میرے عزیز ہموطنو کے خطاب سے ہمارے کان اچھی طرح سے مانوس ہیں، ہمارے ملک میں فوج ہمیشہ طاقت کا سرچشمہ رہی ہے۔
آزادی کے بعد سے براہِ راست فوجی اقتدار کا عرصہ 17برس ہے۔ اس دور میں چار فوجی صدر ہیں جن میں سے ایک بغیروردی یعنی ایوب اور تین باوردی یعنی یحیٰ، ضیاء اور مشرف شامل ہیں۔ حکمران جرنیل اس بات پر مصر رہے کہ ان کے دورِ صدرات میں ہی 'اصل' جمہوریت رہی ہے جو سیاست دانوں کے ادوار کی 'نام نہاد'جمہوریت کی تمام آلائشوں سے پاک ہے۔
وطن عزیز میں حکمرانوں نے ہمیشہ قبائلی اور جاگیردارانہ پس منظر رکھنے والے طبقۂ اشرافیہ سے ریاستی وسائل کی تقسیم کے معاملات طے کیے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے ہم فوج کے طاقت میں آنے کی وجوہات کا سراغ ڈھونڈ سکتے ہیں۔
تاہم فوجی حکومت کے باوجود انتظامی ڈھانچے کے کنٹرول میں کسی لحاظ سے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ، جو ہمیشہ سے سول بیوروکریسی کے ہاتھوں میں ہے۔
چاروں مرتبہ فوجی اقتدار کے خاتمے پر انتخابات کے ذریعے عوامی حکومت قائم کرنے کا عمل دہرایا گیا۔ دراصل پاکستان میں سیاست ایک ایسی جمہوریت کی جانب مسلسل محوِ سفر ہے جس میں جابجا فوجی اور غیرفوجی طرزحکمرانی کے نشانات ہیں۔
اس سے سول ملٹری تعلقات کا تقریباً ایک مستحکم سانچا وجود میں آ گیا ہے جس میں تمام سول حکومتیں فوجی حکومتوں کی وضع کی ہوئی پالیسیوں کے بارے میں بہت محتاط رہتی ہیں۔ اور جب وہ غیر محتاط ہوتی ہیں، تو پھر عزیز ہموطنو کی صدائے بازگشتگونج اٹھتی ہے۔