جب دلیل ہے تو چوڑیاں پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
اظہار اللہ بی بی سی پشتو
پاکستان تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا سے مخصوص نشستوں پر سابق ممبر صوبائی اسمبلی زرین ضیا نے سنیچر کو اپنی پارٹی کی دیگر خواتین ممبران کے ہمراہ پشاور پریس کلب میں پارٹی کے مقامی رہنما علی امین گنڈاپور پر ٹکٹوں کے غیر منصفانہ رویے کا الزام لگاتے ہوئے ان کے خلاف پریس کانفرنس کی۔
پریس کانفرنس میں دیگر الزامات لگانے کے ساتھ ساتھ خواتین نے علی امین کو شرم دلانے کیلیے چوڑیاں اور پراندے پیش کیے اور شرکا سے کہا کہ جہاں علی امین ان کو ملے وہ ان کو یہی چوڑیاں پیش کریں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے زرین ضیا نے بتایا کہ علی امین نے ساوؑتھ خیبر پختونخوا سے ایک خاتون کو بھی منتخب نہیں کیا ہے۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ چوڑیاں اور پراندے دکھانے کا کیا مقصد تھا، تو اس کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ چونکہ انھوں نے خواتین کے ساتھ ٹکٹوں کی تقسیم میں غیر مںصفانہ رویہ اختیار کیا ہے اس لیے پارٹی خواتین ان کو پہنانے کیلیے چوڑیاں اور پراندے لائیں تھیں۔
پاکستانی معاشرے میں یہ واقعات ہوتے رہتے ہے۔ خواتین کی طرف سے چوڑیاں زیادہ تر مردوں کو اس وقت پیش کی جاتی ہیں جب وہ انکو شرم دلانا چاہتی ہوں۔
اپریل 2016 میں سندھ اسمبلی میں بھی ایسا ہی ہوا تھا جسمیں سابق ایم پی اے خرم شیر اور ڈاکٹر سمینہ نے سندھ اسمبلی کے داخلی دروازے کی طرف بطور احتجاج چوڑیاں پھینک دی تھی کیونکہ وہ اسمبلی کو شرم دلا رہی تھیں کہ وہ لوڈشیڈنگ پر قابو کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اس کے علاوہ ہمارے معاشرے میں مرد اگر کسی کام میں کمزوری کا مظاہرہ کریں یا اس کو شرم دلانا مقصود ہو تو اس کو مختلف قسم کی باتیں جیسا کہ
'جاو چوڑیاں پہنو' یا، مرد اپنی بہادری کو دکھانے کیلیے کہتے ہے، 'میں نے کوئی چوڑیاں نہیں پہنی ہوئی ہے کہ میں ڈروں' کا استعمال کرتے ہیں۔
خواتین کے حقوق پر کام کرنے والے کارکن سمجھتے ہے کہ چوڑیوں کو بطور کمزوری اور غلامی کی نشانی کے طور پر استعمال کرنے کی ایک لمبی تاریخ ہے۔
شبینہ آیاز پشاور میں خواتین کے حقوق پر کام کرنی والی غیر سرکاری تنظیم 'عورت فاونڈیشن' کی سربراہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ صدیوں پہلے چوڑیوں کو غلامی کی نشانی سمجھا جاتا تھا اور اس آج کل مثال ہتکھڑیاں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سوچ وہی پرانی ہے کہ چوڑیوں کو کمزور ہی پہنیں گے اور خواتین چونکہ مردوں سے کمزور ہے اسل یے عمومی طور اس کا پہننا خواتین تک ابھی بھی محدود ہے۔
'کچھ مردوں نے ابھی اس کو پہننا شروع کردیا ہے لیکن سوچ ابھی تک نہیں بدلی ہے کیونکہ ابھی تک اس کو نازک اور کمزور، شرم کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔'
گیلٹی بینگلز نامی ایک ویب سائٹ پر 'غلامی کی چوڑیاں' نامی ایک آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ جدید دور میں جو چوڑیاں استعمال کی جاتی ہے اس میں زیادہ مقبول 'سلیو بینگلز' ہے۔
اس کی تاریخ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ نام تب 'سلیو بنگل' پڑا جب افریقہ میں اسی قسم کی چوڑیوں کو بطور کرنسی استعمال کیا جاتا اور یورپ کے لوگ افریقہ میں غلاموں کو چوڑیوں کے حساب سے خریدا کرتے تھے۔
شبینہ آیاز کہتی ہیں کہ اسی تاریخ کو آج کل فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔ 'جب خواتین کی طرف سے شرم دلانے کے لیے اس قسم کی چوڑیاں دکھائی جاتی ہے تو اس کا مطلب ظاہر ہے یہ ہے کہ عورتوں کی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ ان کو یہ باور کرانا ہوگا کہ وہ خود بھی کمزور نہیں اور نہ ان کے استعمال میں چیزیں جیسا زیورات بھی کمزوری کی نشانی ہیں۔'
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ پولیٹیکل سائنس کی استاد ڈاکٹر نورینہ نسیر سمجھتی ہیں کہ ایسی خواتین جو چوڑیوں کو بطور شرم دلانے اور کمزوری کا طعنہ دینے کیلیے ایسے سیکسیسٹ اپروچ کو استعمال کرتی ہیں وہ خود کو کمزور ثابت کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہے کہ ہمیشہ کوئی بھی مسئلہ ہو اس میں دلیل پر اگر بات کی جائے تو تب تبھی بندے کی بات معنی رکھتی ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسی خواتین کو جو خود باہر جاکر مردوں کے شانہ بشانہ سیاست میں حصہ لیتی ہیں ان چیزوں کو زیادہ سیریس لینا چاہیے کیونکہ باقی خوتین انکو دیکھتی ہیں۔
'ایسا ان معاشروں میں ہوتا ہے جہاں پدرانہ نظام اس حد تک لوگوں کے ذہنوں میں سرایت کر چکا ہوتا ہے جہاں خواتین خود بھی اپنے آپ کو کمزور سمجھنا شروع کر دیتی ہیں اور ایسا سوچتی بھی نہیں کہ وہ مردوں کے برابر بھی کبھی ہو سکتی ہیں۔
https://www.bbc.com/urdu/regional-44677695