عدلیہ اور اپوزیشن کےطرز عمل میں مماثلت
میرے جیسے بہت سے لوگوں کو 90 کی دہائی یاد ہوگی جب اپوزیشن اور حکومت میں ہر وقت محاذِ جنگ گرم رہتا جسکی وجہ سے 1988 سے لیکر 1999 کے 10 سالہ عرصہ میں بجائے 2 حکومتیں تبدیل ہونے کے 4 حکومتیں تبدیل ہوئیں۔ گو میں اسوقت کے اپوزیشن سے بھی زیادہ مطمئن نہیں تھا کیوں کسی بھی لیڈر کو باوجود چوری اور مار دھاڑ کے نہ سزا ہوسکی اور نہ کوئی ساری عمر کے لیے نااھل ہوا۔
پھر 1999 میں مارشل لاء لگا جو 2008 تک جاری رہا۔ 2008 کے الیکشنز سے پہلے دو بڑی جماعتوں نے سی آر ڈی کرلیا کہ خواہ کوئی کچھ بھی کہتا رہے ہم ایک دوسرے کو کچھ نہیں نہیں کہینگے اور ایک دوسرے کی مار دھاڑ پہ آنکھیں بند کیے رکھے گے۔ گو کہ عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے میڈیا کے سامنے ایک دوسرے کو خوب لتاڑینگے لیکن عملی طور پہ کچھ نہیں کرینگے۔ اور یہ عمل پہلے 5 سال ن-لیگ نے خوب نبھایا اور پھر 2013 سے لیکر اب تک پی پی پی یہ دوغلہ پن خوب نبھا رہی ہے۔ عوام کو بہکانے کے لیے پی پی پی تو خوب شور مچاتی ہے لیکن پھر وہی ن-لیگ زرداری کی 70 کھانوں سے تواضع کرتی پائی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
مندرجہ بالا تمہید کچھ لمبی ہوگئی۔ اب آتے ہیں اصل مدعے کیطرف اور یہ ہے کہ ہماری عدلیہ کا طرز عمل بھی اپوزیشن کیطرح ہوگیا ہے جیسے یہ بھی سی آر ڈی کا حصّہ ہے؟ اپوزیشن کیطرح میڈیا پہ ٹکر (اکا پٹیاں) چلانے کے لیے حکومت کو خوب لتاڑتے رہو کہ عدلیہ اتنی غصّہ لگے جیسے اب کی اب حکومت کو چلتا کردیگی۔۔ پنجابی فلموں کیطرح دھاڑینگے تو خوب، بھڑکے تو خوب مارینگے لیکن حکومت کو کچھ نہیں کہے نگے۔ سب عوام کو خوب بیوقوف بناتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ یہانتک کہ عدلیہ کسی حکومتی نمائیندے سے کرپشن اور امن و امان وغیرہ کی خراب تر صورتحال بارے پوچھ گچھ تو کُجا ابھی تک کسی ادارے مثلاً نیب یا ایف آئی اے کسے سربراہ کو بھی بُلا کے انکی سرزنش کی ہو۔۔۔۔۔۔۔ نومبرکی کسی تاریخ کو نیب کے سربراہ کو پانامہ کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں حاضری دینی تھی لیکن وہ اتنا دلیر کہ چین چلا گیا اور سپریم کورٹ صرف یہ کہتے رہ گئی کہ نیب کی سربراہ کی آج پیشی تھی لیکن وہ چین چلا گیا۔ میرے خیال میں وہ چین سے آچکا ہے لیکن مجال ہے سپریم کورٹ اسے بُلا سکی ہو۔۔ باقی کئی مثالیں بھی دی جاسکتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ٹِکرز ایسے ہوتے ہیں جیسے یہ عدلیہ اس حکومت سے شدید نفرت کرتی ہے۔
بس عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے مندرجہ ذیل قسم سے ٹکر ہم نے بہت پڑھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جب عملی کام کا وقت آگیا تو پرائمری سکول کے بچوں کیطرح انہیں اپنی سردیوں کی چھٹیاں قومی نوعیت کے ایک بہت اہم کیس سے بہت عزیز لگنی لگی۔ معلوم نہیں یہ سب اپنی کے جی کلاسز سے لیکر اب تک درجنوں دفعہ سردیوں کی چھٹیاں منا چکے ہیں لیکن اپنی ریٹائرمنٹ کے آخری چھٹیاں بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔۔۔۔۔ معلوم نہیں یہ اخلاقیات کی کمی ہے یا ہمت کی جو خود تو فیصلے سے بھاگ گئے لیکن اس اُمید پہ کہ دوسرے ججز بہت 'باہمت' ہونگے لیکن میرے خیال میں یہ سارے ججز جراثیم زدہ اور بُزدل (جیسے انگریزی میں سپائنلس کہتے ہیں) ہیں۔۔ ان میں بیشتر کو یا زرداری کی حکومت نے ججز بنایا ہے یا نواز کی حکومت نے تو کہاں کی ہمت اور کہاں کی ایمانداری؟
مختلف کیسز سے گواہوں، ملزمان اوروکیلوں کا بھاگنا تو سُنا تھا، ججز کا بھاگنا پہلی مرتبہ دیکھا ہے جو پاکستان عدلیہ کی تاریک تاریخ میں ایک اور تاریک باب رقم کرگئے۔
بقول کسی شاعر (عظیم بیگ) کے:۔
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثلِ برق
وہ طِفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بَل چلے
مختلف کیسز سے گواہوں، ملزمان اوروکیلوں کا بھاگنا تو سُنا تھا، ججز کا بھاگنا پہلی مرتبہ دیکھا ہے جو پاکستان عدلیہ کی تاریک تاریخ میں ایک اور تاریک باب رقم کرگئے۔
بقول کسی شاعر (عظیم بیگ) کے:۔
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثلِ برق
وہ طِفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بَل چلے
- Featured Thumbs
- http://i68.tinypic.com/213oho4.jpg
Last edited: