Ghulam-e-Qanbar
Councller (250+ posts)
عقیدہ توحید
توحید اسلا م کا بنیادی عقیدہ ہے،توحید کا اقرار اور شرک سے انکار انبیاء الٰہی کی بعثت کا ایک اہم مقصد تھا: وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ أُمَّةٍ رَسُولاً أَنْ اُعْبُدُوا اﷲَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ (۱)۔
ترجمہ: اوریقینًا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے تا کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔
اگرچہ توحید کا اقرار اور شرک سے انکار تمام اسلامی مذاہب کا متفقہ مسئلہ ہے اس کے باوجود توحید کی تشریح و تبیین کے سلسلہ میں مختلف اقوال و نظریات پائے جاتے ہیں،ا س مقام پر ہم صرف توحید وشرک کے اقسام ومراتب بیان کریں گے۔
عام طور پر توحید کی چار قسمیں توحید ذاتی، توحید صفاتی، توحید افعالی، توحید عبادی بیان کی جاتی ہیں لیکن کبھی توحید افعالی کے بجائے توحید در خالقیت اور توحید در ربوبیت کہا جاتا ہے، موخر الذکر اصطلاح کتاب وسنت سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے چنانچہ ہم نے بھی اسی اصطلاح کو اختیار کیا ہے۔
۔(۱) توحید ذاتی: توحید ذاتی سے مراد یہ ہے کہ خدا کا کوئی مثل ونظیر نہیں ہے، یعنی اس کی ذات واجب الوجود ہے، اپنے وجود اور کمالات میں دوسروں سے بے نیاز صرف خداوند عالم کی ذات ہے، اس طرح خدا کے علاوہ تمام موجودات ممکن الوجود اور محتاج ہیں، چونکہ ہر ممکن الوجود مرکب ہوتا ہے (چاہے اجزاء عقلیہ وذہنیہ سے مرکب ہو یا اجزاء خارجی سے) لہٰذا واجب الوجود کے ایک ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ اس کی ذات بسیط ہے اور اس کی ذات میں کسی قسم کی ترکیب کا امکان نہیں ہے، یہ دونوں باتیں ائمہ اہل بیت (ع) کے اقوال میں مکرر و مؤکد طریقہ سے بیان ہوتی ہیں،لہذا ہم یہاں امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے قول پر ہی اکتفاء کرتے ہیں:۔
ایک شخص نے مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے خدا کی وحدت کے بارے میں دریافت کیا آپ (ع) نے ارشاد فرمایا: وحدت کے مختلف معانی ہوتے ہیں، کبھی وحدت اور توحید سے عدد اور مفہوم کی وحدت مراد ہوتی ہے، (مثلا کہا جاتا ہے کہ پاکستان دنیا کے ممالک میں سے ایک ملک ہے یا انسان حیوانات کی ایک قسم ہے ) خدا کے بارے میں ایسی وحدت کا تصور صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ وحدت کثرت کے ساتھ بھی جمع ہو سکتی ہے، اور کبھی وحدت سے مراد مثل ونظیر اور اجزاء عقلی و وہمی وخارجی کا نہ ہونا ہوتا ہے، خدا کی وحدت سے یہی مراد ہے (۲)۔
۔(۲) توحید صفاتی: توحید صفاتی کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے ذاتی صفات مثلا علم، قدرت و حیات، مفہوم کے لحاظ سے اگرچہ مختلف ہیں لیکن مصداق کے اعتبار سے ان میں کوئی اختلاف یا کثرت نہیں ہے اور ان سب کا مصداق خدا کی ذات بسیط ہے، بصورت دیگر ذات الٰہی میں اختلاف اور کثرت پائی جائے گی جو کہ توحید ذاتی کی بنا پر قابل قبول نہیں ہے اس طرح توحید ذاتی کا لازمہ توحید صفاتی ہے، اگر خدا کے صفات اس کے عین ذات نہ ہوں تو اس سے ذات الٰہی میں اختلاف وکثرت کے علاوہ واجب الوجود کا متعدد ہونا بھی لازم آئے گا، کیونکہ خدا کے صفات کو ممکن الوجود تسلیم نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ ممکن ہونے کا لازمہ احتیاج ہے لہٰذا اگر خدا کے صفات ممکن الوجود ہوں گے تو ذات الٰہی میں امکان واحتیاج پایا جائے گا۔
امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام، صفات زائد بر ذات کے انکار کوکمال توحید کی علامت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: کمال توحیدہ الاخلاص له وکمال الاخلاص له نفی الصفات عنه۔۔۔۔۔فمن وصف اللہ سبحانه فقد قرنه ومن قرنه فقد ثناہ ومن ثنّاہ فقد جزّاہ ومن جزّاہ فقد جھله۔(۳)۔
ترجمہ: توحید کا کمال اخلاص عقیدہ ہے اور اخلاص کا کمال زائد برذات صفات کی نفی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے لئے الگ سے صفات کا اثبات ایک شریک کا اثبات ہے اور اس کا لازمی نتیجہ ذات کا تعدد ہے اور تعدد کا مقصد اس کے لئے اجزاء کا عقیدہ ہے اوراجزاء کا عقیدہ صرف جہالت ہے۔
............................................................................................................................................................
حوالہ جات:۔
۔(۱) : سورہ نحل:آیت ۳۶۔
۔(۲): کتاب التوحید، شیخ صدوق، باب۳،حدیث۳۔
۔(۳): نہج البلاغہ، خطبہ اول۔
ترجمہ: اوریقینًا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے تا کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔
اگرچہ توحید کا اقرار اور شرک سے انکار تمام اسلامی مذاہب کا متفقہ مسئلہ ہے اس کے باوجود توحید کی تشریح و تبیین کے سلسلہ میں مختلف اقوال و نظریات پائے جاتے ہیں،ا س مقام پر ہم صرف توحید وشرک کے اقسام ومراتب بیان کریں گے۔
عام طور پر توحید کی چار قسمیں توحید ذاتی، توحید صفاتی، توحید افعالی، توحید عبادی بیان کی جاتی ہیں لیکن کبھی توحید افعالی کے بجائے توحید در خالقیت اور توحید در ربوبیت کہا جاتا ہے، موخر الذکر اصطلاح کتاب وسنت سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے چنانچہ ہم نے بھی اسی اصطلاح کو اختیار کیا ہے۔
۔(۱) توحید ذاتی: توحید ذاتی سے مراد یہ ہے کہ خدا کا کوئی مثل ونظیر نہیں ہے، یعنی اس کی ذات واجب الوجود ہے، اپنے وجود اور کمالات میں دوسروں سے بے نیاز صرف خداوند عالم کی ذات ہے، اس طرح خدا کے علاوہ تمام موجودات ممکن الوجود اور محتاج ہیں، چونکہ ہر ممکن الوجود مرکب ہوتا ہے (چاہے اجزاء عقلیہ وذہنیہ سے مرکب ہو یا اجزاء خارجی سے) لہٰذا واجب الوجود کے ایک ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ اس کی ذات بسیط ہے اور اس کی ذات میں کسی قسم کی ترکیب کا امکان نہیں ہے، یہ دونوں باتیں ائمہ اہل بیت (ع) کے اقوال میں مکرر و مؤکد طریقہ سے بیان ہوتی ہیں،لہذا ہم یہاں امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے قول پر ہی اکتفاء کرتے ہیں:۔
ایک شخص نے مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے خدا کی وحدت کے بارے میں دریافت کیا آپ (ع) نے ارشاد فرمایا: وحدت کے مختلف معانی ہوتے ہیں، کبھی وحدت اور توحید سے عدد اور مفہوم کی وحدت مراد ہوتی ہے، (مثلا کہا جاتا ہے کہ پاکستان دنیا کے ممالک میں سے ایک ملک ہے یا انسان حیوانات کی ایک قسم ہے ) خدا کے بارے میں ایسی وحدت کا تصور صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ وحدت کثرت کے ساتھ بھی جمع ہو سکتی ہے، اور کبھی وحدت سے مراد مثل ونظیر اور اجزاء عقلی و وہمی وخارجی کا نہ ہونا ہوتا ہے، خدا کی وحدت سے یہی مراد ہے (۲)۔
۔(۲) توحید صفاتی: توحید صفاتی کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے ذاتی صفات مثلا علم، قدرت و حیات، مفہوم کے لحاظ سے اگرچہ مختلف ہیں لیکن مصداق کے اعتبار سے ان میں کوئی اختلاف یا کثرت نہیں ہے اور ان سب کا مصداق خدا کی ذات بسیط ہے، بصورت دیگر ذات الٰہی میں اختلاف اور کثرت پائی جائے گی جو کہ توحید ذاتی کی بنا پر قابل قبول نہیں ہے اس طرح توحید ذاتی کا لازمہ توحید صفاتی ہے، اگر خدا کے صفات اس کے عین ذات نہ ہوں تو اس سے ذات الٰہی میں اختلاف وکثرت کے علاوہ واجب الوجود کا متعدد ہونا بھی لازم آئے گا، کیونکہ خدا کے صفات کو ممکن الوجود تسلیم نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ ممکن ہونے کا لازمہ احتیاج ہے لہٰذا اگر خدا کے صفات ممکن الوجود ہوں گے تو ذات الٰہی میں امکان واحتیاج پایا جائے گا۔
امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام، صفات زائد بر ذات کے انکار کوکمال توحید کی علامت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: کمال توحیدہ الاخلاص له وکمال الاخلاص له نفی الصفات عنه۔۔۔۔۔فمن وصف اللہ سبحانه فقد قرنه ومن قرنه فقد ثناہ ومن ثنّاہ فقد جزّاہ ومن جزّاہ فقد جھله۔(۳)۔
ترجمہ: توحید کا کمال اخلاص عقیدہ ہے اور اخلاص کا کمال زائد برذات صفات کی نفی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے لئے الگ سے صفات کا اثبات ایک شریک کا اثبات ہے اور اس کا لازمی نتیجہ ذات کا تعدد ہے اور تعدد کا مقصد اس کے لئے اجزاء کا عقیدہ ہے اوراجزاء کا عقیدہ صرف جہالت ہے۔
............................................................................................................................................................
حوالہ جات:۔
۔(۱) : سورہ نحل:آیت ۳۶۔
۔(۲): کتاب التوحید، شیخ صدوق، باب۳،حدیث۳۔
۔(۳): نہج البلاغہ، خطبہ اول۔