یہ ایک
flawed
تجزیہ ہے، عدالت اور اسٹبلشمنٹ کی لڑائی کا پلڑا برابر ہے تیقن کے ساتھ کہا نہیں جا سکتا آخر میں کون جیتے گا۔
میرے خیال میں عدالت اور ججوں کے ذہن کے
backdrop
میں افتخار محمد چوہدری کی عدلیہ بحالی تحریک موجود ہے۔ اُس وقت کی اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ کی لڑائی میں، بالآخر عدلیہ کی جیت ہوئی تھی۔
اسٹبلشمنٹ اپنی پاور یعنی مارشل لاء ایکسرسائز نہیں کر سکتی، نا زمینی حقائق اس کی اجازت دیں گے نا عدلیہ سے گرین لائٹ ملے گی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کا موڈ تو واضح ہے۔
بات بالآخر سپریم کورٹ میں جا کر رکے گی۔
جہاں ایک واضح تقسیم نمایاں ہے ۔
قاضی سمیت بعض جج اسٹبلشمنٹ سے افہام و تفہیم سے معاملات کو سدھارنے کی کوشش میں ہیں۔ وہیں منصور، اطہر جیسے جج بھی ہیں جو جوڈیشل پاور کا اظہار چاہتے ہیں۔
کئی دفعہ جب انسان کھیل میں جیت نہ سکتا ہو مگر اس کا پاس طاقت ہو تو گھتی میں موترنا بھی فائدہ مند ہوتا ہے کیونکہ اس کے بعد جیتنے والی ٹیم کھیل جاری نہیں رکھ سکتی یا وکٹیں اکھاڑ کے بھاگ جانا بھی ایسے ہی ہوتا ہے عدلیہ کے پاس ٹینک تو نہیں اور نہ ہی بندوقیں ہیں مگر موڈ اس کا گتھی میں موترنے کا ہے تاکہ ایسٹیبلشمنٹ کا کھیل جاری نہ رہ سکے اور ایسا عدلیہ اس لیے نہیں کرہی کہ اسے عدل وانصاف سے محبت ہے ہرگز نہیں بلکہ ان کی اپنی تذلیل کی گئی ہے اس کا بدلہ چکانا ہے
جیتے گا وہی جسے اللہ چاہے گا اور جو حق پر ہوگا اور جیت ہمیشہ حق کی ہوتی آئی ہے اور انشا اللہ اب بھی ہوگی اگر طاقت نے جیتنا ہوتا تو امریکہ اور بائس تیئس ملکوں کی فوج سے مٹھی بھر طالبان کبھی نا جیت سکتے جنگ بدر میں تین سو تیرہ مجاہدین ہزاروں کے مقابلے میں نا جیت پاتے یہ سوج ہی غلط اور گدھے والی ہے کہ طاقت جیتتی ہے اگر ایسا ہوتا تو مشرف کو زلیل ہوکر پاکستان سے بھاگنا نا پڑتا نہتے بنگالیوں کے سامنے ترانوے ہزار پتلونیں نا اترتیں
طاقت نے جیتنا ہوتا تو امریکہ افغانستان اور ویت نام سمیت کوئی جنگ نا ہارتا