شکست خوردہ ہے۔
All Pakistan needs to urinate on this GHQ lefafa Tawaif especially on his white beard. Disgusting kunjur.