Ghulam-e-Qanbar
Councller (250+ posts)
عقیدہ توحید
عقیدہ توحید پر سلسلہ گفتگو کا دوسرا حصہ پیش خدمت ہے۔ پچھلے مضمون میں ہم نے عقیدہ توحید کا تعرف شروع کیا اور اس مرحلہ میں عقیدہ توحید سے متعلق عقیدے کے کچھ اہم جزئیات قارئین کرام کی نظر کئے لہذا پچھلی گفتگو سے مرتبط ہونے کے لئے اس لنک پر کلک کیجئے! پہلا حصہ
۔(۳) توحید در خالقیت و ربوبیت: خالقیت وربوبیت میں توحید سے مراد یہ ہے کہ خدا کے علاوہ کوئی خالق اور پروردگار نہیں ہے،خلقت اور کائنات کا نظام چلانے میں کوئی خدا کا شریک نہیں ہے اگر چہ خلقت کا نظام اسباب وعلل پرمبنی ہے لیکن ان اسباب وعوامل (خواہ طبیعی ہو ں یا غیر طبیعی) کی اپنی مستقل کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ یہ صرف خدائی مشیت اور الٰہی طاقت کے باعث اثر انداز ہوتے ہیں،قرآن میں دو طرح کی آیات ہیں جن سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے۔
کچھ آیات ایسی ہیں جو خلقت و ربوبیت کو ذات خدا سے مخصوص قرار دیتی ہیں اور بعض آیات میں کچھ افعال کی نسبت طبیعی وغیر طبیعی موجودات بلکہ خود انسان کی طرف بھی دی گئی ہے، بعض آیات میں ایک ہی فعل کی نسبت خدا کی طرف بھی دی گئی ہے اور دوسرے موجودات کی طرف بھی مثلاً موت کے وقت قبض روح کی نسبت ایک آیت میں براہ راست خدا کی جانب دی گئی ہے: ﷲُ یَتَوَفَّی الْأَنْفُسَ حِینَ مَوْتِهَا (۱)۔
دوسری آیات میں قبض روح کی نسبت ملک الموت کی طرف ہے: قُلْ یَتَوَفَّاکُمْ مَلَکُ الْمَوْتِ الَّذِی وُکِّلَ بِکُم (۲)۔
ملک الموت کے علاوہ دیگر فرشتوں کی جانب بھی نسبت دی گئی ہے: تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا (۳)۔
۔(۴) توحید عبادی: خدا کے علاوہ کوئی لائق عبادت نہیں ہے عبادت کا مطلب ہے کہ کسی موجود کے سامنے اس عقیدہ کے ساتھ خضوع اختیار کرنا کہ وہ خدا ہے یعنی اپنی ذات یا صفات یا افعال میں کسی کا محتاج نہیں ہے، اس کا وجود یا صفات وکمالات کسی کا عطیہ نہیں بلکہ ذاتی ہیں۔
چونکہ الوہیت صرف خدا سے مخصوص ہے لہٰذا عبادت بھی اسی سے مخصوص ہوگی اور اس کے علاوہ ہر ایک کی عبادت شرک ہوگی، واضح سی بات ہے کہ خدا کے علاوہ کسی کے سامنے الوہیت کے عقیدہ کے بغیر احترام کی نیت سے جھکنا یا خضوع اختیار کرنا شرک نہ ہوگا چاہے خضوع کی آخری حد یعنی سجدہ ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ قرآن کریم میں جناب آدم (ع) کے سامنے فرشتوں (۴) جناب یوسف (ع) کے سامنے جناب یعقوب (ع) ، آپ کی زوجہ اور برادران یوسف(ع) (۵) کے سجدہ کا تذکرہ موجود ہے۔
جناب آدم کو فرشتوں کا سجدہ حکم الٰہی کے باعث تھا، جناب یعقوب نبی تھے گناہ خصوصًا شرک جیسے گناہ سے مبرا اور معصوم تھے، برادران یوسف کے سجدہ پر بھی ملامت کا تذکرہ نہیں ہے کہ اس ملامت کو ہی سجدہ کے غلط ہونے کی دلیل قرار دیا جاسکے جب کہ شرک ظلم عظیم ہے (۶) ظلم ذاتاً قبیح ہے خدا کبھی بھی قبیح چیز کا حکم نہیں دے سکتا (۷)۔
لہٰذا آدم (ع) کے لئے فرشتوں اور یوسف کے لئے یعقوب اور آپ کے فرزندوں کے سجدے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر سجدہ عبادت کے بجائے تکریم وتعظیم کے لئے ہو تو شرک اور حرام نہیں ہے لیکن یہ کہنا بھی بعید نہ ہوگا کہ دینی نصوص کے ظواہر سے یہ استفادہ ہوتاہے کہ شریعت اسلامی میں غیر اللہ کے لئے سجدہ(چاہے عبادت کی نیت سے نہ ہوتب بھی) ممنوع اور حرام ہے (۸)۔
اسی سے کچھ "حضرات" کے عقائد کی خطا کا علم ہو جاتا ہے یہ لوگ انبیاء و اولیاء الٰہی سے توسل یا ان کی قبروں یا آثار سے حصول برکت کو شرک قرار دیتے ہیں، حالانکہ جو صاحبان ایمان ایسے اعمال انجام دیتے ہیں ان کا مقصد عبادت قطعًا نہیں ہوتا ہے اور یہ لوگ انبیاء واولیاء الٰہی کی الوہیت کے قائل نہیں ہیں بلکہ ان کا مقصد انبیاء اور اولیاء کی تعظیم و تکریم اور اس راہ سے قرب الٰہی کا حصول ہوتا ہے۔
چنانچہ یہ "حضرات" کہتے ہیں: عہد رسالت کے مشرکین بھی بتوں کی پرستش قرب الٰہی کی نیت سے کرتے تھے: مَا نَعْبُدُہُمْ إِلاَّ لِیُقَرِّبُونَا إِلَی اﷲِ زُلْفَی (۹)۔
ترجمہ: ہم ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ اللہ سے قریب کردیں گے۔
نیز مشرکین بتوں کو بارگاہ الٰہی میں شفیع سمجھ کر ان سے شفاعت طلب کرتے تھے: وَیَقُولُونَ ہَؤُلَاء شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اﷲِ (۱۰)۔
ترجمہ: او ر یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ خدا کے یہاں ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔
اس طرح غیر اللہ کی عبادت یا اس سے شفاعت طلب کرنا ہر چند تعظیم وتکریم کی نیت سے ہو شرک ہے۔
لیکن یہ دلیل غلط ہے عہد رسالت کے مشرکین بتوں کی پرستش کرتے تھے آیات واضح طور پر اس چیز کو بیان کرتی ہیں۔ چند امور میں ہی سہی وہ لوگ بتوں کی ربوبیت کے قائل تھے چنانچہ مشرکین قیامت میں اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے کہیں گے: تَاللَّهِ إِنْ كُنَّا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍإِذْ نُسَوِّیکُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِینَ (۱۱)۔
ترجمہ: خداکی قسم ہم کھلی ہوئی گمراہی میں تھے کہ تمہیں رب العالمین کا ہم پلہ سمجھتے تھے۔
مشرکین بتوں کو بطور مستقل یعنی مشیت و اذن الٰہی کے بغیر شفیع سمجھتے تھے اسی لئے قرآن ان کی غلطی کا اعلان کرتا ہے: مَنْ ذَا الَّذِی یَشْفَعُ عِنْدَہُ إِلاَّ بِإِذْنِہِ (۱۲)۔
ترجمہ:کون ہے جو اس کی بارگاہ میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے۔
بلا شبہہ ایسے عقاید ربوبیت اور تدبیر عالم میںشرک کا درجہ رکھتے ہیں اور کسی مسلمان کا ایسا عقیدہ نہیں ہے۔
..............................................................................................................................................................................
حوالہ جات:۔
۔(۱) سورہ زمر: آیت۴۲۔
۔(۲) ۔سورہ سجدہ: آیت ۱۱۔
۔(۳) سورہ انعام:آیت۶۱۔
۔(۴) وَ إِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَۃِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْلِیسَ سورہ بقرہ: آیت۳۴ ۔
۔(۵) وَ رَفَعَ أَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَہُ سُجَّدًا وَقَالَ یَاأَبَتِ ہَذَا تَأْوِیلُ رُؤْیَای مِنْ قَبْلُ سورہ یوسف: آیت۱۰۰۔
۔(۶) إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ سورہ لقمان: آیت۱۳۔
۔(۷) قُلْ إِنَّ اﷲَ لاَیَأْمُرُ بِالْفَحْشَائِ أَتَقُولُونَ عَلَی اﷲِ مَا لاَتَعْلَمُونَ سورہ اعراف: آیت۲۸۔
۔(۸) لکن الذوق الدینی المتخذ من الاستیناس بظواہرہ یقضی باختصاص ھذا الفعل بہ تعالیٰ ،والمنع عن استعمالہ فی غیرموردہ تعالیٰ وان لم یقصد بہ الا التحیۃ والتکرمۃ فقط المیزان، ج۱،ص۱۲۳نیز محاضرات فی الالھیات، ص۷۱ ملاحظہ فرمائیں۔
۔(۹) سورہ زمر: آیت۳۔
۔(۱۰) سورہ یونس: آیت۱۸۔
۔(۱۱) سورہ شعراء: آیت۹۷۔ ۹۸۔
۔(۱۲)سورہ بقرہ: آیت۲۵۵ ۔
کچھ آیات ایسی ہیں جو خلقت و ربوبیت کو ذات خدا سے مخصوص قرار دیتی ہیں اور بعض آیات میں کچھ افعال کی نسبت طبیعی وغیر طبیعی موجودات بلکہ خود انسان کی طرف بھی دی گئی ہے، بعض آیات میں ایک ہی فعل کی نسبت خدا کی طرف بھی دی گئی ہے اور دوسرے موجودات کی طرف بھی مثلاً موت کے وقت قبض روح کی نسبت ایک آیت میں براہ راست خدا کی جانب دی گئی ہے: ﷲُ یَتَوَفَّی الْأَنْفُسَ حِینَ مَوْتِهَا (۱)۔
دوسری آیات میں قبض روح کی نسبت ملک الموت کی طرف ہے: قُلْ یَتَوَفَّاکُمْ مَلَکُ الْمَوْتِ الَّذِی وُکِّلَ بِکُم (۲)۔
ملک الموت کے علاوہ دیگر فرشتوں کی جانب بھی نسبت دی گئی ہے: تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا (۳)۔
۔(۴) توحید عبادی: خدا کے علاوہ کوئی لائق عبادت نہیں ہے عبادت کا مطلب ہے کہ کسی موجود کے سامنے اس عقیدہ کے ساتھ خضوع اختیار کرنا کہ وہ خدا ہے یعنی اپنی ذات یا صفات یا افعال میں کسی کا محتاج نہیں ہے، اس کا وجود یا صفات وکمالات کسی کا عطیہ نہیں بلکہ ذاتی ہیں۔
چونکہ الوہیت صرف خدا سے مخصوص ہے لہٰذا عبادت بھی اسی سے مخصوص ہوگی اور اس کے علاوہ ہر ایک کی عبادت شرک ہوگی، واضح سی بات ہے کہ خدا کے علاوہ کسی کے سامنے الوہیت کے عقیدہ کے بغیر احترام کی نیت سے جھکنا یا خضوع اختیار کرنا شرک نہ ہوگا چاہے خضوع کی آخری حد یعنی سجدہ ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ قرآن کریم میں جناب آدم (ع) کے سامنے فرشتوں (۴) جناب یوسف (ع) کے سامنے جناب یعقوب (ع) ، آپ کی زوجہ اور برادران یوسف(ع) (۵) کے سجدہ کا تذکرہ موجود ہے۔
جناب آدم کو فرشتوں کا سجدہ حکم الٰہی کے باعث تھا، جناب یعقوب نبی تھے گناہ خصوصًا شرک جیسے گناہ سے مبرا اور معصوم تھے، برادران یوسف کے سجدہ پر بھی ملامت کا تذکرہ نہیں ہے کہ اس ملامت کو ہی سجدہ کے غلط ہونے کی دلیل قرار دیا جاسکے جب کہ شرک ظلم عظیم ہے (۶) ظلم ذاتاً قبیح ہے خدا کبھی بھی قبیح چیز کا حکم نہیں دے سکتا (۷)۔
لہٰذا آدم (ع) کے لئے فرشتوں اور یوسف کے لئے یعقوب اور آپ کے فرزندوں کے سجدے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر سجدہ عبادت کے بجائے تکریم وتعظیم کے لئے ہو تو شرک اور حرام نہیں ہے لیکن یہ کہنا بھی بعید نہ ہوگا کہ دینی نصوص کے ظواہر سے یہ استفادہ ہوتاہے کہ شریعت اسلامی میں غیر اللہ کے لئے سجدہ(چاہے عبادت کی نیت سے نہ ہوتب بھی) ممنوع اور حرام ہے (۸)۔
اسی سے کچھ "حضرات" کے عقائد کی خطا کا علم ہو جاتا ہے یہ لوگ انبیاء و اولیاء الٰہی سے توسل یا ان کی قبروں یا آثار سے حصول برکت کو شرک قرار دیتے ہیں، حالانکہ جو صاحبان ایمان ایسے اعمال انجام دیتے ہیں ان کا مقصد عبادت قطعًا نہیں ہوتا ہے اور یہ لوگ انبیاء واولیاء الٰہی کی الوہیت کے قائل نہیں ہیں بلکہ ان کا مقصد انبیاء اور اولیاء کی تعظیم و تکریم اور اس راہ سے قرب الٰہی کا حصول ہوتا ہے۔
چنانچہ یہ "حضرات" کہتے ہیں: عہد رسالت کے مشرکین بھی بتوں کی پرستش قرب الٰہی کی نیت سے کرتے تھے: مَا نَعْبُدُہُمْ إِلاَّ لِیُقَرِّبُونَا إِلَی اﷲِ زُلْفَی (۹)۔
ترجمہ: ہم ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ اللہ سے قریب کردیں گے۔
نیز مشرکین بتوں کو بارگاہ الٰہی میں شفیع سمجھ کر ان سے شفاعت طلب کرتے تھے: وَیَقُولُونَ ہَؤُلَاء شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اﷲِ (۱۰)۔
ترجمہ: او ر یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ خدا کے یہاں ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔
اس طرح غیر اللہ کی عبادت یا اس سے شفاعت طلب کرنا ہر چند تعظیم وتکریم کی نیت سے ہو شرک ہے۔
لیکن یہ دلیل غلط ہے عہد رسالت کے مشرکین بتوں کی پرستش کرتے تھے آیات واضح طور پر اس چیز کو بیان کرتی ہیں۔ چند امور میں ہی سہی وہ لوگ بتوں کی ربوبیت کے قائل تھے چنانچہ مشرکین قیامت میں اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے کہیں گے: تَاللَّهِ إِنْ كُنَّا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍإِذْ نُسَوِّیکُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِینَ (۱۱)۔
ترجمہ: خداکی قسم ہم کھلی ہوئی گمراہی میں تھے کہ تمہیں رب العالمین کا ہم پلہ سمجھتے تھے۔
مشرکین بتوں کو بطور مستقل یعنی مشیت و اذن الٰہی کے بغیر شفیع سمجھتے تھے اسی لئے قرآن ان کی غلطی کا اعلان کرتا ہے: مَنْ ذَا الَّذِی یَشْفَعُ عِنْدَہُ إِلاَّ بِإِذْنِہِ (۱۲)۔
ترجمہ:کون ہے جو اس کی بارگاہ میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے۔
بلا شبہہ ایسے عقاید ربوبیت اور تدبیر عالم میںشرک کا درجہ رکھتے ہیں اور کسی مسلمان کا ایسا عقیدہ نہیں ہے۔
..............................................................................................................................................................................
حوالہ جات:۔
۔(۱) سورہ زمر: آیت۴۲۔
۔(۲) ۔سورہ سجدہ: آیت ۱۱۔
۔(۳) سورہ انعام:آیت۶۱۔
۔(۴) وَ إِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَۃِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْلِیسَ سورہ بقرہ: آیت۳۴ ۔
۔(۵) وَ رَفَعَ أَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَہُ سُجَّدًا وَقَالَ یَاأَبَتِ ہَذَا تَأْوِیلُ رُؤْیَای مِنْ قَبْلُ سورہ یوسف: آیت۱۰۰۔
۔(۶) إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ سورہ لقمان: آیت۱۳۔
۔(۷) قُلْ إِنَّ اﷲَ لاَیَأْمُرُ بِالْفَحْشَائِ أَتَقُولُونَ عَلَی اﷲِ مَا لاَتَعْلَمُونَ سورہ اعراف: آیت۲۸۔
۔(۸) لکن الذوق الدینی المتخذ من الاستیناس بظواہرہ یقضی باختصاص ھذا الفعل بہ تعالیٰ ،والمنع عن استعمالہ فی غیرموردہ تعالیٰ وان لم یقصد بہ الا التحیۃ والتکرمۃ فقط المیزان، ج۱،ص۱۲۳نیز محاضرات فی الالھیات، ص۷۱ ملاحظہ فرمائیں۔
۔(۹) سورہ زمر: آیت۳۔
۔(۱۰) سورہ یونس: آیت۱۸۔
۔(۱۱) سورہ شعراء: آیت۹۷۔ ۹۸۔
۔(۱۲)سورہ بقرہ: آیت۲۵۵ ۔
Last edited: