
بر صغیر کے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے قائد اعظمؒ کی صورت میں جو رہنما عطا فرمایا تھا اس کی ذمہ داری
بس اسی قدر تھی کہ وہ مسلمانوں کو انگریز کی غلامی کے بعد ہندوکے جوئے میں جانے سے بچا لے۔اس نابغہء روزگار شخص نے اپنی پوری توانائیاں صرف کر کے یہ ذمہ داری نبھا دی اور اپنوں اور غیروں کے تمام حربوں کو ناکام بناتے ہوئے ہندوستان کے مسلمانوں کو قدم جمانے کے لئے سرزمین دلوانے میں کامیاب رہے وگرنا ہندو تو دل وجان سے اس نعرے کو اپنا چکے تھے کہ ہندوستان میں رہنا ہے تو شدھی ہو جاؤ یعنی ہندو بن کر اچھوتوں سے بدتر زندگی گزارو ورنہ بحیرہ عرب میں ڈوبنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔آج پاکستان میں جو مفاد پرست یہ نعرے لگاتے رہتے ہیں کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو ہم برصغیر میں ایک قوت ہوتے،وہ قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔ متحدہ ہندوستان میں ہندو مسلم تناسب 14:86تھا۔اس تناسب میں کتنا ہی فرق کیوں نہ آ جاتاہم نے اقلیت ہی رہنا تھا۔اس لئے ہمیں خود غرض ٹولے کو نظر انداز کرتے ہوئے ہر صورت اپنے وطن کو بچانا ہے کہ اسی میں ہماری اور آئندہ نسلوں کی بقا ہے۔
ہمارے ساتھ بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہمیں برصغیر میں قدم دھرنے کی جگہ تو مل گئی مگر ہم ایک قوم نہ بن سکے۔در اصل انگریز نے اپنی نو آبادیوں کے لئے یہ منصوبہ تیار کر رکھا تھا کہ ہر وہ ملک جہاں سے اسے جانا پڑے گاوہاں وہ نوکر شاہی کی صورت میں ایسا مفاد پرست ٹولہ چھوڑتا جائے گا جو اس کے جانے کے بعد بھی اس کی گرفت برقرار رکھے۔کیونکہ بنیادی طور پہ انگریز تاجر تھا۔وہ تجارت کی غرض سے ہی برصغیر اور باقی ممالک میں پہنچا تھا۔ جہاں جہاں اسے حالات ساز گار نظر آئے وہیں وہ قبضہ جماتا اور لوٹ مار مچاتا چلا گیا۔وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ آخر کار اسے ان علاقوں سے دست بردار ہونا پڑے گا۔چنانچہ وہ ایسے بندوبست کرتا گیا کہ اس کے جانے کے بعد بھی لوگ اس کی تہذیب و زبان کے دلدادہ رہیں اور یوں اس کی کتابیں، تعلیم،فلمیں اور موسیقی گرما گرم پکوڑوں کی طرح بکتی رہے۔ اس کا یہ حربہ کامیاب رہا اور اس کی نو آبادیاں آج تک اس کے طلسم میں گرفتار ہیں۔
اسی طلسم کی بدولت ہم آجتک ایک قوم نہیں بن سکے اور مفاد پرست ٹولہ نہ صرف حکمرانی پہ چھا گیا بلکہ اس کی مدد سے یہ ملک یوں کترا جاتا رہا جیسے چوہے پنیر کتر لیتے ہیں۔اسی مفادپرست ٹولے نے عوام کے بڑے حصے کو جہالت کے غلاف میں لپیٹ کر اپنا غلام بے دام بنا لیا۔جو تھوڑی بہت تعلیم دی بھی گئی اس طبقاتی تعلیم کا ڈھانچہ ایسا رکھا گیا کہ نئی نسل کے بیشتر افراد نے ڈگری کے حصول اورکرسی پہ بیٹھ کے پیسہ کمانے کو ہی زندگی کا مقصد سمجھ لیا۔نوکر شاہی کے پردوں میں چھپے اس ٹولے نے یہ بندوبست بھی کیا کہ حکومت کے ایوانوں میں داخل ہونے والا ہر فرد کان نمک میں نمک بن کر شامل ہوتا رہے۔
چنانچہ ایوب خان سے پرویز مشرف تک ہر حکمران عوام کی فلاح کے گیت گاتا اونچے ایوانوں میں داخل ہوا مگر سامری کی میٹھی دھنوں سے مست ہو کر سب کچھ بھلا بیٹھا ۔یوں خود بھی ذلیل و خوار ہوا اور عوام کو بھی مزید پستیوں میں دھکیلتا گیا۔میں نے اس فہرست میں مسٹر زرداری کو اس لئے شامل نہیں کیا کہ وہ تو خود ہی حلوہ کھانے کا ارادہ لے کر ان محلات میں داخل ہوئے ہیں۔جس روز مزید حلوے کی گنجائش نہ رہے گی اسی روز پچھلے دروازے سے باہر نکل جائیں گے۔ اس تمام صورت حال کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام 67برسوں سے کولہو کے بیل کی طرح گھوم رہے ہیں۔ہر چابک والا کولہو پہ سوار ہو کر عوام کو چابک مار مار کر لہو لہان کرتا ہے۔سواری کا لطف بھی اٹھاتا ہے اور مطلوبہ مقدار میں تیل نچوڑ کر چلتا بنتا ہے۔
وسائل اور افرادی قوت سے بھر پور یہ ملک مسائل کے گرداب میں تھپیڑے کھا رہا ہے اور ایسے ہاتھ کا منتظر ہے جو اسے بھنور سے کھینچ نکالے۔بہت سے لوگ عوام کو لعن طعن کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر اس مصیبت سے نکلنا چاہتے ہو تو خود ہی نکلو۔حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ہجوم بذات خود کچھ نہیں ہوتا صرف ایک دانا وبینا رہنما ہی اسے منزل مقصود تک پہنچا سکتا ہے ہمیں بھی ایک ایسے حکمران کی ضرورت ہے جو خود حرام خور نہ ہو اور کسی دوسرے کو بھی حرام خوری کرنے نہ دے۔طبقہ بالا کی عیاشی کا ہر چور دروازہ بند کر دے اور مراعات یافتہ طبقے کی ہر بے جا رعایت چھین لے ا ور عوام کو ہر وہ سہولت ،سکھ اور عزت دے جس کے وہ حقدار ہیں۔ایسا جوہر قابل ہمیں جس روز مل گیاہماری قسمت سنور جائے گی اور ہمیں قائد کے خوابوں کا پاکستان مل جائے گا۔
موجودہ دور میں جب ہم اپنے اردگرد نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں عمران خان کی صورت دکھائی دیتی ہے جو عرصہ دراز سے ہمارے خوابوں کی صورت گری میں مصروف ہے۔پہلے بہترین کھلاڑی اور پھر صحت و تعلیم کے بہترین منصوبوں کی صورت میں عوام کی فلاح و بہود کے کام کرتا ہوا۔نڈر وبیباک۔چبا چبا کر گول مول باتیں کرنے کے بجائے سب کچھ صاف صاف کہنے والا۔
مگر جونہی وہ ابھر کر سامنے آتا ہے اس کے خلاف اس قدر گرد اٹھائی جاتی ہے کہ سب کچھ گڈ مڈ ہو جاتا ہے۔جمعرات 22نومبر کو عمران خان نے کامران شو میں ایک مرتبہ پھر اپنے عزائم کو دہرایا ہے اور اپنی مضبوط خارجہ پالیسی اور عوامی فلاح کے منصوبوں کو دہرایا ہے۔جس کا بنیادی پتھر یہی ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر عوامی خدمت کے تمام اداروں کو غیر سیاسی بنا کر کھاؤ پیؤ گروہ کے تمام راستے بند کر دے گا اور ایسا کرنے کے لئے اسے صرف نوے دن درکار ہیں۔اس نے یہ بھی کہا کہ اس دعوے پہ اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے لیکن بھارت کے صوبے بہار میں ایک ایمان دار وزیر اعلیٰ نے آتے ہی قانون کی بالا دستی اور نوکر شاہی کو غیر سیاسی بنا کر نوے دن کے اندر صوبے کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ عمران خان نے اس اعتراض کا جواب بھی دیا کہ پیٹے ہوئے مہرے اس کی جماعت میں جوق در جوق شامل ہو رہے ہیں پر وہ اپنی شرائط پہ نہیں بلکہ عمران خان کے اصولوں کو مان کر اس کی جماعت میں آ رہے ہیں۔یہ بات وزن رکھتی ہے۔البتہ انتخابات سے پہلے عمران کو دو باتوں پہ خاص توجہ دینا ہو گی۔اس ملک کے عوام صدیوں سے ظل الہٰیوں کے پاؤں کی دھول کو آنکھوں کا سرمہ بناتے چلے آئے ہیں۔انہیں یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ حکمرانوں کے ہاتھوں خوار ہونا ان کی تقدیر ہے اور اسی میں ان کی نجات ہے۔ان کی قسمت کے ٹھیکدار اسی لئے ان تک علم کی روشنی پہنچنے نہیں دیتے اور ان کی نفسیات سے فائدہ اٹھا کر ووٹ حاصل کر لیتے ہیں۔ ذات برادری دوسرا بڑا عنصر ہے جس سے لوگ پڑھ لکھ کر بھی باہر نہیں نکل پاتے اور لاکھ خامیوں کے باوجود برادری کا بندہ ان کی پہلی ترجیح ہوتا ہے۔اگر عمران خان اور اس کے نوجوان سوچی سمجھی سازش کے تحت پھیلائی گئی دشنام طرازیوں کے جال میں الجھنے کے بجائے اپنی توجہ ان دو عوامل کی طرف مرکوز کریں اور عوام کو اس طلسم سے باہر لے آئیں ۔تبھی ان کی جیت ہے۔ہماری دعائیں تو اسی انسان کے لئے وقف ہیں جو عوام کو بے پناہ ذلت و مصائب سے نجات دلائے گا۔باقی سیاستدانوں سے تو یہی کہنے کو جی چاہتا ہے۔
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار تم سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں