ابابیل
Senator (1k+ posts)
"الصحابة كلهم عدول" صحابہ کرامؓ کے اوساف اور دینی مرتبہ
اللہ تعالیٰ جب کبھی کوئی نبی یا رسول مبعوث فرماتا ہے تواسے انتہائی مخلص،ایثار شعار اور جان نثار ساتھی عطا فرماتا ہے۔جو رسول کی تربیت اور زمانے کی ابتلاء اور آزمائش کی بھٹی سے کندن بن کر نکلتے ہیں۔جو ہر مشکل وقت اور مصیبت میں رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کاساتھ دیتے ہیں۔رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اعانت میں اپنی جان،اپنا مال اور اپنا تمام سرمایہ حیات اللہ کی خاطر،اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے قدموں میں ڈھیر کردیتے ہیں۔نبی کی تائید اور مدفعت میں اپنا وطن،اپنی اولاد،اپنے ماں باپ اور خود اپنی جان تک قربان کردیتے ہیں اور ایمان کاتقاضا بھی یہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نبی کو ہر قسم کی صلاحیت بدرجہ اتم عطا کرکے مبعوث فرماتا ہے،اس کا فہم وفراست ثاقب اور اس کی بصیرت زماں ومکان کے پار جھانکتی ہے۔ اس کی مردم شناسی خطا سے مبرا اور اس کا انتخاب صائب ہوتاہے۔تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ک منتخب کردہ افراد اس کی تربیت اور صحبت خاصہ اور باطل کے خلاف کشمکش اور آزمائشوں کے جاں گسل دور سے گزرنے کے بعد اپنی سیرت وکردار میں نبی کا پر توبن جاتے ہیں۔ان میں سے جو کوئی جس قدر نبی کے قریب ہوتا ہے۔اسی قدر اس کی سیرت وکردار کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا ہے۔نبی اپنے ساتھی منتخب کرنے میں غلطی نہیں کرسکتا۔
عدالت صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین :۔
تمام محدثین وفقہاء اس اصول پرمتفق ہیں:۔"الصحابة كلهم عدول"یعنی تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین عادل ہیں۔اور روایت حدیث میں قابل اعتبار ہیں۔
عدالت،لغت عرب میں ایک وسیع معانی ومفاہیم رکھنے والا لفظ ہے۔چنانچہ"لساب العرب" میں مرقوم ہے۔"العدل :ما قام في النفوس انه مستقيم"(یعنی جس کی درستگی لوگوں کےذہنوں میں ہو)
اور یہ ظلم اور جور کی ضد ہے۔دوسرا مفہوم قرآن مجید میں یوں آتا ہے۔﴿وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا ... ١٥٢﴾...الأنعام "جب تم بات کرو توانصاف کی بات کرو") یعنی درست بات کرو۔تیسرا مفہوم برابری اور فدیہ کا ہے﴿لَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ ...١٢٣﴾...البقرة "اس سے کوئی فدیہ قبول نہ کیا جائے گا۔ چوتھا مفہوم شرک کا ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿...ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ ﴿١﴾... الأنعام "پھر وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اپنے رب کے ساتھ شرک کرتے ہیں" اس کا پانچواں معنی درست ،متناسب اور معتدل ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:( خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ)"اس نے تجھے پیدا کیا،پھر ٹھیک سے برابر کیا،پھر متناسب اور درست کیا"
سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم راویان حدیث کے توسط سے ہم تک پہنچی ہے،اس لئے اصول حدیث اور فن حدیث کے ماہرین نے ان راویوں سے حدیث قبول کرنے کے لئے متعدد شرائط مقرر کررکھی ہیں۔جن میں سے دو شرائط قبولیت حدیث کے لئے ائمہ حدیث کے نزدیک اساسی حیثیت رکھتی ہیں۔جن کا تعلق براہ راست راوی کی ذات اور اس کے احوال سے ہے۔
1۔عدالت۔2۔ضبط
شرعی اصطلاحی میں عدالت مخطورات سے اجتناب کے ذریعے راہ حق پر استقامت سے تعبیر ہے۔ائمہ حدیث کے نزدیک درج ذیل صفات راوی میں عدالت کو متحقق کرتی ہیں۔
1۔راوی کا مسلمان ہونا۔2۔راوی کا عاقل ہونا۔3۔روایت حدیث کے وقت راوی کا بالغ ہونا۔4۔راوی کاتمام اسباب فسق سے بچنا۔یعنی کبائر سے اجتناب کرنا اور صغائر پر مصر نہ ہونا۔
یعنی مجموعی طور پر اس میں بھلائی غالب ہو۔راوی خلاف مروت افعال خیسہ سے پرہیز کرتا ہو۔مثلاً بازاروں سے چلے پھرتے کھانا پینا۔شارع عام پر پیشاب کرنا،رزیل اور بدقماش لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا،زبان کو گالی گلوچ سے ملوث کرنا اور مزاج میں افراط سے کام لینا۔
"ضبط" سے مرا دہے کہ عادل راوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کو نظم کلام کے مطابق اپنے سینے یا ا پنی کتاب اور صحیفے میں محفوظ رکھنے کی اہلیت رکھتا ہو۔
انسانی سیرت میں عدالت ایک ایسا رویہ ہے جو تعمیر شخصیت اور اسلامی تربیت کے ذریعے مسلم فرد میں اُجاگر ہوتا ہے۔جس کی بناء پر وہ ہر اس امر سے اجتناب کرتاہے جو اسلام کے حوالے سے اسکی شخصیت میں قبیح نقص پیدا کرے۔کسی راوی کی عدالت ہمیں دو ذریعوں سے معلوم ہوتی ہے:
اول:راوی کے ہم عصر معتمد علمائے فن حدیث اس کو عادل قرار دیں یعنی وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اس میں ایسا کوئی امر نہیں پایا گیا جو اس کی عدالت کے منافی ہو۔
ثانی:راوی کی عدالت تواتر سے ثابت ہو اور اہل علم میں اس کی عدالت شہرت رکھتی ہو اور اہل علم اس کے بارے میں کلمہ خیر ہی کہتے ہوں۔ایسے راوی کی تعدیل کی ضرورت نہ ہوگی۔جیسے ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہ ،سفیان بن عینیہ رحمۃ اللہ علیہ ،سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ ،اوراوزاعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین عادل ہیں،تو اس کامعنی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام بیان کرنے میں انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔اور نہ ایسے امور کے مرتکب ہوئے جو عدالت کے منافی ہیں۔استقراء سے بھی یہ حدیث واضح ہوجاتی ہے کہ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کی آپس کی مشاجرت اوربعض معاملات میں شکر رنجی کے باجود انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے کبھی کوئی جھوٹی حدیث روایت نہیں کی۔
کسی راوی کو عادل قرار دینے کے لئے علماء ایک یا دو اہل علم کی تعدیل کو کافی قرار دیتے ہیں ۔اور اس کی روایت کو قبول کرلیتے ہیں۔تب ان راویوں کے بارے میں کیا خیال ہے جن کی تعدیل خود اللہ تعالیٰ نے ایک نہیں،بیسیوں آیات میں نہایت زوردور اور بلیغ انداز میں کی ہو۔
لہذا ائمہ فن حدیث وفقہ اس امر پر متفق ہیں کہ کسی راوی کے صحابی ثابت ہوجانے کے بعد اس کے بارے میں قرآن کی تعدیل کافی ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖتَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿٢٩﴾...الفتح
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثرسے ہے، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے، مثل اسی کھیتی کے جس نے اپنا انکھوا نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وه موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے، ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ثواب کا وعده کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
﴿لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ﴿٨﴾...الحشر
"ان مہاجر مسکینوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں وه اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں"
اس سے اگلی آیت میں انصار کی مدح کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ...٩﴾...الحشر
"اور (ان کے لیے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی ہے اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وه اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو"
انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کی خاطرہجرت کی اور انصار نے محض اللہ تعالیٰ کی رجا جوئی کے لئے ہجرت کرکے آنے والوں کو پناہ دی۔اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا اور ان کو ان الفاظ میں اپنی ر ضا اور خوشنودی کی سند عطاکی:
﴿وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١٠٠﴾...التوبة
"اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وه سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے"
اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا اورخوشنودی کی سند ان تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو عطا فرمائی جنھوں نے صلح حدیبیہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی اور زندگی کے آخری لمحات تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کا عہد کیا اور پھر اسے سچ کردکھایا۔اللہ تعالیٰ نے اپنی خوشنودی کی شہادت ان الفاظ میں دی ہے۔
﴿لَّقَدْ رَضِيَ اللَّـهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا ﴿١٨﴾...الفتح
"یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وه درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کر لیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی"
اللہ تعالیٰ کی رضاکا پروانہ بہت بڑا پروانہ ہے۔انسانون کی تعدیل اس کے سامنے ہیچ ہے۔یہی بندہ مومن کے جہاد زندگانی کا مقصد، یہی اس کا مطلوب ومقصود اور یہی اس کی سعی کا محاحصل ہے خود اللہ تعالیٰ نے اس کو ہر ثواب سے بڑھ کر اور ہر اجر سے افضل قرار دیا ہے:
﴿ وَعَدَ اللَّـهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّـهِ أَكْبَرُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿٧٢﴾...التوبة
"ان ایمان دار مردوں اور عورتوں سے اللہ نے ان جنتوں کا وعده فرمایا ہے جن کے نیچے نہریں لہریں لے رہی ہیں جہاں وه ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں اور ان صاف ستھرے پاکیزه محلات کا جو ان ہمیشگی والی جنتوں میں ہیں، اور اللہ کی رضامندی سب سے بڑی چیز ہے، یہی زبردست کامیابی ہے"
اللہ کے دین کی خاطر ہجرت کرنے اور اس کے رستے میں جہاد کرنے والے اصحاب کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے بارےمیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اَلَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللَّـهِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ ﴿٢٠﴾بَشِّرُهُمْ رَبُّهُم بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌ﴿٢١﴾ ...التوبة
جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی، اللہ کی راه میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کیا وه اللہ کے ہاں بہت بڑے مرتبہ والے ہیں، اور یہی لوگ مراد پانے والے ہیں،انہیں ان کا رب خوشخبری دیتا ہے اپنی رحمت کی اور رضامندی کی اور جنتوں کی، ان کے لئے وہاں دوامی نعمت ہے"
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ان صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو خیر وفلاح اور فوز عظیم کی سند سے سرفراز فرمایا:
﴿لَـٰكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ وَأُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٨٨﴾ أَعَدَّ اللَّـهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿٨٩﴾...التوبة
"لیکن خود رسول اللہ اور اس کے ساتھ کے ایمان والے اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں، یہی لوگ بھلائیوں والے ہیں اور یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں (88) انہی کے لئے اللہ نے وه جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے"
ایک اور مقام پر فرمایا:
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُ*وا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُ*وا أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُم مَّغْفِرَ*ةٌ وَرِ*زْقٌ كَرِ*يمٌ(26)
"جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راه میں جہاد کیا اور جنہوں نے پناه دی اور مدد پہنچائی، یہی لوگ سچے مومن ہیں، ان کے لئے بخشش ہے اور عزت کی روزی"
مکہ مکرمہ سے ہجرت عامہ کے بعد ہجرت کرنے والوں کے لئے فرمایا:
﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا مِن بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ ... ٧٥﴾...الأنفال
"اور جو لوگ اس کے بعد ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا۔ پس یہ لوگ بھی تم میں سے ہی ہیں"
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی پکار پر اپناگھر بار چھوڑ دینے اور ہجرت کرنے کو ایمان کی سچائی کا میعار قرار دیا ہے۔صرف ہجرت کرنے والوں کو اور انصا ر کو ایک دوسرے کا سرپرست قراردیا ہے۔
فرمایا:۔
﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَـٰئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُم مِّن وَلَايَتِهِم مِّن شَيْءٍ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا ۚ وَ...٧٢﴾...الأنفال
"جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راه میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے ان کو پناه دی اور مدد کی، یہ سب آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، اور جو ایمان تو لائے ہیں لیکن ہجرت نہیں کی تمہارے لئے ان کی کچھ بھی رفاقت نہیں جب تک کہ وه ہجرت نہ کریں۔"
ہجرت ایک کسوٹی ہے۔جو ایمان اور نفاق کو الگ کردیتی ہے۔یقیناً اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپناگھر بار ،اپنا وطن اوراپنے عزیز واقارب چھوڑنا بہت بڑی فضیلت ہے ۔یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے۔جس کا قلب اللہ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے لبریز ہو۔یہ بہت بڑی آزمائش ہے۔ جنھوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کی،یہ وہ لوگ نہ تھے جو سہولتیں اور آسائشیں تلاش کرنے کےلیے مدینے گئے تھے۔ان میں اکثر تو ایسے لوگ تھے جو لٹ پٹ کر گرتے پڑتے بے سروسامانی کی حالت میں مدینہ پہنچے،مدینہ پہنچ کر انھیں باغات اور محلات الاٹ نہیں ہوگئے۔بلکہ وہاں تو انھیں بھوک اور مشقت کا سامنا کرنا پڑا۔ان میں بھی اکثریت ان لوگوں کی تھی جو بھوک سے نڈھال مسجد نبوی میں ایک چبوترے پر بیٹھے حصول علم میں مشغول رہتے تھے۔ایسے ہی لوگوں کی طرف اشارہ کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے﴿كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ... ١١٠﴾...آل عمران کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:" یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی: ایسا کون سا منافق ہے جو ا پنا وطن،آسائش،اور عزیز واقارب کو چھوڑ کر شہادت گاہ ِالفت میں قدم رکھتا ہے۔منافق تو صرف مفادات کی طرف لپکتے ہیں۔اوراگر کوئی شخص اس غلط فہمی میں اپنا گھر بار چھوڑ کر مدینہ پہنچ گیا کہ اس میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہوں گی،محلات اور باغات ہوں گے تو وہ وہیں سے اُلٹے پاؤں لوٹ گیا۔اور اس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کا مستحق ٹھہرا۔
انسان جس دھرتی پر جنم لیتا ہے،وہ اسے فطری طور پر بہت پیاری ہوتی ہے۔مکہ مکرمہ کی سرزمین بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو بہت عزیز تھی۔مگر جب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اپنے اس محبوب خطہء سرزمین کوچھوڑ دیا۔بہت سے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین مدینہ پہنچ کر مکہ مکرمہ کو یاد کرکے اس کی جدائی میں اشعار پڑھا کرتے تھے۔محدثین ومورخین نے ان حضرات میں ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عامر بن فھیرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کیا ہے اور بعض نے و ہ اشعار بھی نقل کئے ہیں۔
ذرا وہ منظر،چشم تصورمیں لایئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے محبوب وطن اور اپنے محبوب شہر کو محض اللہ کے حکم پر ہمیشہ کےلئے خیر باد کہہ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچپن میں اس کی گلیوں میں کھیلے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شہر میں اپنی پاکیزہ جوانی کے شب وروز بسر کیے۔بیت اللہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدوں کے نشان رقم تھے۔۔۔اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شہر سے بچھڑتے وقت بیت اللہ سے مخاطب ہوکر فرمارہے تھے:
وما في الارض بلد احب الى منك وما خرجت عنك رغبة ولكن الذين كفروا اخرجوني
"اسے سر زمین مکہ!روئے زمین پر تجھ سے زیادہ مجھے کوئی خطہء زمین محبوب نہیں میں اپنی مرضی سے تجھے چھوڑ کر نہیں جارہا بلکہ کافر مجھے یہاں سے نکال رہے ہیں" ہجرت کے وقت اپنا وطن چھوڑتے ہوئے یہ قلبی کیفیت اس عظیم اور مقدس ہستی کی ہے جو سراپا عزیمت تھی تب صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اپنے وطن کو چھوڑتے وقت کیا حال ہوگا۔ایک کامل اورسچے ایمان والا شخص ہی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنا وطن چھوڑ سکتا ہے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کو لوگوں کے لئے مثال قرار دیا اور لوگوں کی ہدایت کو ان کی مانند ایمان لانے سے مشروط رکھا اور ان کے ایمان کو معیار قرار دیا۔فرمایا:
﴿فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا...١٣٧﴾...البقرة
"اگر وہ ایسے ہی ایمان لے آئیں جیسا تم ایمان لائے ہو توانہوں نے ہدایت پالی"
حقیقت ہے یہ ہے کہ ہجرت ایک ایسا معیار ہے۔ کہ کوئی شخص جو اپنے دل میں رائی بھربھی نفاق چھپائے ہوئے ہو،اس پر پورا نہیں اتر سکتا۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تو اس میعار کی انتہائی بلندی پر تھے۔ایمان ان کو بے حد محبوب تھا۔کفر وعصیان سے ان کو سخت نفرت تھی۔یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر خاص فضل تھا۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّـهِ ۚ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ ﴿٧﴾...الحجرات
"اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں، اگر وه تمہارا کہا کرتے رہے بہت امور میں، تو تم مشکل میں پڑجاؤ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناه کو اور نافرمانی کو تمہارے نگاہوں میں ناپسندیده بنا دیا ہے، یہی لوگ راه یافتہ ہیں"
صحابہ کرام کے دلوں میں ایمان کے محبوب ہونے اور ان کے دلوں کے ایمان سے آراستہ ہونے کی یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی سند ہے۔ابتلاؤں اور آزمائشوں سے ان کے ایمان کی زینت وآرائش دھندلائی نہیں بلکہ اس میں اور زیادہ چمک اور حسن پیدا ہواہے۔ان کے ایمان کے حسن پر خود اللہ تعالیٰ شاہد ہے۔ان کے ایمان کے حسن میں اضافے کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَـٰذَا مَا وَعَدَنَا اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا ﴿٢٢﴾...الأحزاب
"اور ایمان والوں نے جب (کفار کے) لشکروں کو دیکھا (بے ساختہ) کہہ اٹھے! کہ انہیں کا وعده ہمیں اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے دیا تھا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا، اور اس (چیز) نے ان کے ایمان میں اور شیوہٴ فرماں برداری میں اور اضافہ کر دیا"
اللہ تعالیٰ اس کے پروانہ ایمان کے بعد ان کو اپنی تعدیل اور ایمان کے لئے کونسے تصدیق نامے کی ضرورت ہے؟اللہ تعالیٰ ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کو مخاطب کرکے فرماتا ہے:
﴿يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا ﴿٣٢﴾ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ﴿٣٣﴾...الأحزاب
"اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وه کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو (32) اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کااظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوٰة دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو۔ اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیو! تم سے وه (ہر قسم کی) گندگی کو دور کردے اور تمہیں خوب پاک کردے"
آیت مذکورہ کے الفاظ سے یہ مفہوم نہیں نکلتا کہ اہل بیت کو پاک کردیا گیا ہے۔یہاں ماضی کاصیغہ استعمال نہیں کیا گیا بلکہ بقول مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ "یہاں تک تو اہل بیت کو نصیحت کی گئی ہے کہ تم فلاں کام کرو اور فلاں کام نہ کرو۔اس لئے کہ اللہ تمھیں پاک کرنا چاہتا ہے۔بالفاظ دیگر مطلب یہ ہے کہ تم فلاں رویہ اختیار کروگے تو پاکیزگی کی نعمت تمھیں نصیب ہوگی،ورنہ نہیں"۔۔۔بس یہ ہے اس آیت کامفہوم،مگر بعض حضرات نے اس آیت کی بنیاد پر اہل بیت میں سے بعض مخصوص اصحاب رضوان اللہ عنھم اجمعین کی اولاد میں پوری بارہ نسلوں کو معصوم قرار دے ڈالا جو کہ بلاواسطہ اس آیت کے مصداق ہی نہیں۔مگر بُرا ہو تعصب،بے انصافی اور علم کے نام پر علمی دھاندھلی کا کہ قرآن میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ایمان کی توثیق ،ان کو اللہ تعالیٰ کی رضا اورخوشنودی اور جنت کی سند عطا ہونے کے باوجود مختلف مذہبی محفلوں میں انھیں برسرعام منافق اور ایمان سے محروم کہاجارہا ہے۔اور پھر دعوت دی جاتی ہے اتحاد بین المسلمین کی۔یہ اتحاد کی کونسی قسم ہے جس کے ذریعے اصحاب کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو منافق کہا جائے جنھوں نے ہم تک قرآن اور دین پہنچایا۔عجیب ستم ظریفی ہے۔ان کا پہنچایا ہوا قرآن ہم روز تلاوت کرتے ہیں اور پھر انہی کو ناقابل اعتبار ٹھہراتے ہیں۔
اُحد کے میدان میں مسلمانوں کو بہت بڑا جانی نقصان اٹھانا پڑا۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی زخمی ہوگئے تھے۔مسلمان مکمل طور پر تباہ ہوتے ہوتے بچ گئے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت بڑے جرنیل تھے۔انہیں مابعد حرب اثرات کا پورا ادراک تھا۔ادھر ابو سفیان نے رستے میں جنگ کے نتائج پر غور کیا تو اس کو اس حقیقت کا احساس ہوگیا کہ وہ محض ادھوری فتح کے ساتھ مکہ واپس جارہا ہے۔چنانچہ اس نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنے کے بعد واپس پلٹ کر مسلمانوں پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔اس منصوبے کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پہنچ گئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے تعاقب کا فیصلہ فرمایا۔اس جنگی حکمت عملی سے دو فائدے حاصل کرنا مقصود تھے۔
اول دشمن کو دہشت زدہ اور ششدر کرنا:۔
ثانی:مسلمانوں کے حوصلے(مورال) کو بلند رکھنا۔ جس پر مسلمانوں کے نقصان کی وجہ سے منفی اثر پڑاتھا یہ انتہائی مشکل وقت تھا۔بیشتر مسلمان زخم خوردہ تھے ستر سے زیادہ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین شہید ہوچکے تھے(38)جن میں اسلامی فوج کے بعض اہم جرنیل بھی شامل تھے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے سامنے کفار کے تعاقب کا منصوبہ رکھا تو اس کٹھن گھڑی میں صحابہ کرام( رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نے بغیر کسی زرہ بھر تذبذب کے سر اطاعت خم کردیا۔تب اللہ تعالیٰ نے ان نفوس ذکیہ کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا:
﴿الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّـهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴿١٧٢﴾ الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّـهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ﴿١٧٣﴾فَانقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ ﴿١٧٤﴾...آل عمران
"جن لوگوں نے اللہ اور رسول کے حکم کو قبول کیا اس کے بعد کہ انہیں پورے زخم لگ چکے تھے، ان میں سے جنہوں نے نیکی کی اور پرہیزگاری برتی ان کے لئے بہت زیاده اجر ہے (172) وه لوگ کہ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے پر لشکر جمع کر لئے ہیں، تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے انہیں ایمان میں اور بڑھا دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وه بہت اچھا کارساز ہے (173) (نتیجہ یہ ہوا کہ) اللہ کی نعمت وفضل کے ساتھ یہ لوٹے، انہیں کوئی برائی نہ پہنچی، انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی پیروی کی، اللہ بہت بڑے فضل والا ہے "
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت عروۃ بن زبیر سے بطورخاص فرمایا:"اس تعاقب میں تمھارے دونوں بابا زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ شامل تھے"
محولہ بالا آیات نیز اس کے علاوہ اور بہت سی آیات صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی تعدیل اور توثیق کرتی ہیں اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ ان حضرات کی توثیق کرے جن کے ذریعے قرآن اور دین آئندہ نسلوں کو منتقل کیاجاناتھا۔اگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو ناقابل اعتماد ٹھہرادیا جائے تو قرآن سمیت پورا دین ناقابل اعتبار قرار پائے گا
بعض علماء تعدیل صحابہ کے اصول میں سے ان حضرات کو مستثنیٰ کرتے ہیں جن کے فسق پر دلیل قائم ہوچکی ہو۔محدثین اگرچہ"" کے اصول کو علی الاطلاق تسلیم کرلیتے ہیں تاہم وہ بھی اس اصول میں سے ایک دو افراد کو مستثنیٰ کرتے ہیں۔اور اس اصول کا اطلاق کرتے ہوئے ایک آدھ شاز اورنادر مثال کو نظر انداز کردیتے ہیں،صحابہ کے احوال میں کتابیں تصنیف کرنے والے حضرات نے ایسے لوگوں میں ولید بن عقبہ بن ابی معیط اور بسر بن ابی ارطاۃ کا ذکر کیا ہے۔) مذکورہ بالا دونوں حضرات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی حدیث روایت نہیں کی۔اصحاب سنن میں سے صرف ابو داود رحمۃ اللہ علیہ نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط سے صرف ایک حدیث متابعت کے لئے اور بسر بن ابی ارطاۃ سے دواحادیث روایت کی ہیں۔)
اللہ تعالیٰ جب کبھی کوئی نبی یا رسول مبعوث فرماتا ہے تواسے انتہائی مخلص،ایثار شعار اور جان نثار ساتھی عطا فرماتا ہے۔جو رسول کی تربیت اور زمانے کی ابتلاء اور آزمائش کی بھٹی سے کندن بن کر نکلتے ہیں۔جو ہر مشکل وقت اور مصیبت میں رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کاساتھ دیتے ہیں۔رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اعانت میں اپنی جان،اپنا مال اور اپنا تمام سرمایہ حیات اللہ کی خاطر،اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے قدموں میں ڈھیر کردیتے ہیں۔نبی کی تائید اور مدفعت میں اپنا وطن،اپنی اولاد،اپنے ماں باپ اور خود اپنی جان تک قربان کردیتے ہیں اور ایمان کاتقاضا بھی یہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نبی کو ہر قسم کی صلاحیت بدرجہ اتم عطا کرکے مبعوث فرماتا ہے،اس کا فہم وفراست ثاقب اور اس کی بصیرت زماں ومکان کے پار جھانکتی ہے۔ اس کی مردم شناسی خطا سے مبرا اور اس کا انتخاب صائب ہوتاہے۔تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ک منتخب کردہ افراد اس کی تربیت اور صحبت خاصہ اور باطل کے خلاف کشمکش اور آزمائشوں کے جاں گسل دور سے گزرنے کے بعد اپنی سیرت وکردار میں نبی کا پر توبن جاتے ہیں۔ان میں سے جو کوئی جس قدر نبی کے قریب ہوتا ہے۔اسی قدر اس کی سیرت وکردار کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا ہے۔نبی اپنے ساتھی منتخب کرنے میں غلطی نہیں کرسکتا۔
عدالت صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین :۔
تمام محدثین وفقہاء اس اصول پرمتفق ہیں:۔"الصحابة كلهم عدول"یعنی تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین عادل ہیں۔اور روایت حدیث میں قابل اعتبار ہیں۔
عدالت،لغت عرب میں ایک وسیع معانی ومفاہیم رکھنے والا لفظ ہے۔چنانچہ"لساب العرب" میں مرقوم ہے۔"العدل :ما قام في النفوس انه مستقيم"(یعنی جس کی درستگی لوگوں کےذہنوں میں ہو)
اور یہ ظلم اور جور کی ضد ہے۔دوسرا مفہوم قرآن مجید میں یوں آتا ہے۔﴿وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا ... ١٥٢﴾...الأنعام "جب تم بات کرو توانصاف کی بات کرو") یعنی درست بات کرو۔تیسرا مفہوم برابری اور فدیہ کا ہے﴿لَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ ...١٢٣﴾...البقرة "اس سے کوئی فدیہ قبول نہ کیا جائے گا۔ چوتھا مفہوم شرک کا ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿...ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ ﴿١﴾... الأنعام "پھر وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اپنے رب کے ساتھ شرک کرتے ہیں" اس کا پانچواں معنی درست ،متناسب اور معتدل ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:( خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ)"اس نے تجھے پیدا کیا،پھر ٹھیک سے برابر کیا،پھر متناسب اور درست کیا"
سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم راویان حدیث کے توسط سے ہم تک پہنچی ہے،اس لئے اصول حدیث اور فن حدیث کے ماہرین نے ان راویوں سے حدیث قبول کرنے کے لئے متعدد شرائط مقرر کررکھی ہیں۔جن میں سے دو شرائط قبولیت حدیث کے لئے ائمہ حدیث کے نزدیک اساسی حیثیت رکھتی ہیں۔جن کا تعلق براہ راست راوی کی ذات اور اس کے احوال سے ہے۔
1۔عدالت۔2۔ضبط
شرعی اصطلاحی میں عدالت مخطورات سے اجتناب کے ذریعے راہ حق پر استقامت سے تعبیر ہے۔ائمہ حدیث کے نزدیک درج ذیل صفات راوی میں عدالت کو متحقق کرتی ہیں۔
1۔راوی کا مسلمان ہونا۔2۔راوی کا عاقل ہونا۔3۔روایت حدیث کے وقت راوی کا بالغ ہونا۔4۔راوی کاتمام اسباب فسق سے بچنا۔یعنی کبائر سے اجتناب کرنا اور صغائر پر مصر نہ ہونا۔
یعنی مجموعی طور پر اس میں بھلائی غالب ہو۔راوی خلاف مروت افعال خیسہ سے پرہیز کرتا ہو۔مثلاً بازاروں سے چلے پھرتے کھانا پینا۔شارع عام پر پیشاب کرنا،رزیل اور بدقماش لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا،زبان کو گالی گلوچ سے ملوث کرنا اور مزاج میں افراط سے کام لینا۔
"ضبط" سے مرا دہے کہ عادل راوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کو نظم کلام کے مطابق اپنے سینے یا ا پنی کتاب اور صحیفے میں محفوظ رکھنے کی اہلیت رکھتا ہو۔
انسانی سیرت میں عدالت ایک ایسا رویہ ہے جو تعمیر شخصیت اور اسلامی تربیت کے ذریعے مسلم فرد میں اُجاگر ہوتا ہے۔جس کی بناء پر وہ ہر اس امر سے اجتناب کرتاہے جو اسلام کے حوالے سے اسکی شخصیت میں قبیح نقص پیدا کرے۔کسی راوی کی عدالت ہمیں دو ذریعوں سے معلوم ہوتی ہے:
اول:راوی کے ہم عصر معتمد علمائے فن حدیث اس کو عادل قرار دیں یعنی وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اس میں ایسا کوئی امر نہیں پایا گیا جو اس کی عدالت کے منافی ہو۔
ثانی:راوی کی عدالت تواتر سے ثابت ہو اور اہل علم میں اس کی عدالت شہرت رکھتی ہو اور اہل علم اس کے بارے میں کلمہ خیر ہی کہتے ہوں۔ایسے راوی کی تعدیل کی ضرورت نہ ہوگی۔جیسے ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہ ،سفیان بن عینیہ رحمۃ اللہ علیہ ،سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ ،اوراوزاعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین عادل ہیں،تو اس کامعنی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام بیان کرنے میں انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔اور نہ ایسے امور کے مرتکب ہوئے جو عدالت کے منافی ہیں۔استقراء سے بھی یہ حدیث واضح ہوجاتی ہے کہ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کی آپس کی مشاجرت اوربعض معاملات میں شکر رنجی کے باجود انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے کبھی کوئی جھوٹی حدیث روایت نہیں کی۔
کسی راوی کو عادل قرار دینے کے لئے علماء ایک یا دو اہل علم کی تعدیل کو کافی قرار دیتے ہیں ۔اور اس کی روایت کو قبول کرلیتے ہیں۔تب ان راویوں کے بارے میں کیا خیال ہے جن کی تعدیل خود اللہ تعالیٰ نے ایک نہیں،بیسیوں آیات میں نہایت زوردور اور بلیغ انداز میں کی ہو۔
لہذا ائمہ فن حدیث وفقہ اس امر پر متفق ہیں کہ کسی راوی کے صحابی ثابت ہوجانے کے بعد اس کے بارے میں قرآن کی تعدیل کافی ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖتَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿٢٩﴾...الفتح
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثرسے ہے، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے، مثل اسی کھیتی کے جس نے اپنا انکھوا نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وه موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے، ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ثواب کا وعده کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
﴿لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ﴿٨﴾...الحشر
"ان مہاجر مسکینوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں وه اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں"
اس سے اگلی آیت میں انصار کی مدح کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ...٩﴾...الحشر
"اور (ان کے لیے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی ہے اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وه اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو"
انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کی خاطرہجرت کی اور انصار نے محض اللہ تعالیٰ کی رجا جوئی کے لئے ہجرت کرکے آنے والوں کو پناہ دی۔اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا اور ان کو ان الفاظ میں اپنی ر ضا اور خوشنودی کی سند عطاکی:
﴿وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١٠٠﴾...التوبة
"اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وه سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے"
اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا اورخوشنودی کی سند ان تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو عطا فرمائی جنھوں نے صلح حدیبیہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی اور زندگی کے آخری لمحات تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کا عہد کیا اور پھر اسے سچ کردکھایا۔اللہ تعالیٰ نے اپنی خوشنودی کی شہادت ان الفاظ میں دی ہے۔
﴿لَّقَدْ رَضِيَ اللَّـهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا ﴿١٨﴾...الفتح
"یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وه درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے۔ ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کر لیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی"
اللہ تعالیٰ کی رضاکا پروانہ بہت بڑا پروانہ ہے۔انسانون کی تعدیل اس کے سامنے ہیچ ہے۔یہی بندہ مومن کے جہاد زندگانی کا مقصد، یہی اس کا مطلوب ومقصود اور یہی اس کی سعی کا محاحصل ہے خود اللہ تعالیٰ نے اس کو ہر ثواب سے بڑھ کر اور ہر اجر سے افضل قرار دیا ہے:
﴿ وَعَدَ اللَّـهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّـهِ أَكْبَرُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿٧٢﴾...التوبة
"ان ایمان دار مردوں اور عورتوں سے اللہ نے ان جنتوں کا وعده فرمایا ہے جن کے نیچے نہریں لہریں لے رہی ہیں جہاں وه ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں اور ان صاف ستھرے پاکیزه محلات کا جو ان ہمیشگی والی جنتوں میں ہیں، اور اللہ کی رضامندی سب سے بڑی چیز ہے، یہی زبردست کامیابی ہے"
اللہ کے دین کی خاطر ہجرت کرنے اور اس کے رستے میں جہاد کرنے والے اصحاب کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے بارےمیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اَلَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللَّـهِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ ﴿٢٠﴾بَشِّرُهُمْ رَبُّهُم بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌ﴿٢١﴾ ...التوبة
جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی، اللہ کی راه میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کیا وه اللہ کے ہاں بہت بڑے مرتبہ والے ہیں، اور یہی لوگ مراد پانے والے ہیں،انہیں ان کا رب خوشخبری دیتا ہے اپنی رحمت کی اور رضامندی کی اور جنتوں کی، ان کے لئے وہاں دوامی نعمت ہے"
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ان صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو خیر وفلاح اور فوز عظیم کی سند سے سرفراز فرمایا:
﴿لَـٰكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ وَأُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٨٨﴾ أَعَدَّ اللَّـهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿٨٩﴾...التوبة
"لیکن خود رسول اللہ اور اس کے ساتھ کے ایمان والے اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں، یہی لوگ بھلائیوں والے ہیں اور یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں (88) انہی کے لئے اللہ نے وه جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے"
ایک اور مقام پر فرمایا:
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُ*وا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُ*وا أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُم مَّغْفِرَ*ةٌ وَرِ*زْقٌ كَرِ*يمٌ(26)
"جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راه میں جہاد کیا اور جنہوں نے پناه دی اور مدد پہنچائی، یہی لوگ سچے مومن ہیں، ان کے لئے بخشش ہے اور عزت کی روزی"
مکہ مکرمہ سے ہجرت عامہ کے بعد ہجرت کرنے والوں کے لئے فرمایا:
﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا مِن بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ ... ٧٥﴾...الأنفال
"اور جو لوگ اس کے بعد ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا۔ پس یہ لوگ بھی تم میں سے ہی ہیں"
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی پکار پر اپناگھر بار چھوڑ دینے اور ہجرت کرنے کو ایمان کی سچائی کا میعار قرار دیا ہے۔صرف ہجرت کرنے والوں کو اور انصا ر کو ایک دوسرے کا سرپرست قراردیا ہے۔
فرمایا:۔
﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَـٰئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُم مِّن وَلَايَتِهِم مِّن شَيْءٍ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا ۚ وَ...٧٢﴾...الأنفال
"جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راه میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے ان کو پناه دی اور مدد کی، یہ سب آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، اور جو ایمان تو لائے ہیں لیکن ہجرت نہیں کی تمہارے لئے ان کی کچھ بھی رفاقت نہیں جب تک کہ وه ہجرت نہ کریں۔"
ہجرت ایک کسوٹی ہے۔جو ایمان اور نفاق کو الگ کردیتی ہے۔یقیناً اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپناگھر بار ،اپنا وطن اوراپنے عزیز واقارب چھوڑنا بہت بڑی فضیلت ہے ۔یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے۔جس کا قلب اللہ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے لبریز ہو۔یہ بہت بڑی آزمائش ہے۔ جنھوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کی،یہ وہ لوگ نہ تھے جو سہولتیں اور آسائشیں تلاش کرنے کےلیے مدینے گئے تھے۔ان میں اکثر تو ایسے لوگ تھے جو لٹ پٹ کر گرتے پڑتے بے سروسامانی کی حالت میں مدینہ پہنچے،مدینہ پہنچ کر انھیں باغات اور محلات الاٹ نہیں ہوگئے۔بلکہ وہاں تو انھیں بھوک اور مشقت کا سامنا کرنا پڑا۔ان میں بھی اکثریت ان لوگوں کی تھی جو بھوک سے نڈھال مسجد نبوی میں ایک چبوترے پر بیٹھے حصول علم میں مشغول رہتے تھے۔ایسے ہی لوگوں کی طرف اشارہ کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے﴿كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ... ١١٠﴾...آل عمران کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:" یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی: ایسا کون سا منافق ہے جو ا پنا وطن،آسائش،اور عزیز واقارب کو چھوڑ کر شہادت گاہ ِالفت میں قدم رکھتا ہے۔منافق تو صرف مفادات کی طرف لپکتے ہیں۔اوراگر کوئی شخص اس غلط فہمی میں اپنا گھر بار چھوڑ کر مدینہ پہنچ گیا کہ اس میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہوں گی،محلات اور باغات ہوں گے تو وہ وہیں سے اُلٹے پاؤں لوٹ گیا۔اور اس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کا مستحق ٹھہرا۔
انسان جس دھرتی پر جنم لیتا ہے،وہ اسے فطری طور پر بہت پیاری ہوتی ہے۔مکہ مکرمہ کی سرزمین بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو بہت عزیز تھی۔مگر جب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اپنے اس محبوب خطہء سرزمین کوچھوڑ دیا۔بہت سے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین مدینہ پہنچ کر مکہ مکرمہ کو یاد کرکے اس کی جدائی میں اشعار پڑھا کرتے تھے۔محدثین ومورخین نے ان حضرات میں ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عامر بن فھیرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کیا ہے اور بعض نے و ہ اشعار بھی نقل کئے ہیں۔
ذرا وہ منظر،چشم تصورمیں لایئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے محبوب وطن اور اپنے محبوب شہر کو محض اللہ کے حکم پر ہمیشہ کےلئے خیر باد کہہ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچپن میں اس کی گلیوں میں کھیلے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شہر میں اپنی پاکیزہ جوانی کے شب وروز بسر کیے۔بیت اللہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدوں کے نشان رقم تھے۔۔۔اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شہر سے بچھڑتے وقت بیت اللہ سے مخاطب ہوکر فرمارہے تھے:
وما في الارض بلد احب الى منك وما خرجت عنك رغبة ولكن الذين كفروا اخرجوني
"اسے سر زمین مکہ!روئے زمین پر تجھ سے زیادہ مجھے کوئی خطہء زمین محبوب نہیں میں اپنی مرضی سے تجھے چھوڑ کر نہیں جارہا بلکہ کافر مجھے یہاں سے نکال رہے ہیں" ہجرت کے وقت اپنا وطن چھوڑتے ہوئے یہ قلبی کیفیت اس عظیم اور مقدس ہستی کی ہے جو سراپا عزیمت تھی تب صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اپنے وطن کو چھوڑتے وقت کیا حال ہوگا۔ایک کامل اورسچے ایمان والا شخص ہی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنا وطن چھوڑ سکتا ہے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کو لوگوں کے لئے مثال قرار دیا اور لوگوں کی ہدایت کو ان کی مانند ایمان لانے سے مشروط رکھا اور ان کے ایمان کو معیار قرار دیا۔فرمایا:
﴿فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا...١٣٧﴾...البقرة
"اگر وہ ایسے ہی ایمان لے آئیں جیسا تم ایمان لائے ہو توانہوں نے ہدایت پالی"
حقیقت ہے یہ ہے کہ ہجرت ایک ایسا معیار ہے۔ کہ کوئی شخص جو اپنے دل میں رائی بھربھی نفاق چھپائے ہوئے ہو،اس پر پورا نہیں اتر سکتا۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تو اس میعار کی انتہائی بلندی پر تھے۔ایمان ان کو بے حد محبوب تھا۔کفر وعصیان سے ان کو سخت نفرت تھی۔یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر خاص فضل تھا۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّـهِ ۚ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ ﴿٧﴾...الحجرات
"اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں، اگر وه تمہارا کہا کرتے رہے بہت امور میں، تو تم مشکل میں پڑجاؤ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناه کو اور نافرمانی کو تمہارے نگاہوں میں ناپسندیده بنا دیا ہے، یہی لوگ راه یافتہ ہیں"
صحابہ کرام کے دلوں میں ایمان کے محبوب ہونے اور ان کے دلوں کے ایمان سے آراستہ ہونے کی یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی سند ہے۔ابتلاؤں اور آزمائشوں سے ان کے ایمان کی زینت وآرائش دھندلائی نہیں بلکہ اس میں اور زیادہ چمک اور حسن پیدا ہواہے۔ان کے ایمان کے حسن پر خود اللہ تعالیٰ شاہد ہے۔ان کے ایمان کے حسن میں اضافے کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَـٰذَا مَا وَعَدَنَا اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا ﴿٢٢﴾...الأحزاب
"اور ایمان والوں نے جب (کفار کے) لشکروں کو دیکھا (بے ساختہ) کہہ اٹھے! کہ انہیں کا وعده ہمیں اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے دیا تھا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا، اور اس (چیز) نے ان کے ایمان میں اور شیوہٴ فرماں برداری میں اور اضافہ کر دیا"
اللہ تعالیٰ اس کے پروانہ ایمان کے بعد ان کو اپنی تعدیل اور ایمان کے لئے کونسے تصدیق نامے کی ضرورت ہے؟اللہ تعالیٰ ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کو مخاطب کرکے فرماتا ہے:
﴿يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا ﴿٣٢﴾ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ﴿٣٣﴾...الأحزاب
"اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وه کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو (32) اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کااظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوٰة دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو۔ اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیو! تم سے وه (ہر قسم کی) گندگی کو دور کردے اور تمہیں خوب پاک کردے"
آیت مذکورہ کے الفاظ سے یہ مفہوم نہیں نکلتا کہ اہل بیت کو پاک کردیا گیا ہے۔یہاں ماضی کاصیغہ استعمال نہیں کیا گیا بلکہ بقول مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ "یہاں تک تو اہل بیت کو نصیحت کی گئی ہے کہ تم فلاں کام کرو اور فلاں کام نہ کرو۔اس لئے کہ اللہ تمھیں پاک کرنا چاہتا ہے۔بالفاظ دیگر مطلب یہ ہے کہ تم فلاں رویہ اختیار کروگے تو پاکیزگی کی نعمت تمھیں نصیب ہوگی،ورنہ نہیں"۔۔۔بس یہ ہے اس آیت کامفہوم،مگر بعض حضرات نے اس آیت کی بنیاد پر اہل بیت میں سے بعض مخصوص اصحاب رضوان اللہ عنھم اجمعین کی اولاد میں پوری بارہ نسلوں کو معصوم قرار دے ڈالا جو کہ بلاواسطہ اس آیت کے مصداق ہی نہیں۔مگر بُرا ہو تعصب،بے انصافی اور علم کے نام پر علمی دھاندھلی کا کہ قرآن میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ایمان کی توثیق ،ان کو اللہ تعالیٰ کی رضا اورخوشنودی اور جنت کی سند عطا ہونے کے باوجود مختلف مذہبی محفلوں میں انھیں برسرعام منافق اور ایمان سے محروم کہاجارہا ہے۔اور پھر دعوت دی جاتی ہے اتحاد بین المسلمین کی۔یہ اتحاد کی کونسی قسم ہے جس کے ذریعے اصحاب کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو منافق کہا جائے جنھوں نے ہم تک قرآن اور دین پہنچایا۔عجیب ستم ظریفی ہے۔ان کا پہنچایا ہوا قرآن ہم روز تلاوت کرتے ہیں اور پھر انہی کو ناقابل اعتبار ٹھہراتے ہیں۔
اُحد کے میدان میں مسلمانوں کو بہت بڑا جانی نقصان اٹھانا پڑا۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی زخمی ہوگئے تھے۔مسلمان مکمل طور پر تباہ ہوتے ہوتے بچ گئے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت بڑے جرنیل تھے۔انہیں مابعد حرب اثرات کا پورا ادراک تھا۔ادھر ابو سفیان نے رستے میں جنگ کے نتائج پر غور کیا تو اس کو اس حقیقت کا احساس ہوگیا کہ وہ محض ادھوری فتح کے ساتھ مکہ واپس جارہا ہے۔چنانچہ اس نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنے کے بعد واپس پلٹ کر مسلمانوں پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔اس منصوبے کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پہنچ گئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے تعاقب کا فیصلہ فرمایا۔اس جنگی حکمت عملی سے دو فائدے حاصل کرنا مقصود تھے۔
اول دشمن کو دہشت زدہ اور ششدر کرنا:۔
ثانی:مسلمانوں کے حوصلے(مورال) کو بلند رکھنا۔ جس پر مسلمانوں کے نقصان کی وجہ سے منفی اثر پڑاتھا یہ انتہائی مشکل وقت تھا۔بیشتر مسلمان زخم خوردہ تھے ستر سے زیادہ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین شہید ہوچکے تھے(38)جن میں اسلامی فوج کے بعض اہم جرنیل بھی شامل تھے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے سامنے کفار کے تعاقب کا منصوبہ رکھا تو اس کٹھن گھڑی میں صحابہ کرام( رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نے بغیر کسی زرہ بھر تذبذب کے سر اطاعت خم کردیا۔تب اللہ تعالیٰ نے ان نفوس ذکیہ کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا:
﴿الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّـهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴿١٧٢﴾ الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّـهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ﴿١٧٣﴾فَانقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ ﴿١٧٤﴾...آل عمران
"جن لوگوں نے اللہ اور رسول کے حکم کو قبول کیا اس کے بعد کہ انہیں پورے زخم لگ چکے تھے، ان میں سے جنہوں نے نیکی کی اور پرہیزگاری برتی ان کے لئے بہت زیاده اجر ہے (172) وه لوگ کہ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے پر لشکر جمع کر لئے ہیں، تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے انہیں ایمان میں اور بڑھا دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وه بہت اچھا کارساز ہے (173) (نتیجہ یہ ہوا کہ) اللہ کی نعمت وفضل کے ساتھ یہ لوٹے، انہیں کوئی برائی نہ پہنچی، انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی پیروی کی، اللہ بہت بڑے فضل والا ہے "
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت عروۃ بن زبیر سے بطورخاص فرمایا:"اس تعاقب میں تمھارے دونوں بابا زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ شامل تھے"
محولہ بالا آیات نیز اس کے علاوہ اور بہت سی آیات صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی تعدیل اور توثیق کرتی ہیں اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ ان حضرات کی توثیق کرے جن کے ذریعے قرآن اور دین آئندہ نسلوں کو منتقل کیاجاناتھا۔اگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو ناقابل اعتماد ٹھہرادیا جائے تو قرآن سمیت پورا دین ناقابل اعتبار قرار پائے گا
بعض علماء تعدیل صحابہ کے اصول میں سے ان حضرات کو مستثنیٰ کرتے ہیں جن کے فسق پر دلیل قائم ہوچکی ہو۔محدثین اگرچہ"" کے اصول کو علی الاطلاق تسلیم کرلیتے ہیں تاہم وہ بھی اس اصول میں سے ایک دو افراد کو مستثنیٰ کرتے ہیں۔اور اس اصول کا اطلاق کرتے ہوئے ایک آدھ شاز اورنادر مثال کو نظر انداز کردیتے ہیں،صحابہ کے احوال میں کتابیں تصنیف کرنے والے حضرات نے ایسے لوگوں میں ولید بن عقبہ بن ابی معیط اور بسر بن ابی ارطاۃ کا ذکر کیا ہے۔) مذکورہ بالا دونوں حضرات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی حدیث روایت نہیں کی۔اصحاب سنن میں سے صرف ابو داود رحمۃ اللہ علیہ نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط سے صرف ایک حدیث متابعت کے لئے اور بسر بن ابی ارطاۃ سے دواحادیث روایت کی ہیں۔)
Last edited by a moderator: