تجربہ گواہ ہے کہ جوں جوں فرد اپنی ہستی کے ارتقائی منازل کو طے کرتا چلا جاتا ہے اور اپنے گرد و پیش جہاں رنگ و بو کا تجزیہ کرنے لگا ہے، ویسے ویسے وہ افسردہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
کیونکہ اس کے تجزیے سے زندگی کی خرفتگی اور درشتگی اس پر عیاں ہونے لگتی ہے اور انسان کے لیے (جو حقیقت سے زیادہ خوابوں میں زندگی بسر کرنا چاہتا ہے) اطمینان و خوشی کے امکانات مسدود ہوتے چلے جاتے ہیں۔ میرے نقطہ نظر سے کسی مذہبی رہنما کی نسبت کسی سیاسی رہنما کے لیے افراد کو اپنی طرف متوجہ کرلینا بھی اسی وجہ سے ہے کہ مذہب زندگی میں عمل کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کرتا ہے اور بڑے سیدھے سبھاؤ زندگی کے مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے جب کہ سیاست یا سیاست دان زندگی کے گرد بکھرے ہوئے ان گنت مسائل کو اپنے وعدوں کی تشبیہات اور دعوؤں کے استعارات کی چمکدار جھالروں سے باندھ دیتا ہے۔ اور قوم یا افراد۔۔۔۔ تخیل کو حقیقت پر ترجیح دینے والی قوم دھیرے دھیرے اور خوشی خوشی سیاست کے سارے وعدوں کے طوق سلاسل کو پہن لیتی ہے۔کچھ ایسا ہی پچھلے دو سال کے دوران پاکستان کے سیاسی افق پر بہت تیزی سے ابھرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف اور اس کے قائد عمران خان کے معاملے میں پیش آیا۔
17 سال قبل وجود میں آنے والی پی ٹی آئی کے قائد عمران خان سے کون واقف نہیں ہوگا۔ قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے ورلڈ کپ کی فتح، شوکت خانم میموریل اسپتال سمیت کئی ایک معتبر حوالوں سے ان کی شخصیت قبل از سیاست بھی پاکستان میںمعروف اور ہردلعزیز رہی ہے اور جب کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا اور اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو ملک بھر کے عوام نے اسے سیاست میں ایک اچھا اضافہ قرار دیا اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کی جماعت نے ان 17 سال میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے بلکہ یہ کہنا بھی کچھ غلط نہیں کہ زیادہ تر نشیب ہی دیکھے۔ لیکن عمران خان کے عزم و حوصلے نے بہرحال انھیں میدان سیاست میں برسر پیکار رکھا اور بالآخر پچھلے دو سال کے دوران انھیں اور ان کی جماعت کو بوجوہ پاکستان پیپلز پارٹی کی ناکام ترین حکومت اور دوران حکومت انرجی بحران، مہنگائی، بدامنی عوامی سطح پر خاطر خواہ پذیرائی بھی مل گئی۔
الیکشن 2013 کے بعد ثابت بھی ہوگیا کہ خان صاحب اپنے دعوؤں میں اس قدر تو کامیاب نہیں رہے جس کا اظہار وہ میڈیا اور الیکشن مہم کے دوران کرتے دکھائی دیے لیکن خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی شاندار کامیابی، پنجاب میں کئی اہم نشستوں پر کامیابی اور کراچی جیسے شہر میں بھی جو ایم کیو ایم کا گڑھ مانا جاتا ہے، پی ٹی آئی کے ووٹ بینک نے ثابت کردیا کہ عمران خان کے دعوے ایک حد تک درست بھی تھے۔ تب پھر مسئلہ کیا ہے؟
اور کیوں ہے؟یہ جاننے کے لیے اگر قارئین اس تحریر کی چند ابتدائی سطور کا ازسر نو جائزہ لیں تو عقدہ حل ہوتا نظر آئے گا کیونکہ عمران خان قبل از الیکشن جس فتح کو اپنے بہت نزدیک دیکھ رہے تھے، جس ملک کا وزیراعظم بننے کا وہ تہیہ کرچکے تھے اور ان کی دانست میں ملک کے تمام تر نوجوان صرف ان کی جماعت کی حمایت کر رہے تھے اور بہ خیال خود ایک انقلاب بھی برپا کرچکے تھے، وہ سب کچھ الیکشن کے نتائج میں کہیں دور دراز بھی نظر نہیں آیا۔ اگرچہ خواب دیکھنے پر کسی انسانی دور میں کوئی پابندی عائد نہیں رہی، لیکن کوئی دور انسانی یہ بھی ثابت نہیں کرسکتا کہ اس کے دیکھے گئے خواب حقیقت کا روپ دھار گئے ہوں، گویا شکست، ہار، جیت، دکھ، خوشی، امید، مایوسی، زندگی ان سے مل کر ہی بنتی ہے
جب کہ پی ٹی آئی کو ایک صوبے میں حکومت بھی ملی اور ملک بھر میں ووٹوں کی تعداد کو لے کر وہ دوسری بڑی جماعت بھی کہلائی لیکن 100 فیصد وہ سب کچھ نہیں ہو پایا جس کی عمران خان کو امید تھی۔ پھر بدقسمتی سے دوران الیکشن وہ ایک جلسے کے اسٹیج پر چڑھتے ہوئے گر گئے اور زخمی ہوگئے۔لہٰذا وہ ہوا جو ہونا تھا۔ خان صاحب کی شخصیت میں فرسٹریشن بڑھنے لگی اور مایوسی فزوں تر ہوتی چلی گئی۔ ایک خوش کن خواب سے آنکھ کھلنے پر ان کا لب و لہجہ دن بدن تلخ و ترش ہوتا چلا گیا۔ لہٰذا الیکشن کے بعد ان کی جانب سے پہلے 24 پھر 4 انتخابی حلقوں میں انگوٹھے کے نشان کاؤنٹر فائل سے چیک کروانے کا مطالبہ سامنے آیا، جو ہنوز جاری ہے۔ لیکن جسے الیکشن کمیشن نے قبول نہیں کیا۔ ابھی یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ صدارتی الیکشن کا مرحلہ آگیا،
جس میں اپوزیشن کی بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی حلیف جماعتوں مسلم لیگ (ق) اور اے این پی کے ساتھ شکست کے مدنظر مختلف حیلے بہانے تراشنے شروع کردیے اور بالآخر صدارتی الیکشن کی تاریخ میں تبدیلی پر الیکشن کا بائیکاٹ کردیا۔لیکن بائیکاٹ سے قبل پی پی پی کے ایک وفد نے عمران خان سے بھی ملاقات کی اور انھیں بھی صدارتی انتخاب کے بائیکاٹ پر اکسانے کی کوشش کی، جو سنتے ہیں کہ سابق جسٹس وجیہہ الدین احمد کے مسلسل انکار کے باعث پوری نہیں ہوسکی، ورنہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنما بائیکاٹ کرنے کے لیے رضامند ہوچکے تھے، اور بیرسٹر اعتزاز احسن کے دلائل کارگر رہے تھے لیکن ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان نے بعد از الیکشن ذرا دھیمی آواز میں الیکشن میں بقول ان کے ہونے والی دھاندلی کا ذمے دار الیکشن کمیشن کو قرار دیا ، رفتہ رفتہ وہ کھل کر میڈیا پر ٹاک شوز میں، اپنے انٹرویوز میں چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کو دھاندلی کا ذمے دار قرار دینے لگے اور حالیہ دنوں میں تو حد ہوگئی کہ جب عمران خان سوائے ان الزامات کے کسی اور موضوع پر بات ہی نہیں کرتے تھے۔ آل پارٹیز کانفرنس (جو بہت حساس اور بنیادی ایشو پر بلائی جارہی ہے) خان صاحب نے یہ کہہ کر بائیکاٹ کردیا کہ اس کانفرنس کا سرے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ایسی اے پی سی پہلے بھی کئی بار بلائی جاچکی ہیں، جو بے نتیجہ رہیں۔ہم سب پی ٹی آئی کو متبادل اور مستقبل کی قیادت کے طور پر دیکھ رہے ہیں، ہم تسلیم کرچکے ہیں، ہم جان چکے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ آپ جیسا ایماندار، بے باک اور نڈر لیڈر اسمبلیوں میں ہمارے حقوق کی حفاظت کرے گا، قومی خزانے کی حفاظت کرے گا، حکومت وقت کو کسی من مانی سے باز رکھے گا۔ خیبر پختونخوا میں آپ کا اصلاحی پروگرام باقی صوبوں کے لیے ترقی کی ایک نئی سمت متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ اسی لیے میں کہتا ہوں خان صاحب! کہ لوٹ آئیے، اسی عزم و ارادے کی جانب، اسی بردباری اور تحمل کی جانب اور اسی کپتان کی جانب جسے 5 سال کے بعد ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، الزامات، اکھاڑ پچھاڑ، بے زار کن مظاہرے آپ کی شخصیت کو زیب نہیں دیتے۔ آپ کو تو اعتدال پسند ہونا ہے اور میری دعا ہے کہ اسی اعتدال پسندی کا مظاہرہ آپ ہر جگہ کریں۔عدلیہ کے وقار کا ہر صورت خیال رکھا جائے۔ جس کی آج ملک کو ضرورت ہے، قوم کو ضرورت ہے۔
کیونکہ اس کے تجزیے سے زندگی کی خرفتگی اور درشتگی اس پر عیاں ہونے لگتی ہے اور انسان کے لیے (جو حقیقت سے زیادہ خوابوں میں زندگی بسر کرنا چاہتا ہے) اطمینان و خوشی کے امکانات مسدود ہوتے چلے جاتے ہیں۔ میرے نقطہ نظر سے کسی مذہبی رہنما کی نسبت کسی سیاسی رہنما کے لیے افراد کو اپنی طرف متوجہ کرلینا بھی اسی وجہ سے ہے کہ مذہب زندگی میں عمل کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کرتا ہے اور بڑے سیدھے سبھاؤ زندگی کے مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے جب کہ سیاست یا سیاست دان زندگی کے گرد بکھرے ہوئے ان گنت مسائل کو اپنے وعدوں کی تشبیہات اور دعوؤں کے استعارات کی چمکدار جھالروں سے باندھ دیتا ہے۔ اور قوم یا افراد۔۔۔۔ تخیل کو حقیقت پر ترجیح دینے والی قوم دھیرے دھیرے اور خوشی خوشی سیاست کے سارے وعدوں کے طوق سلاسل کو پہن لیتی ہے۔کچھ ایسا ہی پچھلے دو سال کے دوران پاکستان کے سیاسی افق پر بہت تیزی سے ابھرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف اور اس کے قائد عمران خان کے معاملے میں پیش آیا۔
17 سال قبل وجود میں آنے والی پی ٹی آئی کے قائد عمران خان سے کون واقف نہیں ہوگا۔ قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے ورلڈ کپ کی فتح، شوکت خانم میموریل اسپتال سمیت کئی ایک معتبر حوالوں سے ان کی شخصیت قبل از سیاست بھی پاکستان میںمعروف اور ہردلعزیز رہی ہے اور جب کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا اور اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو ملک بھر کے عوام نے اسے سیاست میں ایک اچھا اضافہ قرار دیا اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کی جماعت نے ان 17 سال میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے بلکہ یہ کہنا بھی کچھ غلط نہیں کہ زیادہ تر نشیب ہی دیکھے۔ لیکن عمران خان کے عزم و حوصلے نے بہرحال انھیں میدان سیاست میں برسر پیکار رکھا اور بالآخر پچھلے دو سال کے دوران انھیں اور ان کی جماعت کو بوجوہ پاکستان پیپلز پارٹی کی ناکام ترین حکومت اور دوران حکومت انرجی بحران، مہنگائی، بدامنی عوامی سطح پر خاطر خواہ پذیرائی بھی مل گئی۔
الیکشن 2013 کے بعد ثابت بھی ہوگیا کہ خان صاحب اپنے دعوؤں میں اس قدر تو کامیاب نہیں رہے جس کا اظہار وہ میڈیا اور الیکشن مہم کے دوران کرتے دکھائی دیے لیکن خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی شاندار کامیابی، پنجاب میں کئی اہم نشستوں پر کامیابی اور کراچی جیسے شہر میں بھی جو ایم کیو ایم کا گڑھ مانا جاتا ہے، پی ٹی آئی کے ووٹ بینک نے ثابت کردیا کہ عمران خان کے دعوے ایک حد تک درست بھی تھے۔ تب پھر مسئلہ کیا ہے؟
اور کیوں ہے؟یہ جاننے کے لیے اگر قارئین اس تحریر کی چند ابتدائی سطور کا ازسر نو جائزہ لیں تو عقدہ حل ہوتا نظر آئے گا کیونکہ عمران خان قبل از الیکشن جس فتح کو اپنے بہت نزدیک دیکھ رہے تھے، جس ملک کا وزیراعظم بننے کا وہ تہیہ کرچکے تھے اور ان کی دانست میں ملک کے تمام تر نوجوان صرف ان کی جماعت کی حمایت کر رہے تھے اور بہ خیال خود ایک انقلاب بھی برپا کرچکے تھے، وہ سب کچھ الیکشن کے نتائج میں کہیں دور دراز بھی نظر نہیں آیا۔ اگرچہ خواب دیکھنے پر کسی انسانی دور میں کوئی پابندی عائد نہیں رہی، لیکن کوئی دور انسانی یہ بھی ثابت نہیں کرسکتا کہ اس کے دیکھے گئے خواب حقیقت کا روپ دھار گئے ہوں، گویا شکست، ہار، جیت، دکھ، خوشی، امید، مایوسی، زندگی ان سے مل کر ہی بنتی ہے
جب کہ پی ٹی آئی کو ایک صوبے میں حکومت بھی ملی اور ملک بھر میں ووٹوں کی تعداد کو لے کر وہ دوسری بڑی جماعت بھی کہلائی لیکن 100 فیصد وہ سب کچھ نہیں ہو پایا جس کی عمران خان کو امید تھی۔ پھر بدقسمتی سے دوران الیکشن وہ ایک جلسے کے اسٹیج پر چڑھتے ہوئے گر گئے اور زخمی ہوگئے۔لہٰذا وہ ہوا جو ہونا تھا۔ خان صاحب کی شخصیت میں فرسٹریشن بڑھنے لگی اور مایوسی فزوں تر ہوتی چلی گئی۔ ایک خوش کن خواب سے آنکھ کھلنے پر ان کا لب و لہجہ دن بدن تلخ و ترش ہوتا چلا گیا۔ لہٰذا الیکشن کے بعد ان کی جانب سے پہلے 24 پھر 4 انتخابی حلقوں میں انگوٹھے کے نشان کاؤنٹر فائل سے چیک کروانے کا مطالبہ سامنے آیا، جو ہنوز جاری ہے۔ لیکن جسے الیکشن کمیشن نے قبول نہیں کیا۔ ابھی یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ صدارتی الیکشن کا مرحلہ آگیا،
جس میں اپوزیشن کی بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی حلیف جماعتوں مسلم لیگ (ق) اور اے این پی کے ساتھ شکست کے مدنظر مختلف حیلے بہانے تراشنے شروع کردیے اور بالآخر صدارتی الیکشن کی تاریخ میں تبدیلی پر الیکشن کا بائیکاٹ کردیا۔لیکن بائیکاٹ سے قبل پی پی پی کے ایک وفد نے عمران خان سے بھی ملاقات کی اور انھیں بھی صدارتی انتخاب کے بائیکاٹ پر اکسانے کی کوشش کی، جو سنتے ہیں کہ سابق جسٹس وجیہہ الدین احمد کے مسلسل انکار کے باعث پوری نہیں ہوسکی، ورنہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنما بائیکاٹ کرنے کے لیے رضامند ہوچکے تھے، اور بیرسٹر اعتزاز احسن کے دلائل کارگر رہے تھے لیکن ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان نے بعد از الیکشن ذرا دھیمی آواز میں الیکشن میں بقول ان کے ہونے والی دھاندلی کا ذمے دار الیکشن کمیشن کو قرار دیا ، رفتہ رفتہ وہ کھل کر میڈیا پر ٹاک شوز میں، اپنے انٹرویوز میں چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کو دھاندلی کا ذمے دار قرار دینے لگے اور حالیہ دنوں میں تو حد ہوگئی کہ جب عمران خان سوائے ان الزامات کے کسی اور موضوع پر بات ہی نہیں کرتے تھے۔ آل پارٹیز کانفرنس (جو بہت حساس اور بنیادی ایشو پر بلائی جارہی ہے) خان صاحب نے یہ کہہ کر بائیکاٹ کردیا کہ اس کانفرنس کا سرے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ایسی اے پی سی پہلے بھی کئی بار بلائی جاچکی ہیں، جو بے نتیجہ رہیں۔ہم سب پی ٹی آئی کو متبادل اور مستقبل کی قیادت کے طور پر دیکھ رہے ہیں، ہم تسلیم کرچکے ہیں، ہم جان چکے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ آپ جیسا ایماندار، بے باک اور نڈر لیڈر اسمبلیوں میں ہمارے حقوق کی حفاظت کرے گا، قومی خزانے کی حفاظت کرے گا، حکومت وقت کو کسی من مانی سے باز رکھے گا۔ خیبر پختونخوا میں آپ کا اصلاحی پروگرام باقی صوبوں کے لیے ترقی کی ایک نئی سمت متعین کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ اسی لیے میں کہتا ہوں خان صاحب! کہ لوٹ آئیے، اسی عزم و ارادے کی جانب، اسی بردباری اور تحمل کی جانب اور اسی کپتان کی جانب جسے 5 سال کے بعد ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، الزامات، اکھاڑ پچھاڑ، بے زار کن مظاہرے آپ کی شخصیت کو زیب نہیں دیتے۔ آپ کو تو اعتدال پسند ہونا ہے اور میری دعا ہے کہ اسی اعتدال پسندی کا مظاہرہ آپ ہر جگہ کریں۔عدلیہ کے وقار کا ہر صورت خیال رکھا جائے۔ جس کی آج ملک کو ضرورت ہے، قوم کو ضرورت ہے۔