Syed Haider Imam
Chief Minister (5k+ posts)
عمران خان کا متبادل کون ؟
تحریر :- سید حیدر امام
( ٹورنٹو )
تحریر :- سید حیدر امام
( ٹورنٹو )
ہیڈلائن دیکھ کر آپکے ذھن میں شائد یہ بات اے . پنڈ وسیا نہیں تے اچکے پہلے ہی ا گئے نہیں. لگتا تو بے وقت کی راگنی مگر الاپنے کی وجہ بہت واضح ہے . حکمران پارٹیاں زوبہ زوال ہیں اور تحریک انصاف کی تمام سیاست عمران خان کی ساکھ کے گرد گھوم رہی ہے . تحریک انصاف کا تنظیمی ڈھانچہ دوسری پارٹیوں کی طرح ہے اور عمران خان کا متبادل کوئی نہیں جسطرح ہم دوسری پارٹیوں میں لیڈرشپ کا بحران دیکھ رہیں ہیں . ٦٩ سالہ کے بعد پاکستان کی سیاسی پارٹیاں کدھر کھڑی ہیں ؟
پہلے بات ہو جاے پاکستان میں پارٹیوں اور عوام کے مائنڈ سیٹ پر . عمران خان پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں موروثیت کی خلاف ہیں مگر انکی اپنی پارٹی کے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اور سینئر سیاستدان پرویز خٹک صاحب اپنے لیڈر کے اس نظریہ سے متفق نظر نہیں اتے . پاکستان میں زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کے ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر ، انجنیئر کا بیٹا انجنیئر اور وکیل کا بیٹا وکیل بنتا ہے . پروفیشنلز کی پروفیشنلز بیٹیاں شادی کے بعد زیادہ تر گھر میں وزیر اطلاعات اور نشریات کے بعد سیدھا وزیراعظم لگ جاتی ہیں اور انکی تعلیمی قابلیت الماری میں اور انکا ھنر مرد کی ان ، بان ، شان اور فرسودہ معاشرے کے ذہنی دیوالیہ پن کی نظر ہو جاتا ہے . پاکستان کے موجودہ سیاسی پس منظر میں سیاسی لیڈرز کے خاندان میں لڑکے زیادہ تر نکمے نکلتے اے ہیں تو قراء بیٹوں کے نام نکل رہا ہے . بھٹو صاحب شہید کے بیٹے اپنے والد کی میراث سنبھالنے کے قابل نہیں تھے اور پھر مروا بھی دے گئے لھذا اس خلا کو بینظیر بھٹو نے پورا کیا. بھٹو خاندان کی سیاسی میراث کو بینظیر بھٹو نے دوام بخش کر آصف زرداری کے قدموں میں رکھ دیا . آصف زرداری کی سیاسی قابلیت اور ذہانت سے بھر پور صلاحیت نے اس پارٹی کو دیمک زدہ اور کھوکھلا کر دیا اور ایک تقریر کے نتیجے میں اب خود ساختہ جلاوطنی کاٹ رہیں ہیں اور پارٹی کو پتلی تماشہ طرز پر چلا رہیں ہیں. بلاول کو سیاست دان سے پارٹی لیڈر کی بجاے ایک شہزادے سے بادشاہت کے مرتبے پر فائز کرنے کے خواہاں ہیں
جب .بلاول بچہ تھا تو کسی کی نظر نہیں پڑتی تھی اور اب بڑا ہوا ہے تو کسی کی اس سے نظر ہٹتی نہیں ہے لیڈرشپ کی قابلیت کا تعین تو دور کی بات لوگ ابھی تک اس بیچارے کی جنس کا تعین نہیں کر پا رہیں ہیں . . بلاول کے مونہ میں جملے ، تقریر ، اشعار اور بھڑکیں ڈال کر پاکستان کے بچوں سے انکا مذاق اڑ وایا جا رہا ہے
دونوں پارٹیوں کی نوجوان قیادت اپنے شوہر اور والد کے بجاے اپنے والد اور نانا کے ناموں کو استمال کر رہیں ہیں جو ہمارے معاشرے میں معنی خیز ھے. نواز شریف کے ٢ عدد "کدو شریف بیٹے" اپنے والد کی لوٹ مار کی صرف " معاشی میراث " سنبھالنے کے قابل ہیں جبکے سیاسی میراث اور جھوٹ کے تمام جراثیم لئے ھوے انکی" رن اوے "بیٹی مرہم نواز / مرہم صفدر کے پاس ٹرانسفر ہو چکی ہے . میرا ایک دلچسپ مشاہدہ ہے کے مریم اور بلاول دونوں کے ایک دوسرے کے دست و گریبان ابھی تک نہیں ھوے ، کیا منظر ہو گا جب دو .......اپس میں لڑیں گیں. ایک شادی شدہ ہے مگر شوہر کو پاس کھڑا کرنے میں توہین محسوس کرتی ہے اور دوسرے کو اپنے باپ کا نام لینے پر شرمندگی . بلاول کی شادی ہو گی کے رخصتی ، لوگوں کی اس بات پر شرطیں کم اور پریس کانفرنس پر روزانہ کی بنیاد پر جگتیں زیادہ لگ رہیں ہیں
موروثی سیاست کے حوالے سے عمران خان اکثر اعتزاز احسن صاحب پر طنز کرتے رہتے ہیں کے وہ سیاست میں اتنے سینئر ہو کر بھی" ابھرتی ہوئی نسوانیت اور مردانگی کے امتزاج سے بھر پور قیادت " کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں عمران خان کا طنز ایک اینکر نے سوال کی صورت میں اعتزاز احسن صاحب کے سامنے رکھ دیا . اعتزاز صاحب نے پہلے سوال کو ٹالا مگر اینکر کے پر زور اصرار پر اسکا بہت خوبصورت جواب دیا . انہوں نے انڈیا کے گاندھی خاندان کا حوالہ دیا کے کسطرح گاندھی خاندان کی سیاسی پارٹی " کانگریس" کی قیادت چلتے چلتے اندرا گاندھی اور انکے بیٹے راہول گاندھی سے ہوتے ھوے سونیا گاندھی تک پونھچی . انکا کہنا تھا کے برصغیر کے عوام کی ذھنی ٹریننگ ہی ایسی ہے . وہ خاندانی موروثیت کو ہی صرف قبول کرتے ہیں اور سیاسی خاندان سے باہر بڑے سے بڑے سیاسی لیڈر کو ریجیکٹ کر دیتے ہیں . سیاست اور عوام دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہیں . اپ ایک پتھر پر لکیر مائنڈ سیٹ کو چند سالوں میں تبدیل نہیں کر سکتے . یہ جواب بہت زیادہ قابل فہم ہے . اگر میں اینکر ہوتا تو انسے ایک ریٹرن سوال ضرور کرتا کے حضور انڈیا میں جب عوام گاندھی خاندان سے تنگ ا گئی تو انہوں نے متبادل کے طور پر بھارتیہ جنتہ پارٹی کو مان سماں دے دیا . شائد اعتزاز احسن صاحب کا جواب ہونا تھا کے کانگریس پارٹی کی کمان پھر بھی گاندھی خاندان کے پاس ہے جو حقیقت ہے . انڈیا اور پاکستان کے سیاسی خاندان کی طرز سیاست سے ٢ سوال ابھرتے ہیں
١- اگر ایک نیشنل لیول کی مرکزی پارٹی روبہ زوال ہو تو کیا وہ پارٹی قیادت خاندان سے باہر ٹرانسفر نہیں کر سکتی
٢- اگر وہ موروثی پارٹی ایسا کرتی ہے تو کیا عوام اس فیصلے کو قبول کر کے زوال پذیر پارٹی کو دوبارہ قبول کر لیں گے
ہمارا میڈیا ٩٠ فیصد سیاست کے اردگرد گھومتا ھے مگر یہ سوالات نہ ہمارا میڈیا کرتا ہے اور نہ ہمارے دانشور .ہمارے میڈیا کو صرف تحریک انصاف کی فکر رہتی رہتا ہے جو کبھی اقتدار میں آیی ہی نہیں . ہم دیکھتے ہیں کے اگر ایک ڈاکٹر کے سپوت میں فطری جراثیم ہیں تو باپ بیٹے کی ہر ممکن مدد کر سکتا ہے . اسے گھر میں ہی ڈاکٹری کا تمام ماحول اور تعلیم مکمل کرنے بعد مریض بھی وراثت میں مل جاتے ہیں . اسی طرح سیاسی خاندان بھی اپنے سپوتوں کی تربیت کرتے ہیں . سیاسی لیڈر ، سیاست کے تمام داؤ پیچ اپنے اگلی نسلوں کو منتقل کرتا ہے . لوگ اس خاندان کو سیاست کے حوالے سے جانتے ہیں . لوگوں کا انکے گھروں میں آنا جانا ہوتا ہے . سیاسی لوگ کی آمدورفت ہوتی ہے . ان میں ہر طرح کی مار کھانے کی صلاحیت ہوتی ہے . سپوت کو اثر نفوز . سیاسی تربیت اور فہم فراست ورثہ میں ملتی ھے جسکا غیر سیاسی آدمی سوچ بھی نہیں سکتا . سیاسی خاندان اپنے وقت میں اتنا اکھٹا کر لیتا ہے کے اسکی اگلی نسل آرام سے سیاست کر سکتی ہے اور اپنی باری پر اس دولت میں اضافہ کرتی ہے . دلائل دونوں طرف کے مضبوط ہیں مگر اعتدال کی راہ کون اپنائے . سیاسیات سے باہر کا بندہ اگر اگر اس میدان میں چھلانگ لگا دے تو سب سے پہلی اپوزیشن اسکے گھر والے ہوتے ہیں اور اس وقت کو کوستے ہیں جب وہ پیدا ہوا تھا . تھانہ اور کچہری کسی عام گھرانے کی بات نہیں . بدمعاشی کرنا اور بدمعاشوں سے لڑنا ، اسکے بس میں نہیں ہوتا تو سیاست اسنے گھنٹہ کرنی ہے
عمران خان جمہوریت میں موروثیت اس لئے نہیں پسند کرتے کیونکے جمہوریت میں سیاسی لیڈرز کے گھرانے حکومت میں ا کر اسے بادشاہت میں تبدیل کر دیتے ہیں . بادشاہت میں قومی دولت بادشاہ کی ذاتی دولت بن جاتی ہے . لیبیا کی مثال دیکھ لیں کے کرنل قذافی کی ذاتی دولت کا تخمینہ ٦٠ ارب ڈالر لگایا جاتا تھا مگر وہ سب باہر ملکوں میں جمع تھی اور بحق بکار سرکار ضبط ہو گئی ، یہی حال شریف خاندان کو ہو گا . کراچی کی ساری دولت ٢٠ سالوں سے لندن ، دبئی اور کینیڈا میں منتقل ہو رہی ہے اور برہمن طبقہ بہت سی دولت پہلے ہی باہر منتقل کر چکا ہے . جمہوریت کم بادشاہت میں اداروں کو تباہ کر دیا جاتا ہے اور سرکاری لوگوں کو اور بڑے بڑے عھدوں کو ذاتی وفاداروں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے . چور ملک کے سپہ سالار کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے رکھتا ہے . جیسا باپ ویسا بیٹا والا محاورہ تو اپنے سنا ہو گا . اگر ہم انڈیا راہول گاندھی ، پاکستان میں بلاول ، مرہم اور حمزہ شہباز کی طرف دیکھتے ہیں تو اپ سیاست پر لکھ دی لعنت بھیج کر شکریہ راحیل شریف کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں . عمران خان موروثیت کے خلاف ہیں اور اپنی پارٹی میں ٢ مرتبہ پارٹی انتخابات کروانے کی کوشش کی جسے انکے پارٹی کے سیاسی لیڈرز اور عوام خود ناکام کر چکے ہیں اور پارٹی میں پھوٹ پڑ گئی تھی . عمران خان کے بقول ، پاکستان کے لوگوں کو موقع دو تو وہ گروپس میں تبدیل ہو کر لڑائی جھگڑے میں پڑ جاتے ہیں، لگتا ھے کے ہمارے ڈی این اے میں ھی پرابلم ہے . لوگوں کو ٦٩ سال سے جاہل رکھنے کا حکمران طبقہ آجکل بھر پور فائدے اٹھا رہا ہے . لوگ دھڑوں میں بٹے ھوے ہیں اور مافیا مظبوط ہے . شریف زرداری الیکشن کی سائنس کو مکمل طور پر سمجھتے ہیں . پاکستان میں جتنے بھی شریف زرداری سکینڈل ا جائیں مگر ہمارے دانسشور ہمیشہ یہ کہتے پائے گئے ہیں کے تحریک انصاف بہت نیچے جا رہی ہے اور پانامہ لیکس کے بعد تو ختم ہی ہوجاے گی . عام آدمی ٹالک شوز پر زندہ ہے . پاکستان پیپلز پارٹی کو فوج ختم نہیں کر سکی مگر زرداری کی جمہوریت دوستی ، اقربا پرستی کے تحت جیسے ہی اپنے ٥ سال مکمل کے ، بھٹو صاحب بلاخر اپنے داماد صاحب کے ہاتھوں دفن ہو گئے . مسلم لیگ الف سے لے کر ے تک ، الیکشن سائنس کا شاہکار جسے " شریف برادرس انجینرنگ فرم " ناسا طرز پر چلاتے ہے . یہ دور جدید کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہے
صرف مذہبی اور لسانی پارٹیوں میں ہم لوگ تنظیم سازی موثر طور پر دیکھتے ہیں . قابل ذکر مذہبی پارٹی میں جماعت اسلامی اتی ہے . یہ پاکستان کی واحد پارٹی ھے جس میں باقاعدہ الیکشن ہوتے ہیں . ایک عداد مجلس شورا ، پارٹی قائد کا انتخاب کرتی ہے جو زیادہ تر ٢ ٹرم مکمل کرتا ہے . پاکستان کے ووٹرز مولویوں کو یکسر رجیکٹ کر دیتی ہے . یہ ایک بڑے چندے کے چیک کی مار ہیں اور تمام تر ظاہری مخالفت کے باوجود فوجی اور شریف خاندان کے بیت پر ہیں . زرداری شریف پارٹی کے زوال کے بعد جماعت اسلامی کے پاس سیاسی خلا پر کرنے کا ایک بھر پور موقع تھا مگر انکی منتخب کردہ نہ اھل قیادت اور انکی دوغلی پولیسیوں نے یہ مواقے زائے کرتی نظر اتی ہے . تقریروں اور نعروں کی حد تک قیادت محدود ہے مگر عملی طور پر یہ برہمن طبقے کے ساتھ ہیں . لسانی سیاسی پارٹیوں میں بہت نظم ضبط ہے مگر اس میں تمام ابھرتی متبادل قیادت کو مروا دیا جاتا ھے یا عام لوگوں سے سر عام جوتے پڑوا دے جاتے ہیں . عقل قل کے پاس تمام اختیارات ہیں جو بیرونی طاقتوں کے ایجنڈے کی تکمیل بزور شمشیر اور دہشت گردی سے کر رہا ہے
قصہ مختصر ، عمران خان کا یہ نظریہ کے وہ موروثیت کے خلاف ہیں ،لگتا بہت اچھا ہے مگر ہمارے معاشرے میں سب سے پہلے ہم خود ہی اس نظریہ کو دھتکار دیتے ہیں . پہلی دنیا کے ملکوں میں بھی موروثیت چل رہی ہے اور موروثی سیاسی خاندان بھی چل رہیں ہیں . کینیڈا کے حالیہ الیکشن میں نوجوان اور خوبرو ترین ترین لبرل لیڈر جسٹن ٹروڈو جو اب وزیراعظم ہیں ، انکا تعلق ایک سابقہ سیاسی حکمران خاندان سے ہے. بل کلنٹن کا ٨ سالہ دور امریکا کا سنہری ترین دور تھا مگر انکی بیگم حالیہ الیکشن ہار جاتی ہیں . اس حقیقت کو ہم جھٹلا نہیں سکتے .. عمران خان اکثر نظریے کی بات کرتے ہیں مگر آجتک اپنا نظریہ لوگوں میں پیش نہیں کیا . آخر وہ کونسا نظریہ ہے جسکو لوگ لے کر چلیں اور اسکو قائم رکھیں . تحریک انصاف پارٹی میں کوئی دوسرا لیڈر ایسا نہیں جسے لوگ عمران خان کا متبادل مان سکیں . اگر ہم پارٹی کی ساخت کو دیکھیں تو شاہ محمود قریشی صاحب عمران خان کے بعد اتے ہیں. وہ قربانی دے کر اے تھے اور اس قربانی کے نتیجے میں وائس چیئرمین کی سیٹ ملی، قصہ ختم . عھدہ ملنے کے بعد ، انہوں نے نئی پارٹی کے لئے کوئی ایسا کارنامہ سر انجام نہیں دیا جو عوام اور میڈیا میں کوئی خاص توجہ حاصل کر سکا ہو . تحریک انصاف کے دوسرے لیڈر انفرادی طور پر تو اچھے ہوں گے مگر کیا وہ لیڈرشپ کے معیار پر بھی اترتے ہیں اور کیا کسی نے پارٹی کے لئے کوئی کارنامہ انجام دیا ہے . شائد آپکو اسکا جواب پتا ہو . پرویز خٹک صاحب ایک سینئر سیاستدان ہیں ، بات اگر عمران خان کے موروثیت والے نظریہ کی ہو تو وہ اس نظریے کی نفی کرتے نظر اتے ہیں . وہ سب سے پہلے اپنے رشتہ داروں کو ایڈجسٹ کریں گے
تحریک انصاف میں کوئی لیڈر اپنے آپ کو عمران خان کے متبادل کے طور پر پیش نہیں کر سکا . عمران خان خود کسی بھی لیڈر کو اپنا جانشین نہیں قرار دے سکتے. اپ حیران ہو گے مگر میری نظر میں خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس ناصر خان درانی ایک موزوں انتخاب اور عمران خان کا متبادل ہو سکتے ہیں . جسطرح ساس ہونا ایک عورت کا کردار ہے تو اسی عورت کا دوسرا کردار بہو کا بھی ہوتا ہے مگر تاریخ شاہد ہے کے ایک گھر اور ایک جنس ہو کر بھی عورت ہی دوسری عورت کی دشمن بن جاتی ہے . یہی تحریک انصاف کی اندرونی سیاسیات کی کہانی ہے . ناصر خان درانی نے بلواسطہ طور پر تحریک انصاف کو فائدہ پونھچایا ہے لھذا وہ شائد اندروں خانہ درباری سیاسی چنمقلش سے آزاد ہوں گے . نہ وہ ساس اور نہ وہ بہو ہوں گے . انہوں نے افسر شاہی میں بہت وقت گزارا ہے اور وہ اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہیں . جب عمران خان نے انکو تھکا ہوا اور پسماندہ ترین پولیس کا ادارہ دیا تو انہوں نے صرف ٣ سال کی مدت میں دنیا بھر میں اپنے ادارے کو ایک مثال بنا دیا . ناصر خان درانی صاحب کا عوام کے ساتھ بھر پور رابطہ رہتا ہے، یہ انکا بہت مظبوط پہلو ہے . ناصر خان درانی صاحب نے اپنے اپ کو ایک ادارے کا لیڈر، عوامی لیڈر اور ایک منظم کے طور پر منوا لیا ہے . اب تو صوبے کی عوام عمران خان اور پرویز خٹک کی بجاے انکی تصاویر انکے کاموں کی وجہ سے ٹرکوں پر لگا رہی ہے . خیبر پختونخوا میں موجودہ سیاسی لیڈر اپنی بھرپور قابلیت ثابت نہیں کر پاے. تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا میں کامیابی انکے تھنک ٹینک کی مرھون منت ہے . ناصر خان درانی کی وجہ سے تحریک انصاف بھر پور کریڈٹ لے رہی ہے . درانی صاحب نے پورے نظام میں تبدیلی لا کر اپنی لیڈرشپ کو نہ صرف پاکستان بلکے دنیا کے سامنے بھی پیش کیا ہے . تحریک انصاف کا کوئی لیڈر اپنے بلبوتے پر کسی بھی ادارے کو اٹھا نہیں سکا . کیا ہم اندھے ہیں ، کیا ہمیں نظر نہیں اتا . میں گوگل کر کے درانی صاحب کی عمر کا اندازہ نہیں کر سکا . مجھے نہیں پتا کے وہ کب ریٹائر ہوں گے مگر مجھے اتنا ضرور پتا ہے ریٹائرمنٹ کے ٢ سال تک تو وہ کوئی عوامی عہدہ نہیں لے سکتے . اگر میرے بس میں ہو تو میں درانی صاحب کو ریٹائر کروا کے انکو تحریک انصاف کی لیڈرشپ کے لئے گروم کروں . یہ تو میری ایک معصوم خواہش ہے
٦٩ سالہ پاکستان میں تمام ووٹ لینے والی اکثریتی پارٹیاں ایک فرد واحد یا ایک مخصوس خاندان کے ارد گرد گھوم رہیں ہیں . پاکستان کے سینئر ترین سیاستدان اپنی اپنی پارٹیوں کو نہ جمہوری بنا سکے اور نہ قانون پسند . اپ شاہ محمود قریشی ، کائرہ ، اعتزاز احسن ، فضل ارحمان جیسے تمام سیاسدانوں سے سوال کریں کے وہ اپنی اپنی پارٹیوں کو جمہوری کیوں نہ بنا سکے . سیاست انویسٹمنٹ بن چکی ہے . اگر نواز شریف سین سے غائب تو پوری پارٹی ختم . شریف زرداری خود قانون بنانے والے اور خود ہی قانون کی گرفت میں ہیں . تحریک انصاف کی مقبولیت اسٹاک ایکسچینج کی طرح اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے جو خود بھی فرد واحد کی ساکھ پر کھڑی ہے . تحریک انصاف سے عمران خان سین سے غائب ہوتے ہوتے ہیں تو پارٹی شائد ٤٠ دن نہ نکل سکے کیونکے یہ پارٹی عمران خان کی سیاسیات کے عروج میں متحد ہو کر پارٹی الیکشن نہ کروا سکی . پاکستان کی سیاست بانجھ تھی اور ایسے ہی رہے گی . جس پارٹی کے ہاتھ میں الیکشن کمیشن ، وہی پارٹی پاکستان پر قابض
.
پاکستان تحریک انصاف میں نظریے والے لوگ کم اور مفاد پرست زیادہ ہیں اور تمام پارٹی صرف عمران خان کی ساکھ کے ارد گرد گھوم رہی ہے. انٹرنل الیکشن کے ناکامی پر متبادل لیڈرشپ اور پارٹی کی بقاء کا سوال تشنہ طلب رہے گا. اس تھریڈ سے پہلے ایک تھریڈ میں لندن سے زمارے خان صاحب نے کمینٹ کیا تھا کے عمران خان کے بعد یہ پارٹی تیتربتر ہو جاے گی . میں نے تو سیاق اور سباق کے حوالے کچھ لکھ دیا ہے. یہ تو انے والا وقت ہی بتائے گا اپ پڑھنے والے بھی عوام ہیں . میں اپنا ایک سوال اور ایک زمارے خان صاحب کا سوال اگے فارورڈ کر رہا ہوں . کیا اپ ان دو سوالات کا جواب دینا پسند کریں گے ؟
١-
سوال یہ ہے کے اگر تحریک انصاف موروثی پارٹی نہیں تو عمران خان کا متبادل کون ہے
٢-
اگر ہم بیرون ملک ، فوجی اور اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو نظر انداز کر دیں تو کیا اپ سمجھتے ہیں لوگ عمران خان کے بغیر بھی تحریک انصاف کو قبول کریں گے یا تحریک انصاف ختم ہو جاے گی ؟
Last edited: