عراق کے دارلحکومت بغداد کے وسط میں موجود ریلوے سٹیشن کو سنہ 1950 میں برطانوی ماہرِ تعمیرات نے ڈیزائن کیا تھا لیکن سنہ 2003 میں عراق میں امریکی افواج کی آمد کے بعد اس سٹیشن کو کافی نقصان پہنچا اس عالیشان عمارت کے درمیان میں موجود گمبند ابھی تک ماضی کی شان وشوکت کی گواہی دے رہا ہے۔علی الکرکی گذشتہ 30 برسوں سے ٹرین کے ڈرائیور ہیں۔
عروج کے دور میں اس ریلوے سٹیشن سے یروشلم تک کا پرتعیش سفر بھی کیا جاتا تھا لیکن اب سب سے لمبا صرف بسرا تک ہوتا ہے۔ جو کہ ایک رات میں مکمل ہو جاتا ہے لمبی ٹرین محض چھ بوگیوں تک محدود ہو گئی ہے اور ریلوے کی زبوں حالی کے سبب 200 سے زائد ڈرائیوروں کی ملازمت ختم کر دی گئی ہے
عراق میں سکیورٹی ایک اہم مسئلہ ہے اور ٹرین میں سوار ہونے سے پہلے مسافروں کے سامان کی خوب تلاشی لی جاتی ہے۔
ٹرین ڈرائیور مسٹر کرکی کہتے ہیں کہ وہ اپنے بچپن میں مکان کی بالکونی سے ٹرینوں کو گزرتے دیکھتے تھے اور ٹرین کی گھنٹی ابھی بھی اُن کو اپنے بچپن میں واپس لے جاتی ہے۔کرکی کے والد کا تعلق بغداد سے تھا جبکہ اُن کی والدہ ایرانی نژاد کرد تھیں۔سنہ 1989 میں انھیں عراق کے صدر صدام حسین کی ٹرین چلانے کے لیے منتخب کیا گیا لیکن جب اُن والدہ کے آباؤ اجداد کے بارے میں پتہ چلا تو انھیں اس ڈیوٹی سے ہٹا دیا گیا۔
سابق صدر صدام حسین کی ٹرین کا ایک ڈبے جیسے سنہ 1981 میں فرانس سے خریدا گیا تھاسنہ 2003 میں عراق میں صدام کی حکومت ختم ہونے کے بعد عراق کی ریاست حکومت ناکارہ ہو گئی اور سرکاری املاک کی لوٹ مار شروع ہو گئی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ٹرین کے یہ ناکارہ ڈبے عراق کی تباہی کی مثال ہیں۔‘
بغداد کی ٹرین لائن کے اُس پار قبرستان ہے۔ٹرین ڈرائیور علی الکرکی کہتے ہیں کہ ٹرین کے ایک طرف لوگوں کا قبرستان ہے اور دوسری جانب ٹرینوں کا قبرستان ہے۔‘قبرستان کی جانب چلتے ہوئے انھوں نے کچھ قبروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ اُن کے ساتھی کے خاندان کی قبریں ہیں جنھیں شدت پسندوں نے ہلاک کر دیا تھا۔
Source